فلسفہ تعلیم کیا ہے
فلسفہ کسی شے کی حقیقت کو جاننے کا نام ہے۔ فلسفہ کی ایک شاخ جو علم کی حقیقت ، ماہیت ، نوعیت ، حدود ، مسائل اور ذرایع سے بحث کرتی ہے ، اسے علمیات کا نام دیا جاتا ہے۔
علم کے معنی جاننا اور معلومات کے ہیں لیکن فلسفہ میں ایسی ہی معلومات کو علم کا درجہ دیا جائے گا جو مربوط شکل میں ہوں۔ جس طرح اینٹوں کے ڈھیر کو عمارت قرار نہیں دیا جاسکتا اسی طرح غیر مربوط معلومات کو علم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فلسفہ کی رو سے علم کے ذرایع کے لحاظ سے علم کی پانچ اقسام ہیں۔ علم کا ایک ذریعہ حواس خمسہ ہیں۔
حواس خمسہ سے مراد انسان کے پانچ حواس سننے کی قوت، چھونے کی قوت، سونگھنے کی قوت، چکھنے کی قوت، دیکھنے کی قوت۔ یہ علم ان پانچ حواس کا مرہون منت ہے اس لیے اسے حس علم کا نام دیا جاتا ہے ، کیونکہ اس علم کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پر ہے اس لیے اسے تجرباتی علم کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ علم کی دوسری قسم وجدانی علم ہے۔
یہ ایسا علم ہے جس میں حقائق اور معلومات لاشعور سے شعور میں اچانک وارد ہو جائیں تو اس علم کو وجدانی علم کا نام دیا جاتا ہے۔ وجدان کو چھٹی حس بھی کہتے ہیں۔ یہ لاشعور میں پرورش پاتی ہے۔
سائنسی ایجادات، فن اور آرٹ کے نمونے اسی علم کی پیداوار ہیں۔ علم کی تیسری قسم ایک ایسا علم ہے جو ماہرین، فلاسفر اور عظیم دانشوروں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ، کیونکہ ان کے اخذ کردہ نتائج عمومی طور پر درست ہوتے ہیں اس لیے ان نتائج کو بطور سند تسلیم کیا جاتا ہے۔ جیسے نیوٹن کا قانون حرکت وغیرہ ۔ ایسے علم کو اسنادی یعنی اتھارٹی علم کا نام دیا جاتا ہے۔
غیر مادی اور باطنی حقائق مثلاً خدا ، فرشتے، جنت و دوزخ ، یوم آخرت کی حقیقت کا ادراک حواس اور عقل سے ممکن نہیں، اس لیے اس سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے جس علم کی ضرورت ہوتی ہے اسے الہامی علم کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ علم انسانوں کی فلاح اور بہتری کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کو وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور پیغمبروں کے وسیلے سے انسانوں تک پہنچتا ہے اس میں کسی ترمیم اور اضافے کی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کو منطق کے ذریعے رد کیا جاسکتا ہے۔
علم کا ایک ذریعہ عقل ہے۔ انسانی ذہن کسی مسئلے پر سوچتا ہے، پہلے اس کی موافقت اور اس کی مخالفت کے حق میں دلیل جمع کرتا ہے پھر ان پر مقدمات بناتا ہے، پھر نتائج اخذ کرتا ہے۔ اگر یہ عمل عقل کے ذریعے انجام دیا جائے تو ایسے علم کو عقلی علم کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ فلسفہ تعلیم کیا ہے۔ علمی حوالے سے فلسفہ اور تعلیم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
انھیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ بقول ایک مفکر کے فلسفہ ایک نظریہ ہے تو تعلیم اس کا عملی پہلو۔ یعنی فلسفہ سوچ اور فکر کا نام ہے تعلیم اس فکر پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ فلسفہ تعلیم کے مختلف نظریات ہیں پہلا نظریہ '' نظریہ تصوریت'' ہے۔ اس نظریے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کائنات اور اس کی تمام اشیا حقیقی نہیں بلکہ حقیقت کا عکس ہیں۔
اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی مکان بناتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلے مکان کا تصور آتا ہے جب مکان بنتا ہے تو درحقیقت وہ ان تصورات کا عکس ہوتا ہے اس فلسفے کو تصوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس نظریے میں شعور، خیال اور روح کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ اس نظریے کے تحت فلسفہ تعلیم کا مقصد روحانی اقدار، روایات اور ثقافت کا تحفظ کرنا ہے اس نظریے کا بانی افلاطون تھا۔فلسفہ تعلیم کا دوسرا نظریہ '' فلسفہ حقیقت'' ہے اس فلسفے کی بنیاد مادیت پر رکھی گئی ہے۔
اس نظریے کی رو سے مادہ ایک حقیقت ہے۔ مادے کے بغیر تصورات کا وجود ممکن نہیں۔ ہمیں تصورات اس وقت سمجھ میں آتے ہیں جب ہم اس کی مادی حیثیت کا مشاہدہ کرتے ہیں ، کیونکہ اس فلسفے کے ذریعے عوام کو حقیقت پسند بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے اسے فلسفہ حقیقت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ تعلیم ایسی تعلیم کی حمایت کرتا ہے جو انسان کی پیشہ ورانہ ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرسکے۔ اس نظریے کا بانی ارسطو تھا۔ فلسفہ تعلیم میں ایک فلسفہ اصولیت ہے۔
اس فلسفے کی رو سے روح اور مادہ کائنات کی دو اساس حقیقتیں ہیں روح اور مادہ کا ملاپ نظام کائنات کو ایک خاص ترتیب عطا کرتا ہے اس نظریے کی رو سے تجربہ اور مشاہدات سے حاصل ہونے والا علم معتبر ہے۔ روایات سے حاصل ہونے والا علم ایسی صورت میں قابل قبول ہوگا جب وہ معاشرتی رجحانات اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔فلسفہ تعلیم میں ایک فلسفہ وجودیت ہے اس فلسفے کی رو سے انسانی وجود کو ہر شے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اس نظریے کے تحت تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہیے جس میں فرد اپنی انفرادیت سے واقف ہو کر اپنی ذاتی استعداد کے مطابق ذمے داریاں ادا کرے۔ سولہویں صدی میں یورپ میں ایک فلسفے نے جنم لیا جسے فلسفہ '' فطریت '' کا نام دیا جاتا ہے۔
اس نظریے کی رو سے کائنات کی ہر شے میں اس کا جوہر موجود ہے۔ (یہاں جوہر سے مراد کسی شے کی لازمی صفات جس کے بغیر اس شے کی تعریف نہ ہوسکے) یہی اس شے کی فطرت ہے اس نظریے کے تحت تعلیم کا نظام ایسا ہونا چاہیے جو بچے کی فطرت کے مطابق ہو۔ فطری تعلیم کی بدولت ہی ایسے کامیاب انسان بنایا جاسکتا ہے۔
فطری تعلیم کے لیے آزادانہ ماحول ضروری ہے اس کا بانی روسو تھا۔کسی شے کی اساس پر توجہ مرکوز کرنا اور غیر متعلقہ کو نظر انداز کرنا تجربہ کہلاتا ہے اور تجربات کے ذریعے اعمال کو جانچنے اور اس کو بیان کرنے کا عمل عملیت کہلاتا ہے۔
فلسفہ تعلیم کی ایک قسم عملیت ہے اس فلسفے کی بنیاد کیونکہ عمل کے ساتھ تجربہ اور نتائج پر بھی ہے اس لیے اس فلسفے کو تجربیت اور نتائجیت کا نام بھی دیا جاتا ہے اس فلسفہ تعلیم میں عمل اور تجربے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔فلسفہ تعلیم کی ایک اور قسم بھی ہے جسے اسلامی فلسفہ تعلیم کا نام دیا جاتا ہے۔
اسلامی فلاسفہ کے مطابق یہ کائنات کسی حادثہ یا اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک بامعنی منصوبہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت سے تخلیق کیا ہے۔ کائنات کی ہر شے رب تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت کام کر رہی ہے۔ انسانی زندگی کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ وحی کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ہی مستند اور معتبر ہے یہی اسلامی معاشرے کے عمل کی اساس ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ، عقل و وجدان سے حاصل ہونے والا علم بھی قابل قدر ہے مگر شرط یہ ہے کہ اسے وحی کی تائید حاصل ہو۔اسلامی فلسفہ تعلیم میں تمام علوم کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کا پیغام قرآن اور رسولؐ کی سنت ہے۔
اسلامی فلسفہ تعلیم کا مقصد دین اور دنیا میں اعتدال اور توازن قائم کرنا ہے اور بحیثیت مجموعی انسان کو موضوع بنا کر اس کے حل کو پیش کرنا ہے یہ فلسفہ تعلیم خدا تعالیٰ کا پیش کردہ ہے اس لیے اس میں خامیوں کی گنجائش نہیں اور نہ ہی ترمیم اور اضافے کی گنجائش ہے۔ یہ تعلیم انسان کی خوشحالی کے ساتھ روحانیت، اخلاقیات اور مذہبی عقائد کو لازمی قرار دیتی ہے۔
علم کے معنی جاننا اور معلومات کے ہیں لیکن فلسفہ میں ایسی ہی معلومات کو علم کا درجہ دیا جائے گا جو مربوط شکل میں ہوں۔ جس طرح اینٹوں کے ڈھیر کو عمارت قرار نہیں دیا جاسکتا اسی طرح غیر مربوط معلومات کو علم قرار نہیں دیا جاسکتا۔ فلسفہ کی رو سے علم کے ذرایع کے لحاظ سے علم کی پانچ اقسام ہیں۔ علم کا ایک ذریعہ حواس خمسہ ہیں۔
حواس خمسہ سے مراد انسان کے پانچ حواس سننے کی قوت، چھونے کی قوت، سونگھنے کی قوت، چکھنے کی قوت، دیکھنے کی قوت۔ یہ علم ان پانچ حواس کا مرہون منت ہے اس لیے اسے حس علم کا نام دیا جاتا ہے ، کیونکہ اس علم کی بنیاد مشاہدات اور تجربات پر ہے اس لیے اسے تجرباتی علم کا نام بھی دیا جاتا ہے۔ علم کی دوسری قسم وجدانی علم ہے۔
یہ ایسا علم ہے جس میں حقائق اور معلومات لاشعور سے شعور میں اچانک وارد ہو جائیں تو اس علم کو وجدانی علم کا نام دیا جاتا ہے۔ وجدان کو چھٹی حس بھی کہتے ہیں۔ یہ لاشعور میں پرورش پاتی ہے۔
سائنسی ایجادات، فن اور آرٹ کے نمونے اسی علم کی پیداوار ہیں۔ علم کی تیسری قسم ایک ایسا علم ہے جو ماہرین، فلاسفر اور عظیم دانشوروں کے ذریعے حاصل ہوتا ہے ، کیونکہ ان کے اخذ کردہ نتائج عمومی طور پر درست ہوتے ہیں اس لیے ان نتائج کو بطور سند تسلیم کیا جاتا ہے۔ جیسے نیوٹن کا قانون حرکت وغیرہ ۔ ایسے علم کو اسنادی یعنی اتھارٹی علم کا نام دیا جاتا ہے۔
غیر مادی اور باطنی حقائق مثلاً خدا ، فرشتے، جنت و دوزخ ، یوم آخرت کی حقیقت کا ادراک حواس اور عقل سے ممکن نہیں، اس لیے اس سے آگاہی حاصل کرنے کے لیے جس علم کی ضرورت ہوتی ہے اسے الہامی علم کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ علم انسانوں کی فلاح اور بہتری کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف سے پیغمبروں کو وحی کے ذریعے حاصل ہوتا ہے اور پیغمبروں کے وسیلے سے انسانوں تک پہنچتا ہے اس میں کسی ترمیم اور اضافے کی گنجائش نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کو منطق کے ذریعے رد کیا جاسکتا ہے۔
علم کا ایک ذریعہ عقل ہے۔ انسانی ذہن کسی مسئلے پر سوچتا ہے، پہلے اس کی موافقت اور اس کی مخالفت کے حق میں دلیل جمع کرتا ہے پھر ان پر مقدمات بناتا ہے، پھر نتائج اخذ کرتا ہے۔ اگر یہ عمل عقل کے ذریعے انجام دیا جائے تو ایسے علم کو عقلی علم کہا جاتا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ فلسفہ تعلیم کیا ہے۔ علمی حوالے سے فلسفہ اور تعلیم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔
انھیں ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔ بقول ایک مفکر کے فلسفہ ایک نظریہ ہے تو تعلیم اس کا عملی پہلو۔ یعنی فلسفہ سوچ اور فکر کا نام ہے تعلیم اس فکر پر عمل پیرا ہونے کا نام ہے۔ فلسفہ تعلیم کے مختلف نظریات ہیں پہلا نظریہ '' نظریہ تصوریت'' ہے۔ اس نظریے کا مرکزی خیال یہ ہے کہ کائنات اور اس کی تمام اشیا حقیقی نہیں بلکہ حقیقت کا عکس ہیں۔
اس کی مثال یہ ہے کہ جب کوئی مکان بناتا ہے تو اس کے ذہن میں پہلے مکان کا تصور آتا ہے جب مکان بنتا ہے تو درحقیقت وہ ان تصورات کا عکس ہوتا ہے اس فلسفے کو تصوریت کا نام دیا جاتا ہے۔ اس نظریے میں شعور، خیال اور روح کو اولین حیثیت حاصل ہے۔ اس نظریے کے تحت فلسفہ تعلیم کا مقصد روحانی اقدار، روایات اور ثقافت کا تحفظ کرنا ہے اس نظریے کا بانی افلاطون تھا۔فلسفہ تعلیم کا دوسرا نظریہ '' فلسفہ حقیقت'' ہے اس فلسفے کی بنیاد مادیت پر رکھی گئی ہے۔
اس نظریے کی رو سے مادہ ایک حقیقت ہے۔ مادے کے بغیر تصورات کا وجود ممکن نہیں۔ ہمیں تصورات اس وقت سمجھ میں آتے ہیں جب ہم اس کی مادی حیثیت کا مشاہدہ کرتے ہیں ، کیونکہ اس فلسفے کے ذریعے عوام کو حقیقت پسند بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے اسے فلسفہ حقیقت کا نام دیا جاتا ہے۔ یہ فلسفہ تعلیم ایسی تعلیم کی حمایت کرتا ہے جو انسان کی پیشہ ورانہ ضروریات اور تقاضوں کی تکمیل میں اس کی مدد کرسکے۔ اس نظریے کا بانی ارسطو تھا۔ فلسفہ تعلیم میں ایک فلسفہ اصولیت ہے۔
اس فلسفے کی رو سے روح اور مادہ کائنات کی دو اساس حقیقتیں ہیں روح اور مادہ کا ملاپ نظام کائنات کو ایک خاص ترتیب عطا کرتا ہے اس نظریے کی رو سے تجربہ اور مشاہدات سے حاصل ہونے والا علم معتبر ہے۔ روایات سے حاصل ہونے والا علم ایسی صورت میں قابل قبول ہوگا جب وہ معاشرتی رجحانات اور تقاضوں سے ہم آہنگ ہو۔فلسفہ تعلیم میں ایک فلسفہ وجودیت ہے اس فلسفے کی رو سے انسانی وجود کو ہر شے میں مرکزی حیثیت حاصل ہے۔
اس نظریے کے تحت تعلیمی نظام ایسا ہونا چاہیے جس میں فرد اپنی انفرادیت سے واقف ہو کر اپنی ذاتی استعداد کے مطابق ذمے داریاں ادا کرے۔ سولہویں صدی میں یورپ میں ایک فلسفے نے جنم لیا جسے فلسفہ '' فطریت '' کا نام دیا جاتا ہے۔
اس نظریے کی رو سے کائنات کی ہر شے میں اس کا جوہر موجود ہے۔ (یہاں جوہر سے مراد کسی شے کی لازمی صفات جس کے بغیر اس شے کی تعریف نہ ہوسکے) یہی اس شے کی فطرت ہے اس نظریے کے تحت تعلیم کا نظام ایسا ہونا چاہیے جو بچے کی فطرت کے مطابق ہو۔ فطری تعلیم کی بدولت ہی ایسے کامیاب انسان بنایا جاسکتا ہے۔
فطری تعلیم کے لیے آزادانہ ماحول ضروری ہے اس کا بانی روسو تھا۔کسی شے کی اساس پر توجہ مرکوز کرنا اور غیر متعلقہ کو نظر انداز کرنا تجربہ کہلاتا ہے اور تجربات کے ذریعے اعمال کو جانچنے اور اس کو بیان کرنے کا عمل عملیت کہلاتا ہے۔
فلسفہ تعلیم کی ایک قسم عملیت ہے اس فلسفے کی بنیاد کیونکہ عمل کے ساتھ تجربہ اور نتائج پر بھی ہے اس لیے اس فلسفے کو تجربیت اور نتائجیت کا نام بھی دیا جاتا ہے اس فلسفہ تعلیم میں عمل اور تجربے کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔فلسفہ تعلیم کی ایک اور قسم بھی ہے جسے اسلامی فلسفہ تعلیم کا نام دیا جاتا ہے۔
اسلامی فلاسفہ کے مطابق یہ کائنات کسی حادثہ یا اتفاق کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ ایک بامعنی منصوبہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے کمال قدرت سے تخلیق کیا ہے۔ کائنات کی ہر شے رب تعالیٰ کے بنائے ہوئے قوانین کے تحت کام کر رہی ہے۔ انسانی زندگی کا مقصد رضائے الٰہی کا حصول ہے۔ وحی کے ذریعے حاصل ہونے والا علم ہی مستند اور معتبر ہے یہی اسلامی معاشرے کے عمل کی اساس ہے۔ مشاہدہ اور تجربہ، عقل و وجدان سے حاصل ہونے والا علم بھی قابل قدر ہے مگر شرط یہ ہے کہ اسے وحی کی تائید حاصل ہو۔اسلامی فلسفہ تعلیم میں تمام علوم کا سرچشمہ اللہ تعالیٰ کا پیغام قرآن اور رسولؐ کی سنت ہے۔
اسلامی فلسفہ تعلیم کا مقصد دین اور دنیا میں اعتدال اور توازن قائم کرنا ہے اور بحیثیت مجموعی انسان کو موضوع بنا کر اس کے حل کو پیش کرنا ہے یہ فلسفہ تعلیم خدا تعالیٰ کا پیش کردہ ہے اس لیے اس میں خامیوں کی گنجائش نہیں اور نہ ہی ترمیم اور اضافے کی گنجائش ہے۔ یہ تعلیم انسان کی خوشحالی کے ساتھ روحانیت، اخلاقیات اور مذہبی عقائد کو لازمی قرار دیتی ہے۔