جان بچانے والی دوا جب قیامت بن کر ٹوٹی
ڈائی ایتھالین گلائیکول جیسی زہریلی دوا 1973 میں کئی اموات کی وجہ بنی اور اب 2022 میں بھی کئی جانیں لے گئی
بچے یا بڑے جب بیمار ہوتے تو بخوشی ڈاکٹر کے پاس جاتے۔ وہ مہربانی سے سنتا، دیکھتا اور دوائیں تجویز کرتا۔ ماہر ادویہ انھیں دوا دیتا اور کھانے کے طریقے بتاتا۔ وہ غور سے سنتے اور اس کی ہدایت پر عمل کرتے۔ مرجھائے ہوئے بچے صحت پاتے ہی چہچہاتے۔ گھر کی ماند پڑی خوشیاں دوبالا ہوتیں۔ دوا پر، ماہر ادویہ پر، ادویہ ساز کمپنیوں پر، ڈاکٹر پر اعتماد بڑھتا اور سماج اس شعبے کا شکر گزار رہتا۔
یہ 1937 کا امریکا ہے جہاں دوائیں قانون کے تحت قابو میں رکھی جاتی تھیں مگر قانون دقیانوسی ہونے کی وجہ سے تنقید کی زد میں تھا۔ بوسیدہ قانون تبدیل ہونے میں بحث و مباحثہ غیر ضروری طول پکڑ رہا تھا۔ یکایک ایک نہیں، دو نہیں، دس نہیں، سو سے زائد لوگ بشمول بچے رس بھری ذائقے والی اینٹی بائیوٹک شربت پی کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔ اس پراسرار موت نے ڈاکٹر اور ماہر ادویہ اور ایف ڈی اے میں تہلکہ مچا دیا۔ ہر طرف گھنٹی بج رہی تھی۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ لوگ کیوں مر رہے تھے مگر شعور کی اعلیٰ سطح کے پیشہ ور سچائی جاننے کے درپے تھے۔ انہوں نے ایک مخصوص شربت کو پہچان لیا جو خاموش قاتل تھا۔ وہ معلوم کرچکے تھے کہ اس میں استعمال کیا جانے والا ڈائی ایتھالین گلائیکول سفاک قاتل تھا۔
سلفانلامائیڈ ایک کڑوا مگر جراثیم کے خلاف مؤثر کیمیکل کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کی گولیاں اور پاؤڈر دستیاب تھے۔ جون 1937 میں ایک سیلز مین نے اس دوا کو شربت کی شکل میں اصرار کیا۔ اس وقت قانون کے تحت کمپنی بہت سے معاملات کی ذمے دار نہیں تھی۔ کمپنی کے چیف کیمسٹ ہیرلڈ کول واٹکنز، جو کہ خود ایک ماہر ادویہ تھا اس نے اس دوا کو ڈائی ایتھالین گلائیکول میں حل کرنے کا تجربہ کیا۔ کمپنی نے اس کے خوشبو، ذائقہ اور ظاہری شکل کو قابل تسلی پایا۔ کمپنی خوش تھی کہ اس نے سیلزمین کا مطالبہ پورا کردیا اور یہ شربت پورے امریکا میں سپلائی کےلیے بھیج دیا گیا۔ نئے شربت کو زہریت کےلیے جانچا نہیں گیا، نہ ہی قانون میں اس کی کوئی پابندی تھی۔ زہریلی دوا کو بیچنا غیر قانونی نہ تھا۔ سمجھنے والے غیر اخلاقی سمجھتے اور یقیناً کمپنی کی نیک نامی پر یہ بڑا دھبہ تھا۔
واٹکنز بھول گیا تھا کہ ڈائی ایتھالین گلائیکول ایک جان لیوا زہر منجمد کرنے کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہی پہلی کھیپ اوکلا میں استعمال ہوئی ڈاکٹروں نے پتہ لگالیا کہ مرنے والے اس نئے شربت کا شکار ہیں۔ انہوں نے میڈیکل ایسوسی ایشن کو آگاہ کیا جس نے زہریلے مادے کی موجودگی کا سراغ لگا لیا۔ یہ زہر ڈائی ایتھالین گلائیکول تھا۔ اخباروں اور ریڈیو میں کہرام مچ گیا کہ سلفانلامائیڈ شربت موت ہے۔ نیویارک کے ڈاکٹرز نے بھی درجن سے زائد اموات کا مشاہدہ کیا اور فوری ایف ڈی اے کے علم میں لے کر آئے۔ کینساس شہر کے انسپکٹر نے بھی آٹھ بچے اور ایک بڑے کی موت کی وجہ کو اسی شربت سے جوڑا۔ ہزاروں سیلز مین، ماہر ادویہ، ڈاکٹرز کو ایف ڈی اے نے ہنگامی ٹیلیگرام بھیج کر مطلع کیا۔ دیر سے سہی مگر کچھ صاف لکھا گیا۔ دوا ہمارے خرچے پر واپس کریں۔ یہ زندگی کےلیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ایف ڈی اے کے دو سو سے زائد انسپکٹر دوا واپس اٹھانے کےلیے مارے مارے پھر رہے تھے۔ ساری سرکاری مشینری، اخبارات، ریڈیو، بے مثالی جدوجہد کررہے تھے۔ ایک ایک ریکارڈ کھنگالا جارہا تھا۔ ہر متعلقہ فارمیسی، ہول سیل، ڈسٹری بیوشن ہاؤس میں تلاشی جاری تھی۔ ہزاروں نسخوں کا ایک ایک کرکے تعاقب کیا جارہا تھا۔ دو سو کے لگ بھگ سیلزمینوں سے سوال جواب جاری تھے۔ سیلز مینز کو ڈھونڈنا ایک عذاب تھا۔ ڈھونڈنے ڈھونڈنے میں کئی دن لگ جاتے۔ کوئی ملتا، کوئی معلومات فراہم نہیں کرتا، افراتفری تھی۔ ایک سیلز مین نے جیل جانے کے بعد معلومات فراہم کیں۔ یہ پورا پورا سراغرسانی والا کام تھا۔ ڈاکٹرز، ماہر ادویہ ساتھ دے رہے تھے۔ دوا لے کر جانے والی ایک تین سال کے بچے کی فیملی کو ڈھونڈنے میں ایک ڈاکٹر نے اپنا ولیمہ ملتوی کیا۔ اس تفتیش میں جابجا اموات کی خبریں مل رہی تھیں۔ گردے کا فیل ہونا، پیشاب کا رک جانا، بدترین درد، جھٹکے، متلی، الٹی وغیرہ سے بچے گزر رہے تھے، جنہیں درحقیقت گلے کا انفیکشن دور کرنے کی دوا دی گئی تھی۔ کئی ڈاکٹر تفتیش کے خوف سے مریض کا پتہ بتانے سے ہچکچا رہے تھے۔ یہ خونیں ہفتے تھے۔ ڈائی ایتھالین گلائیکول جسم میں ایسڈ بڑھاتا ہے اور سب سے پہلے گردے تباہ ہوتے ہیں، جو دردناک موت کا باعث بنتا ہے۔
ڈاکٹر اے ایس کلہون نے کچھ یوں لکھنا چاہا کہ خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا کہ گزشتہ چند دنوں میں کس کرب سے گزرا ہوں۔ میرے چھ مریض میری تجویز کی گئی دوا سے مر گئے۔ ان میں ایک میرا سب سے اچھا دوست بھی شامل تھا۔ عظیم اور معروف ادویہ ساز کمپنی کی بنائی گئی دوا جو میں برسوں سے تجویز کررہا تھا وہ زہر بن گئی تھی۔ اس احساس نے مجھے ذہنی اور روحانی اذیت کے ناقابلِ یقین ایام دیے۔ مجھے موت کا وقت معلوم ہے۔ میرے لیے اس اذیت سے بہتر یہ راحت فراہم کرے گا۔ میں اذیت سے چھٹکارے کےلیے اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔
کہنے دیجیے یہ مکمل بازار بن چکا ہے۔ 1937 کا کیا رونا، گیمبیا میں 2022 میں بھی بچے کھانسی کا شربت پی کر مرگئے۔ وجہ وہی ڈائی ایتھالین گلائیکول، وہی قاتل۔
سو سال ہونے کو ہیں۔ پوری دنیا میں اس ڈائی ایتھالین گلائیکول کے درجنوں واقعات رونما ہوئے۔ سیکڑوں اموات ہوتی رہیں۔ پتہ نہیں اس بازار میں مہربانی کب راج کرے گی؟ کب ذمے داری ادا کی جائے گی؟ آج بھی ہم شربت میں ملائی جانے والی گلیسرین کو ٹیسٹ نہیں کرتے۔ لاپرواہی دانستہ ہمارے انداز کا حصہ ہے۔ قسمت کے زور پر ہم مرنے والے کی خاموش آواز دبا دیتے ہیں۔ ایک وہ ماہر ادویہ تھا جو اس کی ذمے داری کا بوجھ محسوس کرتا تھا اور اتارنے کےلیے اس نے اپنے ریوالور کی گولی سے اپنے دل میں سوراخ کرلیا۔ ایسا لگتا ہے آج بھی ہم طوفان کے رحم و کرم پر ہیں۔ قسمت سے ہم شکار ہونے سے بچے ہیں۔ دیکھتے ہیں ہم دوسروں کےلیے کیا کر پاتے ہیں۔ اللّہ سب کا، آپ کا، ہمارا اور میرا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
یہ 1937 کا امریکا ہے جہاں دوائیں قانون کے تحت قابو میں رکھی جاتی تھیں مگر قانون دقیانوسی ہونے کی وجہ سے تنقید کی زد میں تھا۔ بوسیدہ قانون تبدیل ہونے میں بحث و مباحثہ غیر ضروری طول پکڑ رہا تھا۔ یکایک ایک نہیں، دو نہیں، دس نہیں، سو سے زائد لوگ بشمول بچے رس بھری ذائقے والی اینٹی بائیوٹک شربت پی کر موت کی آغوش میں چلے گئے۔ اس پراسرار موت نے ڈاکٹر اور ماہر ادویہ اور ایف ڈی اے میں تہلکہ مچا دیا۔ ہر طرف گھنٹی بج رہی تھی۔ یہ کسی کو نہیں معلوم کہ لوگ کیوں مر رہے تھے مگر شعور کی اعلیٰ سطح کے پیشہ ور سچائی جاننے کے درپے تھے۔ انہوں نے ایک مخصوص شربت کو پہچان لیا جو خاموش قاتل تھا۔ وہ معلوم کرچکے تھے کہ اس میں استعمال کیا جانے والا ڈائی ایتھالین گلائیکول سفاک قاتل تھا۔
سلفانلامائیڈ ایک کڑوا مگر جراثیم کے خلاف مؤثر کیمیکل کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کی گولیاں اور پاؤڈر دستیاب تھے۔ جون 1937 میں ایک سیلز مین نے اس دوا کو شربت کی شکل میں اصرار کیا۔ اس وقت قانون کے تحت کمپنی بہت سے معاملات کی ذمے دار نہیں تھی۔ کمپنی کے چیف کیمسٹ ہیرلڈ کول واٹکنز، جو کہ خود ایک ماہر ادویہ تھا اس نے اس دوا کو ڈائی ایتھالین گلائیکول میں حل کرنے کا تجربہ کیا۔ کمپنی نے اس کے خوشبو، ذائقہ اور ظاہری شکل کو قابل تسلی پایا۔ کمپنی خوش تھی کہ اس نے سیلزمین کا مطالبہ پورا کردیا اور یہ شربت پورے امریکا میں سپلائی کےلیے بھیج دیا گیا۔ نئے شربت کو زہریت کےلیے جانچا نہیں گیا، نہ ہی قانون میں اس کی کوئی پابندی تھی۔ زہریلی دوا کو بیچنا غیر قانونی نہ تھا۔ سمجھنے والے غیر اخلاقی سمجھتے اور یقیناً کمپنی کی نیک نامی پر یہ بڑا دھبہ تھا۔
واٹکنز بھول گیا تھا کہ ڈائی ایتھالین گلائیکول ایک جان لیوا زہر منجمد کرنے کے خلاف استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہی پہلی کھیپ اوکلا میں استعمال ہوئی ڈاکٹروں نے پتہ لگالیا کہ مرنے والے اس نئے شربت کا شکار ہیں۔ انہوں نے میڈیکل ایسوسی ایشن کو آگاہ کیا جس نے زہریلے مادے کی موجودگی کا سراغ لگا لیا۔ یہ زہر ڈائی ایتھالین گلائیکول تھا۔ اخباروں اور ریڈیو میں کہرام مچ گیا کہ سلفانلامائیڈ شربت موت ہے۔ نیویارک کے ڈاکٹرز نے بھی درجن سے زائد اموات کا مشاہدہ کیا اور فوری ایف ڈی اے کے علم میں لے کر آئے۔ کینساس شہر کے انسپکٹر نے بھی آٹھ بچے اور ایک بڑے کی موت کی وجہ کو اسی شربت سے جوڑا۔ ہزاروں سیلز مین، ماہر ادویہ، ڈاکٹرز کو ایف ڈی اے نے ہنگامی ٹیلیگرام بھیج کر مطلع کیا۔ دیر سے سہی مگر کچھ صاف لکھا گیا۔ دوا ہمارے خرچے پر واپس کریں۔ یہ زندگی کےلیے خطرہ بن سکتی ہے۔
ایف ڈی اے کے دو سو سے زائد انسپکٹر دوا واپس اٹھانے کےلیے مارے مارے پھر رہے تھے۔ ساری سرکاری مشینری، اخبارات، ریڈیو، بے مثالی جدوجہد کررہے تھے۔ ایک ایک ریکارڈ کھنگالا جارہا تھا۔ ہر متعلقہ فارمیسی، ہول سیل، ڈسٹری بیوشن ہاؤس میں تلاشی جاری تھی۔ ہزاروں نسخوں کا ایک ایک کرکے تعاقب کیا جارہا تھا۔ دو سو کے لگ بھگ سیلزمینوں سے سوال جواب جاری تھے۔ سیلز مینز کو ڈھونڈنا ایک عذاب تھا۔ ڈھونڈنے ڈھونڈنے میں کئی دن لگ جاتے۔ کوئی ملتا، کوئی معلومات فراہم نہیں کرتا، افراتفری تھی۔ ایک سیلز مین نے جیل جانے کے بعد معلومات فراہم کیں۔ یہ پورا پورا سراغرسانی والا کام تھا۔ ڈاکٹرز، ماہر ادویہ ساتھ دے رہے تھے۔ دوا لے کر جانے والی ایک تین سال کے بچے کی فیملی کو ڈھونڈنے میں ایک ڈاکٹر نے اپنا ولیمہ ملتوی کیا۔ اس تفتیش میں جابجا اموات کی خبریں مل رہی تھیں۔ گردے کا فیل ہونا، پیشاب کا رک جانا، بدترین درد، جھٹکے، متلی، الٹی وغیرہ سے بچے گزر رہے تھے، جنہیں درحقیقت گلے کا انفیکشن دور کرنے کی دوا دی گئی تھی۔ کئی ڈاکٹر تفتیش کے خوف سے مریض کا پتہ بتانے سے ہچکچا رہے تھے۔ یہ خونیں ہفتے تھے۔ ڈائی ایتھالین گلائیکول جسم میں ایسڈ بڑھاتا ہے اور سب سے پہلے گردے تباہ ہوتے ہیں، جو دردناک موت کا باعث بنتا ہے۔
ڈاکٹر اے ایس کلہون نے کچھ یوں لکھنا چاہا کہ خدا کے سوا کوئی نہیں جان سکتا کہ گزشتہ چند دنوں میں کس کرب سے گزرا ہوں۔ میرے چھ مریض میری تجویز کی گئی دوا سے مر گئے۔ ان میں ایک میرا سب سے اچھا دوست بھی شامل تھا۔ عظیم اور معروف ادویہ ساز کمپنی کی بنائی گئی دوا جو میں برسوں سے تجویز کررہا تھا وہ زہر بن گئی تھی۔ اس احساس نے مجھے ذہنی اور روحانی اذیت کے ناقابلِ یقین ایام دیے۔ مجھے موت کا وقت معلوم ہے۔ میرے لیے اس اذیت سے بہتر یہ راحت فراہم کرے گا۔ میں اذیت سے چھٹکارے کےلیے اس کا خیرمقدم کرتا ہوں۔
کہنے دیجیے یہ مکمل بازار بن چکا ہے۔ 1937 کا کیا رونا، گیمبیا میں 2022 میں بھی بچے کھانسی کا شربت پی کر مرگئے۔ وجہ وہی ڈائی ایتھالین گلائیکول، وہی قاتل۔
سو سال ہونے کو ہیں۔ پوری دنیا میں اس ڈائی ایتھالین گلائیکول کے درجنوں واقعات رونما ہوئے۔ سیکڑوں اموات ہوتی رہیں۔ پتہ نہیں اس بازار میں مہربانی کب راج کرے گی؟ کب ذمے داری ادا کی جائے گی؟ آج بھی ہم شربت میں ملائی جانے والی گلیسرین کو ٹیسٹ نہیں کرتے۔ لاپرواہی دانستہ ہمارے انداز کا حصہ ہے۔ قسمت کے زور پر ہم مرنے والے کی خاموش آواز دبا دیتے ہیں۔ ایک وہ ماہر ادویہ تھا جو اس کی ذمے داری کا بوجھ محسوس کرتا تھا اور اتارنے کےلیے اس نے اپنے ریوالور کی گولی سے اپنے دل میں سوراخ کرلیا۔ ایسا لگتا ہے آج بھی ہم طوفان کے رحم و کرم پر ہیں۔ قسمت سے ہم شکار ہونے سے بچے ہیں۔ دیکھتے ہیں ہم دوسروں کےلیے کیا کر پاتے ہیں۔ اللّہ سب کا، آپ کا، ہمارا اور میرا حامی و ناصر ہو۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔