بنیاد پرستی اور مغرب

کیا اس صورت حال میں روس اور امریکا کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ ۔۔


Zamrad Naqvi March 23, 2014

کریمیا میں عوام کی اکثریت نے امریکی و یورپی یونین کی جانب سے دھمکیوں کے باوجود یوکرین سے علیحدگی اور روس سے الحاق کا تاریخی فیصلہ دے دیا۔ اس موقع پر روسی صدر پیوٹن نے کہا کہ مغرب کی طرف سے روس کو کونے میں دھکیلنے کی وجہ سے ہم تنگ آ چکے ہیں ہمیشہ ہمیں دھوکا دیا گیا یہ حقیقت ہے کہ سوویت یونین کا ٹوٹنا آج بھی ایک پراسرار راز ہے۔ دنیا کی سمجھ سے باہر ہے کہ وہ سوویت یونین جس کے پاس ہزاروں کی تعداد میں ایٹمی اسلحہ تھا وہ خود بخود بغیر خون بہائے کس طرح ٹوٹ گیا۔ انسانی تاریخ میں ایسی کوئی نظیر نہیں ملتی۔

سرد جنگ کے دوران امریکا اور سوویت یونین میں کشیدگی اس انتہا پر پہنچ گئی کہ سابق امریکی صدر ریگن نے دنیا پر اپنی مکمل بالادستی قائم کرنے کے لیے سوویت یونین کے خلاف ایٹمی جنگ کا اعلان کرتے ہوئے اسٹاروار منصوبے کا اعلان کر دیا اور یہی وہ وقت تھا کہ جب سوویت یونین نے دنیا کو ایٹمی جنگ سے بچانے کے لیے پیچھے ہٹتے ہوئے امریکا کو دنیا پر بالادستی قائم کرنے کی اجازت دے دی۔ کیونکہ اس وقت کا امریکی حکمران طبقہ دنیا پر اپنی مکمل بالا دستی ہر قیمت پر قائم کرنا چاہتا تھا چاہے اس کے نتیجے میں دنیا ہی کیوں نہ تباہ ہو جائے۔

سوال یہ ہے کہ کیا اس صورت حال میں روس اور امریکا کا ٹکراؤ ہو سکتا ہے۔ اس کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیا روس اور امریکا کے درمیان ماضی کی سرد جنگ سامنے آ سکتی ہے۔ اس کا بھی امکان نہیں۔ ماضی کی سرد جنگ کی بنیاد نظریاتی تھی جو سوشلسٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کے درمیان جنگ تھی جس میں امریکا نے مجاہدین کے تعاون سے لاکھوں مسلمانوں کو مرواتے ہوئے روس پر بالادستی حاصل کی۔ اب تو روس سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بن چکا ہے اور اس کے مفادات اس نظام سے وابستہ ہو چکے ہیں۔ خود امریکا کے حالات بھی ایسے نہیں کہ وہ افغانستان کے بعد فوری طور پر کسی دوسری محاذ آرائی میں حصہ لے سکے۔ روس پر اس کا دباؤ زیادہ سے زیادہ سفارتی معاشی سیاسی ہو سکتا ہے۔ روس بھی صورت حال کو اس نہج پر نہیں لے جائے گا جہاں حالات کی باگ ڈور اس کے اسٹرٹیجک مفادات کو مجروح کرے۔ پچھلے دس بارہ سال میں روس نے مختلف میدانوں میں بہت ترقی کی ہے۔ جس میں معاشی سیاسی اور سفارتی سطح پر کامیابیاں قابل ذکر ہیں۔ اس میں سب سے اہم کامیابی امریکا کے مقابلے میں شام کے محاذ پر ہے۔

جب روس نے شام کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے کر امریکا اور اس کے اتحادیوں کو شام پر حملہ کرنے سے روک دیا۔ یہ پہلا موقع تھا جب دنیا کو امریکا پر روس کی بالا دستی نظر آئی اور شام کے معاملے پر امریکا وہی حل قبول کرنے پر مجبور ہو گیا جس کو روس نے تجویز کیا جس پر سعودی عرب اور اسرائیل نے سخت ناراضگی کا اظہار کیا جب کہ امریکا ایران مفاہمت پر تو امریکا نے اپنے اتحادیوں اسرائیل اور سعودی عرب کو بھی اعتماد میں نہیں لیا۔ اس تمام صورت حال کے نتیجے میں عرب بادشاہتیں عدم تحفظ کا شکار ہو گئی ہیں اس پس منظر میں سعودی ولی عہد اور بحرین کے بادشاہ کا دورہ پاکستان ممکن ہوا۔ ''عرب بہار'' کے ذریعے حسنی مبارک' قذافی' زین العابدین آمریت کا خاتمہ اخوان المسلمین کے ذریعے ہوا۔ یعنی اخوان المسلمین امریکا کے ہاتھوں استعمال ہو گئی... تو اب باری کس کی ہے... باری انھی کی ہے جنہوں نے حال ہی میں پاکستان کا دورہ کیا ہے۔ اگریہ بادشاہتیں بھی ختم ہو جاتی ہیں تو خطے کی ''ری برتھ'' کوئی نہیں روک سکے گا جو امریکا کا اصل ایجنڈا ہے۔ امریکی نقطہ نظر سے مشرق وسطی سے پاکستان تک خطے کی تقسیم غیر فطری ہے۔ اس تقسیم کو سامراج نے اپنے مفادات کے لیے جتنا استعمال کرنا تھا کر لیا۔

خطے کی توڑ پھوڑ کوئی آسان کام نہیں۔ اس کے لیے بڑی دماغ سوزی کرنا پڑتی ہے۔ کروڑوں انسانوں کا خون بہانا پڑتا ہے جو کہ افغانستان میں امریکی جہاد کے آغاز سے لے کر اب تک جاری ہے۔ طویل المدت منصوبہ بندی کرنا پڑتی ہے۔ صبر سے کام لینا پڑتا ہے پھر کہیں جا کر آگ و خون کے دریا بہتے ہیں۔ اس قربان گاہ پر کروڑوں انسانوں کی قربانی دینی پڑتی ہے جس کے نتیجے میں خطے کی من پسند صورت گری ممکن ہوتی ہے ایسا خطہ جس کی پہچان مذہب نہ ہو کیونکہ واحد سپر پاور بننے کے لیے اسلام کو جتنا استعمال کرنا تھا کر لیا مغرب کے نزدیک مذہبی جنونیت کا یہی علاج ہے جب مذہبی مسلکی جنگ میں سب کچھ جل کر راکھ ہو جائے گا تو اس کی راکھ سے ایسا معاشرہ جنم لے گا جس کی پہچان مذہب نہیں ہو گی۔ مغرب کے نزدیک مسلمانوں کی مذہبی جنونیت کا صرف ایک ہی علاج ہے کہ ان کے آپس کے درمیان ہولناک مذہبی مسلکی جنگ کروا دی جائے جس میں جل کر سب کچھ راکھ ہو جائے اور اس راکھ سے نئی نقشہ کشی ہو جیسے صدیوں پہلے عیسائی مذہبی جنگوں میں ہوا جس میں مذہب فرقہ کے نام پر کروڑوں لوگ مارے گئے۔ مغرب اس معاملے میں اسی حد تک ہم خیال ہے کہ اس میں امریکا یورپ کے علاوہ روس اور چین بھی شامل ہیں۔

ہندو بنیاد پرستی کا احیا' ایران اور خاص طور پر پاکستان میں اسلامی بنیاد پرستی کے آغاز سے ہوتا ہے۔ جس کے نتیجے میں بھارتی جنتا پارٹی کانگریس کے مقابلے کی سیاسی جماعت بن کر اقتدار میں آ گئی۔ اگر اسلامی بنیاد پرستی تخلیق کی گئی تو حفظ ماتقدم کے طور پر ہندو بنیاد پرستی بھی تخلیق کر لی گئی کہ اگر اسلامی بنیاد پرستی خطرے کی حدود عبور کر ے تو ان دونوں بنیاد پرستیوں کو ٹکرا کر ان کا خاتمہ کر دیا جائے۔ القاعدہ ہو یا طالبان عربی ہو یا ایرانی بنیاد پرستی اس کا علاج بس یہی ہے۔

آپ اندازہ لگائیں کہ مشرق وسطیٰ سے پاکستان تک کے خطے کی توڑ پھوڑ کے لیے ''بے چارے'' سامراج کو کیا کیا کچھ کرنا پڑ رہا ہے۔ یعنی اس سارے ایجنڈے کی تکمیل کرتے ہوئے مسلمانوں میں ایسے گروہوں کی تخلیق کرنا جو اپنے علاوہ باقی سب کو کافر قرار دیں اور یہی کچھ اس وقت اسلامی دنیا میں ہو رہا ہے۔ اسلامی دنیا لاشعوری طور پر پورے اسلامی جذبے کے ساتھ اس سامراجی ایجنڈے کی تکمیل تن من دھن سے کر رہی ہے... رہے نام اللہ کا۔

کیا بھارت بھی اس ری برتھ کا نشانہ بنے گا...مذہبی جنونی نریندر مودی کی مقبولیت سے تو ایسا ہی لگتا ہے۔

روس 016ء سے 018ء کے درمیان پھر سے سپر پاور بن جائے گا۔

26سے 29 مارچ کی تاریخیں مشرف کے مستقبل کا فیصلہ کریں گی۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں