بینائی کے مریضوں کی تعداد میں پاکستان دنیا کا ساتواں بڑا ملک ہے
2کروڑ 63 لاکھ پاکستانی آنکھوں کے مسائل کے ساتھ جی رہے ہیں، 22کروڑ کی آبادی کیلئے صرف 2800 ماہرین امراض چشم موجود ہیں
''جب مشنری افریقہ آئے تو ان کے پاس بائبل تھی اور ہمارے پاس زمین تھی۔ انہوں نے کہا چلوعبادت کریں۔ ہم نے آنکھیں بند کر لیں۔ جب ہم نے انہیں کھولا تو ہمارے پاس بائبل تھی اور ان کے پاس زمین ''۔یہ کہنا ہے نوبل انعام یافتہ ڈیسمنڈ ٹوٹو کا جو جنوبی افریقہ کے شہر کیپ ٹاؤن کے پہلے سیاہ فام انگلیکن آرچ بشپ تھے۔
اُن کے اس مقولہ میں آنکھ اعتبار کرنے اور حقیقت کے ادراک سے عبارت ہے۔ یعنی لفظ آنکھ صرف دیکھنے کے عمل سے ہی تعبیر نہیںہوتی بلکہ اس کا استعمال اپنے مفہومی اعتبار سے بھی کافی وسیع ہے۔ لیکن ہم آج یہاں اس کے مفہومی یا استعارہ ًاستعمال پر بات نہیں کریں گے بلکہ بات ہوگی آنکھ کے اصل استعمال کی جس کے لیے اُسے بنایا گیا یعنی بینائی کی۔جس کا ہرسال اکتوبر کی دوسری جمعرات کو دنیا بھرمیں عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اِمسال یہ دن 13 اکتوبر کو منایا گیا۔
بینائی جو ہمارے حواس پر سب سے زیادہ غالب ہے۔ ہم جو کچھ سیکھتے ہیں اس کا 80 فیصد آنکھوں کے ذریعے ہمارے دماغ تک پہنچتا ہے۔ہماری زندگی کے ہر پہلو اور مرحلے میں یہ اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہم بصارت کو معمولی سمجھتے ہیں لیکن اسکے بغیر، ہمیں چلنے ،سیکھنے، پڑھنے،کھیلنے ،کام کرنے اور دیگر امور زندگی کی انجام دہی میںشدید دشواری کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
یہ بینائی ہی ہے جس کی وجہ سے آپ یہ آرٹیکل خود پڑھنے کے قابل ہیں۔ انسانی جسم میں 5پانچ حواس خمسہ ہیں بصارت، لمس، سماعت، ذائقہ اور سونگھنا۔ان سب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن بینائی سب پر مقدم ہے۔ کیونکہ جب بات کسی معذوری کے ساتھ مکمل یا عارضی زندگی گزارنے کی ہو تو ایسی صورت میں بھی ہماری آنکھیں اور بصارت ہمارا بہترین اثاثہ ہیں۔ مثلاًکسی ایسے شخص کے لئے جسے سننے میں مشکل ہے یا بولنے سے وہ قاصر ہے۔یہ بینائی ہی ہے جس پر وہ روزمرہ کے کاموں کو پورا کرنے کے لیے انحصار کرتا ہے۔
کیونکہ اشاروں کی زبان کے ذریعے بات چیت کرنے کے لیے آپ کی آنکھوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرا شخص کیا اشارے کر رہا ہے۔اس قسم کی معذوری کے ساتھ رہنے والے لوگ ہونٹ پڑھنے کی غیر معمولی مہارت کو بھی اپنا لیتے ہیںاور اسے سمجھنے کے لیے بینائی سے بہتر اور کونسی حس ہوگی؟۔ ہماری آنکھیںہمیں خطرے سے دور رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں خاص طور پر جب ہمارے دوسرے حواس ناکارہ ہوں۔
اگر آپ کار کا ہارن، الارم کی آواز، یا لوگوں کی چیخیں سننے سے قاصر ہیں تو ہماری نظریں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہوتی ہیں کہ اچانک ہمیں کوئی خطرہ درپیش آسکتا ہے۔ ہماری آنکھیں اس بات کا فیصلہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں کہ آپ جس چیز کا استعمال کرنے والے ہیں اس کا ذائقہ اچھا ہے یا نہیں۔ ذائقہ کو کافی کمزور احساس سمجھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جسم بھی یہ فیصلہ کرنے کے لیے نظر پر انحصار کرتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں آپ کی پسند کی ہیں یا نہیں۔ اور ایسا کھانے کی پیش کش یا اُس کے رنگ کی پہچان سے حاصل ہوتا ہے۔اوسطاً انسانی آنکھ70 لاکھ رنگوں کو دیکھ سکتی ہے جو اس بات کا فیصلہ کرنے میں کام آتی ہے کہ آیا کوئی چیز خوشگوار ہے کیونکہ ہم قدرتی طور پر رنگوں کو ذائقے کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔
مثال کے طور پرسرخ رنگ کو تمام رنگوں میں سب سے میٹھا سمجھا جاتا ہے اور آپ کی بینائی بعض اوقات آپ کے اصل ذائقہ محسوس کرنے کی صلاحیت پر غالب آجاتی ہے۔ بینائی انسانی جسم کا سب سے اہم احساس ہے کیونکہ آنکھ کی بینائی کے بغیر انسان ہمیشہ اسرار میں زندہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ نہیں جانتا ہو گاکہ اُس کے آس پاس کے لوگ کیسا نظر آتے ہیں۔ ماحول کیسا نظر آتا ہے اور شاید سب سے اہم کہ وہ خودکیسا نظر آتا ہے۔
آنکھیں زندگی کے ہر موڑ پر اہم کردار ادا کرتی ہیںیہ ہمارے اعمال اور طرز زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیتی ہے۔ذرا ایک لمحہ کسی بینا اور نابینا شخص کا موازناتی تصور کریں۔ جو پہلی چیز آپ محسوس کریں گے وہ یہ کہ نابینا فرد اپنے تمام افعال کے لیے دوسروں پر انحصار ( dependent )کرتاہے۔ جبکہ بینا فرد خود انحصار (self-dependent) ہوتا ہے۔اسی طرح نابینا فرد کا طرز زندگی بینا فرد کے مقابلہ میں کافی مختلف ہوتا ہے۔ہم سب نے سنا ہے کہ آنکھ روح کی کھڑکی ہے لیکن یہ ہماری صحت کی کھڑکی بھی ہے۔
درحقیقت ڈاکٹر اب آنکھوں کا معائنہ کر کے دیگر جسمانی بیماریوں کی تشخیص بھی کر سکتے ہیں۔ چونکہ انسانی جسم میں آنکھ ہی واحد جگہ ہے جہاں عصبی بافتوں اور خون کی نالیوں کو براہ راست دیکھا جا سکتا ہے۔اس لیے آنکھ کے معائنہ سے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، انفیکشنز اور یہاں تک کہ قوت مدافعت کے قدرتی طرز عمل میں تبدیلی کی بیماری کا بھی پتہ چل سکتا ہے۔
بصارت کی خرابی اس وقت ہوتی ہے جب آنکھ کی حالت بصری نظام اور اس کے ایک یا زیادہ بینائی کے افعال کو متاثر کرے۔ بصارت کی خرابی کسی کو تمام عمر کے لیے سنگین نتائج میں مبتلا کرسکتی ہے۔آنکھوں کی حالت کو درپیش خطرے کے عوامل اور اس کی وجوہات میں عمر بڑھنے، جینیات، طرز زندگی و رویے، انفیکشن اور صحت کی مختلف حالتیں شامل ہیں۔
تاہم ان میں سے بہت سے خطرات کو آنکھوں کی معیاری دیکھ بھال اور بحالی تک بروقت رسائی کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی بینائی کو پہنچنے والے تمام نقصانات کے 90 فیصد کو روکا جاسکتا ہے یعنی وہ قابل علاج ہیں۔اس کے علاوہ آنکھوں کی بہتر صحت کے لیے چند مخصوص غذائیں اور ورزشیں تیر بہ ہدف کا کام کرتی ہیں۔
ماہر امراض چشم ڈاکٹر ریحان معین الدین شیخ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ '' خوراک اور صحت مند طرز عمل آپ کی آنکھوں کی صحت کو قائم رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں جس سے آنکھوں کی اچھی صحت کو زیادہ دیر تک برقرار رکھا جاسکتا ہے اور آنکھوں کی صحت کے مسائل کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔
بعض غذائی اجزاء مثلاً زنک، کاپر، وٹامن سی، وٹامن ای، اور بیٹا کیروٹین آنکھوں کی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیںاور آنکھوں کی بیماری کے بڑھنے کی رفتارکو سست کرنے معاون ہیں۔ امریکن آپٹومیٹرک ایسوسی ایشن (AOA) اور امریکن اکیڈمی آف اوپتھلمولوجی (AAO) جیسی تنظیمیں آنکھوں کی صحت کے لیے جن نمایاں غذائوں کی سفارش کرتی رہتی ہیں۔ان میں شامل ہے مچھلی۔بہت سی مچھلیاں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کے بھرپور ذرائع ہیں۔
جن میں ٹونا، سامن، ٹراؤٹ، ایک طرح کی سرمئی مچھلی(mackerel)، پلا کی طرح کی ایک سمندری مچھلی (sardines) ، ایک چھوٹی مچھلی(anchovies) اورherring نمایاں ہیں۔ گری دار میوے اور پھلیاں:گری دار میوے اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔
گری دار میوے میں وٹامن ای کی اعلیٰ سطح بھی ہوتی ہے جو آنکھوں کو بڑھتی عمر سے ہونے والے نقصان سے بچا سکتی ہے۔ایسے میوئوں میں شامل ہیں اخروٹ، جوزبرازیل ، کاجو، مونگ پھلی اوردالیں۔ بیج:گری دار میوے اور پھلیاں کی طرح بیجوں میں اومیگا 3 کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور یہ وٹامن ای کا بھرپور ذریعہ ہیں۔ چیا کے بیج، السی کے بیج، بھنگ کے بیج اس حوالے سے نمایاں ہیں۔ ترشاوہ پھل: ترشاوہ پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ وٹامن ای کی طرح وٹامن سی ایک اینٹی آکسیڈینٹ ہے ۔ ان پھلوں میں شامل ہے ۔
لیموں، سنگترہ، مالٹا، مسمی، فروٹراور چکوترا۔پتوں والی ہری سبزیاں:پتوں والی ہری سبزیاں لیوٹین اور زیسینتھین دونوں سے بھرپور ہوتی ہیں اور آنکھوں کے لیے وٹامن سی کا ایک اچھا ذریعہ بھی ہیں۔معروف پتوں والی سبزیاںمیںشامل ہیں۔ پالک، گوبھی، بند گوبھی کی ایک قسم کرم کلہ اور شاخ گوبھی(broccoli) اس کے علاوہ خاص چیز گاجر۔گاجر وٹامن اے اور بیٹا کیروٹین دونوں سے بھرپور ہوتی ہے۔
بیٹا کیروٹین گاجر کو نارنجی رنگ دیتا ہے۔وٹامن اے پر مبنی ماخذ بصارت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ روڈوپسین نامی پروٹین کا ایک جزو ہے جو ریٹنا کو روشنی جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔شکر قندی: گاجر کی طرح شکرقندی بھی بیٹا کیروٹین سے بھرپور ہوتی ہے۔
یہ اینٹی آکسیڈینٹ وٹامن ای کا ایک اچھا ذریعہ بھی ہیں۔گائے کا گوشت:گائے کا گوشت زنک سے بھرپور ہوتا ہے جو آنکھوں کی بہتر طویل مدتی صحت سے منسلک ہے۔ زنک عمر سے متعلقہ بینائی کی کمی کی تاخیر میں مدد کر سکتا ہے۔آنکھ میں زنک کی اچھی سطح ہوتی ہے۔خاص طور پر ریٹنا میں اوراس کے ارد گرد ٹشوز میں۔چکن کے سینہ کے گوشت میں بھی زنک ہوتا ہے لیکن یہ گائے کے گوشت کے مقابلے میں کم مقدار کا حامل ہوتا ہے۔
انڈے: انڈے lutein اور zeaxanthin کاایک بہترین ذریعہ ہیںجو بڑھتی عمر سے متعلق بینائی سے محرومی کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔ انڈا وٹامن سی، ای اور زنک کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔پانی:یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ زندگی کے لیے ضروری سیال آنکھ کی صحت کے لیے بھی ضروری ہے۔کافی مقدار میں پانی پینا پانی کی کمی کو روک سکتا ہے جو خشک آنکھوں کی علامات کو کم کر سکتا ہے''۔جسمانی ورزش اور آنکھوں کی ورزش صحت مند بینائی میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ریحان معین الدین شیخ کا کہنا ہے کہ '' جسمانی ورزش اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے صحت مند وزن کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ زیادہ وزن یا موٹاپا ہونے سے آپ کو ذیابیطس ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ذیابیطس ہونے سے آپ کو آنکھوں کے امراض ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔اس لیے باقاعدگی سے ورزش کریں۔ ورزش ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، اور ہائی کولیسٹرول کو روکنے یا کنٹرول کرنے میں مدد کر تی ہے۔
یہ بیماریاں آنکھوں یا بینائی کے کچھ مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔ لہذا اگر آپ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں تو آپ آنکھوں اور بینائی کے مسائل میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کر سکتے ہیں۔اسی طرح آنکھوں کی ورزش آپ کی آنکھوں کے پٹھوں کی لچک کو بڑھا دیتی ہے اور آپ کی بینائی کو بہتربناتی ہے۔
آپ کی آنکھوں کے لیے ورزش اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کر سکتی ہے کہ دونوں آنکھیں مؤثر طریقے سے کام کریں۔ ایسی عام علامات جن میں آنکھوں کو مضبوط کرنے والی مشقیں مفید ہو سکتی ہیں۔ ان میں پڑھتے وقت لائنوں یا الفاظ کو چھوڑنا، ایک آنکھ کا بند ہونا، آنکھوں میں درد اور سر درد شامل ہیں۔
ویژن تھراپی آنکھوں کا بھینگا پن (strabismus) ،ایک آنکھ کی بینائی کا کمزور رہ جانا (amblyopia)،آنکھوں کو تیزی سے ایک چیز سے دوسری چیز پر فوکس کرنا (saccadic dysfunction) اوردونوں آنکھوں کا اکٹھے ایک مرکز پر فوکس کرنا (convergence insufficiency) کے مسائل کو حل کرسکتی ہے۔آنکھوں کے پٹھوں کی کچھ مشقیں ہیں جو گھر پر کی جا سکتی ہیں۔
سب سے پہلے آپ اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کی مدد سے آنکھوں کو سکون فراہم کرسکتے ہیں اس کو ہم ''پامنگ'' کہتے ہیں۔یہ آنکھوں کی ایک یوگک ورزش ہے جو آنکھوں کے ارد گرد کے پٹھوں کو آرام دینے، آنکھوں کی تھکاوٹ کو کم کرنے میں معاونت کرتی ہے۔
آپ اپنی ہتھیلی کو گرم کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو ایک ساتھ رگڑ یں۔ جب آپ محسوس کریں کہ آپ کی ہتھیلیاں گرم ہوگی ہیں تو انھیں اپنی آنکھوں پر رکھ لیں اور گہرا سانس لیں۔پلک جھپکنا: اپنی پلکیں زیادہ کثرت سے جھپکائیں۔ ٹی وی اسکرین کو مسلسل دیکھنے اور کمپیوٹر کے طویل استعمال سے آنکھیں خشک ہوجاتی ہیں اور خشک آنکھیں سر درد، آنکھوں میں تناؤ اور دھندلا پن کا باعث بنتی ہیں۔
جب آنکھیں اسکرین میں جذب ہوجاتی ہیں تو پلک جھپکنے کی شرح 20bpm سے 8-6bpmتک گر جاتی ہے۔ لہذا اگلی بار جب آپ تناؤ محسوس کریں تو پلکیں جھپکنا شروع کریںایسا کرنا آپ کے دماغ کو تروتازہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے بصری ڈیٹا کو زیادہ موثر طریقے سے پروسیس کرنے کے لیے آنکھوں کو چکنا کر دے گا۔ پلک جھپکنے کی مشق میں آنکھیں بند کرنا دو سیکنڈ کے لیے رکنا پھر انہیں دوبارہ کھولنا شامل ہو سکتا ہے۔
پنسل پش اپس:یہ بھی آنکھوں کی ایک ورزش ہے جس میں ایک پنسل کو ناک کی سیدھ میں سامنے کی جانب پورا بازو دراز کرکے پکڑا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد پنسل کو آہستہ آہستہ ناک کی طرف لایا جاتا ہے۔ ورزش کرنے والا پنسل کی نوک پر اپنی نظر کو فوکس کرتا ہے۔ جب پنسل آنکھ سے قریب تر ہوتے ہوئے ڈبل امیج کے طور پر ظاہر ہونے لگے تو پنسل کو دوبارہ ناک سے دور کرلیا جاتا ہے اور یہ عمل دوبارہ دوہرایا جاتا ہے۔
قریب اور دورکا فوکس: قریب اور دور کا فوکس آپ کے فوکسنگ سسٹم کو مناسب طریقے سے متحرک اور آرام دینے میں مدد کرتا ہے۔اس کے لیے اپنے انگوٹھے کو اپنے چہرے سے 10 انچ دور رکھ کر 15 سیکنڈ تک اس پر فوکس کریں۔
پندرہ سیکنڈ کے بعداپنی نگاہیں 20 فٹ (6 میٹر) دور ہدف کی طرف موڑیں اور15 سیکنڈ کے لیے اپنی توجہ دور کے ہدف پر مرکوز رکھیں۔ اس کے بعد دوبارہ اپنے انگوٹھے پرفوکس کریں اور 15 سیکنڈ بعد دور کی کسی چیز پر فوکس کریںاور کئی بار یہ عمل دہرائیں۔آٹھ کی شکل: آنکھوں سے کسی چیز کا سراغ لگانا کچھ لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی بھی 8 کے ہندسہ کی مشق کر سکتا ہے۔
اس کے لیے آپ اپنے سے 10 فٹ دور فرش پر ایک نقطہ چنیں۔ اپنی آنکھوں سے اس میں ایک خیالی شکل کا آٹھ کی تلاش کریں یہ عمل 30 سیکنڈ تک جاری رکھیںاس کے بعد سمت تبدیل کرلیں۔20,20,20 :جب ہم اپنی آنکھوں کو قریب کے کام کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہمارا فوکس کرنے کا نظام تھکاوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ ہماری آنکھیں بھی خشک ہو سکتی ہیں۔ باقاعدگی سے وقفے کرنے سے اس تناؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ٹی وی اور کمپیوٹر اسکرین چونکہ بصری میڈیم ہے اور ہمارے جسم کے جس عضو کا اس سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے وہ آنکھیں ہیں۔ہم جس انداز سے اور جتنا زیادہ ٹی وی یا کمپیوٹر کی اسکرین کو دیکھتے ہیں اس سے ہماری آنکھوں کے متاثر ہونے کا قوی امکان رہتا ہے۔
دنیا بھر میں آنکھوں کے ماہرین ٹی وی اور کسی بھی اسکرین کو دیکھنے کے حوالے سے 20,20,20 کا ایک قاعدہ تجویز کرتے ہیں کہ ہر 20 منٹ کوئی اسکرین دیکھنے کے بعد 20 سیکنڈ تک 20 فٹ دور کسی چیز کو غور سے دیکھا جائے۔اس سے آپ کی آنکھ کو نزدیک اور دور کی چیزیں فوکس کرنے میں دشواری نہیں ہو گی اور اُس کی ورزش ہوتی رہے گی اور آنکھوں کو وقفہ بھی ملے گا۔اگر آپ کو لگتا ہے کہ ٹی وی یا کوئی اور اسکرین دیکھنے سے آنکھوں پر دباؤ آرہا ہے تو آنکھ کی انگلیوں کے پوروں کی مدد سے آہستہ سے مالش کریں یا کپڑے کو گرم پانی سے گیلا کرنے کے بعد اسے نچوڑیں اور آنکھوں پر لگا کر ہلکی ٹکور کریں۔
ٹی وی اور کمپیوٹر دیکھتے وقت زیادہ سے زیادہ پانی پیئیں۔ایسا کرنے سے آپ کو بار بار ٹوائلٹ جانا پڑے گا جس سے آپ کی آنکھوں کو بھی وقفہ ملے گا اور جسم کو حرکت بھی۔ آنکھوں کوگھمائیں:اپنی آنکھوں کو دائیں طرف گھمائیں اور پھر آہستہ آہستہ اپنی نظریں بائیں طرف موڑیں۔پھریہی کام مخالف سمتوں میں کریں یعنی بائیں سے دائیں جانب اور پھر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی جانب اپنی نگاہیں گھمائیں''۔
آنکھوں کی بہتر حفاظت کس طرح کی جائے ؟ اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ''سب سے ضروری اور اہم بات وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کو آنکھوں کی صحت کا مسئلہ ہے تو ہمیشہ ڈاکٹر سے ملیں۔ اپنی آنکھوں کو آرام دینے اور ٹی وی دیکھنے کے بعددوبارہ نارمل کرنے کے لیے رات میں کم ازکم 8 گھنٹے کی نیند حاصل کریں۔اس کے علاوہ اپنے روایتی ٹی وی کو ایک فلیٹ اسکرین ٹی وی میں اپ گریڈ کریں جو کم چکاچوند دیتا ہے۔
اسی طرح بڑی سکرین والے ٹی وی کا انتخاب بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس پر آپ کی آنکھوں کو توجہ دینے کے لئے زیادہ زور نہیں دینا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ آنکھوں کے لیے موافق ماحول بنائیںیعنی دھوپ کا چشمہ پہنیں۔ سورج کی روشنی آپ کی آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔
آنکھوں کو چوٹوں سے بچنے کے لیے بڑے شیشوں والی حفاظتی عینک کا استعمال کر یں کیونکہ آپ کو بعض کھیلوں کو کھیلنے، فیکٹری کے کام اور تعمیراتی کاموں کوکرتے وقت آنکھوں کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔تمباکو نوشی سے پرہیز کریں۔ کیونکہ تمباکو نوشی سے بڑھتی عمر سے متعلقہ آنکھوں کی بیماریوں اور موتیا ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے اور آپٹک اعصاب کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔تمباکو نوشی اندھے پن کا باعث بن سکتی ہے اور آپ کی آنکھوں کے لیے فائدہ مند اینٹی آکسیڈنٹس کی تعداد کو کم کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ اپنی فیملی میڈیکل ہسٹری جانیں۔
آنکھوں کی کچھ بیماریاں وراثت میں ملتی ہیں اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا آپ کے خاندان میں کسی کو یہ بیماری ہوئی ہے یا نہیں۔ اس سے آپ کو یہ تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا آپ کو آنکھوں کی بیماری ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔اپنے دوسرے خطرے کے عوامل کو جانیں۔
جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھتی ہے آپ کو عمر سے متعلقہ آنکھوں کی بیماریوں اور حالات پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اپنے خطرے کے عوامل کو جاننا ضروری ہے کیونکہ آپ اپنے طرز عمل کو تبدیل کر کے خطرے کو کم کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں''۔
تقریباً ہر ایک کو اپنی زندگی کے دوران آنکھوں کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن اس کے باوجودآج بھی کروڑوں لوگ بصارت کی کمزوری یا اندھے پن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیںاس کمزوری اور معذوری کو روکا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیںہے کیونکہ انہیں آنکھوں کی دیکھ بھال کی بنیادی خدمات تک رسائی نہیں ہے۔
نابینا پن کے روک تھام کی بین الاقوامی ایجنسی ( آئی اے پی بی) (The International Agency for the Prevention of Blindness) کے وژن اٹلس 2020 کے مطابق ''دنیا میں1106 ملین افراد بینائی کی خرابی (جس میں اندھاپن بھی شامل ہے) کا شکار ہیں''۔جبکہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی ورلڈ رپورٹ آن وژن2019 کے مطابق'' دنیا میں2.2 ارب افراد بینائی کی خرابی یا نابینا پن کا شکار ہیں''۔بینائی کی خرابی سے عالمی معیشت کو سالانہ 411 بلین ڈالر کے پیداواری نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دنیا کے نابینا افراد کی اکثریت ترقی پذیر ممالک میں رہتی ہے۔
جہاں غذائیت کی کمی، صحت اور تعلیم کی ناکافی خدمات، پانی کا ناقص معیاراور صفائی ستھرائی کی کمی یہ سب آنکھوں کی بیماریوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنکھ کا علاج ایک مہنگا عمل ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔The Fred Hollows Foundation (USA)کے مطابق ترقی پذیر دنیا میںفی شخص فی سال$AU 2.20 اخراجات سے ایسے نابینا پن جس کا علاج ممکن ہے سے بچا جا سکتا ہے۔
عالمی سطح پربصارت کی خرابی کی اہم وجوہات میں غیر درست شدہ اضطراری خرابیاں(uncorrected refractive errors) اضطراری خرابی اس وقت ہوتی ہے جب آنکھ تصویروں پر واضح طور پر توجہ نہیں دے پاتی جس کے نتیجے میں بینائی دھندلی ہوتی ہے۔
موتیا(cataract)۔ عمر کے ساتھ ساتھ قرنیہ کے سفیدحصہ میں انحطاط(age-related macular degeneration)۔کالا موتیا(glaucoma) آنکھوں کی ایک بیماری جو آپٹک اعصاب کو نقصان پہنچاتی ہے اور بصارت کو متاثر کرتی ہے۔ ذیابیطس ریٹینوپیتھی(diabetic retinopathy) پردہئِ بصارت پہ ذیابیطیسی اثرات، قرنیہ کا دھندلاپن(corneal opacity) اورٹروکوما(Trachoma)آنکھ کی ایک بیماری جس میں پیوٹے کے اندر دانے نکلتے ہیں، شامل ہیں۔
پاکستان بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح بصارتی امراض کا شکار ملک ہے جہاں بینائی سے متاثرہ افراد کی ساتویں بڑی تعداد رہائش پزیر ہے۔ ملک کی 11.8 فیصد آبادی بصارت کے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ نابینا پن کے روک تھام کی بین الاقوامی ایجنسی( آئی اے پی بی) کے وژن اٹلس 2020 کے مطابق پاکستان کے 26.3 ملین افرادخراب بینائی کے ساتھ جی رہے ہیں۔
اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق دنیا کے2.4 فیصد اور جنوب ایشیا کے 7.8 فیصد بینائی کے مسائل میں مبتلا افراد پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ملک میں 1990 سے2020 کے دوران بینائی کے مسائل کی حامل آبادی میں96 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی وزارت صحت نے عالمی ادار ہ صحت کے ساتھ مل کر 1989-90 اور-04 2003 میں دو قومی نابینا سروے کیے ۔
جن کے نتائج کی روشنی میں نابینا پن کی روک تھام کے لیے قومی کمیٹی کی تشکیل دی گئی جو 2008 میں نیشنل آئی ہیلتھ کمیٹی بن گئی۔ یہ کمیٹی کتنی فعال ہے اس کا اندازہ آپ کوکمیٹی کی ویب سائٹ پر جانے کے بعد باخوبی ہوجائے گا۔اس کے علاوہ ملک میں آنکھوں کے علاج معالجے کی سہولیات کو جو منظر نامہ وژن اٹلس 2020 کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اس کے مطابق آنکھوں کی تمام بیماریوں کی تشخیص، علاج اور سرجری کرنے والے ماہر ڈاکٹرز (ophthalmologists) کی تعدادپاکستان میں صرف 2800 ہے اور آبادی 22 کروڑ سے زائد۔ اسی طرح آپٹومیٹرسٹ (optometrists)جو ایک ہیلتھ پروفیشنل ہے جسے آنکھوں اور بصری نظام کی بیماریوں اور خرابیوں کی جانچ، تشخیص، علاج اور روک تھام کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔
ان کی تعداد محض 1020 ہے۔لیکن ہمارے یہ مٹھی بھر امراض چشم کے ماہر ڈاکٹرز سالانہ موتیا کے 5 لاکھ آپریشنز کرتے ہیں اور پاکستان ان آپریشنز کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں ساتویںنمبر پر ہے۔جبکہ ملک میں موتیا کی مؤثر جراحی کوریج (Effective cataract surgical coverage)71.3 فیصد ہے۔
ڈاکٹر شمشاد علی جو سروسز ہسپتال لاہور کے شعبہ امراضِ چشم میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں پاکستان میں آنکھ کے امراض کی صورتحال کی تفصیل بتاتے ہیں کہ '' پاکستان 23 کروڑ آبادی کا ایک بڑا ملک ہے جس کی صفر عشاریہ سات آٹھ فیصد (0.78%) آبادی نابینا ہے جبکہ امریکہ میں یہ تناسب صفر عشاریہ ایک نو فیصد(0.19%)ہے ۔وطنِ عزیز کی3.76 فیصد آبادی کی بینائی اس قدر متاثر ہے کہ وہ اپنے روزمرہ کے معمولات ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
4.08 فیصد آبادی گلوبل بلائنڈنس کے زمرے میں آتی ہے(ایسا شخص جو کسی لفظ کی بھی شناخت نہیں کرسکتا ہو)۔ 2014 میں پاکستان میں سفید موتیے کی سرجری کی شرح 2819 افراد فی ملین آبادی تھی ۔جبکہ امریکہ میں فی ملین آبادی کے لیے سی ایس آر11000 ہے ۔عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کے لیے فی ملین آبادی تین ہزار آپریشن کا ہدف دیا تھا ۔پاکستان میں سفید موتیا کے آپریشن کا ہدف 86 فیصد تھا جبکہ صرف 71.3 فیصد حاصل ہورہا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں فی ملین آبادی کے لئے صرف 11ماہر امراض چشم موجود ہیں جبکہoptometrists صرف 4.6 فی ملین ہیں۔ اس حساب سے پاکستان میں امراضِ چشم کے علاج میں وسائل بہت محدود ہیں۔ دوسری طرف زیادہ تر آئی کیئر سروسز صرف شہری علاقوں میں ہی میسر ہیں جبکہ دو ردراز کے دیہی علاقوں کے افراد کے لیے آنکھوں کے امراض کے علاج کی سہولیات محدود ہیں۔
اس کے علاوہ آنکھوں کے آپریشن میں استعمال ہونے والاEquipment اور Consumables بہت مہنگے اور بیرون ملک سے منگوانے پڑھتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی علاج معالجے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔یوں cost-effective consumablesنہ ملنے کے باعث غیر معیاری علاج پروان چڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں پیچیدگیاں زیادہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تشخیص کے جدید طریقوں کے باعث اب امراض کی تشخیص میں اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک خوش آئندبات ہے۔
لیکن وسائل کی کمی اور غیر معیاری سامان کی وجہ سے مکمل علاج بہت مشکل اور مہنگا ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب اور کے پی کے میں صحت کارڈ کے تحت آنکھوں کے علاج میں بہت بہتری آئی اور بہت ساری آبادی جن کے لیے سفید موتیا اور دیگر بیماریوں کا علاج پہنچ سے باہر تھا اب کسی حد تک ان کوRelief ملا ہے۔ اس کے ساتھ بہت سارے ٹرسٹ،خیراتی ادارے اور این جی اوز بھی آنکھوں کے علاج میں پیش پیش ہیں۔
جن سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق پاکستان کو کم از کم فی ملین آبادی کے لیے پندرہ ماہر امراضِ چشم کی ضرورت ہے ۔جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا 38.4 فی ملین ماہر امراضِ چشم موجود ہیں۔ ماہر امراضِ چشم کی اچھی خاصی تعداد بہتر روزگار کے لئے ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا رہی ہے۔ جس سے ملک میں ماہر ڈاکٹروں کی مزید کمی واقع ہو رہی ہے۔
بیرونِ ملک بہترین روزگار اور اچھا طرز زندگی میسر ہے جو کہ ماہر افراد کے لیے پُرکشش ہے ۔اس کے برعکس پاکستان میں میرٹ کا فقدان، امن و امان کی مخدوش صورتحال اور بہت کم تنخواہیں، بیروزگاری، ملازمتوں میں طرف داری کا رویہ ماہر اور قابل لوگوں کو یہاں کے سسٹم سے متنفر کرکے باہر کے ممالک میں منتقل ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔ جس سے پاکستان سے ذہین ترین افراد کا Brain drain مسلسل جاری ہے۔
لیکن ارباب اختیار کو اِس کی کوئی فکر نہیں جو کہ انتہائی تشویشناک ہے''۔آنکھوں کے امراض کی ابتدائی علامات جن میں ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیئے؟ اس بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ـ''چونکہ آنکھوں کا بنیادی کام دیکھنا ہے تو اس لیے آنکھوں کے امراض کی سب سے ابتدائی علامت تو نظر کی کمی ہے جس کے لیے کسی ماہر بصارت کوچیک کرواکر پتہ چل سکتا ہے کہ نظر کی کمی کی وجہ صرف عینک کا نمبر ہے یا کچھ اور بھی ہے۔
تاکہ ڈاکٹر نظر کی کمی کی دیگر وجوہات کا تعین کرکے بروقت علاج کر سکے ۔نظر کے کم ہونے کی دوسری بڑی وجہ سفید موتیا ہے جس کا چند منٹوں کا آپریشن اور لینز ڈالنے سے مریض پھر دوبارہ ٹھیک ٹھاک دیکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔اگر کسی مریض کی نظریکدم بند ہو جائے یا آنکھ میں شدید درد یا بہت زیادہ سرخی آجائے تو فوراً ماہر اور کوالیفائیڈ ڈاکٹر کو چیک کرو اناضروری ہے ۔
کیونکہ اِن علامات کے نتیجے میں نظر کا مستقل ضائع ہوجانے کا بہت زیادہ احتمال ہوتا ہے۔ دراصل یہ علامات نور کے پردے کے اکھڑنے، خون کی رگ کے بند ہونے، آنکھوں میں خون آ جانے یا کالے موتیے کے شدید حملے کی علامات ہیں۔اس کے علاوہ آنکھ کا خشک ہونا،دوہری بصارت،
فلوٹرز (چھوٹے دھبے جو آپ کی آنکھوں کے سامنے تیرتے دکھائی دیتے ہیں)، روشنیوں کے گرد دائرے (ہالوز)اور روشنی کی چمک ایسی کیفیت میں بھی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ آنکھ کی ایمرجنسی بہت سی طرح کی ہو سکتی ہیں ۔اگر تو ایکسیڈنٹ ہوا ہو اور آنکھ کو نقصان پہنچا ہو تو فورا ًآنکھ کو کسی صاف کپڑے یا ٹشو پیپر سے ڈھانپ کر جتنی جلدی ممکن ہو ہسپتال میں چیک کروایا جائے۔
اگر گھر میں کوئی کیمیکل یا بیٹری کا تیزاب آنکھ میں چلا جائے تو بھی فوراً ہسپتال پہنچنا چاہیے۔ اگر ہسپتال پہنچنا مشکل ہو یا زیادہ وقت لگ رہا ہو تو آنکھوںکو فوراً پانی سے اچھی طرح دھوئیں اور جلد از جلد ہسپتال پہنچ کر علاج شروع کروائیں۔ ویلڈنگ، مکینیکل ورک، گھروں کی تعمیر ومرمت اور گھر میں کیل وغیرہ ٹھونکتے وقت بڑے شیشیوں والی عینک کا استعمال ضروری کریں۔
جیسے کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اگر خدانخواستہ کوئی کیمیکل یا بیٹری کا تیزاب آنکھوں میںڈل جاتا ہے تو اس صورت میں گھریلو ٹوٹکے کے طور پر آنکھ کو بہت اچھی طرح دھونا بڑا موثر ثابت ہوتا ہے اسی طرح آنکھوں کو ٹھنڈے پانی سے دھونا اور کھیرے وغیرہ کا مساج کرنا بہت سکون دیتا ہے۔ لیکن بعض اوقات اگر صفائی کا خیال نہ رکھا گیا ہو تو یہی گھریلو ٹوٹکے بہت خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔
آج کل گھریلوٹوٹکے کے طور پر عرقِ گلاب کے ڈراپس استعمال کیے جاتے ہیں ۔یا چند برانڈڈ آئی ڈراپس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جن میں سٹیرائڈز ہوتے ہیں اِن برانڈڈ ڈراپس کے زیادہ عرصے تک استعمال سے آنکھ میںکالاموتیا جنم لیتا ہے اور اس سے بینائی ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکتی ہے۔
اس لئے کوئی بھی دوا از خود استعمال نہیں کرنی چاہیے''۔آنکھوں کا ڈاکٹری معائنہ کب اور کتنی مدت کے بعد کرانا ضروری ہے؟ ڈاکٹر شمشادعلی کا اس سلسلہ میں کہنا ہے کہ ''بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے بعد ایک بار آنکھوں کے ڈاکٹر سے اُس کا چیک اپ ضرور کرانا چاہیے وہ اس لیے کے اگر پیدائشی طور پر آنکھ کا کوئی مسئلہ ہوتو بہت پہلے اور بروقت اُس کی تشخیص کی جا سکے۔
دوسری بار جب آنکھوں کا معائنہ ضروری ہوتا ہے وہ بچوں کے اسکول میں داخلہ سے پہلے کا وقت ہے۔ ہر بچہ کا اسکول جانے سے پہلے آنکھوں کا معائنہ ضرور ہونا چاہیئے۔ اس کے بعد دو طرح کی آبادی آ جاتی ہے ایک وہ لوگ جن کو عینک کا کوئی نمبر لگتا ہے اور ایک وہ لوگ جن کو عینک کا نمبر نہیں لگتا ۔
جن کو عینک کا نمبر لگتا ہے انہیں درست نمبر کی عینک لگانی چاہیئے اور اس کے بعد ہر چھ مہینے بعداپنی عینک کا نمبرReview کرانا چاہیئے۔ یہ نارمل پاپولیشن کی صورت میں ہے۔ اب آ جاتے ہیں اُن لوگوںکی جانب جنہیں شوگر یا بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔
شوگر اور بلڈ پریشر والے مریض کو سالانہ آنکھوں کا ایک دفعہ تفصیلی معائنہ ضرور کرانا چاہیئے اگر شوگر یابلڈ پریشر کے اثرات پردے پر آنا شروع ہوجائیں تو اس کی شدت کے مطابق آنکھوں کا معائنہ شیڈول کیا جاتا ہے ۔کم شدت کی تبدیلیوں کے حامل کچھ مریضوں میں چھ6 مہینے کے بعد معائنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جن میں زیادہ شدت کی تبدیلیاں ہوں تو اُنھیںماہانہ یا ہفتہ وار فالواپ کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے ۔
اس کے بعد وہ آبادی جو 40 سال سے زائد عمر کی ہوتی ہے۔ اِن میں کالا موتیا ہونے کا امکان ہوتا ہے یا وہ لوگ جن کی فیملی میں کسی کو یہ مرض ہو تو کالے موتیے کی سکریننگ کے لیے چالیس سال سے زیادہ عمر کے افراد ایک دفعہ اپنی آنکھوں کاتفصیلی معائنہ ضرور کروانا چاہیئے ''۔کیا ہمارے ملک میں آنکھوں کے تمام امراض کا علاج اور آپریشنز ممکن ہیں؟ ڈاکٹر شمشاد علی کہتے ہیں کہ '' جی الحمداللہ اس حوالے سے پاکستان بہت خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں آنکھ کے ہر قسم کے علاج معالجے کی سہولت میسر ہے آنکھوں کے تفصیلی معائنے میں معاون ہر قسم کے ٹیسٹ کرنے کی مشینری یہاں میسر ہے۔
عینک سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے لیزر آپریشن سے لے کر سفید موتیا ،کالا موتیا ،نور کے پردے، بھینگا پن، آنکھوں کی پلاسٹک سرجری اور مصنوعی آنکھ لگانے تک کی تقریبا ًتمام تر سرجری یہاں ہو رہی ہے۔ بلکہ آگے اس کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے جوابھی تک بہت محدود ہے اس کو وسعت دینے کی ضرورت ہے ۔بڑے ہسپتال اور جدید مشینری مہیا کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے ۔
ہمارے ڈاکٹر اور سرجن بہت قابل ہیں ان کو صرف وسائل اور مواقع ملنے کی ضرورت ہے''۔ملک میں آنکھوں کے عطیہ کی کیا صورتحال ہے؟ ڈاکٹر صاحب کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ''بدقسمتی سے پاکستان کا معاشرتی نظام انسانی اعضاء کے عطیہ کرنے کے عمل میں بہت پیچھے ہے۔
پی ایچ او ٹی اے جیسے ادارے تو بن چکے ہیں لیکن ابھی تک عملی طور پر اس معاملے میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی ۔ابھی بھی انسانی قرینہ منگوانے کے لیے امریکہ یا سری لنکا سے رابطہ کرنا پڑتا ہے ۔پچھلے دنوں ایک خبر گردش کر رہی تھی کہ فیصل آباد میں قرینہ بینک بنایا گیا ہے اور اس کی مدد سے پانچ سو سے زائد مریضوں کی آنکھوںمیںقرینہ لگائے گئے ہیں جو کہ بہت خوش آئند خبر ہے اور ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے اس حوالے سے ارباب اختیار کو سنجیدگی سے کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے'' ۔
عموماً آنکھ کے علاج کے بارے میں چند توہمات بھی موجود ہیں جیسا کہ آنکھوں کے قطرے موتیا کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ موتیا کو ہٹانے سے پہلے پک جانا ضروری ہے۔موتیاکو لیزر سے دور کیا جا سکتا ہے۔آنکھیں ٹرانسپلانٹ کی جا سکتی ہیں۔ان میں کتنی سچائی ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ '' جی بالکل ابھی بھی ہمارے معاشرے میں بہت سارے مفروضے ہیں جیسا کہ ایک بزرگ بڑے عرصے سے آنکھوں کے سفید موتیا کا آپریشن اس لیے نہیں کرا رہے کہ ُان کا خیال ہے کہ آنکھ کا آپریشن کروانے کے بعد بندہ جلد فوت ہوجاتا ہے ۔
ایسے ہی لوگ گرمی اور برسات کے موسم میں آپریشن نہیں کرواتے کہ اس موسم میں زخم نہیں بھرتا اور پسینہ بہت آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے قطرے مارکیٹ میں موجود ہیںجو موتیا کو تحلیل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔لیکن طبی طور پر منظور شدہ ایسا کوئی پروڈکٹ نہیں ہے جو ایسا کر سکے۔
لہذا آپ کو ان مصنوعات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ موتیا کا فی الحال قبول شدہ علاج سرجری ہے۔لیکن اس کے بارے میں بھی ایک مفروضہ ہے کہ یہ آپریشن لیزر کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس ہوگئی ہے کہ سفید موتیا کے آپریشن میں کوئی ٹانکہ نہیں لگایا جاتا ۔لینز بھی فولڈایبل ہوتا ہے جو انجیکٹر کی مدد سے آنکھ کے اندر ڈالا جاتا ہے اور آنکھ میں جاکر کھل جاتا ہے۔ کوئی ٹانکہ لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی تو مریض سمجھتا ہے کہ شاید میرا آپریشن لیزر سے ہوا ہے ۔
حالانکہ اصل تکنیک جو ہے وہ الٹراساؤنڈ کی ہے۔جسے Phacoemulsification کہا جاتا ہے۔ جس میںالٹراساؤنڈ لہروں کے ذریعے اسے پگھلا کر نکال لیا جاتا ہے۔لیزر سے موتیا کا آپریشن نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ موتیا کو ہٹانے سے پہلے اس کے پکنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔آنکھ کی پیوند کاری نہیں ہو سکتی یہ آپٹک اعصاب کے ذریعے دماغ سے جڑی ہوئی ہے۔ جسے منقطع ہونے کے بعد دوبارہ جوڑا نہیں جا سکتا۔ صرف آنکھ کا واضح سامنے والا حصہ قرنیہ ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے''۔
ملک میں آنکھوں کے بہتر علاج معالجے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں ڈاکٹر شمشاد علی کا کہنا ہے کہ '' ہمارے ملک میں آنکھوں کے مناسب علاج معالجے کی موجودگی کے باوجود آبادی کا بہت کم تناسب اس سے مستفید ہو پا رہا ہے ۔ اگر اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو درج ذیل مسائل بہتر علاج معالجے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
جیسا کہ ہسپتالوں میں بہت زیادہ رش ،مالی مشکلات، گھریلوٹوٹکے، روایتی علاج معالجہ، عینک لگا کر یہ سمجھنا کے ہم علاج کر چکے وغیرہ ۔ ریاست کی طرف سے صحت سہولت پروگرام ایک بہت خوش آئند اقدام ہے بہرحال اس میں بہت بہتری کی گنجائش ہے''۔
آنکھوں کی صحت اور اُن کی دیکھ بھال کو درپیش چیلنجزمیں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نتیجہ میںرونما ہونے والی قدرتی آفات بھی نمایاںہیں۔ جن سے آنکھوں کی شدید الرجک ، کالا اور سفید موتیا، عمر کے ساتھ ساتھ قرنیہ کے سفید حصہ میں انحطاط، ٹریچوما انفیکشن، وٹامن اے کی کمی اور آنکھوں کی چوٹوں کے واقعات میں اضافے کا امکان بڑھ جاتا ہے وہیں انتہائی موسمی واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث آنکھوںکے علاج معالجہ کی فراہمی اور مریضوں کی دیکھ بھال کے نظام میں خلل پڑنے کا بھی امکان ہو جاتاہے۔
پاکستان کے حالیہ سیلاب میں یہ سب کچھ متاثرین کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر شمشاد علی نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امراضِ چشم کی صورتحال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ '' اس سال پاکستان میں تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک تہائی ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوا ہے جس سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ لوگ اپنے ڈوبے ہوئے گھروں اور علاقوں کو چھوڑ کر محفوظ پناہ گاہوں میں ٹھہرنے پر مجبور ہیں۔
جس کے باعث خوراک ،صفائی اور حفظان ِصحت کی صورتحال انتہائی خراب ہے اور بہت سی بیماریوں نے جنم لیا ہے ۔پہلے اسہال اور پیٹ کے امراض کے ساتھ جلد کی بیماریاں بہت زیادہ تھیں۔ لیکن اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے بیماریوں کی نوعیت بدل رہی ہے اب ٹھہرے ہوئے پانی کے باعث مچھر بہت زیادہ ہو رہے ہیںجس سے اب ملیریا سب سے زیادہ پھیلنے والی بیماری بن چکی ہے۔
اس کے علاوہ جلد کی بیماریاں اور آنکھوں میں آشوبِ چشم بہت زیادہ ہے۔جس میں الرجی اور انفیکشن کا زیادہ حصہ ہے۔لوگوں کے گھر سے آجانے کے باعث ان کی عینکیں ان کے پاس نہیں ہیں۔ جنہیں وہ اپنے قریب کے کام کاج اور خصوصاً قرآن پاک کی تلاوت کے لیے استعمال کرتے تھے۔
ہمارے میڈیکل کیمپ اور آئی کیمپوں میںلوگ عینکوں کی فراہمی کی درخواستیں لے کر آتے ہیں چونکہ ابھی بحالی کا کام بہت سست ہے تو اس سے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو کہ آہستہ آہستہ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے''۔امدادی سامان میں آنکھوں کی کوئی خاص دوا شامل کرنے کی ضرورت ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ''جی بالکل جہاں باقی بیماریوں کا علاج میڈیکل کیمپس اور موبائل ٹیموں کے ذریعے کیا جا رہا ہے وہیں امراضِ چشم کے علاج کو بھی ضرور اس میں شامل رکھنا چاہیے ۔
میڈیکل کے دیگر شعبوں کے ڈاکٹروں کے ساتھ امراضِ چشم کا ڈاکٹر بھی شامل ہو اور معائنہ کے مکمل انتظام کے ساتھ آنکھوں کے امراض کی تمام ادویات بھی شامل ہونی چاہیے۔ خصوصیت کے ساتھ جیسے کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ انفیکشن اور الرجی سے متعلقہ آشوب ِچشم زیادہ رپورٹ ہو رہا ہے تو اس کے تدارک کے لئے اینٹی بائیوٹیک، آنکھوں کی الرجی کی دوائی اور دیگرادویات ضرور شامل کرنی چاہیے۔
ماہر امراضِ چشم کی موجودگی میں کالے موتیے اور سوزش کو کنٹرول کرنے والی ادویات بہت سے مریضوں کی بینائی کو بحال رکھنے میں کافی مددگار ثابت ہونگی۔
اگر ماہرامراضِ چشم ٹیم میں شامل نہ ہوں تو اس صورت میں آنکھوں کے لئے محفوظ ادویات جیسا کہ اینٹی بائیوٹک، مصنوعی آنسو اور الرجی کی ادویات ضرورشامل کرنی چاہئیں''۔جن علاقوں میں آنکھوں کے ڈاکٹر ابھی نہیں پہنچ پارہے وہاں ریسکیو ورکرز کس طرح لوگوں کو آنکھوں کے مسائل کی ابتدائی طبی امداد دے سکتے ہیں؟ ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر شمشاد علی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ'' جن علاقوں میں امراضِ چشم کے ڈاکٹر ابھی تک نہیں پہنچ سکے وہاں پر دیگر میڈیکل کے شعبوں سے وابستہ افراد مریضوں کو حفظانِ صحت اور صفائی کے بہتر طریقے سمجھا کربڑی حد تک آنکھوں کے مسائل کے حل میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
آنکھوں کے انفیکشن وغیرہ کے لئے اینٹی بائیوٹک ادویات تجویز کر سکتے ہیں ۔ آج کل ٹیلی میڈیسن اور سوشل میڈیاکا دور ہونے کے باعث تصویروں اور ویڈیو کالز کی مدد سے ماہر امراضِ چشم سے فوری مشورہ لے سکتے ہیں۔ بزرگوں اور بڑی عمر کے مریضوں کو نزدیک کی عینکیں مہیا کی جاسکتی ہیں''۔
سیلاب متاثرین کو درپیش آنکھوں کے مسائل کا فوری علاج کتنا ضروری ہے؟ ڈاکٹرصاحب اس حوالے سے کہتے ہیںکہ '' یہ بہت اہم پہلو ہے آنکھوں کے امراض میں کچھ جلدی اور کچھ کے معاملے میں دیر کی جا سکتی ہے۔ فوری طور پر حل ہونے والے مسائل جن میں بینائی کے ختم ہونے کا بہت زیادہ اندیشہ ہوتا ہے اس میں آنکھوں کے زخم اور السر کے انفیکشن سے پوری آنکھ میں انفیکشن پھیلنے سے آنکھ ضائع ہو جاتی ہے اور اس کے بروقت علاج سے بہت سی آنکھوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
جلدی دیکھنے والے مسائل میں کالا موتیا ،آنکھ کی سوزش اور پردے کے امراض شامل ہیں۔ ابھی کرو نا کی وباء کے دوران بھی بہت سارے مریض اِن امراض کے بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ کالاموتیا بینائی کا خاموش قاتل ہے اس کا مسلسل علاج بہت ضروری ہے۔
لیکن سیلاب متاثرین جہاں بہت سارے اور مسائل کا شکار ہیں وہیں ان کے لیے کالا موتیا کہ مریض کوادویات کی مسلسل فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس طرح سوزش اور نور کے پردے کی بیماریوں کے مریض بھی بینائی سے محروم ہو رہے ہیں۔ اِن حالات میں سفید موتیے اور دیگر آنکھوں کے آپریشن بروقت نہ ہونے سے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے آئندہ آنے والے دنوں میں آنکھوں کے مریض بہت ساری مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک آنکھوں کے امراض سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر کا تعلق ہے تو اس ضمن میں کہنا چاہوں گا کہ جہاں حفظان ِصحت اور صفائی کے نظام کو اپنا کر باقی بہت ساری بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے اسی طرح آنکھوں کے امراض میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوسکتی ہے ۔نظر کی کمزوری کی صورت میں بروقت عینک کا نمبر حاصل کرکے عینک کے باقاعدہ استعمال سے سردرد، آنکھوں کے درد اور نظری کمی سے بچا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی بحالی کا عمل آگے بڑھتا ہے آنکھوں کے امراض میں مبتلا افراد کو اپنا باقاعدہ معائنہ کروا کے علاج شروع کرانا چاہیے تاکہ وہ بینائی جیسی نعمت سے محروم نہ ہو ں''۔
آنکھوں کی بینائی متاثرہونے میںکئی ایک عوامل کے ساتھ ساتھ جینیاتی نقائص بھی کار فرما ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انسانی بصارت متاثر ہوتی ہے خصوصاً رات کے وقت دیکھائی نا دینا جسے رات کا اندھا پن یا اندھراتہ بھی کہا جاسکتا ہے لاحق ہوجاتی ہے۔اس حوالے سے یونیورسٹی آف دی پنجاب کے نیشنل سینٹر آف ایکسیلینس ان مالیکیولر بیالوجی کے تحت مورثی امراضِ چشم پر تحقیق کی جا رہی ہے۔
اس تحقیق کا مقصد اُن جینز کے صحیح مقام کی تلاش کرنا ہے جو کہ مورثی امراضِ چشم کا موجب بنتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے جین کے نقائص کس طرح مورثی امراضِ چشم پیدا کرتے ہیں۔اس پراجیکٹ کے موجودہ سربراہی تحقیق کار ( پرنسپل انویسٹی گیٹر)ڈاکٹر آصف نعیم ہیںڈاکٹر صاحب سی ای ایم بی میں میڈیکل جنیٹکس کے بھی انچارج ہیںاور اُن کے زیر نگرانی سنیٹر میںVision Impairment Lab کام کر رہی ہے۔ اس تحقیق کے بارے میں تفصیل بتاتے ہیں کہ''یہ بین الاقوامی پراجیکٹ جسے ہیومن جینو پراجیکٹ کہا جاتا ہے 1990 میں شروع ہوا تھا۔اس پراجیکٹ کے بانی تحقیق کار ایچ ایس سی کے نیشنل پروفیسر ڈاکٹر شیخ ریاض الدین تھے۔
اس پراجیکٹ میںچار سے زائد ممالک نے اور کئی تحقیقی لیبارٹریوںنے حصہ لیا۔اس پراجیکٹ کا تحقیقی کام 2001 میں مکمل ہوا اور پراجیکٹ کا فائنل ڈرافٹ2003 میں'' نیچر جینٹکس'' (Nature Genetics )نامی انٹرنیشنل ریسرچ جنرل میں شائع ہوا ''۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ اس پراجیکٹس سے بطور پی ایچ ڈی اسکالر منسلک ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ ''وراثتی بیماریوں کے پراجیکٹس کا کوئی مستقل دورانیہ نہیں ہوتا یہ وقت کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔تاکہ تمام تر جینز کی معلومات کو اکٹھا کیا جاسکے۔
اس طرح کی معلومات اکٹھا کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں کسی جین کی تھراپی دستیاب ہوتی ہے تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ فلاںفیملی میںفلاں جین موجود ہے اور وہ اس تھراپی سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں''۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ''سینٹر کیVision Impairment Lab میں تین امراض پر کام کیا جا رہا ہے ۔ اندھراتہ(رات کا اندھا پن)،پیدائشی موتیا کا مرض اور پیدائشی کالے موتیے کا مرض۔ میرا تحقیق کا بنیادی کام اندھراتہ پر ہے۔ اس تحقیق میں جناح ہسپتال لاہور، ایل آر بی ٹی ہسپتال کا بھی تعاون حاصل ہے۔
اس کے علاوہ ملک بھر سے آنکھوں کے امراض کے علاج کے مختلف اداروں اور امراضِ چشم کے ڈاکٹرز کا تعاون بھی حاصل ہے۔اس تحقیق میں ایسی فیملیز کو باقاعدہ طور پر وزٹ کیا جاتا ہے جن میںرات کے اندھا پن کے کیس ہوں۔ اُن کی معلومات کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔
اُن کے خون کے سیمپلز، اُن کی بیماری کی ہسٹری اکٹھی کی جاتی ہے۔ان کی آنکھوںکے ٹیسٹ کے لیے ہمارے پاس Portable Instruments موجود ہیں۔آنکھوں کے پردے کا معائینہ جسے fundoscopy and electroretinography کہتے ہیں وہ ہم کرتے ہیں۔دنیا میں اس تحقیق کے مختلف تجربات ہورہے ہیںکچھ کلینیکل نوعیت کے ہیںجو کہ مختلف ادویات پر ہیں۔مختلف جین تھراپیز ہیں۔
سٹیم سلز تھراپیز ہیںجن پر کام ہورہا ہے''۔پراجیکٹ سے زیادہ سے زیادہ موثر نتائج حاصل کرنے کے لیے درکار وسائل کے حوالے سے ڈاکٹرآصف نعیم کا کہنا ہے کہ '' اگر ایڈوانس انفراسٹرکچر اور مشینری مل جائے تو ہم مختصر مدت کے اندر اندر ہر فیملی کی انفارمیشن کو exploreکرسکتے ہیںاور جلد از جلد ان میں موجود جینزکی تلاش کو یقینی بنا سکتے ہیںتاکہ مستقبل میںان میں اندھراتے کا علاج کیا جاسکے''۔
بینائی کا نقصان ایک ایسی چیز ہے جو کسی بھی فرد کے معیار زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ تمام معاشروں میں اندھے پن کے وسیع سماجی اور معاشی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بینائی کی بحالی اور آنکھوں کی صحت کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری ترقی پذیر دنیا میں سماجی تبدیلی لانے میں مدد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آئی اے پی بی نے 2013 میں رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان میں خاص طور پربینائی پر خرچ کیے جانے والے ہر ڈالر کے بدلے میں چھ ڈالر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔محققین کے مطابق اگر پاکستان میںتمام نابینا آبادی (تمام وجوہات سے) کی بحالی کی جائے تو اس سے جو مجموعی پیداواری فائدہ ہوگا وہ ملک کے جی ڈی پی کے 0.7 فیصد کے برابر ہو گا۔ اگر صرف قابل علاج اندھے پن کو روک لیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی بچت جی ڈی پی کے 0.6 فیصد کے برابر ہوگی۔ یہ دونوںفیصد صحت کی دیکھ بھال پر پاکستان کے کل اخراجات کے تقریباً برابر ہیں۔
آبادی میں اضافہ اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ رویوں اور طرز زندگی میں تبدیلیاں،اربنائزیشن، آنے والی دہائیوں میں آنکھوں کے مسائل، بینائی کی خرابی اور نابینا پن کے شکار لوگوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ کرے گی۔
مستقبل میں اگر عمر رسیدہ افرادکی متوقع بڑھنے والی آبادی کے لیے آنکھوں کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی میں اضافہ نہیں کیا گیا توبصارت سے محروم اور نابینا افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا جو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے آنکھوں کی صحت کی ضرورت کے لیے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔
اُن کے اس مقولہ میں آنکھ اعتبار کرنے اور حقیقت کے ادراک سے عبارت ہے۔ یعنی لفظ آنکھ صرف دیکھنے کے عمل سے ہی تعبیر نہیںہوتی بلکہ اس کا استعمال اپنے مفہومی اعتبار سے بھی کافی وسیع ہے۔ لیکن ہم آج یہاں اس کے مفہومی یا استعارہ ًاستعمال پر بات نہیں کریں گے بلکہ بات ہوگی آنکھ کے اصل استعمال کی جس کے لیے اُسے بنایا گیا یعنی بینائی کی۔جس کا ہرسال اکتوبر کی دوسری جمعرات کو دنیا بھرمیں عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اِمسال یہ دن 13 اکتوبر کو منایا گیا۔
بینائی جو ہمارے حواس پر سب سے زیادہ غالب ہے۔ ہم جو کچھ سیکھتے ہیں اس کا 80 فیصد آنکھوں کے ذریعے ہمارے دماغ تک پہنچتا ہے۔ہماری زندگی کے ہر پہلو اور مرحلے میں یہ اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہم بصارت کو معمولی سمجھتے ہیں لیکن اسکے بغیر، ہمیں چلنے ،سیکھنے، پڑھنے،کھیلنے ،کام کرنے اور دیگر امور زندگی کی انجام دہی میںشدید دشواری کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
یہ بینائی ہی ہے جس کی وجہ سے آپ یہ آرٹیکل خود پڑھنے کے قابل ہیں۔ انسانی جسم میں 5پانچ حواس خمسہ ہیں بصارت، لمس، سماعت، ذائقہ اور سونگھنا۔ان سب کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے لیکن بینائی سب پر مقدم ہے۔ کیونکہ جب بات کسی معذوری کے ساتھ مکمل یا عارضی زندگی گزارنے کی ہو تو ایسی صورت میں بھی ہماری آنکھیں اور بصارت ہمارا بہترین اثاثہ ہیں۔ مثلاًکسی ایسے شخص کے لئے جسے سننے میں مشکل ہے یا بولنے سے وہ قاصر ہے۔یہ بینائی ہی ہے جس پر وہ روزمرہ کے کاموں کو پورا کرنے کے لیے انحصار کرتا ہے۔
کیونکہ اشاروں کی زبان کے ذریعے بات چیت کرنے کے لیے آپ کی آنکھوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے کہ دوسرا شخص کیا اشارے کر رہا ہے۔اس قسم کی معذوری کے ساتھ رہنے والے لوگ ہونٹ پڑھنے کی غیر معمولی مہارت کو بھی اپنا لیتے ہیںاور اسے سمجھنے کے لیے بینائی سے بہتر اور کونسی حس ہوگی؟۔ ہماری آنکھیںہمیں خطرے سے دور رکھنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں خاص طور پر جب ہمارے دوسرے حواس ناکارہ ہوں۔
اگر آپ کار کا ہارن، الارم کی آواز، یا لوگوں کی چیخیں سننے سے قاصر ہیں تو ہماری نظریں اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ایک اہم ذریعہ ثابت ہوتی ہیں کہ اچانک ہمیں کوئی خطرہ درپیش آسکتا ہے۔ ہماری آنکھیں اس بات کا فیصلہ کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہیں کہ آپ جس چیز کا استعمال کرنے والے ہیں اس کا ذائقہ اچھا ہے یا نہیں۔ ذائقہ کو کافی کمزور احساس سمجھا جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جسم بھی یہ فیصلہ کرنے کے لیے نظر پر انحصار کرتا ہے کہ کھانے پینے کی چیزیں آپ کی پسند کی ہیں یا نہیں۔ اور ایسا کھانے کی پیش کش یا اُس کے رنگ کی پہچان سے حاصل ہوتا ہے۔اوسطاً انسانی آنکھ70 لاکھ رنگوں کو دیکھ سکتی ہے جو اس بات کا فیصلہ کرنے میں کام آتی ہے کہ آیا کوئی چیز خوشگوار ہے کیونکہ ہم قدرتی طور پر رنگوں کو ذائقے کے ساتھ منسلک کرتے ہیں۔
مثال کے طور پرسرخ رنگ کو تمام رنگوں میں سب سے میٹھا سمجھا جاتا ہے اور آپ کی بینائی بعض اوقات آپ کے اصل ذائقہ محسوس کرنے کی صلاحیت پر غالب آجاتی ہے۔ بینائی انسانی جسم کا سب سے اہم احساس ہے کیونکہ آنکھ کی بینائی کے بغیر انسان ہمیشہ اسرار میں زندہ رہتا ہے۔ مثال کے طور پر وہ نہیں جانتا ہو گاکہ اُس کے آس پاس کے لوگ کیسا نظر آتے ہیں۔ ماحول کیسا نظر آتا ہے اور شاید سب سے اہم کہ وہ خودکیسا نظر آتا ہے۔
آنکھیں زندگی کے ہر موڑ پر اہم کردار ادا کرتی ہیںیہ ہمارے اعمال اور طرز زندگی کو مکمل طور پر تبدیل کر دیتی ہے۔ذرا ایک لمحہ کسی بینا اور نابینا شخص کا موازناتی تصور کریں۔ جو پہلی چیز آپ محسوس کریں گے وہ یہ کہ نابینا فرد اپنے تمام افعال کے لیے دوسروں پر انحصار ( dependent )کرتاہے۔ جبکہ بینا فرد خود انحصار (self-dependent) ہوتا ہے۔اسی طرح نابینا فرد کا طرز زندگی بینا فرد کے مقابلہ میں کافی مختلف ہوتا ہے۔ہم سب نے سنا ہے کہ آنکھ روح کی کھڑکی ہے لیکن یہ ہماری صحت کی کھڑکی بھی ہے۔
درحقیقت ڈاکٹر اب آنکھوں کا معائنہ کر کے دیگر جسمانی بیماریوں کی تشخیص بھی کر سکتے ہیں۔ چونکہ انسانی جسم میں آنکھ ہی واحد جگہ ہے جہاں عصبی بافتوں اور خون کی نالیوں کو براہ راست دیکھا جا سکتا ہے۔اس لیے آنکھ کے معائنہ سے ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، انفیکشنز اور یہاں تک کہ قوت مدافعت کے قدرتی طرز عمل میں تبدیلی کی بیماری کا بھی پتہ چل سکتا ہے۔
بصارت کی خرابی اس وقت ہوتی ہے جب آنکھ کی حالت بصری نظام اور اس کے ایک یا زیادہ بینائی کے افعال کو متاثر کرے۔ بصارت کی خرابی کسی کو تمام عمر کے لیے سنگین نتائج میں مبتلا کرسکتی ہے۔آنکھوں کی حالت کو درپیش خطرے کے عوامل اور اس کی وجوہات میں عمر بڑھنے، جینیات، طرز زندگی و رویے، انفیکشن اور صحت کی مختلف حالتیں شامل ہیں۔
تاہم ان میں سے بہت سے خطرات کو آنکھوں کی معیاری دیکھ بھال اور بحالی تک بروقت رسائی کے ذریعے کم کیا جا سکتا ہے۔ یعنی بینائی کو پہنچنے والے تمام نقصانات کے 90 فیصد کو روکا جاسکتا ہے یعنی وہ قابل علاج ہیں۔اس کے علاوہ آنکھوں کی بہتر صحت کے لیے چند مخصوص غذائیں اور ورزشیں تیر بہ ہدف کا کام کرتی ہیں۔
ماہر امراض چشم ڈاکٹر ریحان معین الدین شیخ اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ '' خوراک اور صحت مند طرز عمل آپ کی آنکھوں کی صحت کو قائم رکھنے میں مدد کر سکتے ہیں جس سے آنکھوں کی اچھی صحت کو زیادہ دیر تک برقرار رکھا جاسکتا ہے اور آنکھوں کی صحت کے مسائل کے خطرے کو نمایاں طور پر کم کر سکتا ہے۔
بعض غذائی اجزاء مثلاً زنک، کاپر، وٹامن سی، وٹامن ای، اور بیٹا کیروٹین آنکھوں کی صحت کے لیے مفید ثابت ہوتے ہیںاور آنکھوں کی بیماری کے بڑھنے کی رفتارکو سست کرنے معاون ہیں۔ امریکن آپٹومیٹرک ایسوسی ایشن (AOA) اور امریکن اکیڈمی آف اوپتھلمولوجی (AAO) جیسی تنظیمیں آنکھوں کی صحت کے لیے جن نمایاں غذائوں کی سفارش کرتی رہتی ہیں۔ان میں شامل ہے مچھلی۔بہت سی مچھلیاں اومیگا 3 فیٹی ایسڈز کے بھرپور ذرائع ہیں۔
جن میں ٹونا، سامن، ٹراؤٹ، ایک طرح کی سرمئی مچھلی(mackerel)، پلا کی طرح کی ایک سمندری مچھلی (sardines) ، ایک چھوٹی مچھلی(anchovies) اورherring نمایاں ہیں۔ گری دار میوے اور پھلیاں:گری دار میوے اومیگا تھری فیٹی ایسڈ سے بھی بھرپور ہوتے ہیں۔
گری دار میوے میں وٹامن ای کی اعلیٰ سطح بھی ہوتی ہے جو آنکھوں کو بڑھتی عمر سے ہونے والے نقصان سے بچا سکتی ہے۔ایسے میوئوں میں شامل ہیں اخروٹ، جوزبرازیل ، کاجو، مونگ پھلی اوردالیں۔ بیج:گری دار میوے اور پھلیاں کی طرح بیجوں میں اومیگا 3 کی مقدار زیادہ ہوتی ہے اور یہ وٹامن ای کا بھرپور ذریعہ ہیں۔ چیا کے بیج، السی کے بیج، بھنگ کے بیج اس حوالے سے نمایاں ہیں۔ ترشاوہ پھل: ترشاوہ پھل وٹامن سی سے بھرپور ہوتے ہیں۔ وٹامن ای کی طرح وٹامن سی ایک اینٹی آکسیڈینٹ ہے ۔ ان پھلوں میں شامل ہے ۔
لیموں، سنگترہ، مالٹا، مسمی، فروٹراور چکوترا۔پتوں والی ہری سبزیاں:پتوں والی ہری سبزیاں لیوٹین اور زیسینتھین دونوں سے بھرپور ہوتی ہیں اور آنکھوں کے لیے وٹامن سی کا ایک اچھا ذریعہ بھی ہیں۔معروف پتوں والی سبزیاںمیںشامل ہیں۔ پالک، گوبھی، بند گوبھی کی ایک قسم کرم کلہ اور شاخ گوبھی(broccoli) اس کے علاوہ خاص چیز گاجر۔گاجر وٹامن اے اور بیٹا کیروٹین دونوں سے بھرپور ہوتی ہے۔
بیٹا کیروٹین گاجر کو نارنجی رنگ دیتا ہے۔وٹامن اے پر مبنی ماخذ بصارت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہ روڈوپسین نامی پروٹین کا ایک جزو ہے جو ریٹنا کو روشنی جذب کرنے میں مدد کرتا ہے۔شکر قندی: گاجر کی طرح شکرقندی بھی بیٹا کیروٹین سے بھرپور ہوتی ہے۔
یہ اینٹی آکسیڈینٹ وٹامن ای کا ایک اچھا ذریعہ بھی ہیں۔گائے کا گوشت:گائے کا گوشت زنک سے بھرپور ہوتا ہے جو آنکھوں کی بہتر طویل مدتی صحت سے منسلک ہے۔ زنک عمر سے متعلقہ بینائی کی کمی کی تاخیر میں مدد کر سکتا ہے۔آنکھ میں زنک کی اچھی سطح ہوتی ہے۔خاص طور پر ریٹنا میں اوراس کے ارد گرد ٹشوز میں۔چکن کے سینہ کے گوشت میں بھی زنک ہوتا ہے لیکن یہ گائے کے گوشت کے مقابلے میں کم مقدار کا حامل ہوتا ہے۔
انڈے: انڈے lutein اور zeaxanthin کاایک بہترین ذریعہ ہیںجو بڑھتی عمر سے متعلق بینائی سے محرومی کے خطرے کو کم کر سکتے ہیں۔ انڈا وٹامن سی، ای اور زنک کا بھی اچھا ذریعہ ہے۔پانی:یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے کہ زندگی کے لیے ضروری سیال آنکھ کی صحت کے لیے بھی ضروری ہے۔کافی مقدار میں پانی پینا پانی کی کمی کو روک سکتا ہے جو خشک آنکھوں کی علامات کو کم کر سکتا ہے''۔جسمانی ورزش اور آنکھوں کی ورزش صحت مند بینائی میں کیا کردار ادا کرتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ڈاکٹر ریحان معین الدین شیخ کا کہنا ہے کہ '' جسمانی ورزش اس لیے بھی ضروری ہے کہ اس سے صحت مند وزن کو برقرار رکھنے میں مدد ملتی ہے۔ زیادہ وزن یا موٹاپا ہونے سے آپ کو ذیابیطس ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ذیابیطس ہونے سے آپ کو آنکھوں کے امراض ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔اس لیے باقاعدگی سے ورزش کریں۔ ورزش ذیابیطس، ہائی بلڈ پریشر، اور ہائی کولیسٹرول کو روکنے یا کنٹرول کرنے میں مدد کر تی ہے۔
یہ بیماریاں آنکھوں یا بینائی کے کچھ مسائل کا باعث بن سکتی ہیں۔ لہذا اگر آپ باقاعدگی سے ورزش کرتے ہیں تو آپ آنکھوں اور بینائی کے مسائل میں مبتلا ہونے کا خطرہ کم کر سکتے ہیں۔اسی طرح آنکھوں کی ورزش آپ کی آنکھوں کے پٹھوں کی لچک کو بڑھا دیتی ہے اور آپ کی بینائی کو بہتربناتی ہے۔
آپ کی آنکھوں کے لیے ورزش اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کر سکتی ہے کہ دونوں آنکھیں مؤثر طریقے سے کام کریں۔ ایسی عام علامات جن میں آنکھوں کو مضبوط کرنے والی مشقیں مفید ہو سکتی ہیں۔ ان میں پڑھتے وقت لائنوں یا الفاظ کو چھوڑنا، ایک آنکھ کا بند ہونا، آنکھوں میں درد اور سر درد شامل ہیں۔
ویژن تھراپی آنکھوں کا بھینگا پن (strabismus) ،ایک آنکھ کی بینائی کا کمزور رہ جانا (amblyopia)،آنکھوں کو تیزی سے ایک چیز سے دوسری چیز پر فوکس کرنا (saccadic dysfunction) اوردونوں آنکھوں کا اکٹھے ایک مرکز پر فوکس کرنا (convergence insufficiency) کے مسائل کو حل کرسکتی ہے۔آنکھوں کے پٹھوں کی کچھ مشقیں ہیں جو گھر پر کی جا سکتی ہیں۔
سب سے پہلے آپ اپنے ہاتھوں کی ہتھیلیوں کی مدد سے آنکھوں کو سکون فراہم کرسکتے ہیں اس کو ہم ''پامنگ'' کہتے ہیں۔یہ آنکھوں کی ایک یوگک ورزش ہے جو آنکھوں کے ارد گرد کے پٹھوں کو آرام دینے، آنکھوں کی تھکاوٹ کو کم کرنے میں معاونت کرتی ہے۔
آپ اپنی ہتھیلی کو گرم کرنے کے لیے اپنے ہاتھوں کو ایک ساتھ رگڑ یں۔ جب آپ محسوس کریں کہ آپ کی ہتھیلیاں گرم ہوگی ہیں تو انھیں اپنی آنکھوں پر رکھ لیں اور گہرا سانس لیں۔پلک جھپکنا: اپنی پلکیں زیادہ کثرت سے جھپکائیں۔ ٹی وی اسکرین کو مسلسل دیکھنے اور کمپیوٹر کے طویل استعمال سے آنکھیں خشک ہوجاتی ہیں اور خشک آنکھیں سر درد، آنکھوں میں تناؤ اور دھندلا پن کا باعث بنتی ہیں۔
جب آنکھیں اسکرین میں جذب ہوجاتی ہیں تو پلک جھپکنے کی شرح 20bpm سے 8-6bpmتک گر جاتی ہے۔ لہذا اگلی بار جب آپ تناؤ محسوس کریں تو پلکیں جھپکنا شروع کریںایسا کرنا آپ کے دماغ کو تروتازہ کرنے کے ساتھ ساتھ نئے بصری ڈیٹا کو زیادہ موثر طریقے سے پروسیس کرنے کے لیے آنکھوں کو چکنا کر دے گا۔ پلک جھپکنے کی مشق میں آنکھیں بند کرنا دو سیکنڈ کے لیے رکنا پھر انہیں دوبارہ کھولنا شامل ہو سکتا ہے۔
پنسل پش اپس:یہ بھی آنکھوں کی ایک ورزش ہے جس میں ایک پنسل کو ناک کی سیدھ میں سامنے کی جانب پورا بازو دراز کرکے پکڑا جاتا ہے۔ اور اس کے بعد پنسل کو آہستہ آہستہ ناک کی طرف لایا جاتا ہے۔ ورزش کرنے والا پنسل کی نوک پر اپنی نظر کو فوکس کرتا ہے۔ جب پنسل آنکھ سے قریب تر ہوتے ہوئے ڈبل امیج کے طور پر ظاہر ہونے لگے تو پنسل کو دوبارہ ناک سے دور کرلیا جاتا ہے اور یہ عمل دوبارہ دوہرایا جاتا ہے۔
قریب اور دورکا فوکس: قریب اور دور کا فوکس آپ کے فوکسنگ سسٹم کو مناسب طریقے سے متحرک اور آرام دینے میں مدد کرتا ہے۔اس کے لیے اپنے انگوٹھے کو اپنے چہرے سے 10 انچ دور رکھ کر 15 سیکنڈ تک اس پر فوکس کریں۔
پندرہ سیکنڈ کے بعداپنی نگاہیں 20 فٹ (6 میٹر) دور ہدف کی طرف موڑیں اور15 سیکنڈ کے لیے اپنی توجہ دور کے ہدف پر مرکوز رکھیں۔ اس کے بعد دوبارہ اپنے انگوٹھے پرفوکس کریں اور 15 سیکنڈ بعد دور کی کسی چیز پر فوکس کریںاور کئی بار یہ عمل دہرائیں۔آٹھ کی شکل: آنکھوں سے کسی چیز کا سراغ لگانا کچھ لوگوں کے لیے مشکل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے کوئی بھی 8 کے ہندسہ کی مشق کر سکتا ہے۔
اس کے لیے آپ اپنے سے 10 فٹ دور فرش پر ایک نقطہ چنیں۔ اپنی آنکھوں سے اس میں ایک خیالی شکل کا آٹھ کی تلاش کریں یہ عمل 30 سیکنڈ تک جاری رکھیںاس کے بعد سمت تبدیل کرلیں۔20,20,20 :جب ہم اپنی آنکھوں کو قریب کے کام کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہمارا فوکس کرنے کا نظام تھکاوٹ کا شکار ہو سکتا ہے۔ ہماری آنکھیں بھی خشک ہو سکتی ہیں۔ باقاعدگی سے وقفے کرنے سے اس تناؤ کو کم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔
ٹی وی اور کمپیوٹر اسکرین چونکہ بصری میڈیم ہے اور ہمارے جسم کے جس عضو کا اس سے سب سے پہلے اور سب سے زیادہ واسطہ پڑتا ہے وہ آنکھیں ہیں۔ہم جس انداز سے اور جتنا زیادہ ٹی وی یا کمپیوٹر کی اسکرین کو دیکھتے ہیں اس سے ہماری آنکھوں کے متاثر ہونے کا قوی امکان رہتا ہے۔
دنیا بھر میں آنکھوں کے ماہرین ٹی وی اور کسی بھی اسکرین کو دیکھنے کے حوالے سے 20,20,20 کا ایک قاعدہ تجویز کرتے ہیں کہ ہر 20 منٹ کوئی اسکرین دیکھنے کے بعد 20 سیکنڈ تک 20 فٹ دور کسی چیز کو غور سے دیکھا جائے۔اس سے آپ کی آنکھ کو نزدیک اور دور کی چیزیں فوکس کرنے میں دشواری نہیں ہو گی اور اُس کی ورزش ہوتی رہے گی اور آنکھوں کو وقفہ بھی ملے گا۔اگر آپ کو لگتا ہے کہ ٹی وی یا کوئی اور اسکرین دیکھنے سے آنکھوں پر دباؤ آرہا ہے تو آنکھ کی انگلیوں کے پوروں کی مدد سے آہستہ سے مالش کریں یا کپڑے کو گرم پانی سے گیلا کرنے کے بعد اسے نچوڑیں اور آنکھوں پر لگا کر ہلکی ٹکور کریں۔
ٹی وی اور کمپیوٹر دیکھتے وقت زیادہ سے زیادہ پانی پیئیں۔ایسا کرنے سے آپ کو بار بار ٹوائلٹ جانا پڑے گا جس سے آپ کی آنکھوں کو بھی وقفہ ملے گا اور جسم کو حرکت بھی۔ آنکھوں کوگھمائیں:اپنی آنکھوں کو دائیں طرف گھمائیں اور پھر آہستہ آہستہ اپنی نظریں بائیں طرف موڑیں۔پھریہی کام مخالف سمتوں میں کریں یعنی بائیں سے دائیں جانب اور پھر اوپر سے نیچے اور نیچے سے اوپر کی جانب اپنی نگاہیں گھمائیں''۔
آنکھوں کی بہتر حفاظت کس طرح کی جائے ؟ اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں کہ''سب سے ضروری اور اہم بات وہ یہ ہے کہ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپ کو آنکھوں کی صحت کا مسئلہ ہے تو ہمیشہ ڈاکٹر سے ملیں۔ اپنی آنکھوں کو آرام دینے اور ٹی وی دیکھنے کے بعددوبارہ نارمل کرنے کے لیے رات میں کم ازکم 8 گھنٹے کی نیند حاصل کریں۔اس کے علاوہ اپنے روایتی ٹی وی کو ایک فلیٹ اسکرین ٹی وی میں اپ گریڈ کریں جو کم چکاچوند دیتا ہے۔
اسی طرح بڑی سکرین والے ٹی وی کا انتخاب بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس پر آپ کی آنکھوں کو توجہ دینے کے لئے زیادہ زور نہیں دینا پڑتا ہے۔اس کے علاوہ آنکھوں کے لیے موافق ماحول بنائیںیعنی دھوپ کا چشمہ پہنیں۔ سورج کی روشنی آپ کی آنکھوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے ۔
آنکھوں کو چوٹوں سے بچنے کے لیے بڑے شیشوں والی حفاظتی عینک کا استعمال کر یں کیونکہ آپ کو بعض کھیلوں کو کھیلنے، فیکٹری کے کام اور تعمیراتی کاموں کوکرتے وقت آنکھوں کی حفاظت کی ضرورت ہوتی ہے۔تمباکو نوشی سے پرہیز کریں۔ کیونکہ تمباکو نوشی سے بڑھتی عمر سے متعلقہ آنکھوں کی بیماریوں اور موتیا ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے اور آپٹک اعصاب کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔تمباکو نوشی اندھے پن کا باعث بن سکتی ہے اور آپ کی آنکھوں کے لیے فائدہ مند اینٹی آکسیڈنٹس کی تعداد کو کم کر سکتی ہے۔اس کے علاوہ اپنی فیملی میڈیکل ہسٹری جانیں۔
آنکھوں کی کچھ بیماریاں وراثت میں ملتی ہیں اس لیے یہ جاننا ضروری ہے کہ آیا آپ کے خاندان میں کسی کو یہ بیماری ہوئی ہے یا نہیں۔ اس سے آپ کو یہ تعین کرنے میں مدد مل سکتی ہے کہ آیا آپ کو آنکھوں کی بیماری ہونے کا زیادہ خطرہ ہے۔اپنے دوسرے خطرے کے عوامل کو جانیں۔
جیسے جیسے آپ کی عمر بڑھتی ہے آپ کو عمر سے متعلقہ آنکھوں کی بیماریوں اور حالات پیدا ہونے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے۔ اپنے خطرے کے عوامل کو جاننا ضروری ہے کیونکہ آپ اپنے طرز عمل کو تبدیل کر کے خطرے کو کم کرنے کے قابل ہو سکتے ہیں''۔
تقریباً ہر ایک کو اپنی زندگی کے دوران آنکھوں کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن اس کے باوجودآج بھی کروڑوں لوگ بصارت کی کمزوری یا اندھے پن کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیںاس کمزوری اور معذوری کو روکا جا سکتا تھا لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیںہے کیونکہ انہیں آنکھوں کی دیکھ بھال کی بنیادی خدمات تک رسائی نہیں ہے۔
نابینا پن کے روک تھام کی بین الاقوامی ایجنسی ( آئی اے پی بی) (The International Agency for the Prevention of Blindness) کے وژن اٹلس 2020 کے مطابق ''دنیا میں1106 ملین افراد بینائی کی خرابی (جس میں اندھاپن بھی شامل ہے) کا شکار ہیں''۔جبکہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہ صحت کی ورلڈ رپورٹ آن وژن2019 کے مطابق'' دنیا میں2.2 ارب افراد بینائی کی خرابی یا نابینا پن کا شکار ہیں''۔بینائی کی خرابی سے عالمی معیشت کو سالانہ 411 بلین ڈالر کے پیداواری نقصانات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔دنیا کے نابینا افراد کی اکثریت ترقی پذیر ممالک میں رہتی ہے۔
جہاں غذائیت کی کمی، صحت اور تعلیم کی ناکافی خدمات، پانی کا ناقص معیاراور صفائی ستھرائی کی کمی یہ سب آنکھوں کی بیماریوں میں اضافے کا سبب بنتے ہیں۔ عموماً یہ سمجھا جاتا ہے کہ آنکھ کا علاج ایک مہنگا عمل ہے لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے ۔The Fred Hollows Foundation (USA)کے مطابق ترقی پذیر دنیا میںفی شخص فی سال$AU 2.20 اخراجات سے ایسے نابینا پن جس کا علاج ممکن ہے سے بچا جا سکتا ہے۔
عالمی سطح پربصارت کی خرابی کی اہم وجوہات میں غیر درست شدہ اضطراری خرابیاں(uncorrected refractive errors) اضطراری خرابی اس وقت ہوتی ہے جب آنکھ تصویروں پر واضح طور پر توجہ نہیں دے پاتی جس کے نتیجے میں بینائی دھندلی ہوتی ہے۔
موتیا(cataract)۔ عمر کے ساتھ ساتھ قرنیہ کے سفیدحصہ میں انحطاط(age-related macular degeneration)۔کالا موتیا(glaucoma) آنکھوں کی ایک بیماری جو آپٹک اعصاب کو نقصان پہنچاتی ہے اور بصارت کو متاثر کرتی ہے۔ ذیابیطس ریٹینوپیتھی(diabetic retinopathy) پردہئِ بصارت پہ ذیابیطیسی اثرات، قرنیہ کا دھندلاپن(corneal opacity) اورٹروکوما(Trachoma)آنکھ کی ایک بیماری جس میں پیوٹے کے اندر دانے نکلتے ہیں، شامل ہیں۔
پاکستان بھی دیگر ترقی پذیر ممالک کی طرح بصارتی امراض کا شکار ملک ہے جہاں بینائی سے متاثرہ افراد کی ساتویں بڑی تعداد رہائش پزیر ہے۔ ملک کی 11.8 فیصد آبادی بصارت کے مسائل کا سامنا کر رہی ہے۔ نابینا پن کے روک تھام کی بین الاقوامی ایجنسی( آئی اے پی بی) کے وژن اٹلس 2020 کے مطابق پاکستان کے 26.3 ملین افرادخراب بینائی کے ساتھ جی رہے ہیں۔
اعدادوشمار کے تجزیہ کے مطابق دنیا کے2.4 فیصد اور جنوب ایشیا کے 7.8 فیصد بینائی کے مسائل میں مبتلا افراد پاکستان میں رہ رہے ہیں۔ملک میں 1990 سے2020 کے دوران بینائی کے مسائل کی حامل آبادی میں96 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان کی وزارت صحت نے عالمی ادار ہ صحت کے ساتھ مل کر 1989-90 اور-04 2003 میں دو قومی نابینا سروے کیے ۔
جن کے نتائج کی روشنی میں نابینا پن کی روک تھام کے لیے قومی کمیٹی کی تشکیل دی گئی جو 2008 میں نیشنل آئی ہیلتھ کمیٹی بن گئی۔ یہ کمیٹی کتنی فعال ہے اس کا اندازہ آپ کوکمیٹی کی ویب سائٹ پر جانے کے بعد باخوبی ہوجائے گا۔اس کے علاوہ ملک میں آنکھوں کے علاج معالجے کی سہولیات کو جو منظر نامہ وژن اٹلس 2020 کی صورت میں ہمارے سامنے ہے اس کے مطابق آنکھوں کی تمام بیماریوں کی تشخیص، علاج اور سرجری کرنے والے ماہر ڈاکٹرز (ophthalmologists) کی تعدادپاکستان میں صرف 2800 ہے اور آبادی 22 کروڑ سے زائد۔ اسی طرح آپٹومیٹرسٹ (optometrists)جو ایک ہیلتھ پروفیشنل ہے جسے آنکھوں اور بصری نظام کی بیماریوں اور خرابیوں کی جانچ، تشخیص، علاج اور روک تھام کے لیے تربیت دی جاتی ہے۔
ان کی تعداد محض 1020 ہے۔لیکن ہمارے یہ مٹھی بھر امراض چشم کے ماہر ڈاکٹرز سالانہ موتیا کے 5 لاکھ آپریشنز کرتے ہیں اور پاکستان ان آپریشنز کی تعداد کے حوالے سے دنیا بھر میں ساتویںنمبر پر ہے۔جبکہ ملک میں موتیا کی مؤثر جراحی کوریج (Effective cataract surgical coverage)71.3 فیصد ہے۔
ڈاکٹر شمشاد علی جو سروسز ہسپتال لاہور کے شعبہ امراضِ چشم میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں پاکستان میں آنکھ کے امراض کی صورتحال کی تفصیل بتاتے ہیں کہ '' پاکستان 23 کروڑ آبادی کا ایک بڑا ملک ہے جس کی صفر عشاریہ سات آٹھ فیصد (0.78%) آبادی نابینا ہے جبکہ امریکہ میں یہ تناسب صفر عشاریہ ایک نو فیصد(0.19%)ہے ۔وطنِ عزیز کی3.76 فیصد آبادی کی بینائی اس قدر متاثر ہے کہ وہ اپنے روزمرہ کے معمولات ادا کرنے سے قاصر ہیں۔
4.08 فیصد آبادی گلوبل بلائنڈنس کے زمرے میں آتی ہے(ایسا شخص جو کسی لفظ کی بھی شناخت نہیں کرسکتا ہو)۔ 2014 میں پاکستان میں سفید موتیے کی سرجری کی شرح 2819 افراد فی ملین آبادی تھی ۔جبکہ امریکہ میں فی ملین آبادی کے لیے سی ایس آر11000 ہے ۔عالمی ادارہ صحت نے پاکستان کے لیے فی ملین آبادی تین ہزار آپریشن کا ہدف دیا تھا ۔پاکستان میں سفید موتیا کے آپریشن کا ہدف 86 فیصد تھا جبکہ صرف 71.3 فیصد حاصل ہورہا ہے۔
ایک محتاط اندازے کے مطابق اس وقت پاکستان میں فی ملین آبادی کے لئے صرف 11ماہر امراض چشم موجود ہیں جبکہoptometrists صرف 4.6 فی ملین ہیں۔ اس حساب سے پاکستان میں امراضِ چشم کے علاج میں وسائل بہت محدود ہیں۔ دوسری طرف زیادہ تر آئی کیئر سروسز صرف شہری علاقوں میں ہی میسر ہیں جبکہ دو ردراز کے دیہی علاقوں کے افراد کے لیے آنکھوں کے امراض کے علاج کی سہولیات محدود ہیں۔
اس کے علاوہ آنکھوں کے آپریشن میں استعمال ہونے والاEquipment اور Consumables بہت مہنگے اور بیرون ملک سے منگوانے پڑھتے ہیں۔ اس لیے یہ بھی علاج معالجے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔یوں cost-effective consumablesنہ ملنے کے باعث غیر معیاری علاج پروان چڑھ رہا ہے جس کے نتیجے میں پیچیدگیاں زیادہ ہونے کی وجہ سے مریضوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے ۔پھر ایک پہلو یہ بھی ہے کہ تشخیص کے جدید طریقوں کے باعث اب امراض کی تشخیص میں اضافہ ہوا ہے جو کہ ایک خوش آئندبات ہے۔
لیکن وسائل کی کمی اور غیر معیاری سامان کی وجہ سے مکمل علاج بہت مشکل اور مہنگا ہو چکا ہے۔ اس حوالے سے پنجاب اور کے پی کے میں صحت کارڈ کے تحت آنکھوں کے علاج میں بہت بہتری آئی اور بہت ساری آبادی جن کے لیے سفید موتیا اور دیگر بیماریوں کا علاج پہنچ سے باہر تھا اب کسی حد تک ان کوRelief ملا ہے۔ اس کے ساتھ بہت سارے ٹرسٹ،خیراتی ادارے اور این جی اوز بھی آنکھوں کے علاج میں پیش پیش ہیں۔
جن سے بہت سے لوگ فائدہ اٹھا رہے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کی ہدایات کے مطابق پاکستان کو کم از کم فی ملین آبادی کے لیے پندرہ ماہر امراضِ چشم کی ضرورت ہے ۔جبکہ ترقی یافتہ ممالک میں تقریبا 38.4 فی ملین ماہر امراضِ چشم موجود ہیں۔ ماہر امراضِ چشم کی اچھی خاصی تعداد بہتر روزگار کے لئے ملک چھوڑ کر بیرون ملک جا رہی ہے۔ جس سے ملک میں ماہر ڈاکٹروں کی مزید کمی واقع ہو رہی ہے۔
بیرونِ ملک بہترین روزگار اور اچھا طرز زندگی میسر ہے جو کہ ماہر افراد کے لیے پُرکشش ہے ۔اس کے برعکس پاکستان میں میرٹ کا فقدان، امن و امان کی مخدوش صورتحال اور بہت کم تنخواہیں، بیروزگاری، ملازمتوں میں طرف داری کا رویہ ماہر اور قابل لوگوں کو یہاں کے سسٹم سے متنفر کرکے باہر کے ممالک میں منتقل ہونے پر مجبور کر رہا ہے۔ جس سے پاکستان سے ذہین ترین افراد کا Brain drain مسلسل جاری ہے۔
لیکن ارباب اختیار کو اِس کی کوئی فکر نہیں جو کہ انتہائی تشویشناک ہے''۔آنکھوں کے امراض کی ابتدائی علامات جن میں ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیئے؟ اس بارے میں اُن کا کہنا ہے کہ ـ''چونکہ آنکھوں کا بنیادی کام دیکھنا ہے تو اس لیے آنکھوں کے امراض کی سب سے ابتدائی علامت تو نظر کی کمی ہے جس کے لیے کسی ماہر بصارت کوچیک کرواکر پتہ چل سکتا ہے کہ نظر کی کمی کی وجہ صرف عینک کا نمبر ہے یا کچھ اور بھی ہے۔
تاکہ ڈاکٹر نظر کی کمی کی دیگر وجوہات کا تعین کرکے بروقت علاج کر سکے ۔نظر کے کم ہونے کی دوسری بڑی وجہ سفید موتیا ہے جس کا چند منٹوں کا آپریشن اور لینز ڈالنے سے مریض پھر دوبارہ ٹھیک ٹھاک دیکھنے کے قابل ہوجاتا ہے۔اگر کسی مریض کی نظریکدم بند ہو جائے یا آنکھ میں شدید درد یا بہت زیادہ سرخی آجائے تو فوراً ماہر اور کوالیفائیڈ ڈاکٹر کو چیک کرو اناضروری ہے ۔
کیونکہ اِن علامات کے نتیجے میں نظر کا مستقل ضائع ہوجانے کا بہت زیادہ احتمال ہوتا ہے۔ دراصل یہ علامات نور کے پردے کے اکھڑنے، خون کی رگ کے بند ہونے، آنکھوں میں خون آ جانے یا کالے موتیے کے شدید حملے کی علامات ہیں۔اس کے علاوہ آنکھ کا خشک ہونا،دوہری بصارت،
فلوٹرز (چھوٹے دھبے جو آپ کی آنکھوں کے سامنے تیرتے دکھائی دیتے ہیں)، روشنیوں کے گرد دائرے (ہالوز)اور روشنی کی چمک ایسی کیفیت میں بھی ڈاکٹر سے رجوع کرنا چاہیئے۔ اس کے علاوہ آنکھ کی ایمرجنسی بہت سی طرح کی ہو سکتی ہیں ۔اگر تو ایکسیڈنٹ ہوا ہو اور آنکھ کو نقصان پہنچا ہو تو فورا ًآنکھ کو کسی صاف کپڑے یا ٹشو پیپر سے ڈھانپ کر جتنی جلدی ممکن ہو ہسپتال میں چیک کروایا جائے۔
اگر گھر میں کوئی کیمیکل یا بیٹری کا تیزاب آنکھ میں چلا جائے تو بھی فوراً ہسپتال پہنچنا چاہیے۔ اگر ہسپتال پہنچنا مشکل ہو یا زیادہ وقت لگ رہا ہو تو آنکھوںکو فوراً پانی سے اچھی طرح دھوئیں اور جلد از جلد ہسپتال پہنچ کر علاج شروع کروائیں۔ ویلڈنگ، مکینیکل ورک، گھروں کی تعمیر ومرمت اور گھر میں کیل وغیرہ ٹھونکتے وقت بڑے شیشیوں والی عینک کا استعمال ضروری کریں۔
جیسے کہ میں پہلے بتا چکا ہوں کہ اگر خدانخواستہ کوئی کیمیکل یا بیٹری کا تیزاب آنکھوں میںڈل جاتا ہے تو اس صورت میں گھریلو ٹوٹکے کے طور پر آنکھ کو بہت اچھی طرح دھونا بڑا موثر ثابت ہوتا ہے اسی طرح آنکھوں کو ٹھنڈے پانی سے دھونا اور کھیرے وغیرہ کا مساج کرنا بہت سکون دیتا ہے۔ لیکن بعض اوقات اگر صفائی کا خیال نہ رکھا گیا ہو تو یہی گھریلو ٹوٹکے بہت خطرناک بھی ہو سکتے ہیں۔
آج کل گھریلوٹوٹکے کے طور پر عرقِ گلاب کے ڈراپس استعمال کیے جاتے ہیں ۔یا چند برانڈڈ آئی ڈراپس کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے جن میں سٹیرائڈز ہوتے ہیں اِن برانڈڈ ڈراپس کے زیادہ عرصے تک استعمال سے آنکھ میںکالاموتیا جنم لیتا ہے اور اس سے بینائی ہمیشہ کے لئے ختم ہوسکتی ہے۔
اس لئے کوئی بھی دوا از خود استعمال نہیں کرنی چاہیے''۔آنکھوں کا ڈاکٹری معائنہ کب اور کتنی مدت کے بعد کرانا ضروری ہے؟ ڈاکٹر شمشادعلی کا اس سلسلہ میں کہنا ہے کہ ''بچہ جب پیدا ہوتا ہے تو پیدائش کے بعد ایک بار آنکھوں کے ڈاکٹر سے اُس کا چیک اپ ضرور کرانا چاہیے وہ اس لیے کے اگر پیدائشی طور پر آنکھ کا کوئی مسئلہ ہوتو بہت پہلے اور بروقت اُس کی تشخیص کی جا سکے۔
دوسری بار جب آنکھوں کا معائنہ ضروری ہوتا ہے وہ بچوں کے اسکول میں داخلہ سے پہلے کا وقت ہے۔ ہر بچہ کا اسکول جانے سے پہلے آنکھوں کا معائنہ ضرور ہونا چاہیئے۔ اس کے بعد دو طرح کی آبادی آ جاتی ہے ایک وہ لوگ جن کو عینک کا کوئی نمبر لگتا ہے اور ایک وہ لوگ جن کو عینک کا نمبر نہیں لگتا ۔
جن کو عینک کا نمبر لگتا ہے انہیں درست نمبر کی عینک لگانی چاہیئے اور اس کے بعد ہر چھ مہینے بعداپنی عینک کا نمبرReview کرانا چاہیئے۔ یہ نارمل پاپولیشن کی صورت میں ہے۔ اب آ جاتے ہیں اُن لوگوںکی جانب جنہیں شوگر یا بلڈ پریشر ہو جاتا ہے۔
شوگر اور بلڈ پریشر والے مریض کو سالانہ آنکھوں کا ایک دفعہ تفصیلی معائنہ ضرور کرانا چاہیئے اگر شوگر یابلڈ پریشر کے اثرات پردے پر آنا شروع ہوجائیں تو اس کی شدت کے مطابق آنکھوں کا معائنہ شیڈول کیا جاتا ہے ۔کم شدت کی تبدیلیوں کے حامل کچھ مریضوں میں چھ6 مہینے کے بعد معائنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور جن میں زیادہ شدت کی تبدیلیاں ہوں تو اُنھیںماہانہ یا ہفتہ وار فالواپ کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے ۔
اس کے بعد وہ آبادی جو 40 سال سے زائد عمر کی ہوتی ہے۔ اِن میں کالا موتیا ہونے کا امکان ہوتا ہے یا وہ لوگ جن کی فیملی میں کسی کو یہ مرض ہو تو کالے موتیے کی سکریننگ کے لیے چالیس سال سے زیادہ عمر کے افراد ایک دفعہ اپنی آنکھوں کاتفصیلی معائنہ ضرور کروانا چاہیئے ''۔کیا ہمارے ملک میں آنکھوں کے تمام امراض کا علاج اور آپریشنز ممکن ہیں؟ ڈاکٹر شمشاد علی کہتے ہیں کہ '' جی الحمداللہ اس حوالے سے پاکستان بہت خوش قسمت ملک ہے کہ یہاں آنکھ کے ہر قسم کے علاج معالجے کی سہولت میسر ہے آنکھوں کے تفصیلی معائنے میں معاون ہر قسم کے ٹیسٹ کرنے کی مشینری یہاں میسر ہے۔
عینک سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے لیزر آپریشن سے لے کر سفید موتیا ،کالا موتیا ،نور کے پردے، بھینگا پن، آنکھوں کی پلاسٹک سرجری اور مصنوعی آنکھ لگانے تک کی تقریبا ًتمام تر سرجری یہاں ہو رہی ہے۔ بلکہ آگے اس کی ٹریننگ بھی دی جاتی ہے جوابھی تک بہت محدود ہے اس کو وسعت دینے کی ضرورت ہے ۔بڑے ہسپتال اور جدید مشینری مہیا کرنے کی بھی شدید ضرورت ہے ۔
ہمارے ڈاکٹر اور سرجن بہت قابل ہیں ان کو صرف وسائل اور مواقع ملنے کی ضرورت ہے''۔ملک میں آنکھوں کے عطیہ کی کیا صورتحال ہے؟ ڈاکٹر صاحب کا اس بارے میں کہنا ہے کہ ''بدقسمتی سے پاکستان کا معاشرتی نظام انسانی اعضاء کے عطیہ کرنے کے عمل میں بہت پیچھے ہے۔
پی ایچ او ٹی اے جیسے ادارے تو بن چکے ہیں لیکن ابھی تک عملی طور پر اس معاملے میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی ۔ابھی بھی انسانی قرینہ منگوانے کے لیے امریکہ یا سری لنکا سے رابطہ کرنا پڑتا ہے ۔پچھلے دنوں ایک خبر گردش کر رہی تھی کہ فیصل آباد میں قرینہ بینک بنایا گیا ہے اور اس کی مدد سے پانچ سو سے زائد مریضوں کی آنکھوںمیںقرینہ لگائے گئے ہیں جو کہ بہت خوش آئند خبر ہے اور ٹھنڈی ہوا کا ایک جھونکا ہے اس حوالے سے ارباب اختیار کو سنجیدگی سے کام کرنے کی بہت زیادہ ضرورت ہے'' ۔
عموماً آنکھ کے علاج کے بارے میں چند توہمات بھی موجود ہیں جیسا کہ آنکھوں کے قطرے موتیا کو تحلیل کر سکتے ہیں۔ موتیا کو ہٹانے سے پہلے پک جانا ضروری ہے۔موتیاکو لیزر سے دور کیا جا سکتا ہے۔آنکھیں ٹرانسپلانٹ کی جا سکتی ہیں۔ان میں کتنی سچائی ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ '' جی بالکل ابھی بھی ہمارے معاشرے میں بہت سارے مفروضے ہیں جیسا کہ ایک بزرگ بڑے عرصے سے آنکھوں کے سفید موتیا کا آپریشن اس لیے نہیں کرا رہے کہ ُان کا خیال ہے کہ آنکھ کا آپریشن کروانے کے بعد بندہ جلد فوت ہوجاتا ہے ۔
ایسے ہی لوگ گرمی اور برسات کے موسم میں آپریشن نہیں کرواتے کہ اس موسم میں زخم نہیں بھرتا اور پسینہ بہت آتا ہے۔ اس کے علاوہ ایسے قطرے مارکیٹ میں موجود ہیںجو موتیا کو تحلیل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔لیکن طبی طور پر منظور شدہ ایسا کوئی پروڈکٹ نہیں ہے جو ایسا کر سکے۔
لہذا آپ کو ان مصنوعات سے پرہیز کرنا چاہیے۔ موتیا کا فی الحال قبول شدہ علاج سرجری ہے۔لیکن اس کے بارے میں بھی ایک مفروضہ ہے کہ یہ آپریشن لیزر کے ذریعہ ہوتا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اب ٹیکنالوجی اتنی ایڈوانس ہوگئی ہے کہ سفید موتیا کے آپریشن میں کوئی ٹانکہ نہیں لگایا جاتا ۔لینز بھی فولڈایبل ہوتا ہے جو انجیکٹر کی مدد سے آنکھ کے اندر ڈالا جاتا ہے اور آنکھ میں جاکر کھل جاتا ہے۔ کوئی ٹانکہ لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی تو مریض سمجھتا ہے کہ شاید میرا آپریشن لیزر سے ہوا ہے ۔
حالانکہ اصل تکنیک جو ہے وہ الٹراساؤنڈ کی ہے۔جسے Phacoemulsification کہا جاتا ہے۔ جس میںالٹراساؤنڈ لہروں کے ذریعے اسے پگھلا کر نکال لیا جاتا ہے۔لیزر سے موتیا کا آپریشن نہیں ہوتا۔اس کے علاوہ موتیا کو ہٹانے سے پہلے اس کے پکنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔آنکھ کی پیوند کاری نہیں ہو سکتی یہ آپٹک اعصاب کے ذریعے دماغ سے جڑی ہوئی ہے۔ جسے منقطع ہونے کے بعد دوبارہ جوڑا نہیں جا سکتا۔ صرف آنکھ کا واضح سامنے والا حصہ قرنیہ ٹرانسپلانٹ کیا جا سکتا ہے''۔
ملک میں آنکھوں کے بہتر علاج معالجے کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں ڈاکٹر شمشاد علی کا کہنا ہے کہ '' ہمارے ملک میں آنکھوں کے مناسب علاج معالجے کی موجودگی کے باوجود آبادی کا بہت کم تناسب اس سے مستفید ہو پا رہا ہے ۔ اگر اس کا بغور مطالعہ کیا جائے تو درج ذیل مسائل بہتر علاج معالجے کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔
جیسا کہ ہسپتالوں میں بہت زیادہ رش ،مالی مشکلات، گھریلوٹوٹکے، روایتی علاج معالجہ، عینک لگا کر یہ سمجھنا کے ہم علاج کر چکے وغیرہ ۔ ریاست کی طرف سے صحت سہولت پروگرام ایک بہت خوش آئند اقدام ہے بہرحال اس میں بہت بہتری کی گنجائش ہے''۔
آنکھوں کی صحت اور اُن کی دیکھ بھال کو درپیش چیلنجزمیں موسمیاتی تبدیلی اور اس کے نتیجہ میںرونما ہونے والی قدرتی آفات بھی نمایاںہیں۔ جن سے آنکھوں کی شدید الرجک ، کالا اور سفید موتیا، عمر کے ساتھ ساتھ قرنیہ کے سفید حصہ میں انحطاط، ٹریچوما انفیکشن، وٹامن اے کی کمی اور آنکھوں کی چوٹوں کے واقعات میں اضافے کا امکان بڑھ جاتا ہے وہیں انتہائی موسمی واقعات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث آنکھوںکے علاج معالجہ کی فراہمی اور مریضوں کی دیکھ بھال کے نظام میں خلل پڑنے کا بھی امکان ہو جاتاہے۔
پاکستان کے حالیہ سیلاب میں یہ سب کچھ متاثرین کے ساتھ بھی ہورہا ہے۔ ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر شمشاد علی نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں امراضِ چشم کی صورتحال کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ '' اس سال پاکستان میں تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب آیا ہے اور ایک محتاط اندازے کے مطابق ایک تہائی ملک سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہوا ہے جس سے بہت زیادہ جانی اور مالی نقصان ہوا ہے۔ لوگ اپنے ڈوبے ہوئے گھروں اور علاقوں کو چھوڑ کر محفوظ پناہ گاہوں میں ٹھہرنے پر مجبور ہیں۔
جس کے باعث خوراک ،صفائی اور حفظان ِصحت کی صورتحال انتہائی خراب ہے اور بہت سی بیماریوں نے جنم لیا ہے ۔پہلے اسہال اور پیٹ کے امراض کے ساتھ جلد کی بیماریاں بہت زیادہ تھیں۔ لیکن اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے بیماریوں کی نوعیت بدل رہی ہے اب ٹھہرے ہوئے پانی کے باعث مچھر بہت زیادہ ہو رہے ہیںجس سے اب ملیریا سب سے زیادہ پھیلنے والی بیماری بن چکی ہے۔
اس کے علاوہ جلد کی بیماریاں اور آنکھوں میں آشوبِ چشم بہت زیادہ ہے۔جس میں الرجی اور انفیکشن کا زیادہ حصہ ہے۔لوگوں کے گھر سے آجانے کے باعث ان کی عینکیں ان کے پاس نہیں ہیں۔ جنہیں وہ اپنے قریب کے کام کاج اور خصوصاً قرآن پاک کی تلاوت کے لیے استعمال کرتے تھے۔
ہمارے میڈیکل کیمپ اور آئی کیمپوں میںلوگ عینکوں کی فراہمی کی درخواستیں لے کر آتے ہیں چونکہ ابھی بحالی کا کام بہت سست ہے تو اس سے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جو کہ آہستہ آہستہ مزید بڑھنے کا خدشہ ہے''۔امدادی سامان میں آنکھوں کی کوئی خاص دوا شامل کرنے کی ضرورت ہے؟ اس بارے میں ڈاکٹر صاحب کا کہنا ہے کہ ''جی بالکل جہاں باقی بیماریوں کا علاج میڈیکل کیمپس اور موبائل ٹیموں کے ذریعے کیا جا رہا ہے وہیں امراضِ چشم کے علاج کو بھی ضرور اس میں شامل رکھنا چاہیے ۔
میڈیکل کے دیگر شعبوں کے ڈاکٹروں کے ساتھ امراضِ چشم کا ڈاکٹر بھی شامل ہو اور معائنہ کے مکمل انتظام کے ساتھ آنکھوں کے امراض کی تمام ادویات بھی شامل ہونی چاہیے۔ خصوصیت کے ساتھ جیسے کہ میں نے پہلے ذکر کیا کہ انفیکشن اور الرجی سے متعلقہ آشوب ِچشم زیادہ رپورٹ ہو رہا ہے تو اس کے تدارک کے لئے اینٹی بائیوٹیک، آنکھوں کی الرجی کی دوائی اور دیگرادویات ضرور شامل کرنی چاہیے۔
ماہر امراضِ چشم کی موجودگی میں کالے موتیے اور سوزش کو کنٹرول کرنے والی ادویات بہت سے مریضوں کی بینائی کو بحال رکھنے میں کافی مددگار ثابت ہونگی۔
اگر ماہرامراضِ چشم ٹیم میں شامل نہ ہوں تو اس صورت میں آنکھوں کے لئے محفوظ ادویات جیسا کہ اینٹی بائیوٹک، مصنوعی آنسو اور الرجی کی ادویات ضرورشامل کرنی چاہئیں''۔جن علاقوں میں آنکھوں کے ڈاکٹر ابھی نہیں پہنچ پارہے وہاں ریسکیو ورکرز کس طرح لوگوں کو آنکھوں کے مسائل کی ابتدائی طبی امداد دے سکتے ہیں؟ ماہر امراضِ چشم ڈاکٹر شمشاد علی کا اس بارے میں کہنا ہے کہ'' جن علاقوں میں امراضِ چشم کے ڈاکٹر ابھی تک نہیں پہنچ سکے وہاں پر دیگر میڈیکل کے شعبوں سے وابستہ افراد مریضوں کو حفظانِ صحت اور صفائی کے بہتر طریقے سمجھا کربڑی حد تک آنکھوں کے مسائل کے حل میں مدد فراہم کر سکتے ہیں۔
آنکھوں کے انفیکشن وغیرہ کے لئے اینٹی بائیوٹک ادویات تجویز کر سکتے ہیں ۔ آج کل ٹیلی میڈیسن اور سوشل میڈیاکا دور ہونے کے باعث تصویروں اور ویڈیو کالز کی مدد سے ماہر امراضِ چشم سے فوری مشورہ لے سکتے ہیں۔ بزرگوں اور بڑی عمر کے مریضوں کو نزدیک کی عینکیں مہیا کی جاسکتی ہیں''۔
سیلاب متاثرین کو درپیش آنکھوں کے مسائل کا فوری علاج کتنا ضروری ہے؟ ڈاکٹرصاحب اس حوالے سے کہتے ہیںکہ '' یہ بہت اہم پہلو ہے آنکھوں کے امراض میں کچھ جلدی اور کچھ کے معاملے میں دیر کی جا سکتی ہے۔ فوری طور پر حل ہونے والے مسائل جن میں بینائی کے ختم ہونے کا بہت زیادہ اندیشہ ہوتا ہے اس میں آنکھوں کے زخم اور السر کے انفیکشن سے پوری آنکھ میں انفیکشن پھیلنے سے آنکھ ضائع ہو جاتی ہے اور اس کے بروقت علاج سے بہت سی آنکھوں کو بچایا جا سکتا ہے۔
جلدی دیکھنے والے مسائل میں کالا موتیا ،آنکھ کی سوزش اور پردے کے امراض شامل ہیں۔ ابھی کرو نا کی وباء کے دوران بھی بہت سارے مریض اِن امراض کے بروقت علاج نہ ہونے کی وجہ سے بینائی سے محروم ہوچکے ہیں۔ کالاموتیا بینائی کا خاموش قاتل ہے اس کا مسلسل علاج بہت ضروری ہے۔
لیکن سیلاب متاثرین جہاں بہت سارے اور مسائل کا شکار ہیں وہیں ان کے لیے کالا موتیا کہ مریض کوادویات کی مسلسل فراہمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس طرح سوزش اور نور کے پردے کی بیماریوں کے مریض بھی بینائی سے محروم ہو رہے ہیں۔ اِن حالات میں سفید موتیے اور دیگر آنکھوں کے آپریشن بروقت نہ ہونے سے مریضوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے جس سے آئندہ آنے والے دنوں میں آنکھوں کے مریض بہت ساری مشکلات کا شکار ہو سکتے ہیں۔
جہاں تک آنکھوں کے امراض سے بچنے کیلئے احتیاطی تدابیر کا تعلق ہے تو اس ضمن میں کہنا چاہوں گا کہ جہاں حفظان ِصحت اور صفائی کے نظام کو اپنا کر باقی بہت ساری بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے اسی طرح آنکھوں کے امراض میں بھی خاطر خواہ کمی واقع ہوسکتی ہے ۔نظر کی کمزوری کی صورت میں بروقت عینک کا نمبر حاصل کرکے عینک کے باقاعدہ استعمال سے سردرد، آنکھوں کے درد اور نظری کمی سے بچا جا سکتا ہے۔ جیسے ہی بحالی کا عمل آگے بڑھتا ہے آنکھوں کے امراض میں مبتلا افراد کو اپنا باقاعدہ معائنہ کروا کے علاج شروع کرانا چاہیے تاکہ وہ بینائی جیسی نعمت سے محروم نہ ہو ں''۔
آنکھوں کی بینائی متاثرہونے میںکئی ایک عوامل کے ساتھ ساتھ جینیاتی نقائص بھی کار فرما ہوتے ہیں جن کی وجہ سے انسانی بصارت متاثر ہوتی ہے خصوصاً رات کے وقت دیکھائی نا دینا جسے رات کا اندھا پن یا اندھراتہ بھی کہا جاسکتا ہے لاحق ہوجاتی ہے۔اس حوالے سے یونیورسٹی آف دی پنجاب کے نیشنل سینٹر آف ایکسیلینس ان مالیکیولر بیالوجی کے تحت مورثی امراضِ چشم پر تحقیق کی جا رہی ہے۔
اس تحقیق کا مقصد اُن جینز کے صحیح مقام کی تلاش کرنا ہے جو کہ مورثی امراضِ چشم کا موجب بنتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کی جارہی ہے جین کے نقائص کس طرح مورثی امراضِ چشم پیدا کرتے ہیں۔اس پراجیکٹ کے موجودہ سربراہی تحقیق کار ( پرنسپل انویسٹی گیٹر)ڈاکٹر آصف نعیم ہیںڈاکٹر صاحب سی ای ایم بی میں میڈیکل جنیٹکس کے بھی انچارج ہیںاور اُن کے زیر نگرانی سنیٹر میںVision Impairment Lab کام کر رہی ہے۔ اس تحقیق کے بارے میں تفصیل بتاتے ہیں کہ''یہ بین الاقوامی پراجیکٹ جسے ہیومن جینو پراجیکٹ کہا جاتا ہے 1990 میں شروع ہوا تھا۔اس پراجیکٹ کے بانی تحقیق کار ایچ ایس سی کے نیشنل پروفیسر ڈاکٹر شیخ ریاض الدین تھے۔
اس پراجیکٹ میںچار سے زائد ممالک نے اور کئی تحقیقی لیبارٹریوںنے حصہ لیا۔اس پراجیکٹ کا تحقیقی کام 2001 میں مکمل ہوا اور پراجیکٹ کا فائنل ڈرافٹ2003 میں'' نیچر جینٹکس'' (Nature Genetics )نامی انٹرنیشنل ریسرچ جنرل میں شائع ہوا ''۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ وہ اس پراجیکٹس سے بطور پی ایچ ڈی اسکالر منسلک ہوئے تھے۔ کہتے ہیں کہ ''وراثتی بیماریوں کے پراجیکٹس کا کوئی مستقل دورانیہ نہیں ہوتا یہ وقت کے ساتھ ساتھ چلتے رہتے ہیں۔تاکہ تمام تر جینز کی معلومات کو اکٹھا کیا جاسکے۔
اس طرح کی معلومات اکٹھا کرنے کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ مستقبل میں کسی جین کی تھراپی دستیاب ہوتی ہے تو ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ فلاںفیملی میںفلاں جین موجود ہے اور وہ اس تھراپی سے استفادہ حاصل کرسکتے ہیں''۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ''سینٹر کیVision Impairment Lab میں تین امراض پر کام کیا جا رہا ہے ۔ اندھراتہ(رات کا اندھا پن)،پیدائشی موتیا کا مرض اور پیدائشی کالے موتیے کا مرض۔ میرا تحقیق کا بنیادی کام اندھراتہ پر ہے۔ اس تحقیق میں جناح ہسپتال لاہور، ایل آر بی ٹی ہسپتال کا بھی تعاون حاصل ہے۔
اس کے علاوہ ملک بھر سے آنکھوں کے امراض کے علاج کے مختلف اداروں اور امراضِ چشم کے ڈاکٹرز کا تعاون بھی حاصل ہے۔اس تحقیق میں ایسی فیملیز کو باقاعدہ طور پر وزٹ کیا جاتا ہے جن میںرات کے اندھا پن کے کیس ہوں۔ اُن کی معلومات کو اکٹھا کیا جاتا ہے۔
اُن کے خون کے سیمپلز، اُن کی بیماری کی ہسٹری اکٹھی کی جاتی ہے۔ان کی آنکھوںکے ٹیسٹ کے لیے ہمارے پاس Portable Instruments موجود ہیں۔آنکھوں کے پردے کا معائینہ جسے fundoscopy and electroretinography کہتے ہیں وہ ہم کرتے ہیں۔دنیا میں اس تحقیق کے مختلف تجربات ہورہے ہیںکچھ کلینیکل نوعیت کے ہیںجو کہ مختلف ادویات پر ہیں۔مختلف جین تھراپیز ہیں۔
سٹیم سلز تھراپیز ہیںجن پر کام ہورہا ہے''۔پراجیکٹ سے زیادہ سے زیادہ موثر نتائج حاصل کرنے کے لیے درکار وسائل کے حوالے سے ڈاکٹرآصف نعیم کا کہنا ہے کہ '' اگر ایڈوانس انفراسٹرکچر اور مشینری مل جائے تو ہم مختصر مدت کے اندر اندر ہر فیملی کی انفارمیشن کو exploreکرسکتے ہیںاور جلد از جلد ان میں موجود جینزکی تلاش کو یقینی بنا سکتے ہیںتاکہ مستقبل میںان میں اندھراتے کا علاج کیا جاسکے''۔
بینائی کا نقصان ایک ایسی چیز ہے جو کسی بھی فرد کے معیار زندگی کو متاثر کرتی ہے۔ تمام معاشروں میں اندھے پن کے وسیع سماجی اور معاشی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ بینائی کی بحالی اور آنکھوں کی صحت کے بنیادی ڈھانچے میں سرمایہ کاری ترقی پذیر دنیا میں سماجی تبدیلی لانے میں مدد کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
آئی اے پی بی نے 2013 میں رپورٹ کیا تھا کہ پاکستان میں خاص طور پربینائی پر خرچ کیے جانے والے ہر ڈالر کے بدلے میں چھ ڈالر کا فائدہ حاصل ہوتا ہے۔محققین کے مطابق اگر پاکستان میںتمام نابینا آبادی (تمام وجوہات سے) کی بحالی کی جائے تو اس سے جو مجموعی پیداواری فائدہ ہوگا وہ ملک کے جی ڈی پی کے 0.7 فیصد کے برابر ہو گا۔ اگر صرف قابل علاج اندھے پن کو روک لیا جائے تو اس سے حاصل ہونے والی بچت جی ڈی پی کے 0.6 فیصد کے برابر ہوگی۔ یہ دونوںفیصد صحت کی دیکھ بھال پر پاکستان کے کل اخراجات کے تقریباً برابر ہیں۔
آبادی میں اضافہ اور عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ رویوں اور طرز زندگی میں تبدیلیاں،اربنائزیشن، آنے والی دہائیوں میں آنکھوں کے مسائل، بینائی کی خرابی اور نابینا پن کے شکار لوگوں کی تعداد میں ڈرامائی طور پر اضافہ کرے گی۔
مستقبل میں اگر عمر رسیدہ افرادکی متوقع بڑھنے والی آبادی کے لیے آنکھوں کی دیکھ بھال کی خدمات تک رسائی میں اضافہ نہیں کیا گیا توبصارت سے محروم اور نابینا افراد کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوگا جو پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے آنکھوں کی صحت کی ضرورت کے لیے بہت بڑا چیلنج ثابت ہوسکتا ہے۔