پاکستانی سماج اور ٹرانس جینڈر ایکٹ

حقیقت یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کا مسئلہ محض افراد کی جنسی آزادی کی بنیاد پر قائم نہیں ہے

فوٹو : فائل

پاکستان میں گزشتہ دنوں سے ایک موضوع خاص توجہ کا مرکز بلکہ بحث، ردِعمل اور اظہار کا عنوان بنا ہوا ہے، وہ ہے ٹرانس جینڈر ایکٹ۔ اس موضوع پر الیکٹرونک میڈیا نے تو ایک طرح کی لاتعلقی اختیار کی ہے، جیسا کہ غیراہم یا معاشرے کے حوالے سے بے اثر معاملات میں کی جاتی ہے۔

گزشتہ تجربات بتاتے ہیں کہ الیکٹرانک میڈیا کا یہ رویہ عام طور سے اُس وقت ہوتا ہے جب چینل مالکان یا انتظامی شخصیات کو واضح ہدایات جاری کر دی گئی ہوں۔ کم و بیش کچھ ملتا جلتا رویہ اخبارات کا بھی رہا ہے، الا ماشاء اللہ۔ البتہ سوشل میڈیا اور ویب سائٹس پر اس حوالے سے گرمام گرم بحث اور بھرپور ردِعمل دیکھنے میں آیا ہے۔ بلاشبہ یہ خوش کن اور اطمینان بخش بات ہے۔

اس لیے کہ سوشل میڈیا پر اکثر و بیشتر غیرضروری، غیراہم اور لایعنی چیزوں کی فراوانی کا احساس ہوتا ہے۔ سنجیدہ اور فکرانگیز موضوعات، سوالات اور مباحث اس میڈیم پر کم بلکہ خاصے کم دیکھنے میں آتے ہیں۔ خوشی ہوئی کہ اس مسئلے پر جب معاشرے کے دوسرے ذرائع کسی نہ کسی وجہ سے خاموش تھے، ایسے میں اسی میڈیم نے سب سے اہم کردار نبھایا اور اس طرح جیسے فرضِ کفایہ ادا کیا جارہا ہے۔

خوشی اس بات کی بھی ہے کہ سوشل میڈیا پر جو بحث چھڑی اور جیسے نکات سامنے آئے، وہ سرسری نہیں بلکہ اہم اور توجہ طلب ہیں۔ اس دور میں کہ جب فرد اور سماج کے درمیان رشتے کے حوالے سے غفلت یا لاتعلقی کی شکایت عام ہے، ایسے کسی مسئلے پر سوجھ بوجھ اور ذمہ داری کے ساتھ گفتگو اور ردِعمل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ ہمارا سماجی شعور نہ صرف قائم ہے بلکہ پوری طرح متحرک بھی ہے۔

تہذیبوں، قوموں اور ریاستوں کی زندگی میں تاریخ کے وہ ادوار اور وقت کے وہ موڑ ایک خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں جب اُن کے یہاں انسانی آزادی اور حقوق کے لیے آواز اٹھائی اور آئین سازی کی جاتی ہے۔ ایسے واقعات تاریخ کے حافظے میں قومی اور تہذیبی امتیاز کے نشان کے طور پر محفوظ ہوتے ہیں اور تادیر بلکہ نسل در نسل یاد بھی رکھے جاتے ہیں۔

تاہم یہ بات بھی اہم اور خصوصی توجہ کی مستحق ہے کہ انسانی آزادی اور خودمختاری کا فیصلہ اور اُس کے لیے کی جانے والی آئین سازی ہر دور اور ہر ریاست میں بعض شرائط کے ساتھ ہوتی ہے اور ایسا ہی ہونا بھی چاہیے۔ مطلق آزادی کا کوئی تصور کسی تہذیب میں نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کہ ہر تہذیب کا ایک تصورِحیات ہوتا ہے۔ اُسی کی بنیاد پر اس کے انسانی اور سماجی قوانین وضع ہوتے ہیں اور نظامِ اخلاق تشکیل پاتا ہے۔

اُن ہی کے تحت کسی معاشرے اور اور کسی تہذیب میں انسانی آزادی کا تصور قائم ہوتا ہے۔ پاکستان جیسی ایک نظریاتی ریاست جس کی سماجی قدریں اور انسانی اخلاق کا ضابطہ متعین اور عامتہ الناس میں پوری طرح مؤثر ہو، اُس میں تو خاص طور سے فرد کی آزادی اور اْس کی حدود دونوں بالکل واضح اور ایک دوسرے سے ہم آہنگ ہوتی ہیں۔ یہی ہم آہنگی دراصل فرد اور سماج کے رشتے، دونوں کی حیثیت اور ذمہ داریوں کا تعین کرتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ فرد کی آزادی واقعتاً اور عملاً سماج کے ضابطۂ اخلاق کے مطابق اور کچھ بنیادی شرائط یا ذمہ داریوں کے ساتھ ہوتی ہے، تاکہ فرد اور سماج کے دونوں کے حقوق اور فرائض اس طرح طے اور نمایاں ہوں کہ اُن دونوں کے درمیان تصادم کی کوئی صورت پیدا نہ ہو۔

اس ابتدائی تفصیل یا تفہیم کے بعد ہم اب اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں، یعنی پاکستان میں ٹرانس جینڈر قانون کی ضرورت، اہمیت اور حیثیت۔ تاہم ضروری ہے کہ اس پر گفتگو سے قبل یہ بھی ذرا دیکھ لیا جائے کہ ٹرانس جینڈر کی اصطلاح کا مفہوم و معنی کیا ہے، تاکہ اس حوالے سے کی جانے والی گفتگو میں کسی قسم کا ابہام پیدا نہ ہو۔

کس قدر لطیف، اہم اور حیرت ناک بات ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچہ وجود بعد میں پاتا ہے، لیکن اس کی جنس کا تعین پہلے ہی ہوجاتا ہے، اسی وقت جب میاں بیوی کے کروموسوم ملتے اور پہلا خلیہ یا جنین بنتا ہے۔

اس تعین کے بعد مرد عورت کے اعضا اور ہارمونز وغیرہ بنتے ہیں، یعنی انسانی وجود کی تشکیل کا عمل شروع ہوجاتا ہے اور کم و بیش نو ماہ بعد بچہ اپنی جنسی شناخت کے ساتھ اس دنیا میں آتا ہے۔ یہ عمل کتنا نازک، پیچیدہ اور لطیف ہے، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اکیس ویں صدی کی اس تیسری دہائی تک ہونے والی حیرت زا سائنسی ترقی کے باوجود خود سائنس اور خصوصاً اس شعبے کے لوگ خود بھی اس پر حیرت کا اظہار کرتے ہیں۔

تاہم کسی خرابی جو ہارمونز، اندرونی نظام یا کسی اور سبب سے بھی ہوسکتی ہے، کی وجہ سے کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماں کے پیٹ میں بچے کی جنس کا تعین نہیں ہوپاتا۔ اس کا انکشاف بچے کی پیدائش کے وقت اور بعض کیسز میں بلوغت کے وقت ہوتا ہے۔ جو بچے واضح جنسی شناخت کے اس دنیا میں آتے ہیں، وہ سس جینڈر (Cisgender) کہلاتے ہیں۔ ایسے بچے جو واضح جنسی شناخت کے ساتھ پیدا نہیں ہوتے یا کسی انبارمیلٹی کی وجہ سے صنفی ابہام رکھتے ہیں، وہ ہرمافرو ڈائٹ (Hermaphrodite) کہلاتے ہیں۔

ان میں کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایک وقت پر سرجیکل یا ہارمونل طریقِ کار سے مکمل یا واضح جنسی شناخت حاصل کر لیتے ہیں، لیکن کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جن کا مسئلہ کسی طور حل نہیں ہوپاتا۔ انسانی معاشرے میں ایسے لوگ زمانۂ قدیم سے پائے جاتے ہیں۔ ہمارا مذہب اسلام ایسے لوگوں کو جنس کے غالب رجحان کے ساتھ زندگی گزارنے کا حق اور اختیار دیتا ہے اور افرادِ معاشرہ کو ان کے ساتھ خدا ترسی کے برتاؤ اور انھیں عزت سے جینے کا حق دینے کی تاکید کرتا ہے۔

ابہام، خرابی یا ابنارملٹی کی یہ تو وہ صورت ہے جس میں انسان کا کوئی اختیار نہیں، لیکن انبارملٹی کی ایک صورت اور بھی ہے اور وہ یہ کہ ایک شخص پیدائشی لحاظ سے تو واضح جنسی شناخت رکھتا ہے، یعنی عورت یا مرد کے مکمل اور نارمل جنسی اعضا کے ساتھ پیدا ہوا ہے، لیکن آگے چل کر کسی وجہ سے اس کے اندر اپنی جنس یا اپنی جسمانی (صنفی) ساخت کے لیے ناپسندیدگی، ناخوشی یا ناقبولیت کا رویہ پیدا ہوا اور اس کی شدت اس حد کو پہنچی کہ اس نے اپنی فطری یا پیدائشی شناخت کو رد کرتے ہوئے اپنی جنسی شناخت خود طے کی۔ اُس نے اپنی مرضی سے مرد ہوتے ہوئے عورت یا عورت ہوتے ہوئے مرد کا قالب اختیار کرلیا۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں کہ وہ گہرے کنفیوژن میں رہتے یا رہنا پسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگ خود کو Non-binary کہتے ہیں۔

اپنی پیدائشی جنس کے لیے ناگواری یا ناقبولیت کا رویہ رکھنے والے لوگوں کے مسائل ذاتی، ذہنی، خاندانی، سماجی اور نفسیاتی وغیرہ مختلف نوعیت کے ہوسکتے ہیں۔ تاہم ان میں سے کوئی مسئلہ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ انسان کی وجودی حقیقت کی نفی، اُس کے تعطل یا اسقاط کا ذریعہ بن جائے۔

اس صورتِ حال میں نفسیاتی اور طبی معالجے کی مختلف صورتیں نہ صرف مؤثر ہوسکتی ہیں بلکہ باآسانی میسر بھی آسکتی ہیں، لیکن gender dysphoria میں رہنے والے لوگ بالعموم اپنی اصل کی نفی پر اصرار کرتے ہیں اور اس کی طرف لوٹنے پر آمادہ نہیں ہوتے، اس لیے علاج یا ٹریٹمنٹ ایسے کسی اقدام کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

البتہ یہ دیکھا گیا ہے کہ بدلتے حالات اور وقت کے پیدا کردہ اسباب و عوامل یا پھر اپنی وجودی ضروریات اور کیفیات ایسے لوگوں کی سوچ اور تصورات پر آگے چل کر اثرانداز ہوں اور وہ مخالف جنس کے بہروپ سے دست بردار ہو کر اپنی اصل کی طرف پلٹ آئیں۔

تاہم ایک تو اس کی شرح بے حد کم دیکھی گئی ہے، دوسرے یہ کہ اس میں وقت کا عمل بھی بے حد اہم ثابت ہوتا ہے۔ ایسی صورت میں justice delayed is justice denied والی بات صادق آتی ہے، یعنی وقت گزرنے کے بعد ایک فرد کی اپنی زندگی ہی نہیں بلکہ سماج میں بھی اس جینڈر ڈائسفوریا سے نکلنے کے کوئی خاص معنی باقی نہیں رہتے۔

انسانی وجود اور اس کی جنسی شناخت کی ابتدائی معلومات کے بعد اب اس معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ آخر پاکستان میں ٹرانس جینڈر ایکٹ پر یہ جو جماعتِ اسلامی والے شورشرابا کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر ایک اودھم سا مچا ہے، آخر یہ ہے کیا اور یہ سب کیوں؟

اس بات کی گزشتہ سطور میں وضاحت ہوچکی کہ ٹرانس جینڈر وہ لوگ ہیں جن کی جنسی شناخت کسی پیدائشی خرابی کے سبب مبہم یا ناقابلِ فہم نہیں ہے بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے ازخود اپنی اصل شناخت کو رد کرکے دوسری جنسی شناخت اختیار کی ہے۔ اس مسئلے کی انسانی اور سماجی نوعیت کو پوری طرح سمجھنے کے لیے مثال کے ساتھ سماجی منظرنامے میں اس صورتِ حال کو دیکھنا چاہیے، تو چلیے کچھ مثالوں کی صورت میں اسے دیکھتے ہیں۔

پہلا منظر: ایک شخص جو جنسی اور جسمانی اعتبار سے صحیح و سالم مرد ہے، لیکن اپنی اس شناخت پر ناخوشی کے باعث اُس نے مرد کے بجائے عورت کی شناخت، حلیہ اور وضع قطع اختیار کی ہوئی ہے۔ ہمارے یہاں ایسے سماجی اجتماعات بھی ہوتے ہیں، جہاں عورت اور مرد الگ بیٹھتے، الگ رہتے، الگ کھاتے اور الگ باتھ روم استعمال کرتے ہیں، اب بتائیے کہ وہاں اس ٹرانس جینڈر کی جگہ مردوں یا عورتوں کن کے ساتھ ہوگی؟

دوسرا منظر: ایک صاحب جن کا نام الف ہے اور اُن کے چار بچے ہیں، دو بیٹے اور دو بیٹیاں۔ ان کی چھوٹی بیٹی ٹرانس جینڈر ہے۔ الف صاحب کا چند روز پہلے انتقال ہوگیا ہے۔ ان کی جائیداد اور وراثت ان کے بچوں کے درمیان کس حساب سے تقسیم کی جائے، کیا چھوٹی بیٹی کو لڑکا باور کرکے اس کا حصہ اسی حساب سے دیا جائے گا؟

تیسرا منظر: ایک صاحب ب ہیں اور تین بچوں کے باپ۔ ان کا بڑا بیٹا ٹرانس جینڈر ہے اور اپنے ایک دوست لڑکے سے شادی کرکے اس کے ساتھ رہنے کا خواہش مند۔ ماں باپ کا اس شادی میں کیا کردار ہونا چاہیے؟

چوتھا منظر: ایک صاحب ج ہیں اور پانچ بچوں کے باپ، تین بیٹیاں اور دو بیٹے۔ منجھلی بیٹی ٹرانس جینڈر ہے اور ایک لڑکی سے شادی کرکے اسے اپنے گھر لانا چاہتی ہے۔ ماں باپ کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟


پانچواں منظر: ایک صاحب ہیں د۔ انھوں نے ابھی چند دن پہلے اپنی بیٹی کی شادی کی ہے۔ یہ بچی آج گھر آکر بیٹھ گئی ہے اور اس نے ماں کو بتایا ہے کہ ان دنوں میں ایک بار بھی اس کا شوہر اس کے پاس آکر نہیں بیٹھا ہے اور اس نے صاف بتا دیا ہے کہ وہ ٹرانس جینڈر ہے، اس کے ماں باپ نے زبردستی اس کی شادی کی ہے، اسے لڑکیوں سے کوئی دل چسپی نہیں ہے۔ وہ تو خود کسی لڑکے سے شادی کرکے اُس کے ساتھ اُس کی بیوی بن کر رہنا چاہتا ہے۔ اب اس لڑکے اور اس کے ماں باپ کے لیے کیا راستہ ہے، انھیں کیا کرنا چاہیے؟

ایسے ہی اور بھی کچھ مناظر ہوسکتے ہیں، لیکن چلیے انھی پر اکتفا کرتے ہیں۔ اس لیے کہ اپنے معاشرے میں ٹرانس جینڈر اور اس کے سماجی کردار اور حیثیت کو ان کے ذریعے بھی خاصی حد تک سمجھا جاسکتا ہے۔

درجِ بالا سماجی مناظر ہمیں اس حقیقت سے پوری طرح آگاہ کر دیتے ہیں کہ ہمارے یہاں ٹرانس جینڈر کا مسئلہ اتنا سیدھا سادا، معمولی اور بے ضرر نہیں ہے جتنا اسے امریکا، کینیڈا اور یورپ کے حوالے سے دیکھ کر بتایا اور پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کا سبب ہے ہمارا تہذیبی ضابطہ، سماجی ڈھانچا اور اخلاقی نظام۔ جی ہاں اور یہی چیزیں ہماری معاشرت کے درحقیقت امتیازی نشانات بھی ہیں۔

یہی ہماری اجتماعی زندگی کی صورت گری کرتے ہیں۔ ان کی نفی کرکے یا ان سے گریز کرکے یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ ہم وہ رہ پائیں جو کہ ہم ان کے ساتھ ہیں۔ اس لیے یہ بات واضح اور فیصلہ کن طور پر سمجھ لینی چاہیے کہ ہمارے یہاں کوئی بھی قانون سازی اگر ہماری تہذیب، سماج اور اخلاق کے اصولوں اور اقدار کے خلاف اور ان سے متصادم ہوگی تو وہ ملک کے آئین اور عوام دونوں کے لیے بگاڑ اور انہدام کا ذریعہ بنے گی۔

ہمارے یہاں ایک طبقہ جو اگرچہ خاصی قلیل تعداد میں ہے، لیکن بہرحال ہے، اُس کا کہنا ہے کہ ہم خواہ مخواہ چیزوں کو مسئلہ بنا لیتے ہیں۔

اس لیے اب تک ترقی نہیں کرسکے اور پس ماندہ ہیں۔ اس طبقے کا کہنا ہے کہ ٹرانس جینڈر اس دور کی سچائی ہے، اسے قبول کرنا چاہیے تاکہ ہم دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر چلیں اور پس ماندگی سے نکل کر ترقی کے راستے پر آئیں۔ ان لوگوں کی عملیت پسندی اور ترقی کا شعور خدا جانے کس بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ معلوم نہیں کہ انھوں نے کبھی اس مسئلے کو ذرا گہرائی میں خود اس ترقی یافتہ دنیا کے حقائق کے ساتھ رکھ کر دیکھنے اور سمجھنے کی کوشش بھی کبھی کی ہے کہ نہیں۔

واقعہ یہ ہے کہ آج یہ ترقی یافتہ دنیا اس مسئلے اور اس کے ساتھ دوسرے اور بھی اخلاقی حوالوں سے ایک ایسی بند گلی میں ہے کہ جہاں سے آگے کوئی راہ نکلتی ہے اور نہ ہی پیچھے لوٹنے کا کوئی راستہ دکھائی دیتا ہے۔ کینیڈا، انسانی آزادی اور حقوق کا سب سے بڑ اعلم بردار ملک ہے جہاں gay حقوق سب سے پہلے تسلیم کیے گئے۔

امریکا اور یورپ جہاں جنس کو انسان کا سب سے اہم حق تسلیم کرکے اس حوالے سے ہر قسم کی آزادی کو ممکن بنایا گیا- وہاں آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہارورڈ اسکول کا سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ جنسِ آزادی کو اس عہد کے انسان کی تنہائی، مایوسی، لایعنیت، بہیمیت اور بربریت کا سب سے نمایاں جواز تسلیم کرتا ہوا نظر آتا ہے۔

وہاں اب انسان کے ذہنی، جسمانی اور جذباتی مسائل کا روز بہ روز بڑھتا ہوا تناسب ایک طرف ہے تو دوسری طرف سماجی اور انتظامی مسائل کی قابو سے مسلسل باہر ہوتی ہوئی شرح بھی توجہ طلب ہے۔ اس دنیا کے اہلِ دانش اب اپنی اس صورتِ حال پر نہ صرف پریشان ہیں بلکہ اس سے نکلنے کا راستہ نہ پاکر خاصی الجھن اور مایوسی کا شکار بھی ہیں۔

گے، لیزبین اور ٹرانس جینڈر ایسے غیرفطری جسمانی تقاضوں اور خواہشوں کو انسانی حقوق باور کرنے والے ممالک میں اہلِ نظر اس آزادی کے تجربات کے نتیجے میں سامنے آنے والے حالات کے باعث ہزاروں برس کے تمدن و تہذیب اور سماجی ڈھانچے کے مستقبل کو گہری اداسی اور سخت تشویش کے ساتھ دیکھ رہے ہیں۔

پہلے سنگل پیرنٹ کی غیرمعمولی شرح ہی پریشان کن اور سماجی زندگی کے لیے ذہنی، جذباتی اور جنسی حوالوں سے مہلک ثابت ہو رہی تھی اور اب تو منظر ہی کچھ سے کچھ ہورہا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر میاں بیوی کو اگر اولاد کی خواہش بے کل رکھے تو اس کا حل یہ ہوگا کہ ایگ بہن سے لیا جائے یا بھانجی بھتیجی سے۔ اس کے بعد حرمت والے رشتوں کے سپرم اور ایگ کو کسی اور کوکھ میں رکھ کر منصوبے کی تکمیل اور بچے کی پیدائش کو ممکن بنایا جائے۔

کیسا عبرت کا سامان ہے کہ ہزاروں برس کے تمدن، اخلاق، تہذیب اور انسانیت کا جنازہ نکلتے دیکھا جائے۔ اس ترقی یافتہ دنیا ہی میں یہ سوال بھی قابلِ غور ہے کہ انسان کی جسمانی اور وقتی خواہشوں کی آزادی کی قیمت حرمت اور حیا کے رشتوں کی نفی نہیں تو اور کیا ہے۔

اس کے بعد ایک اور سوال بھی غورطلب ہے۔ اس صورتِ حال میں پیدا ہونے والے بچوں کے ذہنی، جذباتی، عقلی، فکری، نفسیاتی اور روحانی رویوں کا منظرنامہ کیسا ہوگا؟ ان کے دوسرے انسانوں سے رشتوں کی نوعیت کیا ہوگی؟ ان کی دنیا کے نظام کی بنیاد کس اخلاقی اصول اور انسانی ضابطے پر ہوگی؟ ان سوالوں کے سامنے آج کی نام نہاد ترقی یافتہ اور انسانی حقوق اور آزادی کی علم بردار دنیا کے ہوش رُبا سائنسی کارنامے، فلسفے اور نظریات کے روشن سنگ ہائے میل، انسانی خوش حالی اور معاشی استحکام کی حیرت ناک منزلیں- سب کے سب خاموش ہیں۔ گہرا سناٹا ہے۔ موت کی طرح گونجتا ہوا سکوت۔

اب سوال یہ ہے کہ ہمارے یہاں ٹرانس جینڈر ایکٹ پر کام کرنے اور اسے قانون کا حصہ بنا کر انسانی آزادی اور حقوق پر سردھننے والوں نے کیا ان باتوں اور حقائق پر کبھی غور بھی کیا ہے؟

ہرگز نہیں۔ وہ ایسی باتوں پر سوچ بھی کیسے سکتے ہیں۔ ان سے آخر انھیں لینا دینا ہی کیا ہے۔ یہ تو کہیں اور کا ایجنڈا ہے جو عملی اقدام کے لیے ان کے پاس آیا ہے- سیاسی بقا اور اقتداری منزل کے اہم ترین سنگِ میل کی حیثیت سے، لہٰذا اُن کے پاس چوں چرا کی کوئی گنجائش ہی کب ہے۔

جب اُن کے پاس اپنی سوچ، نظریے، تصورِ حیات یا تہذیبی یا سماجی اقدار کو پیشِ نظر رکھنے اور بروے کار لانے کا کوئی اختیار ہی نہیں ہے تو آخر وہ اس مسئلے پر کچھ سوچ کر کریں گے بھی کیا۔ اس لیے آپ دیکھ لیجیے، ہمارے ملک کی کون سی سیاسی جماعت ہے جو اس کے خلاف آواز اٹھا رہی ہے، کوئی بھی نہیں۔ چلیے، اہلِ سیاست کی تو بہت مصلحتیں ہوتی ہیں، قدم قدم پر سمجھوتے ہوتے ہیں۔ اس کے بغیر ان کا تو کام ہی نہیں چلتا۔ ہمارے یہاں کی مذہبی جماعتوں اور ان کے دین دار علما اور راہ نماؤں کو آخر کیا ہوا ہے۔

ان کی طرف سے اس مسئلے پر رنج، افسوس، غصے اور ردِعمل کا اظہار کیوں نہیں ہوتا، انھیں کس احتیاط کا سامنا ہے، وہ کس مصلحت سے دوچار ہیں۔ بس ایک جماعتِ اسلامی کے سینیٹر ہیں کہ اقتداری حلقوں میں اس کے خلاف بولتے اور معاشرے کے اجتماعی ضمیر اور شعور کی نمائندگی کرتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ٹرانس جینڈر کا مسئلہ محض افراد کی جنسی آزادی کی بنیاد پر قائم نہیں ہے۔ یہ تو دوسرے اہداف کی تکمیل کا ذریعہ ہے، ان اہداف کی تکمیل جن کے بعد یہ دنیا ایک نئے ورلڈ آڈر میں منقلب ہوگی۔

اصل منزل تو وہ ہے۔ اس دنیا کے سیاسی اور معاشی نظام میں کردار ادا کرنے والی قوتیں سات ارب سے زائد انسانوں پر مشتمل اس آبادی کو دراصل ایک ایسے گروہ یا ریوڑ میں تبدیل کرنا چاہتی ہے جس کی زندگی میں اخلاق، تہذیب، مذہب اور اقدار کا کوئی شعور نہ پایا جاتا ہو۔

انسانوں کا یہ انبوہ اپنے مادی وجود اور اُس کی ضرورتوں سے بلند حقیقتوں اور غیرمادی چیزوں کا کوئی تصور ہی نہ رکھتا ہو۔ وہ صرف اپنے جسم سے واقف ہو، روح کا اسے کوئی احساس تک نہ ہو۔

اسی دنیا کی مادی زندگی اُس کے لیے سب کچھ ہو، اس کے بعد قبر، حشر اور آخرت کے بارے میں اس کے اندر کوئی خیال کوئی سوال پیدا ہی نہ ہو۔ خدا نہ کرے، خاکم بدہن ایسا ہونے کے بعد ہی اس پوری انسانی آبادی کو کنزیومر سوسائٹی کے سانچے میں ڈھالا جاسکتا ہے، اور اس پر ہمیشہ کے لیے اقتدار و اختیار کی منزل سر کی جاسکتی ہے۔

مسئلہ مگر یہ ہے کہ اس خواب کی تعبیر اس وقت تک ممکن نہیں جب تک کرۂ ارض پر ایسی کوئی تہذیب، سماج اور تمدن موجود ہے جس میں اخلاق و اقدار کا کوئی نظام ہے یا مادی وجود سے برتر کچھ چیزوں اور اس زندگی کے بعد بھی کچھ ہونے کا تصور پایا جاتا ہے۔ جب تک یہ تہذیب و سماج ختم نہیں ہوجاتا، مسئلہ حل نہیں ہوگا۔

ٹرانس جینڈر ایکٹ جیسے اقدامات اصل میں اس راہ کو ہموار کرنے کے لیے ہیں اور بالخصوص ہم جیسے معاشروں میں اس کا راستہ سوچ سمجھ کر اور ایک واضح لائحۂ عمل کے تحت کھولا جارہا ہے۔

آپ کو، مجھے، ہم سب کو اس مسئلے کی بابت سوچنا چاہیے، کیا پاکستان جیسی نظریاتی ریاست میں، اس ملک کے اخلاقی، تہذیبی اور سماجی تناظر میں ایسے کسی اقدام کی گنجائش ہے؟ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ نہیں ہے جو کہ واقعتاً نہیں ہے تو پھر ہمیں اس پر اپنے ردِعمل کا بے خوفی اور پوری قوت سے اظہار کرنا چاہیے۔ اس لیے کہ یہ ہماری اولاد اور آئندہ نسلوں کی بقا اور انسانی حیثیت میں جینے کا مسئلہ ہے، یعنی زندگی اور موت کا مسئلہ۔
Load Next Story