ملالہ کی آمد سوات دہشتگردی اور ضمنی انتخابات
بظاہر تو پنجاب میں چوہدری پرویز الٰہی اور مرکز میں میاں محمد شہباز شریف کی حکومتیں ''مضبوط'' ہیں مگر بباطن دونوں حکومتیں لڑ کھڑا رہی ہیں کہ دونوں حکومتیں اتحادیوں کے رحم و کرم پر ہیں ۔ ایسی بے یقینی اور بے اعتباری کی فضا میں ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ اور مرکز میں براجمان وزیر اعظم بھلا عوامی مفاد میں کیا فیصلے کر سکتے ہیں ؟ درجن کے قریب ضمنی انتخابات سر پر کھڑے ہیں اور پنجاب اور وفاقی حکومتوں میں وزیر مستعفی ہو رہے ہیں۔
پہلے پنجاب کے ایک وزیر معدنیات (لطیف نذر) اچانک مستعفی ہو گئے اور پھر پنجاب ہی کے وزیر داخلہ ، ہاشم ڈوگر، بھی استعفیٰ دے کر چلتے بنے ۔ کہا جارہا ہے کہ ہاشم ڈوگر نے استعفیٰ از خود نہیں دیا بلکہ عمران خان نے اُن سے استعفیٰ لیا ہے ۔ واللہ اعلم۔ اِن دونوں استعفوں کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل، اشتر اوصاف، نے بھی استعفیٰ دے دیا ۔
اِن استعفوں نے دونوں حکومتوں کی چُولیں ہلا دی ہیں۔ عوام بھوک ، بے روزگاری ، لاقانونیت اور دہشت گردی کے مختلف النوع عفریتوں کے چنگل میں بلک رہے ہیں جب کہ اقتدار و اختیار کی گرسنہ قوتیں اپنے چکروں میں ہیں۔فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان پر مقدمے قائم کیے جا رہے ہیں اور وہ حفاظتی ضمانتیں کروا رہے ہیں۔
اسلام آباد پر خان صاحب کی موعودہ یلغار بھی سنائی دے رہی ہے ۔ مرکزی حکومت اس یلغار اور لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے 41کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کر رہی ہے۔ اور پنجاب حکومت وفاقی وزیر داخلہ، رانا ثناء اللہ، کو گرفتار کرنے کے لیے وارنٹ نکال رہی ہے ۔ مبینہ ''نامناسب وڈیوز'' کا غلغلہ بھی ہے ۔
کیسے کیسے تماشے عوامی نصیب میں لکھ دیے گئے ہیں!سوات کے بے بس ، بیکس اور نہتے عوام کے ساتھ مُٹھی بھر مسلح دہشت گرد جو بہیمانہ سلوک کررہے ہیں، کیا کسی کو اِس کی خبر اور فکر بھی ہے؟عمران خان کی خیبرپختونخوا حکومت نے اِس بارے میں جو رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس نے سب کو مایوس کیا ہے ۔ حیرانی کی بات ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے ایک ذمے دار، بیرسٹر سیف علی، سوات میں جنم لینے والی عوام دشمن اور دہشت گردی کی نئی اور خونی وارداتوں کو تسلیم کرنے ہی پر تیار نہیں ہیں ۔
عجب اتفاق ہے کہ آج جس وقت سوات نئے دہشت گردوں کی نئی خونی وارداتوں کی گرفت میں ہیں، سوات کی بیٹی اور امن کی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پاکستان کے دَورے پر تشریف لائی ہیں۔
اُن کے دَورے کا مقصد ِ وحید تو یہ بیان کیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کے کروڑوں سیلاب زدگان کا حال احوال جاننے اور ان کی مقدور بھر مدد کرنے آئی ہیں۔پاکستان میں جونہی ملالہ صاحبہ نے قدم رکھا، پاکستان میں سوات کی دہشت گردی کے نئے واقعات کی گونج سنائی دے رہی تھی ۔یہ سوات میں بروئے کار دہشت گرد ہی تھے جن کی دہشت گردانہ وارداتوں کا ہدف ملالہ یوسفزئی بنی تھیں۔
یہ ایک عشرہ قبل کی دلفگار داستان ہے۔ اِس دوران ملالہ کا برطانیہ میں علاج بھی ہُوا، انھوں نے امن کا نوبل انعام بھی پایا ، اوکسفرڈ سے ڈگری بھی لی اور متاہلانہ زندگی کا آغاز بھی کیا۔ دس سال کے بعد اب جو انھوں نے پاکستان میں دوسری بار قدم رکھا ہے تو سوات بدستور دہشت گردوں کی جلائی آگ میں جل رہا ہے ۔
خدا کا شکر ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے ستائے سواتی عوام لاکھوں کی تعداد میں متحد ہو کر دہشت گردوں کے ظلم اور صوبائی حکومت کی نااہلی کے خلاف احتجاج کرتے ہُوئے سڑکوں پر اُمنڈ آئے ہیں۔ دہشت گردی سے تنگ آئے سوات کے یہ احتجاجی عوام اُن قوتوں کو عملی میدان اور زبان میں چیلنج کررہے ہیں جنھوں نے عوام کی مرضی کے برعکس مبینہ طور پر دہشت گرد ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرکے ان خونیوں کو واپس سماج کی مین اسٹریم میں لانا چاہا ۔
سوات کے احتجاجی عوام کی پکارتی اور دھاڑتی آوازیں، معلوم نہیں، ہمارے نوع بہ نوع حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کے کانوں اور آنکھوں تک پہنچ بھی رہی ہیں یا نہیں ؟ خیبر پختونخوا حکومت تو بہرحال ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔ سواتی عوام اس روئیے بارے شاکی بھی ہیں اور سخت نالاں و ناراض بھی ۔ البتہ وفاقی وزیرداخلہ ، رانا ثناء اللہ، نے کہا ہے کہ ہم سوات کے نئے پریشان کن حالات کا انسداد کرنے کے لیے طاقتور اور موثر قدم اُٹھانے والے ہیں۔ لیکن اِس ضمن میں عمران خان کی خاموشی معنی خیز ہے۔
خان صاحب کے حواس اور اعصاب پر صرف ایک خاص تعیناتی سوارہے ۔خان صاحب کے ہمنوا، شیخ رشید احمد، اِسی پس منظر میں کہہ رہے ہیں کہ ''ایک تعیناتی نے سارے سیاسی نظام کو جام کررکھا ہے۔'' اِسی ایک تعیناتی کے حوالے سے صدرِ مملکت بھی اپنے بیانات ، تقاریر اور انٹرویوز میں اُسی لائن کو ٹوکررہے ہیں جو لائن عمران خان کی ہے۔
شاید یہ اِسی ''لائن'' کے اختیار کیے جانے کا شاخسانہ تھا کہ صدر صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آئے تو وہاں گنتی کے چند لوگ موجود تھے ۔ وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، کو بھی صدر صاحب کے خطاب کی مخالفت کرتے سنا گیا۔ اور اب وفاقی وزیر قانون ، اعظم نذیر تارڑ ، کہہ رہے ہیں کہ ''آرمی چیف کی تقرری وزیر اعظم کا استحقاق ہے، صدرِ مملکت سیاست سے دُور رہیں ۔''
صدر صاحب مگر کسی کی محبت میں سیاست سے دُور رہنے سے انکاری ہیں۔اِس ایک خاص اور بڑی تعیناتی کے حوالے سے اپوزیشن (بمعنی عمران خان) اور اتحادی حکومت کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔اِس کشیدگی اور کشمکش کے عین درمیان میں16اکتوبر کو ملک بھر کے ضمنی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ اور اعلان کر دیا گیا ہے۔
شہباز شریف کی حکومت تو ان ضمنی انتخابات کو اَب بھی موخر کرنا چاہتی تھی۔ بہانہ یہ تھا کہ فی الحال سیلاب زدگان کی بحالی ترجیح ہے اور اسلام آباد پر خان صاحب کی یلغار کا خدشہ بھی ہے ، اس لیے ضمنی انتخابات کے لیے مطلوبہ سیکیورٹی فورسز میسر نہیں ہوں گی۔ عدالت نے مگر فیصلہ سنا کر شہباز شریف ، نون لیگ اور اتحادی حکومت کی نیتوں اور خوابوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ، تمام تر دگرگوں معاشی و سماجی حالات کے باوصف ، ضمنی انتخابات چاہتے ہیں تو پھر ان انتخابات کو رُکنا نہیں چاہیے ۔
مگر اتحادی حکومت (خاص طور پر نون لیگ) کو خوف ہے کہ وہ ضمنی انتخابات ہار جائیں گے ۔ جیسا کہ پنجاب کے پچھلے (جولائی2022ء کے) ضمنی انتخابات میں بھی نون لیگ بُری طرح ہار گئی تھی اور پی ٹی آئی فتح یاب رہی تھی( نون لیگ 20میں سے16سیٹیں ہار گئی تھی) اس شکست پر نون لیگ کو سخت شرمندگی اُٹھانا پڑی تھی ۔ یہ شرمندگی لندن تک پہنچی تھی اور نواز شریف کو بھی پریشان کر گئی تھی۔ اب پھر نون لیگ ضمنی انتخابات میں قدم رکھتے ہُوئے ڈر رہی ہے۔
وہ جانتی ہے کہ عمران خان کے بعد حکومت کے مزے لینے کے لیے نون لیگ اور اتحادیوں نے عوام کے لیے مہنگائی اور بے روزگاری کے جو نئے اور عذابناک طوفان اُٹھائے ہیں ، ان کے نتائج ضمنی انتخابات میں سامنے آئیں گے۔ عوام نون لیگ اور اتحادیوں کا یہ بے معنی بیانیہ سُننے اور ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ''ہم نے ریاست کے بچاؤ کے لیے سیاست قربان کر دی ۔''ضمنی انتخابات کی قربان گاہ پر چڑھ کر پھر کسی کو قربانی تو دینی ہے ۔
پہلے پنجاب کے ایک وزیر معدنیات (لطیف نذر) اچانک مستعفی ہو گئے اور پھر پنجاب ہی کے وزیر داخلہ ، ہاشم ڈوگر، بھی استعفیٰ دے کر چلتے بنے ۔ کہا جارہا ہے کہ ہاشم ڈوگر نے استعفیٰ از خود نہیں دیا بلکہ عمران خان نے اُن سے استعفیٰ لیا ہے ۔ واللہ اعلم۔ اِن دونوں استعفوں کی بازگشت ابھی تھمی نہیں تھی کہ وفاقی حکومت کے اٹارنی جنرل، اشتر اوصاف، نے بھی استعفیٰ دے دیا ۔
اِن استعفوں نے دونوں حکومتوں کی چُولیں ہلا دی ہیں۔ عوام بھوک ، بے روزگاری ، لاقانونیت اور دہشت گردی کے مختلف النوع عفریتوں کے چنگل میں بلک رہے ہیں جب کہ اقتدار و اختیار کی گرسنہ قوتیں اپنے چکروں میں ہیں۔فارن فنڈنگ کیس میں عمران خان پر مقدمے قائم کیے جا رہے ہیں اور وہ حفاظتی ضمانتیں کروا رہے ہیں۔
اسلام آباد پر خان صاحب کی موعودہ یلغار بھی سنائی دے رہی ہے ۔ مرکزی حکومت اس یلغار اور لانگ مارچ سے نمٹنے کے لیے 41کروڑ روپے کی خطیر رقم مختص کر رہی ہے۔ اور پنجاب حکومت وفاقی وزیر داخلہ، رانا ثناء اللہ، کو گرفتار کرنے کے لیے وارنٹ نکال رہی ہے ۔ مبینہ ''نامناسب وڈیوز'' کا غلغلہ بھی ہے ۔
کیسے کیسے تماشے عوامی نصیب میں لکھ دیے گئے ہیں!سوات کے بے بس ، بیکس اور نہتے عوام کے ساتھ مُٹھی بھر مسلح دہشت گرد جو بہیمانہ سلوک کررہے ہیں، کیا کسی کو اِس کی خبر اور فکر بھی ہے؟عمران خان کی خیبرپختونخوا حکومت نے اِس بارے میں جو رویہ اختیار کر رکھا ہے، اس نے سب کو مایوس کیا ہے ۔ حیرانی کی بات ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کے ایک ذمے دار، بیرسٹر سیف علی، سوات میں جنم لینے والی عوام دشمن اور دہشت گردی کی نئی اور خونی وارداتوں کو تسلیم کرنے ہی پر تیار نہیں ہیں ۔
عجب اتفاق ہے کہ آج جس وقت سوات نئے دہشت گردوں کی نئی خونی وارداتوں کی گرفت میں ہیں، سوات کی بیٹی اور امن کی نوبل انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی پاکستان کے دَورے پر تشریف لائی ہیں۔
اُن کے دَورے کا مقصد ِ وحید تو یہ بیان کیا جارہا ہے کہ وہ پاکستان کے کروڑوں سیلاب زدگان کا حال احوال جاننے اور ان کی مقدور بھر مدد کرنے آئی ہیں۔پاکستان میں جونہی ملالہ صاحبہ نے قدم رکھا، پاکستان میں سوات کی دہشت گردی کے نئے واقعات کی گونج سنائی دے رہی تھی ۔یہ سوات میں بروئے کار دہشت گرد ہی تھے جن کی دہشت گردانہ وارداتوں کا ہدف ملالہ یوسفزئی بنی تھیں۔
یہ ایک عشرہ قبل کی دلفگار داستان ہے۔ اِس دوران ملالہ کا برطانیہ میں علاج بھی ہُوا، انھوں نے امن کا نوبل انعام بھی پایا ، اوکسفرڈ سے ڈگری بھی لی اور متاہلانہ زندگی کا آغاز بھی کیا۔ دس سال کے بعد اب جو انھوں نے پاکستان میں دوسری بار قدم رکھا ہے تو سوات بدستور دہشت گردوں کی جلائی آگ میں جل رہا ہے ۔
خدا کا شکر ہے کہ دہشت گردی اور دہشت گردوں کے ستائے سواتی عوام لاکھوں کی تعداد میں متحد ہو کر دہشت گردوں کے ظلم اور صوبائی حکومت کی نااہلی کے خلاف احتجاج کرتے ہُوئے سڑکوں پر اُمنڈ آئے ہیں۔ دہشت گردی سے تنگ آئے سوات کے یہ احتجاجی عوام اُن قوتوں کو عملی میدان اور زبان میں چیلنج کررہے ہیں جنھوں نے عوام کی مرضی کے برعکس مبینہ طور پر دہشت گرد ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرکے ان خونیوں کو واپس سماج کی مین اسٹریم میں لانا چاہا ۔
سوات کے احتجاجی عوام کی پکارتی اور دھاڑتی آوازیں، معلوم نہیں، ہمارے نوع بہ نوع حکمرانوں اور فیصلہ سازوں کے کانوں اور آنکھوں تک پہنچ بھی رہی ہیں یا نہیں ؟ خیبر پختونخوا حکومت تو بہرحال ٹس سے مس نہیں ہو رہی ۔ سواتی عوام اس روئیے بارے شاکی بھی ہیں اور سخت نالاں و ناراض بھی ۔ البتہ وفاقی وزیرداخلہ ، رانا ثناء اللہ، نے کہا ہے کہ ہم سوات کے نئے پریشان کن حالات کا انسداد کرنے کے لیے طاقتور اور موثر قدم اُٹھانے والے ہیں۔ لیکن اِس ضمن میں عمران خان کی خاموشی معنی خیز ہے۔
خان صاحب کے حواس اور اعصاب پر صرف ایک خاص تعیناتی سوارہے ۔خان صاحب کے ہمنوا، شیخ رشید احمد، اِسی پس منظر میں کہہ رہے ہیں کہ ''ایک تعیناتی نے سارے سیاسی نظام کو جام کررکھا ہے۔'' اِسی ایک تعیناتی کے حوالے سے صدرِ مملکت بھی اپنے بیانات ، تقاریر اور انٹرویوز میں اُسی لائن کو ٹوکررہے ہیں جو لائن عمران خان کی ہے۔
شاید یہ اِسی ''لائن'' کے اختیار کیے جانے کا شاخسانہ تھا کہ صدر صاحب پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے آئے تو وہاں گنتی کے چند لوگ موجود تھے ۔ وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، کو بھی صدر صاحب کے خطاب کی مخالفت کرتے سنا گیا۔ اور اب وفاقی وزیر قانون ، اعظم نذیر تارڑ ، کہہ رہے ہیں کہ ''آرمی چیف کی تقرری وزیر اعظم کا استحقاق ہے، صدرِ مملکت سیاست سے دُور رہیں ۔''
صدر صاحب مگر کسی کی محبت میں سیاست سے دُور رہنے سے انکاری ہیں۔اِس ایک خاص اور بڑی تعیناتی کے حوالے سے اپوزیشن (بمعنی عمران خان) اور اتحادی حکومت کے درمیان کشیدگی عروج پر ہے۔اِس کشیدگی اور کشمکش کے عین درمیان میں16اکتوبر کو ملک بھر کے ضمنی انتخابات کے انعقاد کا فیصلہ اور اعلان کر دیا گیا ہے۔
شہباز شریف کی حکومت تو ان ضمنی انتخابات کو اَب بھی موخر کرنا چاہتی تھی۔ بہانہ یہ تھا کہ فی الحال سیلاب زدگان کی بحالی ترجیح ہے اور اسلام آباد پر خان صاحب کی یلغار کا خدشہ بھی ہے ، اس لیے ضمنی انتخابات کے لیے مطلوبہ سیکیورٹی فورسز میسر نہیں ہوں گی۔ عدالت نے مگر فیصلہ سنا کر شہباز شریف ، نون لیگ اور اتحادی حکومت کی نیتوں اور خوابوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ ، تمام تر دگرگوں معاشی و سماجی حالات کے باوصف ، ضمنی انتخابات چاہتے ہیں تو پھر ان انتخابات کو رُکنا نہیں چاہیے ۔
مگر اتحادی حکومت (خاص طور پر نون لیگ) کو خوف ہے کہ وہ ضمنی انتخابات ہار جائیں گے ۔ جیسا کہ پنجاب کے پچھلے (جولائی2022ء کے) ضمنی انتخابات میں بھی نون لیگ بُری طرح ہار گئی تھی اور پی ٹی آئی فتح یاب رہی تھی( نون لیگ 20میں سے16سیٹیں ہار گئی تھی) اس شکست پر نون لیگ کو سخت شرمندگی اُٹھانا پڑی تھی ۔ یہ شرمندگی لندن تک پہنچی تھی اور نواز شریف کو بھی پریشان کر گئی تھی۔ اب پھر نون لیگ ضمنی انتخابات میں قدم رکھتے ہُوئے ڈر رہی ہے۔
وہ جانتی ہے کہ عمران خان کے بعد حکومت کے مزے لینے کے لیے نون لیگ اور اتحادیوں نے عوام کے لیے مہنگائی اور بے روزگاری کے جو نئے اور عذابناک طوفان اُٹھائے ہیں ، ان کے نتائج ضمنی انتخابات میں سامنے آئیں گے۔ عوام نون لیگ اور اتحادیوں کا یہ بے معنی بیانیہ سُننے اور ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ ''ہم نے ریاست کے بچاؤ کے لیے سیاست قربان کر دی ۔''ضمنی انتخابات کی قربان گاہ پر چڑھ کر پھر کسی کو قربانی تو دینی ہے ۔