قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی آثار و احوال
قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی ایک ہمہ گیر ، ہمہ جہت اور جامع شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا علمی ذوق اور تحقیقی تجسس راہ اور مضمونِ تازہ کی تلاش کے جذبے کا مظہر تھا۔ پروفیسر رئیس فاطمہ نے ان کی شخصیت اور ان کی علمی اور ادبی خدمات کو اپنی اس کتاب میں پیش کرکے بڑا کام کیا ہے۔ رئیس فاطمہ معلمہ ہیں، ادیب ہیں، کالم نویس ہیں اور افسانہ نگار ہیں اور قاضی صاحب سے ایک نسبت خاص رکھتی ہیں، ان کی کتاب ان تمام خصوصیات کی شاہد ہے۔
وہ لکھتی ہیں '' اسلامی تاریخ ، اسلامی تہذیب یا ثقافت کا کوئی پہلو ہو ، عربی ، فارسی ، اردو شعر و ادب کا کوئی مسئلہ ہو ، طب یا موسیقی کا کوئی موضوع ہو ، مغربی ادبیات کا کوئی گوشہ ہو ، قاضی احمد میاں اختر ان میں سے کسی بھی مضمون میں بند نہ تھے۔ ان کا یہ ذوق و شوق علم و تجسس ان کی ہر تحریر سے ظاہر ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان جیسی عالی دماغ شخصیت کسی علمی معجزے سے کم نہیں۔''
قاضی صاحب کے خاندانی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے رئیس فاطمہ لکھتی ہیں کہ '' ان کا تعلق جوناگڑھ کے ایک پرانے اور محترم خاندان سے تھا جو سندھ سے یہاں آ کر آباد ہوا تھا۔ قاضی صاحب قیام پاکستان کے بعد جب کراچی آئے تو انجمن ترقی اردو سے وابستہ ہو گئے پھر سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ کے سربراہ ہو کر حیدرآباد چلے گئے۔''
پروفیسر رئیس فاطمہ قاضی احمد میاں اختر کے مزاج اور طبیعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں '' وہ ایک درمند، رحم دل، مخلص انسان، شفیق باپ، بہترین شوہر اور ایک ہمدرد دوست تھے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی علم ہو جس پر ان کی نظر نہ ہو۔ طب میں وہ باقاعدہ طبیہ کالج، دہلی کے سند یافتہ تھے۔ موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ تحقیق کے مرد میدان تھے لیکن زاہد خشک نہ تھے۔
قاضی صاحب ایک شگفتہ طبع، بذلہ سنج اور خوش مزاج انسان تھے۔ دل کھول کر ہنستے اور بہترین حس مزاح کا مظاہرہ کرتے۔ بے جا ڈانٹ ڈپٹ کے وہ قائل نہ تھے۔ اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنے کے بجائے ان کا موقف پوری توجہ سے سنا کرتے تھے پھر بعد میں اپنی صائب رائے کا اظہار کرتے تھے۔''
پروفیسر رئیس فاطمہ نے اپنی کتاب '' قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی ، آثار و احوال'' میں قاضی صاحب کی ادبی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اقبال پر جو کام کیا اور جو دوسرے موضوعات پر کتابیں لکھیں ان کی اہمیت اور افادیت بیان کی ہے۔
رئیس فاطمہ لکھتی ہیں کہ '' قاضی صاحب کے کاغذات اور دستاویزات کی تلاش کے دوران بعض ایسے مضامین بھی ملے ہیں جو ان کی کسی کتاب میں شامل نہیں ہیں۔ ان میں ایک مضمون ''خواجہ بزرگ'' کے عنوان سے ہے۔ یہ اجمیر کے حضرت خواجہ غریب نواز کے بارے میں ہے جس میں حضرت کی حیات مبارکہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔''
رئیس فاطمہ لکھتی ہیں '' قاضی صاحب کی علمی و ادبی زندگی کا آغاز 1914 میں ایک شاعر اور انشا پرداز کی حیثیت سے ہوا۔ شعر گوئی کے حوالے سے وہ غزل کے شاعر تھے تاہم انھوں نے نہ صرف طبع زاد نظمیں لکھیں بلکہ غیر ملکی شعرا کی نظموں کے متراجم بھی کیے جو '' لمحات اختر'' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوئے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو میں لکھا جانے والا پہلا سانیٹ قاضی صاحب نے ہی لکھا۔ '' زرگل'' قاضی صاحب کے انشائیوں کا مجموعہ اور ''سی پارۂ دل'' ان کی تیس غزلوں کا مجموعہ ہے۔قاضی صاحب کی غزلوں کا مطالعہ کرنے سے ایک بات تو بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ذہنی طور پر میر و غالب سے قریب تھے۔ انھوں نے ایک شعر میں اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
رہ گئی اب تو نری قافیہ بندی اخترؔ
شاعری کہتے ہیں جس کو وہ گئی میرؔ کے ساتھ
قاضی صاحب کی ایک اور غزل ہے، عکس غالب واضح ہے۔
عشق منت کشِ وفا نہ ہوا
ترک الفت کا کچھ گلا نہ ہوا
آرزوؤں کا تھا وہ دل میں ہجوم
کوئی دن عرضِ مدعا نہ ہوا
مل گیا سنگِ آستاں ان کا
درِ مقصود پھر بھی وا نہ ہوا
ہے اثر اخترؔ آج تک باقی
دل لگانے کو ایک زمانہ ہوا
پروفیسر رئیس فاطمہ لکھتی ہیں '' قاضی صاحب جس زمانے میں شعر کہہ رہے تھے وہ انیسویں صدی کے اوائل کا زمانہ تھا۔ تمام نامور شعرا حسرتؔ اصغر، جگر، فانیؔ شعر کہہ رہے تھے۔ ان شعرا کا کلام ملک کے طول و عرض میں گونج رہا تھا۔'' قاضی صاحب کی تمام شاعری داخلیت پر مبنی ہے۔ اس لحاظ سے ہم انھیں دبستان دہلی سے وابستہ کریںگے۔ صاف اور سادہ زبان، سیدھے سادھے دل میں اتر جانے والے احساسات، رطب و یابس سے مبرا زبان ان کے علمی و ادبی ذوق کی آئینہ دار ہے۔
البتہ کہیں کہیں عربی اور فارسی کے الفاظ غیر محسوس طریقے سے ان کی غزلوں میں داخل ہوگئے ہیں لیکن یہ الفاظ غیر مانوس نہیں ہیں۔ ویسے بھی اس زمانے میں ایسے الفاظ کا استعمال عام تھا۔ پھر قاضی صاحب کے ہاں یہ الفاظ بلا ضرورت نہیں ہیں گویا ان میں ''آورد '' نہیں بلکہ ''آمد'' ہے۔ قاضی صاحب کی غزلوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک صاحب دل انسان تھے، جو دل پہ گزرتی تھی اسے محسوس کرتے تھے اور کچھ ارد گرد ہو رہا تھا اس سے بھی بے خبر نہیں تھے۔
تھی چمن میں زندگی دشوار سی
اب قفس اپنا نشیمن ہو گیا
ٹپکا ہے رگِ گل سے لہو صحنِ چمن میں
بلبل کو رُلایا ہے میری نوحہ گری نےا
وہ لکھتی ہیں '' اسلامی تاریخ ، اسلامی تہذیب یا ثقافت کا کوئی پہلو ہو ، عربی ، فارسی ، اردو شعر و ادب کا کوئی مسئلہ ہو ، طب یا موسیقی کا کوئی موضوع ہو ، مغربی ادبیات کا کوئی گوشہ ہو ، قاضی احمد میاں اختر ان میں سے کسی بھی مضمون میں بند نہ تھے۔ ان کا یہ ذوق و شوق علم و تجسس ان کی ہر تحریر سے ظاہر ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان جیسی عالی دماغ شخصیت کسی علمی معجزے سے کم نہیں۔''
قاضی صاحب کے خاندانی پس منظر کا ذکر کرتے ہوئے رئیس فاطمہ لکھتی ہیں کہ '' ان کا تعلق جوناگڑھ کے ایک پرانے اور محترم خاندان سے تھا جو سندھ سے یہاں آ کر آباد ہوا تھا۔ قاضی صاحب قیام پاکستان کے بعد جب کراچی آئے تو انجمن ترقی اردو سے وابستہ ہو گئے پھر سندھ یونیورسٹی کے شعبہ اسلامی تاریخ کے سربراہ ہو کر حیدرآباد چلے گئے۔''
پروفیسر رئیس فاطمہ قاضی احمد میاں اختر کے مزاج اور طبیعت کا ذکر کرتے ہوئے لکھتی ہیں '' وہ ایک درمند، رحم دل، مخلص انسان، شفیق باپ، بہترین شوہر اور ایک ہمدرد دوست تھے۔ دنیا کا شاید ہی کوئی علم ہو جس پر ان کی نظر نہ ہو۔ طب میں وہ باقاعدہ طبیہ کالج، دہلی کے سند یافتہ تھے۔ موسیقی کی باقاعدہ تعلیم حاصل کرچکے تھے۔ تحقیق کے مرد میدان تھے لیکن زاہد خشک نہ تھے۔
قاضی صاحب ایک شگفتہ طبع، بذلہ سنج اور خوش مزاج انسان تھے۔ دل کھول کر ہنستے اور بہترین حس مزاح کا مظاہرہ کرتے۔ بے جا ڈانٹ ڈپٹ کے وہ قائل نہ تھے۔ اپنی بات دوسروں پر مسلط کرنے کے بجائے ان کا موقف پوری توجہ سے سنا کرتے تھے پھر بعد میں اپنی صائب رائے کا اظہار کرتے تھے۔''
پروفیسر رئیس فاطمہ نے اپنی کتاب '' قاضی احمد میاں اختر جونا گڑھی ، آثار و احوال'' میں قاضی صاحب کی ادبی خدمات کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ انھوں نے اقبال پر جو کام کیا اور جو دوسرے موضوعات پر کتابیں لکھیں ان کی اہمیت اور افادیت بیان کی ہے۔
رئیس فاطمہ لکھتی ہیں کہ '' قاضی صاحب کے کاغذات اور دستاویزات کی تلاش کے دوران بعض ایسے مضامین بھی ملے ہیں جو ان کی کسی کتاب میں شامل نہیں ہیں۔ ان میں ایک مضمون ''خواجہ بزرگ'' کے عنوان سے ہے۔ یہ اجمیر کے حضرت خواجہ غریب نواز کے بارے میں ہے جس میں حضرت کی حیات مبارکہ پر تفصیل سے روشنی ڈالی گئی ہے۔''
رئیس فاطمہ لکھتی ہیں '' قاضی صاحب کی علمی و ادبی زندگی کا آغاز 1914 میں ایک شاعر اور انشا پرداز کی حیثیت سے ہوا۔ شعر گوئی کے حوالے سے وہ غزل کے شاعر تھے تاہم انھوں نے نہ صرف طبع زاد نظمیں لکھیں بلکہ غیر ملکی شعرا کی نظموں کے متراجم بھی کیے جو '' لمحات اختر'' کے عنوان سے کتابی شکل میں شایع ہوئے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اردو میں لکھا جانے والا پہلا سانیٹ قاضی صاحب نے ہی لکھا۔ '' زرگل'' قاضی صاحب کے انشائیوں کا مجموعہ اور ''سی پارۂ دل'' ان کی تیس غزلوں کا مجموعہ ہے۔قاضی صاحب کی غزلوں کا مطالعہ کرنے سے ایک بات تو بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ وہ ذہنی طور پر میر و غالب سے قریب تھے۔ انھوں نے ایک شعر میں اس کا اظہار بھی کیا ہے۔
رہ گئی اب تو نری قافیہ بندی اخترؔ
شاعری کہتے ہیں جس کو وہ گئی میرؔ کے ساتھ
قاضی صاحب کی ایک اور غزل ہے، عکس غالب واضح ہے۔
عشق منت کشِ وفا نہ ہوا
ترک الفت کا کچھ گلا نہ ہوا
آرزوؤں کا تھا وہ دل میں ہجوم
کوئی دن عرضِ مدعا نہ ہوا
مل گیا سنگِ آستاں ان کا
درِ مقصود پھر بھی وا نہ ہوا
ہے اثر اخترؔ آج تک باقی
دل لگانے کو ایک زمانہ ہوا
پروفیسر رئیس فاطمہ لکھتی ہیں '' قاضی صاحب جس زمانے میں شعر کہہ رہے تھے وہ انیسویں صدی کے اوائل کا زمانہ تھا۔ تمام نامور شعرا حسرتؔ اصغر، جگر، فانیؔ شعر کہہ رہے تھے۔ ان شعرا کا کلام ملک کے طول و عرض میں گونج رہا تھا۔'' قاضی صاحب کی تمام شاعری داخلیت پر مبنی ہے۔ اس لحاظ سے ہم انھیں دبستان دہلی سے وابستہ کریںگے۔ صاف اور سادہ زبان، سیدھے سادھے دل میں اتر جانے والے احساسات، رطب و یابس سے مبرا زبان ان کے علمی و ادبی ذوق کی آئینہ دار ہے۔
البتہ کہیں کہیں عربی اور فارسی کے الفاظ غیر محسوس طریقے سے ان کی غزلوں میں داخل ہوگئے ہیں لیکن یہ الفاظ غیر مانوس نہیں ہیں۔ ویسے بھی اس زمانے میں ایسے الفاظ کا استعمال عام تھا۔ پھر قاضی صاحب کے ہاں یہ الفاظ بلا ضرورت نہیں ہیں گویا ان میں ''آورد '' نہیں بلکہ ''آمد'' ہے۔ قاضی صاحب کی غزلوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک صاحب دل انسان تھے، جو دل پہ گزرتی تھی اسے محسوس کرتے تھے اور کچھ ارد گرد ہو رہا تھا اس سے بھی بے خبر نہیں تھے۔
تھی چمن میں زندگی دشوار سی
اب قفس اپنا نشیمن ہو گیا
ٹپکا ہے رگِ گل سے لہو صحنِ چمن میں
بلبل کو رُلایا ہے میری نوحہ گری نےا