ننانوے سال کا بچہ
میں ان خوش نصیب لوگوں میں نہیں ہوں جو اپنے عہد کے ہر اہل علم اور اہل فن شخص سے ملتا رہا ہوں
NEW YORK:
اپنے اوپر سرعام ہنسنا اور اپنی خامیوں کو خوبیوں سے قریب تر رکھنا بہت مشکل بلکہ نا ممکن سا کام لگتا ہے۔زندگی کو سنجیدہ طریقے سے دیکھتے دیکھتے اُس میں رگِ مزاح تلاش کر لینا اور پھر انتہائی سچائی کے ساتھ زندگی کو بیان کرنا صرف خشونت سنگھ ہی کر سکتا تھا۔میری نظر میں یہ بالکل اہم نہیں کہ وہ خوشاب میں پیدا ہوا۔خوشاب میںلاکھوں لوگ بستے ہیں۔ وہاں روز سیکڑوں بچے پیدا ہوتے ہیں۔مجھے اس سے بھی غرض نہیں کہ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کا طالب علم رہا۔اُس کا متمول خاندان بھی قابل ستائش نہیں۔اس کا چچا سردار اُجل سنگھ پنجاب اور تامل ناڈو کا گورنر رہا۔ یہ بھی کوئی خاص بات نہیں۔سب سے روشن نکتہ یہ ہے کہ خشونت سنگھ ایک حقیقت پسند اور سچا لکھاری تھا۔یہی وہ خاصہ ہے جو خوشاب کے گائوں ہڈالی کو دنیا کے سامنے امر کر دیتا ہے۔جو گورنمنٹ کالج لاہور کو مزید عزت دیتا ہے۔اور جو لاہور ہائی کورٹ بار کو مزید معتبر بنا دیتا ہے۔جہاں خشونت سنگھ آٹھ سال وکالت کرتا رہا تھا۔ میری دانست میں سردار جی کا بہت بڑا فیصلہ ان کا ہندوستان کی سفارتی نوکری کو ٹھوکر مارنا تھا۔کینیڈا اور برطانیہ میں نوکری کرنے کے بعد وہ سرکار کی غلامی کے چھوٹے پن کو سمجھ چکا تھا۔اگر وہ ملازمت جاری رکھتا تو وہ آج خشونت سنگھ نہ ہوتا بلکہ بابو خشونت بن کر کسی کونے میں ریٹائرڈ زندگی گزار کر گمنامی کے سمندر میں غرق ہو چکا ہوتا۔
میں ان خوش نصیب لوگوں میں نہیں ہوں جو اپنے عہد کے ہر اہل علم اور اہل فن شخص سے ملتا رہا ہوں۔اس کا غم بھی بے پناہ ہے مگر زندگی کے اور اتنے غم ہیں کہ میں نے اس بڑے دکھ کو اپنے دماغ کے ایک چھوٹے سے حصے میں محفوظ کر لیا ہے۔میں آپ کو خشونت سنگھ سے کسی ملاقات کا نہیں بتا سکتا۔میرے پاس کوئی ایسا حوالہ نہیں کہ آپ لوگوں کو مرعوب کر سکوں کہ میں اس بڑے آدمی کی کسی بھی محفل میں شریک ہوا ہوں۔لیکن میرے پاس ایک عجیب سا حوالہ ہے۔میں نے 20مارچ2014تک اس عظیم ادیب کی کوئی کتاب نہیں پڑھی تھی لیکن ان چار دنوں کی قلیل مدت میں اس کی کئی کتابیں اور کالم صرف نظر کر چکا ہوں۔اس وقت بھی اس کی کئی کُتب خرید کر اپنے سامنے رکھی ہوئی ہیں کہ آیندہ چند دنوں میں صرف یہی پڑھوں گا۔میری دانست میں نا شناسی بھی قربت کا ایک مضبوط حوالہ ہے۔فرق صرف اور صرف سوچ کا ہے!مجھے یہ بات ازحد پسند ہے کہ خشونت سنگھ نے اصولی بنیاد پر ہندوستان کا ایک باعزت ایوارڈ"پدما بھوشن'حکومت کو واپس کر دیا۔یہ ایک بڑے انسان کا وہ بھر پور طمانچہ تھا جو امرتسر میں سکھوں کی متبرک ترین جگہ''گولڈن ٹیمپل'' پر فوج کے دھاوے کے بعد رسید کیا گیا۔مگر2007میں حکومت نے اس کو پہلے سے بھی باوقار ایوارڈ دیا جس کا نام''پدماوی بھوشن'' تھا۔ خشونت سنگھ نے آل انڈیا ریڈیو پر تھوڑا سا عرصہ کام کیا۔ U.N.E.S.C.Oکے شعبہ صحافت میں پیرس میں دو سال گزارے۔
لیکن یہ صحرا نوردی دراصل ایک بہت بڑی ذہنی آمد کا پیش خیمہ تھی۔1956سے آگے کا سفر،صرف چند دن پہلے اختتام پذیر ہوا۔''یوجنا'' ایک سرکاری رسالہ تھا،وہ بطور ایڈیٹر اس کی تراش خراش کرتا رہا۔''ہندوستان ٹائمز'' اور'' نیشنل ہیرلڈ'' وہ اخبار تھے جن سے اس کا لازوال تعلق رہا۔ ہفتہ وار رسالہ"illustrated Weekly"جیسے ہی خشونت سنگھ کے نام سے منسوب ہوا،اس کی اشاعت پیسنٹھ ہزار سے بڑھ کر چار لاکھ ہو گئی۔وہ اس ادارے میں نو سال کام کرتا رہا۔ ریٹائرمنٹ سے صرف ایک ہفتہ پہلے25جولائی1978ء کو اسے ادارے سے ایک دن کے نوٹس پر نکال دیا گیا۔نیا ایڈیٹر بھی اسی دن رکھ لیا گیا۔صرف ایک ماہ میں "illustrated Weekly"کی اشاعت تباہ کن حد تک گر گئی اور وہ ادارہ تقریباً دیوالیہ ہوتے ہوتے بچا۔اس نے اسی(80)کتابیں تصنیف کیں۔اس کے دو ہفتہ وار کالم کئی دہائیاں چالیس اخبارات کے ایک گروپ میں چھپتے رہے۔وہ ہر بڑے آدمی کی طرح نظم و ضبط کا سخت پابند تھا۔ہر صبح وہ چار بجے اٹھتا تھا اور اپنے ہاتھ سے اپنا کالم لکھنا شروع کر دیتا تھا۔وہ رات کو بہت جلدی سو جاتا تھا۔ہر شام کو انتہائی ضبط کے ساتھ وہ "دختر انگور"سے دل بہلاتا تھا۔یہ قرینہ مرتے وقت تک جاری رہا۔غروب آفتاب کے بعد کے '' کار خاص'' میں بھی اُس کی اصول پسندی مستحکم رہی۔وہ پوری زندگی ایک ہی قیمتی برانڈ کا مرید رہا۔
آپ اس کی لکھی ہوئی کتابوں پر نظر دوڑائیں تو چند مخصوص رجحانات نظر آئیںگے۔سکھوں کی تاریخ،تقسیم ہند، سماجی رویوں میں سچائی کی عدم موجودگی،خواتین کے متعلق پُرکیف رویہ اور ہندوستان کے سیاسی مدوجزر صاف دکھائی دیتے ہیں۔میرے لیے مشکل ہے کہ میں تمام کتابوں کے صرف نام ہی لکھ سکوں۔ان اَسی(80) کتابوں میں سے اکثریت بین الاقوامی شہرت کی حامل ہیں۔ خشونت سنگھ کے کالم،کہانیاں اور ٹیلی ڈرامے اس کے علاوہ ہیں۔لیکن ان تمام تصانیف میں ایک رویہ روح کی طرح موج زن ہے اور وہ ہے خشونت سنگھ کی ''طنزومزاح'' کی لازوال قدرت!اس کو اپنی زندگی میں بے شمار ایوارڈ دیے گئے جس میں''روک فیلر ایوارڈ'' سے لے کر''لائف ٹائم ایوارڈ'' سبھی شامل ہیں۔کنگز کالج لندن نے2014جنوری میں اس کو فیلو شپ سے نوازا۔میری دانست میں کوئی بھی ایوارڈ خُشونت سنگھ کو نمایاں نہیں کرتا کیونکہ وہ اپنی ذات اور فن میں ان تمام ایوارڈ سے بہت قد آور شخص تھا۔
مذہب سے خشونت سنگھ کا واجبی سا تعلق بھی نہیں تھا۔زندگی اور موت کے متعلق بھی اُس کے خیالات عام یا خاص لوگوں سے بالکل متضاد تھے۔وہ ایک تنہائی پسند شخص تھا۔اس کو لوگوں سے ملنا جلنا بالکل نا پسند تھا۔بنیادی طور پر وہ ایک"Agnostic"شخصیت کا حامل تھا۔اپنی بیوی کاول ملک کے فوت ہونے پر خشونت سنگھ سخت دلگیر تھا۔مگر وہ تعزیت پر آنے والوں سے بھی انتہائی تنگ تھا۔وہ اپنے عزیزوں اور دوستوں کو افسوس پر آنے سے منع کرنے کی بھر پور کوشش کرتا تھا۔اپنی بیوی کے انتقال کے بعد پہلی رات کو وہ اپنے کمرے میں بتی بجھا کر گھنٹوں روتا رہا۔مگر پھر اس نے اپنا سوٹ کیس اٹھایا اور اکیلا''گوا'' چلا گیا۔وہ اپنے غم کو بھی صرف اپنے ساتھ رکھنا چاہتا تھا۔اسے تعزیت کرنے والے لوگوں سے اس بنیاد پر چڑ تھی کہ نقصان تو اس کا اور صرف اس کا ہوا ہے۔رسمی افسوس کی رسم تو صرف سماجی منافقت کا حصہ ہے اور وہ منافقت سے سیکڑوں نوری سال دور تھا۔
اپنی زندگی میں اُس نے''بہائی'' مذہب کے لوگوں سے معاہدہ کرنے کی بہت تگ ودو کی ۔وہ صرف اس غرض سے،کہ اس کو مرنے کے بعد قبرستان کے کونے میں دفن کیا جائے۔اس کی دوسری شرط تھی کہ اس کی قبر کے کنارے پر پیپل کا پودا لگایا جائے جو بعد میں درخت بن کراُس کی قبر پر سایہ کرتا رہے۔ شائد یہ معاہدہ ہو جاتا مگر''بہائی'' پیشوائوں نے شرط رکھی کہ اس کی تدفین کے موقعہ پر بہائی مذہب کے مطابق دعائیں پڑھیں جائینگی۔ خشونت سنگھ کو تدفین کا یہ طریقہ بالکل قابل قبول نہیں تھا۔شائد مرنے کے بعد کی زندگی پر اس کا کوئی ایمان نہیں تھا۔وہ کسی تعصب کے بغیر زندگی گزارنے کی بہت مشکل کوشش کرتا رہا۔اس نے فارسی اور اردو کے مسلمان شعراء کے شعری مجموعوں سے بھر پور استفادہ کیا۔ غالب، اقبال، یاس یگانہ چنگیزی اور دیگر اساتذہ کا تذکرہ اس کے ادبی کام میں ہر جگہ نمایاں نظر آتا ہے۔
اس نے خوشگوار زندگی گزارنے کے اپنے اصول وضع کیے ہوئے تھے ۔وہ کہتا تھا کہ سب سے پہلے انسان کو صحت مند ہونا چاہیے۔چھوٹی سے چھوٹی بیماری بھی خوشیوں کا ایک بڑا حصہ چھین لیتی ہے۔پھر انسان کے پاس زندگی گزارنے کے لیے مناسب پیسے ہونے چاہیے۔اسے کروڑوں کی ضرورت نہیں بلکہ صرف اتنے پیسے کہ وہ اپنی مرضی سے کہیں بھی کھانا کھا سکے۔اپنی مرضی سے چھٹیاں گزار سکے اور اس کی بنیادی ضرورتیں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلائے بغیر پوری ہو جائیں۔اپنی چھت اور اپنا گھر اس لیے ہونا چاہیے کہ کرایہ پر رہنے والا اپنے آپ کو محفوظ نہیں سمجھتا۔اگر گھر میں باغیچہ ہو تو بہت بہتر ہے۔ لیکن اپنے گھر کے باغیچے میں تمام پھول پودے اور درخت اپنے ہاتھ سے لگانے چاہیے۔پھر ز ندگی میں ایک ایسا ساتھی ضروری ہے جو آپ کے ذہن کو سمجھ سکے۔اگر آپ کا ساتھی ذہنی طور پر مختلف ہو،تو فوراً اس سے دور ہو جانا چاہیے کیونکہ ہر وقت کی لڑائی زندگی کو بے مقصد بنا دیتی ہے۔پھر جو لوگ زندگی کی دوڑ میں آپ سے آگے نکل گئے ہیں،ان پر قطعاً رشک نہیں کرنا چاہیے۔حسد اور رشک سے آپ کی صلاحیتوں کو زنگ لگ جاتا ہے۔پھر لوگوں کو قطعاً اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ صرف گپ شپ لگانے کے لیے آپ کے پاس آجائیں۔اس سے وہ آپ کی زندگی برباد کر رہے ہوتے ہیں۔ہر انسان کا کوئی نہ کوئی مشغلہ ضرور ہونا چاہیے۔ روزانہ صبح اور شام پندرہ منٹ صرف اپنے آپ سے ملاقات کے لیے وقف ہونے چاہیے۔
آخری اصول یہ ہے کہ مرتے وقت کسی قسم کا کوئی پچھتاوا نہیں ہونا چاہیے اور موت کا استقبال مسکراہٹ سے کرنا چاہیے۔مرتے وقت اُس کی عمر نناوے برس تھی۔ میرے سامنے خشونت سنگھ کی ایک کتاب پر اس کی ایک بہت خوبصورت تصویر موجود ہے۔ایک بہت بوڑھا شخص قدرے لمبی داڑھی کے ساتھ ایک صوفے پر کمبل لے کر بیٹھا ہوا ہے۔مگر مجھے یہ شخص بالکل عمر رسیدہ نظر نہیں آتا!میری نظر میں تو یہ صرف نناوے سال کا ننھا منا سا بچہ ہے!