ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
2 اکتوبر کا دن ہمیں ایسے مہاگنی فنکار اور عظیم کلاکار کی ہمیں یاد دلاتا ہے جو ایک سال پہلے اپنے چاہنے والوں کو داغ مفارقت دے گیا تھا وہ تھا عمر شریف ، جو مزاح کا بادشاہ تھا اور اس نے یہ بادشاہت بڑی نوعمری میں حاصل کرلی تھی اس کے دلچسپ اسٹیج ڈرامے، اس کے جملے، فقرے جو مسکراہٹ اور قہقہوں کو جنم دیتے تھے وہ جس محفل میں، جس فنکشن اور جس اسٹیج پر ہوتا تھا۔
وہ چھا جاتا تھا وہ ایک ہمہ جہت فنکار تھا وہ بوجھل چہروں کو بہار کے رنگوں سے رنگ دیتا تھا وہ دنیا میں جہاں جاتا تھا قہقہوں کی آبشار بن جاتا تھا وہ ایک ایسا فنکار تھا جس کا نعم البدل شاید ہی کوئی بن سکے اور یہ بات عمر شریف پر ہر طرح سے صادق آتی ہے جسے ایک شعر میں سمویا گیا ہے:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
اس کے مزاحیہ اسٹیج ڈرامے بعض میگا کاسٹ نئی فلموں سے زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔ عمر شریف اپنی ذات میں بے شمار آرٹسٹوں کا ایک آرٹسٹ تھا۔ بیشتر مزاحیہ فنکار پاکستان اور ہندوستان میں عمر شریف کے جملوں کو استعمال کرکے شہرت حاصل کرتے تھے۔
اس فنکار کا نام بکتا تھا یہ ہندوستان، امریکا اور یورپ جہاں بھی جاتا تھا، لوگ اس کے منتظر رہتے تھے اور اس پر اپنی محبت کے پھول نچھاور کرتے تھے یہ جب کبھی ہندوستان جاتا تھا، بمبئی کی ساری فلم انڈسٹری عمر شریف کی دیوانی ہو جاتی تھی، زی ٹی وی کے ایوارڈ کا فنکشن جس میں عمر شریف کو مدعو کیا گیا تھا وہ ایک یادگار فنکشن تھا اور اس فنکشن کو سارا ہندوستان کبھی نہیں بھول سکے گا۔ صف اول کے تمام ہیروز اور ہیروئنیں موجود تھیں اور سب ہی عمر شریف کے مزاحیہ فقروں پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ عمر شریف کا وہ فنکشن لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں اور اب بھی دل کے بہلانے کو دیکھتے رہتے ہیں۔
میری عمر شریف سے بہت پرانی دوستی تھی، بے تکلفی تھی وہ اپنی شاعری بھی مجھے سناتا تھا اس کی شاعری کے مضامین میں بڑا گہرا فلسفہ موجود ہوتا تھا، بظاہر وہ ایک مزاحیہ فنکار تھا مگر اندر سے وہ بہت ہی درد میں ڈوبا محسوس ہوتا تھا، وہ سماج کی ہر برائی کو بڑے سلیقے سے مزاح کے انداز میں سمو کر سماج کو ایک تازیانے کی صورت میں لوٹا دیتا تھا۔
عمر شریف نے جو کچھ شہرت، عزت اور کامیابی کمائی وہ اسٹیج کے ڈراموں سے کمائی اسٹیج جسے فن کی ماں کہا جاتا ہے۔ عمر شریف نے اسی ماں کی گود سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور پھر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہی بے پناہ عروج حاصل کیا اور شہرت کے آسمان پر چلا گیا تھا۔ عمر شریف نے ٹی وی پر بھی ایسے ایسے کامیاب پروگرام اور شوز کیے کہ کسی اور فنکار کو ٹی وی شو سے اس کے جیسی شہرت نہ مل سکی تھی۔
وہ چارلی چپلن جیسے عظیم اداکار کو اپنا روحانی استاد مانتا تھا، عمر شریف 19 اپریل 1955 میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ گھر میں اس کا نام محمد عمر تھا۔ پھر اس نے مصر کے نامور اداکار عمر شریف سے متاثر ہو کر اپنا نام عمر شریف رکھ لیا تھا۔ ٹیلی وژن کے لیجنڈ اداکار معین اختر نے اس کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔ اس نے اس کو ابتدا میں سہارا دیا اور پھر اس کا لکھا ہوا ایک ڈرامہ ''بایونک سرونٹ'' اسٹیج کیا، جو سپر ہٹ ہوا۔ پھر یکے بعد دیگرے عمر شریف کے سارے ڈرامے ہٹ ہوتے چلے گئے۔
ایک موقع پر بھری محفل میں معین اختر نے یہ بات برملا کہی تھی کہ '' میں خود مزاحیہ آرٹسٹ بن کر آیا تھا مگر عمر شریف نے میرا یہ ٹائٹل مجھ سے چھین لیا ہے۔ اب یہ سب سے بڑا مزاحیہ آرٹسٹ ہے اور اب اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔'' عمر شریف نے اپنے ٹی وی شو میں جتنے فنکاروں یا دیگر شخصیات کے جو انٹرویوز کیے ان کا انداز ہی سب سے الگ اور ہٹ کر ہوا کرتا تھا اور وہ شخصیات اس کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے گھبرا جاتی تھیں۔
عمر شریف نے سو سے زیادہ اسٹیج ڈراموں میں کام کیا اور وہ ڈرامے منفرد انداز سے لکھے بھی۔ ہر ڈرامے میں اسٹیج پر اس کی انٹری اسی طرح تالیوں کی گونج میں ہوتی تھی کہ اسٹیج کے کسی دوسرے آرٹسٹ کو ایسی پذیرائی کبھی نصیب نہ ہو سکی تھی۔ اس کے چند ڈرامے تو کامیڈی کی انتہا پر پہنچ گئے تھے جن میں بکرا قسطوں پر، بڈھا گھر پہ ہے، دلہن میں لے کر جاؤں گا، انگور کھٹے ہیں، بے بی سمجھا کرو۔ ان ڈراموں کے پاکستان ہندوستان میں اتنی تعداد میں کیسٹ بکتے تھے کہ اگر صحیح طور پر اور مغربی ملکوں کی طرح ایمان داری سے رائلٹی دی جاتی تو عمر شریف ارب پتی فنکار ہوتا۔
عمر شریف کو فلم انڈسٹری نے بقول شخصے منتیں کرکے یا یوں کہہ لو ہاتھ جوڑ کر بلایا تھا، اس نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں اپنی شرائط پر فلمیں کی تھیں۔ بہت سے اداکار اور ہدایت کار بھی اس کے ہدایت کار بننے پر اس سے حسد بھی کرنے لگے تھے مگر یہ آگے بڑھتا چلا گیا تھا۔
اس کی قابل ذکر فلموں میں مسٹر 420، میرا انصاف، حساب، کندن، نہلے پہ دہلا، پیداگیر، خاندان، جھوٹے رئیس، چلتی کا نام گاڑی، مس فتنہ، بہروپیا، لاٹ صاحب، نوسرباز، چاند بابو اور مسٹر چارلی کا نام شامل ہے۔ اور چارلی کا کردار جس خوبصورتی سے عمر شریف نے نبھایا وہ شاید ہی کوئی دوسرا اداکار کرسکے گا۔
عمر شریف نے اداکارہ شکیلہ قریشی سے شادی کی پھر اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد کہا تھا کہ یہ میری ایک غلطی تھی جو مجھے نہیں کرنی چاہیے تھی۔ پھر وقت بدلا، حالات بدلے میں اپنے بڑے بیٹے کی شادی کا کارڈ دینے اس کے گھر گیا۔ پھر عمر شریف میرے بیٹے کی شادی کی تقریب میں آیا تھا، اس کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی بھی تھی۔ اس نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا '' یہ تیرے بھائی کی اب بیوی بننے والی ہے۔
اس کو تصویر میں ابھی شامل نہ کرنا، ورنہ وقت سے پہلے یہ راز فاش ہو جائے گا'' اور وہی لڑکی پھر اس کی بیوی بنی اور آخری وقت تک وہ اس کے ساتھ رہی بلکہ وہ ایئر ایمبولینس میں بھی عمر شریف کی بیماری کی حالت میں اس کی تیمار داری اور دیکھ بھال کے لیے موجود تھی۔ میرے بیٹے کی تقریب میں بہت سے اور فنکاروں کے علاوہ اداکار ندیم نے بھی شرکت کی تھی۔عمر شریف کو خدا نے بڑا نوازا تھا۔ عزت بھی خوب دی اور دولت بھی خوب دی، مگر اس کی قسمت میں زیادہ عمر نہیں لکھی تھی۔
وہ جب عروج پر تھا اسے کئی بیماریوں نے گھیر لیا تھا۔ میری آخری بار عمر شریف سے جب وہ امریکا کی مختلف ریاستوں میں فنکشن کی غرض سے آیا تھا، فون پر بات ہوئی تھی، وہ بولا ''ابھی میں ہیوسٹن میں ہوں، جب نیوجرسی آؤں گا تو آپ سے بھی ملاقات ہوگی'' مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ اسی دوران پاکستان سے خبر آئی کہ اس کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے۔
بس پھر وہ اپنے سارے پروگرام چھوڑ کر پاکستان واپس چلا گیا تھا۔ بیٹی کے انتقال نے اس کو بڑا صدمہ پہنچایا تھا پھر یہ مسلسل بیمار رہنے لگا اور اتنا بیمار ہوا کہ حکومت سندھ کو اسے علاج کی غرض سے ایئر ایمبولینس کے ذریعے امریکا کے لیے روانہ کیا گیا مگر اس کا وقت پورا ہو چکا تھا۔
وہ جانبر نہ ہو سکا اور ہوائی سفر کے دوران ہی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔ پھر اس کو کراچی میں ہزاروں اشک بار آنکھوں کے ساتھ عظیم صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں دفن کردیا گیا۔ آہ! عمر شریف آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے اور تجھے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)
وہ چھا جاتا تھا وہ ایک ہمہ جہت فنکار تھا وہ بوجھل چہروں کو بہار کے رنگوں سے رنگ دیتا تھا وہ دنیا میں جہاں جاتا تھا قہقہوں کی آبشار بن جاتا تھا وہ ایک ایسا فنکار تھا جس کا نعم البدل شاید ہی کوئی بن سکے اور یہ بات عمر شریف پر ہر طرح سے صادق آتی ہے جسے ایک شعر میں سمویا گیا ہے:
ڈھونڈو گے اگر ملکوں ملکوں ملنے کے نہیں نایاب ہیں ہم
اس کے مزاحیہ اسٹیج ڈرامے بعض میگا کاسٹ نئی فلموں سے زیادہ پسند کیے جاتے تھے۔ عمر شریف اپنی ذات میں بے شمار آرٹسٹوں کا ایک آرٹسٹ تھا۔ بیشتر مزاحیہ فنکار پاکستان اور ہندوستان میں عمر شریف کے جملوں کو استعمال کرکے شہرت حاصل کرتے تھے۔
اس فنکار کا نام بکتا تھا یہ ہندوستان، امریکا اور یورپ جہاں بھی جاتا تھا، لوگ اس کے منتظر رہتے تھے اور اس پر اپنی محبت کے پھول نچھاور کرتے تھے یہ جب کبھی ہندوستان جاتا تھا، بمبئی کی ساری فلم انڈسٹری عمر شریف کی دیوانی ہو جاتی تھی، زی ٹی وی کے ایوارڈ کا فنکشن جس میں عمر شریف کو مدعو کیا گیا تھا وہ ایک یادگار فنکشن تھا اور اس فنکشن کو سارا ہندوستان کبھی نہیں بھول سکے گا۔ صف اول کے تمام ہیروز اور ہیروئنیں موجود تھیں اور سب ہی عمر شریف کے مزاحیہ فقروں پر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے۔ عمر شریف کا وہ فنکشن لاکھوں لوگ دیکھ چکے ہیں اور اب بھی دل کے بہلانے کو دیکھتے رہتے ہیں۔
میری عمر شریف سے بہت پرانی دوستی تھی، بے تکلفی تھی وہ اپنی شاعری بھی مجھے سناتا تھا اس کی شاعری کے مضامین میں بڑا گہرا فلسفہ موجود ہوتا تھا، بظاہر وہ ایک مزاحیہ فنکار تھا مگر اندر سے وہ بہت ہی درد میں ڈوبا محسوس ہوتا تھا، وہ سماج کی ہر برائی کو بڑے سلیقے سے مزاح کے انداز میں سمو کر سماج کو ایک تازیانے کی صورت میں لوٹا دیتا تھا۔
عمر شریف نے جو کچھ شہرت، عزت اور کامیابی کمائی وہ اسٹیج کے ڈراموں سے کمائی اسٹیج جسے فن کی ماں کہا جاتا ہے۔ عمر شریف نے اسی ماں کی گود سے اپنے فنی سفر کا آغاز کیا تھا اور پھر اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر ہی بے پناہ عروج حاصل کیا اور شہرت کے آسمان پر چلا گیا تھا۔ عمر شریف نے ٹی وی پر بھی ایسے ایسے کامیاب پروگرام اور شوز کیے کہ کسی اور فنکار کو ٹی وی شو سے اس کے جیسی شہرت نہ مل سکی تھی۔
وہ چارلی چپلن جیسے عظیم اداکار کو اپنا روحانی استاد مانتا تھا، عمر شریف 19 اپریل 1955 میں کراچی کے علاقے لیاقت آباد میں ایک انتہائی غریب گھرانے میں پیدا ہوا۔ گھر میں اس کا نام محمد عمر تھا۔ پھر اس نے مصر کے نامور اداکار عمر شریف سے متاثر ہو کر اپنا نام عمر شریف رکھ لیا تھا۔ ٹیلی وژن کے لیجنڈ اداکار معین اختر نے اس کی صلاحیتوں کو بھانپ لیا تھا۔ اس نے اس کو ابتدا میں سہارا دیا اور پھر اس کا لکھا ہوا ایک ڈرامہ ''بایونک سرونٹ'' اسٹیج کیا، جو سپر ہٹ ہوا۔ پھر یکے بعد دیگرے عمر شریف کے سارے ڈرامے ہٹ ہوتے چلے گئے۔
ایک موقع پر بھری محفل میں معین اختر نے یہ بات برملا کہی تھی کہ '' میں خود مزاحیہ آرٹسٹ بن کر آیا تھا مگر عمر شریف نے میرا یہ ٹائٹل مجھ سے چھین لیا ہے۔ اب یہ سب سے بڑا مزاحیہ آرٹسٹ ہے اور اب اس کا مقابلہ کوئی نہیں کرسکتا۔'' عمر شریف نے اپنے ٹی وی شو میں جتنے فنکاروں یا دیگر شخصیات کے جو انٹرویوز کیے ان کا انداز ہی سب سے الگ اور ہٹ کر ہوا کرتا تھا اور وہ شخصیات اس کے سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے گھبرا جاتی تھیں۔
عمر شریف نے سو سے زیادہ اسٹیج ڈراموں میں کام کیا اور وہ ڈرامے منفرد انداز سے لکھے بھی۔ ہر ڈرامے میں اسٹیج پر اس کی انٹری اسی طرح تالیوں کی گونج میں ہوتی تھی کہ اسٹیج کے کسی دوسرے آرٹسٹ کو ایسی پذیرائی کبھی نصیب نہ ہو سکی تھی۔ اس کے چند ڈرامے تو کامیڈی کی انتہا پر پہنچ گئے تھے جن میں بکرا قسطوں پر، بڈھا گھر پہ ہے، دلہن میں لے کر جاؤں گا، انگور کھٹے ہیں، بے بی سمجھا کرو۔ ان ڈراموں کے پاکستان ہندوستان میں اتنی تعداد میں کیسٹ بکتے تھے کہ اگر صحیح طور پر اور مغربی ملکوں کی طرح ایمان داری سے رائلٹی دی جاتی تو عمر شریف ارب پتی فنکار ہوتا۔
عمر شریف کو فلم انڈسٹری نے بقول شخصے منتیں کرکے یا یوں کہہ لو ہاتھ جوڑ کر بلایا تھا، اس نے لاہور کی فلم انڈسٹری میں اپنی شرائط پر فلمیں کی تھیں۔ بہت سے اداکار اور ہدایت کار بھی اس کے ہدایت کار بننے پر اس سے حسد بھی کرنے لگے تھے مگر یہ آگے بڑھتا چلا گیا تھا۔
اس کی قابل ذکر فلموں میں مسٹر 420، میرا انصاف، حساب، کندن، نہلے پہ دہلا، پیداگیر، خاندان، جھوٹے رئیس، چلتی کا نام گاڑی، مس فتنہ، بہروپیا، لاٹ صاحب، نوسرباز، چاند بابو اور مسٹر چارلی کا نام شامل ہے۔ اور چارلی کا کردار جس خوبصورتی سے عمر شریف نے نبھایا وہ شاید ہی کوئی دوسرا اداکار کرسکے گا۔
عمر شریف نے اداکارہ شکیلہ قریشی سے شادی کی پھر اس سے علیحدگی اختیار کرنے کے بعد کہا تھا کہ یہ میری ایک غلطی تھی جو مجھے نہیں کرنی چاہیے تھی۔ پھر وقت بدلا، حالات بدلے میں اپنے بڑے بیٹے کی شادی کا کارڈ دینے اس کے گھر گیا۔ پھر عمر شریف میرے بیٹے کی شادی کی تقریب میں آیا تھا، اس کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی بھی تھی۔ اس نے میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا '' یہ تیرے بھائی کی اب بیوی بننے والی ہے۔
اس کو تصویر میں ابھی شامل نہ کرنا، ورنہ وقت سے پہلے یہ راز فاش ہو جائے گا'' اور وہی لڑکی پھر اس کی بیوی بنی اور آخری وقت تک وہ اس کے ساتھ رہی بلکہ وہ ایئر ایمبولینس میں بھی عمر شریف کی بیماری کی حالت میں اس کی تیمار داری اور دیکھ بھال کے لیے موجود تھی۔ میرے بیٹے کی تقریب میں بہت سے اور فنکاروں کے علاوہ اداکار ندیم نے بھی شرکت کی تھی۔عمر شریف کو خدا نے بڑا نوازا تھا۔ عزت بھی خوب دی اور دولت بھی خوب دی، مگر اس کی قسمت میں زیادہ عمر نہیں لکھی تھی۔
وہ جب عروج پر تھا اسے کئی بیماریوں نے گھیر لیا تھا۔ میری آخری بار عمر شریف سے جب وہ امریکا کی مختلف ریاستوں میں فنکشن کی غرض سے آیا تھا، فون پر بات ہوئی تھی، وہ بولا ''ابھی میں ہیوسٹن میں ہوں، جب نیوجرسی آؤں گا تو آپ سے بھی ملاقات ہوگی'' مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا۔ اسی دوران پاکستان سے خبر آئی کہ اس کی بیٹی کا انتقال ہو گیا ہے۔
بس پھر وہ اپنے سارے پروگرام چھوڑ کر پاکستان واپس چلا گیا تھا۔ بیٹی کے انتقال نے اس کو بڑا صدمہ پہنچایا تھا پھر یہ مسلسل بیمار رہنے لگا اور اتنا بیمار ہوا کہ حکومت سندھ کو اسے علاج کی غرض سے ایئر ایمبولینس کے ذریعے امریکا کے لیے روانہ کیا گیا مگر اس کا وقت پورا ہو چکا تھا۔
وہ جانبر نہ ہو سکا اور ہوائی سفر کے دوران ہی وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا تھا۔ پھر اس کو کراچی میں ہزاروں اشک بار آنکھوں کے ساتھ عظیم صوفی بزرگ عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار کے احاطے میں دفن کردیا گیا۔ آہ! عمر شریف آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے اور تجھے اپنے جوار رحمت میں جگہ دے۔ (آمین)