ٹی بی ایک جان لیوا بیماری…
ٹی بی کا مرض بے احتیاطی کے باعث ایک سے دوسرے فرد کو متاثر کرنے کا باعث بنتا ہے ...
24 مارچ ساری دنیا میں ''تپ دق'' (Tuberculosis) کے عالمی دن کی حیثیت سے منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا بنیادی مقصد عوام الناس میں آگاہی اور خصوصاً ترقی پذیر ممالک میں اس خطرناک، جان لیوا بیماری کے بارے میں شعور بیدار کر کے اس پر قابو پانا، اس کے پھیلائو کو روکنا اور اس سے ہونے والی ہلاکتوں کو کم کرنا ہے۔
24 مارچ 1882ء کو جرمنی کے شہر برلن میں ''رابرٹ کاکس'' نامی سائنسدان نے اس مہلک بیماری کے جرثومے کی تشخیص کی اور دنیا کو باور کرایا کہ امریکا اور یورپ میں اس زمانے میں ہر سات میں سے ایک شخص کی ہلاکت کا باعث بننے والی بیماری تپ دق کا باعث کون سا جراثیم بن رہا ہے۔ دنیا بھر میں ایچ آئی وی ایڈز کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں تپ دق کے باعث ہوئی ہیں۔ صرف 2012ء کے دوران دنیا بھر میں چھیاسی لاکھ افراد اس مہلک بیماری سے متاثر ہوئے اور ان میں سے 13 لاکھ افراد موت کا شکار ہو گئے۔
ٹی بی کے علاج کی ہر ممکنہ سہولیات کے باوجود ہر سال دنیا بھر میں تیس لاکھ سے زائد افراد جن میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں، اس بیماری سے متاثر ہوتے ہیں لیکن معالجین، علاج معالجہ کی سہولیات اور ٹی بی کے تدارک کے لیے کام کرنے والے اداروں کی پہنچ تک رسائی نہیں کر پاتے، جو کہ TB Missed Patients کہلاتے ہیں، یہ مریض یا تو علاج حاصل کیے بغیر ہلاک ہو جاتے ہیں یا پھر لاکھوں نئے صحت مند انسانوں کو ٹی بی کا جراثیم پھیلانے کا باعث بنتے ہیں۔ ان Missed یا علاج کی دسترس سے دور مریضوں تک معالجین کی بروقت رسائی کے لیے حکمت عملی اور دنیا بھر سے ٹی بی کے مرض کے خاتمے کے مقصد کو مدنظر رکھ کر 24 مارچ 2014 ء کو ٹی بی کا عالمی دن: Reach the 3 Million, Find, Treat and Cure کے موضوع کے تحت منایا جا رہا ہے۔
پاکستان دنیا بھر میں ٹی بی کے مریضوں کی تعداد کے حساب سے پانچویں نمبر پر آتا ہے، جب کہ 2011ء میں پاکستان کا نمبر چھٹا تھا، جس سے پاکستان میں ٹی بی کے مرض کے پھیلائو کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں سالانہ ایک لاکھ پچاس ہزار افراد اس مرض کا شکار ہوتے ہیں۔ جن میں سے دس فیصد سے زائد افراد ٹی بی کے علاج کی ادویات سے مزاحمت (Multi Drug Resistance) رکھتے ہیں کہ جس میں مریض کو ٹی بی کے عام طریقہ علاج سے ہٹ کے طویل، پیچیدہ اور مہنگا علاج مہیا کرنا پڑتا ہے۔
ترقی پذیر ممالک خصوصاً پاکستان میں غربت، افلاس، غذائی قلت، ایچ آئی وی ایڈز، تعلیم کی کمی، لاشعوری، خانہ بدوشی، بے سرو سامانی، وہ وجوہات ہیں جو ٹی بی کے مرض کو پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ جب کہ نشہ کرنے والے افراد، دیہی علاقوں میں رہنے والے افراد، ٹی بی کے مریضوں کی دیکھ بھال اور علاج مہیا کرنے والے، مریض کے اہل خانہ، مہاجرین، کسان، کان کن، خواتین اور بچے وہ مخصوص طبقات ہیں جو ٹی بی کے زیادہ خطرے پر ہوتے ہیں۔
نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام کے مطابق 2012ء میں پنجاب میں 64066، سندھ 25855، خیبرپختونخوا 13867، بلوچستان 3295، فاٹا 1518، گلگت بلتستان 182، آزاد جموں و کشمیر 1642 اور دارالحکومت اسلام آباد میں تپ دق کے 212 نئے مریض تشخیص ہوئے جو کہ پاکستان میں ٹی بی کے نئے مریضوں کی کل تعداد ایک لاکھ دس ہزار چھ سو سینتیس (110637) کو ظاہر کرتا ہے، جس سے پاکستان میں ٹی بی کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کا نمایاں اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ جب کہ محققین کے مطابق دیہاتوں میں رہنے والے، پسماندہ اور دیسی اور دیگر طریقہ علاج پر اعتماد کرنے والے افراد کی بہت بڑی تعداد ٹی بی کی تشخیص اور معالجین تک رسائی کے بغیر ہی موت کا شکار ہو جاتی ہے۔
ٹی بی کا مرض بے احتیاطی کے باعث ایک سے دوسرے فرد کو متاثر کرنے کا باعث بنتا ہے جس کی وجہ سے خصوصاً کم تعلیم یافتہ افراد اور بے شعوری کے باعث عام افراد کا رویہ مریضوں کے ساتھ منفی اور تحقیر آمیز ہوتا ہے، جس کے باعث مریض ایک طرف تو تشخیص کے عمل سے گزرنے سے اجتناب برتتے ہیں جب کہ تشخیص ہو بھی جائے تو معاشرے اور اہلخانہ کے رویے کے باعث علاج کی سہولیات حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ لہٰذا ٹی بی کا مرض تشخیص ہو جانے پر مریض یا اہل خانہ کو گھبرانے کی ضرورت نہیں کیونکہ ٹی بی ایک قابل علاج مرض ہے۔
نیشنل ٹی بی کنٹرول پروگرام اور عالمی ادارہ صحت نے ٹی بی کے علاج کے لیے DOTS طریقہ علاج وضع کیا ہے کہ جس میں مرض کی تشخیص ہو جانے کے بعد کسی ذمے دار فرد کی زیر نگرانی ڈاکٹر کی تجویز کردہ دوائیں بغیر کسی وقفے کے مسلسل آٹھ ماہ تک جاری رکھنی پڑتی ہیں، جو کہ MDR ٹی بی کی صورت میں لمبے عرصے تک بھی تجویز کی جاتی ہیں جو با آسانی کسی بھی مرکز صحت، ٹی بی سینٹر یا سرکاری اسپتال سے مفت حاصل کی جا سکتی ہیں۔ موجودہ ترقی یافتہ دور میں X-Ray، بلغم کا ٹیسٹ، ٹی بی کا مخصوص ٹیسٹ، خون کا ٹیسٹ اور مرض کی مخصوص علامات جن میں لمبے عرصہ تک خشک یا بلغمی کھانسی، وزن کا کم ہونا، شام یا رات کے وقت بخار، بھوک کی کمی، ٹھنڈے پسینے آنا شامل ہیں، ان ٹیسٹ اور علامات کو مدنظر رکھتے ہوئے معالجین ٹی بی کی با آسانی تشخیص کر سکتے ہیں۔
ٹی بی ایک ایسے جراثیم سے پھیلنے والی بیماری ہے جو عموماً پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے لیکن جسم کے دوسرے حصے بھی اس سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ جب ٹی بی کا مریض کھانستا، چھینکتا یا تھوکتا ہے تو یہ جراثیم ہوا میں پھیل جاتے ہیں اور سانس کے ذریعے دوسرے شخص کے پھیپھڑوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے تشخیص کے بعد علاج کے ابتدائی مراحل میں ڈاکٹر کے مشورے کے مطابق مریض کے ساتھ کھانے پینے اور ذاتی اشیا کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے تا کہ دوسرے شخص تک مرض کا پھیلائو روکا جا سکے۔ معالجین، معاشرے اور اہل خانہ کا مریض کے ساتھ ہمدردانہ رویہ مرض کی روک تھام کے لیے انتہائی ضروری ہے، جس کے باعث مریض کی حوصلہ افزائی سے مثبت نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
پاکستان میں مرض کے کنٹرول اور شرح اموات میں کمی کے لیے گورنمنٹ، فلاحی اداروں، میڈیکل بورڈز، محققین اور پالیسی ساز اداروں کی مشاورت اور سنجیدگی کے ساتھ اقدامات ٹی بی کی روک تھام میں کلیدی کردار ادا کر سکتے ہیں جب کہ طلبا، اساتذہ، ٹی بی کے مریض، ان کے اہل خانہ، مذہبی رہنما، صحافی، پرنٹ، براڈ کاسٹنگ اور الیکٹرانک میڈیا، عوام الناس میں ٹی بی کے پھیلائو، بچائو اور علاج معالجے سے متعلق شعور اجاگر کرنے کے لیے اپنا بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ اپنے شہر، صوبے اور ملک سے ٹی بی کے مکمل خاتمے کے لیے بھرپور کردار ادا کریں گے۔