ڈپلومیسی کی جنگ
آج کی دنیا میں داخلی یا عالمی سطح سے جڑے مسائل پر ’’ ڈپلومیسی پر مبنی حکمت عملی ‘‘ کو سب سے زیادہ فوقیت دی جاتی ہے
پاکستان کا بحران سادہ نہیں ۔ یہ بحران کسی ایک فریق یا کسی سیاسی تنہائی میں بھی ممکن نہیں ہوگا۔ اگر ہم نے اس بحران کے حل کر طرف مثبت انداز سے آگے بڑھنا ہے تو تمام فریقین کو اس ذمے داری کا احساس اور اپنی اپنی سطح پر کردار بھی ادا کرنا ہوگا۔
آج کی دنیا میں داخلی یا عالمی سطح سے جڑے مسائل پر '' ڈپلومیسی پر مبنی حکمت عملی '' کو سب سے زیادہ فوقیت دی جاتی ہے ۔ کیونکہ اسی ڈپلومیسی کو بنیاد بنا کر ہمیں اپنا مثبت بیانیہ پیش کرنا ہوتا ہے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں تمام ممالک کی توجہ کا بڑا مرکز اس وقت ڈپلومیسی کا محاذ ہے اور اسی پر علمی ، فکری اور مالی بنیادوں پر سرمایہ کاری کی جاتی ہے ۔لیکن ہمارا مقدمہ کچھ مختلف ہے۔
ہم داخلی سطح کی سیاست میں اس حد تک الجھ کر رہ گئے ہیں کہ ہمیں یا تو اپنے حقیقی مسائل کا ادراک نہیں یا ہم واقعی غیر سنجیدگی کی بنیاد پر ہی حکومتی معاملات کو چلانا چاہتے ہیں۔ جب آپ آگے بڑھنا چاہتے ہیں تو پھر ایک واضح اور شفاف اتفاق رائے پر مبنی روڈ میپ درکار ہوتا ہے مگر قومی تناظر میں یہ کہاں ہے کسی کو بھی کچھ معلوم نہیں۔
اس وقت پاکستان ایک مشکل اور نامساعد حالات میں ڈپلومیسی کی جنگ کو لڑنے کی کوشش کررہا ہے ۔دنیا کو ہم یہ باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم نے ان مشکل حالات میں بھی نہ صر ف حالات کا مقابلہ کیا بلکہ کئی امور پر ہمیں کچھ بڑی کامیابیاں بھی ملی ہیں ۔
آج کی عالمی سیاست میں اگر ہم نے کامیابی سے آگے بڑھنا ہے تو ملکی سطح پر حکومت، جمہوریت اور ریاستی اداروں کے درمیان فاصلے بڑھنے کی بجائے کم ہونے چاہیے ۔پاکستان کی بڑی ضرورت سول ملٹری تعلقات میں ہم آہنگی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم اپنی داخلی اور خارجی سیاست میں نمایاں مقام حاصل کرسکتے ہیں ۔ سب فریقین اپنے اپنے سیاسی ، قانونی اور آئینی دائرہ کار میں کام کریں ۔
دنیا میں بہت سے ممالک کی سیاسی اور عسکری قیادت مل جل کر ایک ایسا ایجنڈا ترتیب دیتی ہیں جو ریاستی یا قومی ضرورتوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی ضرورتوں کو بنیاد بنا کر ایک ایسی سیاسی و عسکری ڈپلومیسی کی جنگ کو آگے بڑھایا جاتا ہے جونہ صرف ہمارے بیانیہ کو تقویت دے بلکہ عالمی سطح پر اس بیانیہ کو تسلیم بھی کیا جائے ۔یہ ہی وجہ ہے کہ ہمیں اپنے قومی بحران کو محض ایک روائتی عینک لگاکر یا پرانے خیالات کی بنیاد پر نہیں دیکھنا چاہیے ۔ نئے خیالات ، جدید تقاضے اور عالمی دنیا کے تجربات کو بنیاد بنا کر ہمیں اپنی حکمت عملی کو ترتیب دینا چاہیے ۔
دہشت گردی کی جنگ میں جو ہمیں بڑی بڑی کامیابیاں ملی ہیں اسکا کریڈٹ سیاسی ، انتظامی ، قانونی اداروں اور ہماری فوجی قیادت کو جاتا ہے ۔ ہماری سیکیورٹی کے اداروں اور پولیس سمیت دیگر طبقات نے جس جرات کے ساتھ مقابلہ کیا، اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا وہ واقعی قابل تعریف ہے۔
اہم بات یہ تھی کہ بھارت کی پوری سفارتی جنگ یا ڈپلومیسی اسی نقطہ پر تھی کہ پاکستان بطور ریاست دہشت گردی کرتا ہے اور دہشت گردوں کی سرپرستی بھی کرتا ہے ۔آج پاکستان کا ماحول ماضی کے مقابلے میں کافی مختلف ہے اور ہم ان مشکل دہشت گردی کے حالات سے باہر نکلے ہیں جو ہمیں درپیش تھے۔
حالیہ سوات کے حالات نے ہمیں دوبارہ خبردار کیا ہے کہ ہمیں اس مسئلہ کو نظرانداز کرنا نہیں چاہیے وگرنہ دوسری صورت میں یہ دوبارہ لہر پکڑسکتی ہے۔ 2002 سے2022 تک ہمیں کئی محاذوںپر دہشت گردی کا سامنا رہا ہے اور ہم نے تقریباً ستر ہزار سے زیادہ سول اور سیکیورٹی کے افراد کی جانی قربانی دی ہے ۔ پاکستان کی موجودہ قومی سیکیورٹی پالیسی کا محور بھی جیو معیشت سے جڑا ہوا ہے۔ ہم علاقائی ممالک کو جوڑ کر معاشی میدان میں آگے بڑھنے کی حکمت عملی اختیار کرنا چاہتے ہیں۔
یہ کام بھی اسی صورت میں ممکن ہوگا جب ہم داخلی سطح پر مضبوط ہوں اور پھر اسی بنیاد پر ان علاقائی ممالک کے ساتھ نئے اور مثبت تعلقات کو استوار کیا جائے ۔ہمیں اس کے لیے پہلے خود سے اپنا داخلی احتساب اور اپنی سمت کو درست کرنا ہوگا۔سیاسی استحکام ہماری ترقی کی بنیادی کنجی ہے اور اسی کو بنیاد بنا کر ہم معاشی ترقی کے عمل میں شامل ہوسکتے ہیں۔ سب سے بڑا المیہ حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان قومی معاملات پر غیر سنجیدہ رویہ ہے اور یہ عمل حالات کو مزید بگاڑنے کا سبب بن رہا ہے۔
معیشت کی ترقی پر تو زور دیا جاتا ہے مگر اس کے لیے جو ہمیں ادارہ جاتی ڈھانچوں میں تبدیلی لانی ہے اس سے گریز کیا جارہا ہے اور یہ ہی کوشش ہوتی ہے کہ ہم عالمی امداد کی مدد سے نظام حکمرانی کو چلاسکیں ۔ یہ جو بار بار ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کی کوشش ہوتی ہے وہ محض دوست ممالک کے تعاون تک محدود نہیں ہونی چاہیے بلکہ ہمیں اپنی معاشی خودمختاری کی جنگ میں بڑے اور کڑوے فیصلے کرنے ہونگے۔
سیلاب متاثرین کی امداد کے سلسلے میں بھی جب ہمیں عالمی مدد اور تعاون درکار ہوتا ہے تو اس کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہم مل کر کوئی ایسا پلان ترتیب دیں جو دنیا میں ہمارے اعتماد کو بھی بحال کرسکے اور اس طرح کی قدرتی آفات کا بھی ہم بہتر طور پر مقابلہ کرسکیں تاکہ لوگوں کو تمام سہولیات دی جاسکیں جو ان کا حق بنتا ہے۔ اس لیے اگر پاکستان نے آگے بڑھنا ہے تو سول ملٹری تعلقات اور ان میں ہم آہنگی کو بنیاد بنا کر ہی ہم اپنے لیے ایک بہتر، محفوظ مستقبل اور ترقی کا راستہ تلاش کرسکتے ہیں، یہ ہی ہماری ترجیح ہونی چاہیے۔