کابل میں پاکستان کا بنایا جناح اسپتال اہم ترین طبی سہولت ہے

کابل کے بازاروں کا مشاہدہ خواتین کو مُنہ ڈھانپنے پر مجبور کرنے کے مغربی پراپیگینڈہ کو غلط ثابت کرتا ہے


طارق حبیب October 16, 2022
اسپتال کے عملہ کی تنخواہیں اور اودیات کے اخراجات پاکستان برداشت کرتا ہے، کابل میں گزرے شب وزور کی دلچسپ روداد ۔ فوٹو : فائل

افغانستان پر طالبان حکومت قائم ہوئے ایک برس سے کچھ زیادہ عرصہ بیت چکا ہے۔

نئے حکمرانوں کے بارے میں دو مختلف آرا ظاہر ہورہی ہیں۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ طالبان اپنے پچھلے دور حکومت سے مختلف انداز میں حکمرانی کر رہے ہیں ، جبکہ دوسرے حلقے کا خیال ہے کہ نہیں ، وہ اب بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں۔

حقیقت کیا ہے؟ اس سوال کا جواب جاننے کے لئے معروف انویسٹی گیٹو جرنلسٹ طارق حبیب افغانستان پہنچے۔ انھوں نے وہاں طالبان کے ماتحت افغانستان دیکھا ، طالبان کی اعلیٰ قیادت ، دیگر افغان رہنماؤں بالخصوص حزب اسلامی کے سربراہ گلبدین حکمت یار سے ملاقاتیں کیں۔

اہم کاروباری شخصیات سے ملے اور اس دوران میں طالبان کے افغانستان کو مختلف زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کی اور اس سب کچھ کا احوال تحریر کیا۔ ( ادارہ )

٭٭٭

دوسری قسط

کابل میں دوسرے دن کا آغاز نہایت خوش گوار تھا۔ موسم میں ہلکی ہلکی خنکی تھی۔ ہوٹل کی چھٹی منزل پر اپنے کمرے کی کھڑکی کا پردہ ہٹایا تو کابل شہرکا خوبصورت نظارہ سامنے تھا۔ صبح سویرے شہر جاگ چکا تھا، بازار کھل گئے تھے اور سڑکوں پر ٹریفک رواں دواں تھی۔

آنکھیں کابل کی خوبصورتی جذب کرنے میں مصروف تھیں کہ نکوٹین کی کمی نے پریشان کرنا شروع کردیا۔ یاد آیا کہ رات گئے آخری سگریٹ کو راکھ بنا چکا ہوں۔ تمباکو نوش جانتے ہیں کہ طلب ہو تو مطلوب بنا رہا نہیں جا سکتا۔ کوئی چارہ نہیں تھا اس لیے کمرے کی کھڑکی سے اس تاریخی شہر کے نظارے کا لطف ادھورا چھوڑ کر اپنی طلب پوری کرنے چل پڑا۔

ہوٹل سے باہر نکلا تو تازگی کا احساس ہوا۔ ہوٹل کے عین سامنے ایک خوبصورت شاپنگ سینٹر تھا جس میں قیمتی سامان انتہائی نفاست سے سجایا گیا تھا۔ اگرچہ مجھے تمباکو نوشی کی طلب مٹانا تھی مگر میں نے کابل کی سڑکوں پر مٹرگشت شروع کردی۔

نواں شہر کے بازار میں اس وقت رش تو تھا مگر دکانوں میں خریدار نہ ہونے کے برابر تھے۔ وجہ یہ تھی کہ دکانیں ابھی ابھی کھلنا شروع ہوئی تھیں اور جو رش تھا وہ اس بازار کو گزرگاہ کے طور پر استعمال کرنے والے یا اس بازار میں کاروبار و ملازمت کرنے والوں کا تھا۔

دکانوں کے سامنے ٹھیلے والے بھی اپنا سامان فروخت کر رہے تھے۔ قدر مشترک یہ تھی کہ دکانوں کے اندر اور ٹھیلے والے سامان ترتیب دینے کے بعد یا تو قرآن شریف کی تلاوت میں مصروف تھے یا پھر تسبیح کے دانے گراتے ذکر اذکار میں مصروف تھے۔ چہروں پر اطمینان اور آنکھوں میں چمک تھی۔

طالبان حکومت کے قیام کے بعد جو خدشات، خوف اور بے یقینی مغربی میڈیا کی جانب سے پھیلائی جا رہی تھی مجھے کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ شہر کی سڑکوں پر بچے اور بچیاں اپنے تعلیمی اداروں کی جانب رواں دواں تھے۔ بچیوں کے حوالے سے جس سختی کا پروپیگنڈہ مغرب کرتا ہے۔

اس کا عشر عشیر بھی دیکھنے میں نہیں آرہا تھا۔ عبایا پہنے اور سر اسکارف سے ڈھانپے، کھلے چہروں اور آنکھوں میں روشن مستقبل کے خواب سجائے کابل کی بیٹیاں نہایت اعتماد کے ساتھ آتی جاتی نظر آرہی تھیں۔ میرے ذہن میں مغربی میڈیا کی ہرزہ سرائی کا اتنا اثر تھا کہ جو آنکھوں دیکھے پر بھی یقین نہیں کر رہا تھا۔

صحافتی تجسس سے مجبور ہوکر میں نے ایک بچی کو روک کر اپنا تعارف کرایا اور چند سوالات کرنے کی اجازت مانگی تو اس نے بہ خوشی اجازت دے دی۔ کابل کی ایک نجی یونیورسٹی کی اس طالبہ نے مغربی میڈیا کی جانب سے میرے ذہن میں بھرے جانے والے خدشات کو نکال باہر پھینکا۔ روانی سے انگریزی میں جواب دیتے ہوئے اس کا کہنا تھا کہ ہم پر کوئی سختی یا جبر نہیں ہے۔

خواتین کا پردہ کرنا مذہبی احکامات کے ساتھ ساتھ ہماری روایات کا بھی حصہ ہے۔ خواتین کی بہت بڑی تعداد آپ کو اسکارف پہنے نظر آئیں گی۔ چہرہ نقابن سے ڈھانپنے کے لیے کوئی زبردستی نہیں۔ اگر کوئی چہرے کو نقاب میں چھپاتا ہے تو یہ بھی اس کا حق ہے۔

خواتین پر تعلیم کی پابندیوں کے حوالے سے میرے سوال پر اس کا کہنا تھا: '' پابندی نہیں ہے البتہ طریقہ کار تبدیل کیا گیا ہے۔ ایک ہی تعلیمی ادارے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے حصول تعلیم کے اوقات کار میں تبدیلیاں کی گئی ہیں مگر کہیں بھی لڑکیوں کو تعلیم سے نہیں روکا گیا۔

ہم پانچ بہنیں ہیں، دو بہنیں ایم بی بی ایس کر رہی ہیں، ایک بہن ہوٹل مینجمنٹ اور ایک ابھی اسکول میں ہے۔ جب مجھے یہ پتا چلا میری مخاطب صحافت کی طالبہ ہیں تو اندازہ ہوا کہ کیسے وہ سرراہ انتہائی اعتماد سے کھڑی میرے سوالوں کا خوش دلی سے جواب دے رہی ہیں۔ اس بچی نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ہمیں کسی طرح کی کوئی پریشانی نہیں ہے۔ میں یہ بتانے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی کہ اب ہمیں اکیلے سفر کرتے کسی طرح کی پریشانی یا خطرے کا احساس نہیں ہوتا۔ ''

جب میں نے پوچھا کہ میڈیا کے مطابق اگر طالبان سکیورٹی اہلکار مرد و خواتین کو راستے میں باتیں کرتے دیکھ لیں تو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو اس نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ میرا انٹرویو لے رہے ہیں۔ اس دوران طالبان سکیورٹی اہلکاروں کی ایک گاڑی ، دو موٹر سائیکل سوار اہلکار ہمیں دیکھتے ہوئے یہاں سے گزرے ہیں مگر کسی نے کچھ نہیں کہا۔ میں نے نیک تمناؤں کے ساتھ اس بچی کا شکریہ ادا کیا اور آگے نکل گیا۔

میں تا حال سگریٹ کی کوئی خبر پانے میں ناکام تھا۔ تلاش میں نظریں دوڑانا شروع کیں تو کچھ فاصلے پر ایک سگریٹ فروش نظر آیا۔ اس کے پاس پہنچا تو پہلی حیرت تو اس کے دکان نما ٹھیلے کو دیکھ کر ہوئی جو نہ تو پاکستان میں موجود سگریٹ فروشوں کے کیبن کی طرح تھا اور نہ ریڑھی کی طرح، بلکہ ان دونوں کا مکس ڈیزائن معلوم ہوتا تھا۔ لکڑی کے مضبوط تختے کو عمودی رکھا گیا تھا اور اس میں ریکس بنا دیے گئے تھے۔

جن پر رنگ برنگے سگریٹ کے پیکٹس خوبصورتی سے سجے ہوئے تھے ، اس کے نیچے چھوٹے پہیے لگے ہوئے تھے جس کے ذریعے اس کیبن کو کہیں بھی لے جایا جاسکتا تھا۔ اس کیبن نما ٹھیلے پر ایک چھتری لگائی گئی تھی۔

مجھے تجسس یہ تھا کہ وہاں موجود تمام ٹھیلے ایک ہی ڈیزائن کے تھے اور سب پر ہی رنگین چھتریاں موجود تھیں۔ تجسس کے مارے سگریٹ فروش سے تفصیل جاننے کی کوشش کی مگر وہ اردو سمجھنے سے قاصر تھا۔ اس کے پاس پاکستان کے علاوہ ہر ملک کے سگریٹ موجود تھے۔

اپنی برانڈ نہ ملنے پر میں نے دوسرے سگریٹ لیے اور اشاروں میں اس سے قیمت پوچھی۔ جواب میں اس نے دو تین بار مجھے قیمت سمجھانے کی کوشش کی۔ ناکامی پر اس نے موبائل نکالا اور اس میں کیلکولیٹر کی ایپ استعمال کرتے ہوئے ہندسوں میں مجھے قیمت بتائی۔ ابھی میں اسے قیمت دے ہی رہا تھا کہ ہمارے ایک میزبان انعام اللہ مجھے ڈھونڈتے ہوئے وہاں تک آگئے۔ مجھے انعام اللہ کا ساتھ میسر آیا تو ایک بار پھر انعام اللہ کو مترجم بنا کر سگریٹ فروش سے سوال جواب شروع کردیے۔

پتا چلا کہ چار پہیوں والے ٹھیلے جگہ کافی گھیرتے تھے اور اس سے ٹریفک کی روانی میں خلل پڑتا تھا اس لیے طالبان نے یہ مخصوص انداز کے ٹھیلے بنا کر انھیں دیے ہیں۔

یہ ناصرف جگہ کم گھیرتے ہیں بلکہ ان کے مقامات بھی طے کردئیے گئے ہیں اس لیے انھیں ادھر ادھر حرکت نہیں دی جاسکتی ورنہ جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ سگریٹ فروش کا شکریہ ادا کیا اور ہوٹل کی جانب واپس ہو لیے۔ انعام اللہ نے بتایا کہ وہ مجھے ہی ڈھونڈ رہا تھا کیونکہ ہم نے اپنے شیڈول کے مطابق مختلف ملاقاتیں کرنا تھیں۔ ہوٹل کی جانب واپس جاتے ہوئے جب غور کیا تو سگریٹ فروش کی بات بالکل ٹھیک ثابت ہوئی۔ ان ٹھیلہ نما کیبنز کی بناوٹ ایسی تھی کہ یہ زیادہ جگہ نہیں گھیرتے تھے اور بے ہنگم انداز میں نہیں لگائے گئے تھے۔

ہوٹل پہنچنے کے بعد جب میں اپنے کمرے سے واپس آیا تو تمام ٹیم اراکین موجود تھے اور دورے کا آغاز کرنے کے لیے تیار تھے۔ تین گاڑیوں میں سوار ہمارا قافلہ محمد علی جناح اسپتال کابل روانہ ہوا۔ کابل کی تیز رفتار ٹریفک کے درمیان ہمارے میزبانوں کی ماہرانہ اور برق رفتار ڈرائیونگ کے باعث ہم تقریباً بیس منٹ میں ہوٹل سے محمد علی جناح اسپتال پہنچ گئے۔

کابل کی سڑکوں پر تیزرفتار ڈرائیونگ صرف ہمارے میزبانوں کا ہی خاصہ نہ تھی بلکہ ایسا لگتا تھا کہ ہر گاڑی ٹیک آف کرنے والی ہے۔ اندازہ ہوا کہ ان کا توکل کس درجہ کمال پر ہے اور موت کا ایک دن معین ہونے پر ان کا ایمان کتنا پختہ ہے۔ آخر تین سپرپاورز کو ایسے ہی تو شکست نہیں دی اس قوم نے۔

جب ہم جناح اسپتال کابل، پہنچے تو اسپتال کے ذمہ داران کے ساتھ ساتھ افغانستان میں پاکستان کے قائم مقام سفیراسد عباس بھی موجود تھے۔ یہ اسپتال کابل کے ایسے علاقے میں واقعہ ہے جہاں اہل تشیع مسلک سے تعلق رکھنے والی ہزارہ برادری کی اکثریت ہے اور شاید یہی وجہ تھی کہ اسپتال کے اطراف کی عمارتوں پر علم لہرا رہے تھے۔

اسد عباس اور اسپتال کے ذمہ داران نے مسکراتے چہروں کے ساتھ ہمیں خوش آمدید کہا۔ یہ اسپتال پاکستان کی جانب سے اعلان کردہ ایک بلین ڈالر کی امداد کا حصہ ہے جس کے تحت افغانستان میں ننگر ہار کڈنی سینٹر، رحمان بابا اسکول میں ایک سو کمروں پر مشتمل ہاسٹل، کابل یونیورسٹی میں شعبہ اقبالیات، کابل جلال آباد دوطرفہ سڑک سمیت مختلف منصوبے مکل کیے گئے ہیں۔

جناح اسپتال کابل200 بستروں پر مشتمل اسپتال ہے جو 2019 میں افغان حکومت کے حوالے کیا گیا تھا۔ 25 ایکڑ پر محیط اس اسپتال کی اس عمارت کا کوورڈ ایریا تقریباً 16 ہزار مربع میٹر ہے۔ اس اسپتال میں مکمل طور پر جدید مشینری سے آراستہ انتہائی نگہداشت کا شعبہ ،گائنی کا شعبہ اور مختلف شعبے قائم ہیں۔

24 ملین ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والے اس منصوبہ کو افغانستان میں موجود طبی شعبے میں انتہائی اہم اور بڑا منصوبہ تصور کیا جاتا ہے۔ اس منصوبے کی تکمیل کے بعد بھی پاکستان کی جانب سے امداد کا سلسلہ جاری رہا اور اسپتال میں ریڈیالوجی کا شعبہ قائم کیا گیا جبکہ کورونا کی وباء کی دوران 1200 گیس سلنڈر یومیہ دینے کا انتظام بھی کیا گیا تھا۔

اس کے ساتھ پاکستان کی جانب سے افغان طلباء کے لیے 1000اسکالرشپس دینے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے جس کے تحت اب تک 6000 طلبہ پاکستان کے مختلف تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کرکے اب عملی زندگی میں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اس اسپتال کے عملے کی تنخواہیں مکمل طور پر پاکستان کی جانب سے ادا کی جاتی ہیں۔ اس اسپتال میں آنے والا مریض 20 افغانی روپے کی پرچی بنوانے کے بعد اپنا مکمل علاج یہاں کروا سکتا ہے اور دوران علاج اسے مفت ادویات فراہم کی جاتی ہیں۔

اسپتال کے دورے کے دوران افغانستان میں پاکستان کے قائم مقام سفیر اسد عباس اور اسپتال کے ڈائریکٹر ڈاکٹر خلیل کی جانب سے پاکستانی صحافیوں کے وفد کو بریفنگ بھی دی گئی جس میں بتایا گیا کہ اس وقت سالانہ کینسر کے ہزاروں مریض افغانستان سے پاکستان جاتے ہیں۔

پاکستان نے فیصلہ کیا ہے اپنے دوست ملک کے جناح اسپتال میں ہی کینسر وارڈ بھی بنایا جائے گا۔ اسپتال میں علاج کے لیے آئے مریضوں نے بتایا کہ یہ اسپتال نعمت خداوندی ہے اور اس کے لیے اپنے پاکستانی بھائیوں کے مشکور ہیں۔گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ کا شکار رہنے والے افغانستان کو مختلف مسائل کا سامنا ہے جن میں عوام کو درپیش طبی مسائل سب سے اہم ہیں۔

بریفنگ کے بعد صحافیوں کے وفد کے اراکین انفرادی طور پر اسپتال کا دورہ کرنے لگٰے۔ میں اسپتال کے مختلف شعبے کو دیکھتے ہوئے اسٹور روم پہنچا تو یہ دیکھ کر دل کٹ کر رہ گیا کہ نئی اور جدید ترین مشینری پیک حالت میں موجود ہے جس کی انسٹالیشن تاحال نہیں ہوسکی ، یہ مشینری پڑے پڑے خراب ہو رہی ہے۔

دیگر شعبوں کو دیکھتے اور مریضوں سے بات کرتے میں اسپتال کے عقبی حصے کی جانب آیا تو وہاں ایک تباہ شدہ ٹینک نظر آیا جو مٹی میں دھنسا ہوا تھا۔ اس ٹینک کو دیکھنے کے دوران جب اس کے عقب میں اسپتال کی عمارت اور اس میں موجود مریضوں پر نظر پڑی تو یہ ایک منظر پوری داستان بیان کرنے کے لیے کافی تھا۔

اسپتال کے تفصیلی دورے کے بعد اسپتال انتظامیہ کے ذمہ داران اور اسد عباس صاحب نے ہمیں رخصت کیا اور ساتھ ہی انھوں نے پاکستان سفارت خانے آنے کی دعوت دی۔ اسپتال سے نکلنے کے بعد میں نے بہت کوشش کی کہ میزبانوں کی جانب سے ہمیں اقلیتی برادریوں کی عبادت گاہوں کا دورہ کرایا جائے تاکہ جانچا جاسکے کہ طالبان کے دور حکومت میں اقلیتی برادریاں کیا محسوس کرتی ہیں۔ ایسا اس وقت تو نہ ہوسکا کیونکہ ہماری اگلی ملاقات طے تھی اور وقت کی کمی کے سبب سفر کے دوران میں کسی جگہ رکنا مناسب نہ تھا۔

اب ہماری اگلی منزل افغانستان کے سابق وزیراعظم اور جہاد افغانستان کے معروف کردار و جہادی کمانڈر گلبدین حکمت یار کی رہائش گاہ تھی۔ میں پاکستان میں تین بار گلبدین حکمت یار سے مل چکا تھا مگر اتفاق سے تینوں بار ان سے طویل ملاقات کا موقع نہیں مل سکا تھا جس کا مجھے اشتیاق تھا۔

میری خواہش تھی کہ وہ افغانستان کی اصل اور اندرونی صورتحال سب سے زیادہ بہتر انداز میں بتاسکتے ہیں کیونکہ وہ افغانستان کی چلتی پھرتی تاریخ ہیں۔ ان کے کمپاؤنڈ کی جانب سفر کے دوران میں میرے ذہن میں ان کا ماضی گھومنے لگا۔

گلبدین حکمت یار پاکستان میں ہمیشہ سے ایک افسانوی کردار کے طور پر جانے گئے ہیں۔ ان کے بارے میں پاکستان کے مقامی اور بین الاقوامی میڈیا میں بہت کچھ لکھا گیا۔ حقائق کے ساتھ ساتھ کئی داستانیں بھی ان سے منسوب کردی گئیں۔ روس کے خلاف میں ان کا مزاحمتی کردار تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔

جب روس کے خلاف مزاحمتی تحریک کا آغاز ہوا تو گلبدین حکمت یار، پروفیسر برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود ایک ہی پلیٹ فارم سے حصہ لے رہے تھے مگر کچھ عرصہ بعد ہی سب سے پہلے احمد شاہ مسعود الگ ہوئے ، انھوں نے مشہور وادی پنج شیر میں اپنا الگ دھڑا بنا لیا۔ اس کے بعد پروفیسر برہان الدین ربانی بھی گلبدین حکمت یار سے الگ ہوگئے اور اپنی جمعیت اسلامی کے نام سے تنظیم بنالی۔

گلبدین حکمت یار نے اس تقسیم کے بعد حزب اسلامی کی بنیاد رکھی جو بعد میں دو حصوں میں تقسیم ہوئی ۔ حزب اسلامی کا ایک حصہ یونس خالص گروپ کے نام سے جانا جانے لگا ، اسی موقع پر جلال الدین حقانی بھی اپنے جنگجوؤں کے ساتھ سرگرم ہوئے تھے۔

اہم بات یہ رہی کہ تقسیم کا شکار ہونے کے باوجود یہ تمام گروپ روس کے خلاف برسرپیکار رہے۔ دیگر گروہوں میں استاذ عبدالرب رسول سیاف کی جماعت ' اتحاد اسلامی' ، صبغت اللہ مجددی کی ' جبہ نجات ملی' ، مولوی محمد نبی کی ' حرکت انقلاب اسلامی' اور پیر احمد گیلانی کی ' محاذ ملی ' شامل تھیں۔ جنرل عبدالرشید دوستم، جنرل عبدالمالک اور جنرل بابا جان جو پہلے حکومت کے ساتھ تھے اور بعد میں حکومت سے الگ ہوئے اور انھوں نے بھی مزاحمتی تحریکوں کے ساتھ مل کر مسلح تحریک شروع کردی تھی۔

مسلکی تقسیم ان گروپس میں تقسیم کا باعث بنی تھی مگر جو کردار پاکستان میں بہت معروف ہوئے وہ جلال الدین حقانی اور گلبدین حکمت یار تھے۔ گلبدین حکمت یار چونکہ نسبتاً نوجوان تھے اور ان کے جنگجوؤں میں بھی ملکی و غیرملکی نوجوان ہی شامل تھے اس لیے وہ نوجوانوں کے لیے ایک کرشماتی شخصیت بن گئے۔

گلبدین حکمت یار صاحب کا آبائی علاقہ غزنی ہے ، بعد میں ان کے والد قندوز ہجرت کرگئے تھے جہاں ضلع امام صاحب میں ان کی پیدائش ہوئی۔ بریگیڈئیر محمد یوسف اپنی کتاب ' دی بئیر ٹریپ ' میں لکھتے ہیں کہ جنرل اختر عبدالرحمان سب سے زیادہ بھروسہ گلبدین حکمت یار پر کرتے تھے جس کی وجہ یہ تھی کہ افغان جہاد میں سب سے موثر سرگرمیاں ان کے جنگجوؤں کی تھیں۔ اسلحہ کے تقسیم کے حوالے سے بھی گلبدین حکمت یار کو ان کی کامیاب جنگی کارروائیوں کی وجہ سے زیادہ حصہ دیا جاتا تھا جس پر دیگر گروپس ناراضی کا اظہار کرتے تھے۔

گلبدین حکمت یار کو اس وقت زیادہ شہرت ملی جب انھوں نے امریکی صدر ریگن کی چائے کی دعوت ٹھکرا دی تھی اور ان سے ملاقات سے انکار کردیا تھا جس کے بعد امریکہ نے پاکستان میں ضیاء الحق کی حکومت کے ذریعے گلبدین حکمت یار کو افغانستان میں پیچھے دھکیلنا شروع کردیا تھا۔

افغانستان سے روس کے انخلاء کے بعد جب حکومت قائم ہوئی تو پروفیسر برہان الدین ربانی صدر، احمد شاہ مسعود وزیردفاع اور گلبدین حکمت یار وزیراعظم بنے۔ پروفیسر ربانی اور احمد شاہ مسعود کابل پر قابض تھے اور کسی طرح بھی گلبدین حکمت یار کی کابل موجودگی برداشت نہ کرتے تھے۔

یہی وجہ رہی کہ گلبدین حکمت یار کابل سے باہر کے وزیراعظم کہلائے جانے لگے جس کے بعد انھوں نے ایک تعلیمی تحریک '' تعلیمی غنڈ'' کے نام سے شروع کی جس کا مقصد نوجوانوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنا تھا۔گلبدین حکمت یار پاکستانی اداروں کے منظور نظر سمجھے جاتے تھے، مگر پھر اچانک ان کا رویہ پاکستان کے حوالے سے سرد ہوا جس کے ذمہ دار سابق وزیراعظم نواز شریف کو قرار دیا جاتا ہے۔ اس دور میں گلبدین حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کابل پر قبضے کی جنگ لڑرہے تھے جس میں دونوں جانب سے بھاری نقصان ہو رہا تھا۔ چار سال تک جاری رہنے والی اس خونریزی کے نتیجے میں طالبان نے جنم لیا۔

گلبدین حکمت یار کو اس لیے بھی اہمیت حاصل ہے کہ جب طالبان افغانستان پر قبضے کی جنگ لڑرہے تھے تو انھوں نے مزاحمت کے بجائے اپنے علاقوں تک محدود ہونا مناسب سمجھا اور ایران چلے گئے۔ ایران سے وہ واپس آئے تو انھوں نے افغانستان میں امریکی رضا مندی سے بننے والی حکومت میں شمولیت اختیار کرنے کے بجائے امریکی فوج کے خلاف مزاحمت شروع کردی۔

امریکی انخلاء کے بعد طالبان پورے افغانستان پرقابض ہوئے تو انھوں نے گلبدین حکمت یار سے بھی رابطہ کیا۔ حکمت یار نے حکومت میں شامل ہونے سے انکار کردیا۔ تاہم وہ طالبان مخالف اتحاد این آر ایف کا حصہ بھی نہیں بنے بلکہ وہ ' این آر ایف ' کو افغانستان کی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

حکمت یار کے کمپاؤنڈ کے قریب پہنچے تو حزب اسلامی کے مسلح نوجوان جنگجوؤں نے ہماری گاڑیوں کو مرکزی دروازے پر ہی روک لیا۔ تلاشی کے ایک طویل مرحلے سے گزرنے کے بعد ہمیں پیدل اور ہماری سواریوں کو دوسرے راستے سے کمپاؤنڈ کے اندر پہنچایا گیا۔ طویل راہداری سے گزرنے کے بعد ہمیں ایک اور بڑے دروازے کے سامنے رکنا پڑا جہاں ہماری شناخت کے بعد ان کے کمپائنڈ کے مرکزی حصے میں داخلے کی اجازت ملی۔

ایک وسیع و عریض لان کے بعد عمارت کے احاطے میں داخل ہوئے اور وہاں ایک بار پھر تلاشی کے عمل سے گزارا گیا۔ اس بار انتہائی باریک بینی سے تلاشی لی گئی اور کیمروں سمیت ایک ایک شے کو باقاعدہ کھنگال کر دیکھا گیا۔ پانی کی بوتلیں بھی انتہائی احترام کے ساتھ یہ کہہ کر وہیں رکھوا لی گئیں کہ آپ کو اندر پانی کی بوتلیں مل جائیں گی۔

اس عمل سے گزرنے کے بعد ہم کمپاؤنڈ کے مہمان خانے سے گزرتے ہوئے حکمت یار صاحب کی لائبریری میں پہنچے جہاں کتابوں کا ذخیرہ ان کی علم دوستی کو ظاہر کررہا تھا۔ کرسیوں کو ترتیب سے لگا کر ہمارے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا تھا اور ترتیب ایسے رکھی گئی تھی جیسے عمومی طور پر پاکستان میں کسی پریس کانفرنس کے دوران دیکھنے کو ملتی ہے۔ جب اپنی نشستوں پر پہنچے تو عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ ہمارے میزبان لائبریری میں ہی نماز کے لیے مختص حصے میں نماز ادا کرنے لگے تو ہم بھی ان کے ساتھ شامل ہوگئے۔

نماز کی ادائیگی کے بعد چائے کا دور شروع ہوا تو اسی دوران جمال الدین اسحاقی 'جو حکمت یار کے سیکریٹری کے طور پر جانے جاتے ہیں اور اس ملاقات کے منتظم بھی تھے' پہنچ گئے۔ انھوں نے پاکستانی صحافیوں کے وفد کا شکریہ ادا کیا اورگلبدین حکمت یار کی اچانک مصروفیت کی وجہ سے کچھ تاخیر پر معذرت کا اظہار کیا۔

اس دوران ہم نے اسحاقی صاحب سے لائبریری اور اس میں موجود ذخیرہ کتب کے حوالے سے بات چیت شروع کردی۔ انہوں نے بتایا کہ یہ کتب پشتو اور دری زبان میں ہیں۔

حکمت یار اب تک 129 کُتب لکھ چکے ہیں جن میں سات جلدوں پر مشتمل تفسیر قرآن ' د قران پلوشی' بھی شامل ہے جس کا اردو ترجمہ ' قران کی کرنیں' کے نام سے ڈاکٹر عبدالصمد نے کیا ہے۔ یہ ترجمہ کوئٹہ ، پشاور کے علاوہ منشورات منصورہ لاہور میں بھی دستیاب ہے۔ اسی طرح صیح بخاری کی ایک شرح انہوں نے ' حکمت الباری' کے نام سے لکھی ہیجو بھی سات جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ مختلف موضوعات پر ان کی کتب موجود ہیں۔

جمال الدین اسحاقی نے کتب کی تفصیل کے ساتھ ساتھ انھوں نے بتایا کہ حال ہی ہمارے میزبان گُلبدین حکمت یار نے حال ہی میں اپنا شناختی کارڈ ننگر ہار کا بنوایا ہے۔

ان کا ایک بیٹا حبیب الرحمان سیاسی طور پر سرگرم ہے جبکہ باقی بیٹے اور بیٹیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں مگر سیاست سے دور ہیں۔ اس بات چیت کے دوران میں ہی انہوں نے حکمت یار کی کُتب تحفتاً پیش کیں تو میں نے انھیں درخواست کی تحفہ اگر مصنف کے دستخط کے ساتھ ملے تو انمول ہوجائے گا۔ انھوں نے مسکرا کر کہا:'' ضرور''۔ اسی دوران لائیبریری ہال کے مشرقی دروازے سے گلبدین حکمت یار اندر داخل ہوئے اور انھیں دیکھ لائبریری میں موجود تمام افراد احتراماً کھڑے ہوگئے۔ ( جاری ہے )

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں