سیلاب کسان اور بحران
آئین ، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول کیے بغیر پائیدار سیاسی استحکام ممکن نہیں
قدرتی آفات کا لفظ بلکہ اصطلاح ہمارے ہاں بہت زیادہ استعمال کی جاتی ہے۔ اس اصطلاح کا عمومی مفہوم یہ ہے کہ ایسی کوئی بھی آفت جو انسانوں کی لائی ہوئی نہ ہو اسے قدرتی آفت کہا جاتا ہے۔
ایسی آفات اکثر رونما ہوتی رہتی ہیں جن کی وجہ انسان نہیں ہوتے لیکن زیادہ تر آفات انسانوں کی خود پیدا کردہ ہوتی ہیں لیکن اس کے لیے کوئی اپنی ذمے داری قبول کرنے پر تیار نہیں ہوتا اور اسے قدرت کی جانب سے بھیجی گئی آفت قرار دے دیا جاتا ہے بلکہ کچھ لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ ہمارے گناہوں کی سزا ہے۔
پاکستان میں بے وقت اور غیر متوقع شدید بارشوں اور اس کے باعث آنے والے بھیانک سیلاب کی تباہ کاریوں کے بارے میں بھی کچھ اسی طرح کی باتیں سنائی دیتی ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے کرۂ ارض جس بڑے پیمانے پر متاثر ہو رہا ہے۔ اس کی ذمے داری غریب ملک ، صنعتی طور پر ترقی یافتہ ممالک پر ڈالتے ہیں۔
ان کی جانب سے یہ دلیل دی جاتی ہے کہ زیادہ سے زیادہ پیداوار اور منافع کی لالچ میں قدرتی وسائل بالخصوص معدنی ایندھن کے غیر معمولی استعمال اور استحصال سے جو فضائی آلودگی پیدا ہوئی اس نے اوزون کی تہہ میں شگاف ڈال دیے ہیں جس سے کرۂ ارض کے درجہ حرارت میں اضافہ ہوا اور ماحولیاتی عدم توازن پیدا ہونے سے ہزاروں سال سے قائم موسموں کا نظام بھی بدلنے لگا۔ بارشوں کے موسم میں خشک سالی اور خشک موسم میں بارشیں ہونے لگیں۔ کبھی سردی کا موسم طویل ہوتا ہے تو کبھی گرمیوں کا دورانیہ بڑھ جاتا ہے۔
درجہ حرارت میں اضافے سے گلیشیئر پگھلنے لگتے ہیں اور ایسے بھیانک سیلاب آتے ہیں جو سب کچھ بہا کر لے جاتے ہیں۔ سمندروں میں زیادہ پانی جانے لگتا ہے اور اس کی سطح بلند ہونے لگتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ دنیا کے متعدد ساحلی شہر بلکہ ممالک سمندر میں ڈوب کر دنیا کے نقشے سے غائب ہونے والے ہیں۔ یہ ایک طویل موضوع ہے جس پر بحث کو ہم کسی اور وقت کے لیے اٹھا رکھتے ہیں۔
آج کا کڑوا سچ یہ ہے کہ انسانوں کے ایک گروہ اور ان کی نمایندہ حکومتوں کی ماحول دشمن پالیسیوں سے جو موسمیاتی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں پاکستان اس کا بدترین شکار ہوا ہے اور اس کا شمار ان تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے بد ترین ممالک میں کیا جا رہا ہے۔ ملک کو چالیس ارب ڈالر کا نقصان ہوچکا ہے، کروڑوں انسان بے گھر ہوگئے ہیں اور آج بھی کھلے آسمان تلے بیٹھے مدد کا انتظار کر رہے ہیں۔ متاثرہ علاقوں میں ہر طرف بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں اور بہت سے لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔
یہ تمام مسائل اپنی جگہ لیکن ایک حقیقت ایسی بھی ہے جسے ہم سب نظرانداز کر رہے ہیں۔ سیلاب سے کروڑوں کی تعداد میں بے گھر ہونے والوں کی غالب اکثریت کا تعلق کسان طبقے سے ہے۔ بڑے زمینداروں کو بھی نقصان اٹھانا پڑا ہے لیکن ان میں نقصان برداشت کرنے کی قوت موجود ہے۔ اس کے برعکس کسان اور ہاری جن کا سب کچھ برباد ہوگیا ہے اور ان کے لیے زندہ رہنا بھی مشکل ہوچکا ہے۔
ہمارے ملک کے کسانوں اور ہاریوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ ایک وقت تھا جب پاکستان میں کسانوں، مزدوروں اور طلباء کی منظم اور طاقتور تنظیمیں ہوا کرتی تھیں جو ان طبقات کے حقوق کے لیے مستقل سرگرم عمل رہتی تھیں۔ اب یہ صورتحال نہیں ہے ، طبقاتی تنظیموں کا وجود محض کاغذوں کی حد تک برقرار ہے، عملی میدان میں ان کی سرگرمیاں نظر نہیں آتیں۔
اس موقع پر مجھے سندھ ہاری کمیٹی یاد آتی ہے جس نے کسانوں کے حقوق کے لیے مثالی جدوجہد کی تھی۔ اب یہ کمیٹی فعال نہیں ہے لیکن کچھ نوجوان اسے ماضی کی طرح دوبارہ سرگرم کرنا چاہتے ہیں۔ ہاری کمیٹی اگر عملاً غیر فعال نہ ہوئی ہوتی تو سیلاب سے متاثر ہونے والے کسان آج اتنے بے آسرا اور بے سہارا نہ ہوتے۔ سندھ ہاری کمیٹی نے کسانوں کو منظم کیا تھا، ان کے اندر یہ جذبہ پیدا کیا تھا کہ کوئی زمیندار یا حکومت ا ن کا حق تھالی میں رکھ کر انھیں پیش نہیں کرے گا۔
اپنے حقوق کے لیے انھیں خود متحد ہو کر جدوجہد کرنی ہوگی۔ ہاریوں کی نمایندہ تنظیم کی عدم موجودگی یا عدم فعالیت کی وجہ سے حکومت، سرکاری اہلکاروں اور بڑے بڑے جاگیرداروں پر کوئی دبائو نہیں ہے۔ انھیں بخوبی علم ہے کہ ہاریوں کے لیے لڑنے والا کوئی رہنما یا تنظیم موجود نہیں ہے، لہٰذا انھوں نے کروڑوں ہاریوں کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ اتنے دن گزر جانے کے باوجود ان کی اکثریت انتہائی کرب ناک حالات میں خود کو زندہ رکھنے کی تگ و دو کر رہی ہے۔
دنیا میں حالات بہت بدلے ہیں لیکن پاکستان کے مظلوم طبقات کی زندگیوں میں کوئی بڑی تبدیلی رونما نہیں ہوئی ہے، وقت ان کے لیے منجمد ہوکر رہ گیا ہے۔ پاکستان کے کسان اور مزدور سیاسی جماعتوں کی طرف دیکھتے ہیں لیکن وہ ان کے لیے کچھ نہیں کرتیں۔ بڑی جماعتوں کے کسان ونگ موجود ہیں لیکن لگتا ہے کہ جیسے انھیں ارادتاً غیر فعال رکھا گیا ہے۔ وجہ اس کی عیاں ہے۔ عام انتخابات میں بڑی جماعتوں کو جیتنے والے امیدوار درکار ہوتے ہیں جنھیں electables کہا جاتا ہے۔
بڑے جاگیردار ، زمیندار ، برادریوں کے سرکردہ افراد ، گدی نشین ، پیر اور خوانین کو بڑی جماعتیں ہر انتخابات میں ٹکٹ جاری کرتی ہیں کیونکہ کسی بھی جماعت کا کوئی مقامی کارکن ان بااثر اور طاقتور افراد کے مقابلے میں انتخابات جیتنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ سیاسی جماعتوں کے رہنما عوامی خطابات میں مزدوروں اور کسانوں کے حق میں بڑی باتیں کرتے ہیں لیکن انھیں اپنا امیدوار بنا کر انتخابی میدان میں نہیں اتارتے۔ دکھ سے کہنا پڑتا ہے کہ جو جماعتیں انقلاب کی باتیں کرتی ہیں وہ بھی یہی کرتی ہیں۔
جمہوری عمل میں سیاسی جماعتوں کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ نامساعد حالات میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے جو جدوجہد کی ہے اور اس کا اعتراف کیا جانا چاہیے لیکن اس حقیقت کو بھی فراموش نہ کیا جائے کہ ملک میں اگر ماضی کی طرح محنت کش طبقات کی موثر اور فعال تنظیمیں موجود ہوتیں تو سیاسی جماعتیں بھی عام انتخابات میں ان کے نمایندوں کو اپنا امیدوار بنانے پر مجبور ہوتیں اور ان کے رہنما سیاسی حمایت اور رہنمائی کے لیے کسانوں اور مزدوروں کے رہنمائوں کے پاس خود چل کر جایا کرتے جیسا کہ ماضی میں ہوا کرتا تھا۔
پاکستان خوفناک معاشی بحران میں گھرا ہوا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے حالات کی سنگینی میں کئی گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ اس صورتحال سے نکلنے کا کوئی آسان حل موجود نہیں۔ معاشی بحران ، سیاسی استحکام کے بغیر ختم نہیں ہوگا۔ آئین ، قانون اور پارلیمنٹ کی بالادستی کو قبول کیے بغیر پائیدار سیاسی استحکام ممکن نہیں۔
فیصلہ سازی میں کلیدی کردار ادا کرنے والی سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ کوئی بھی جماعت یا ریاستی اور آئینی ادارہ آئین میں متعین کردہ دائرہ اختیار سے باہر نہیں نکلے گا اور کسی بھی صورت میں قومی مفاد کو ذاتی، سیاسی، گروہی اور ادارہ جاتی مفاد پر قربان نہیں کیا جائے گا۔ یہ معاشی اور سیاسی بحران ہمارا اپنا پیدا کردہ ہے جس کی وجہ سے ہم سیلاب زدگان کی مدد کے لیے آج دنیا کے ہر ملک سے مدد کی بھیک مانگنے پر مجبور ہیں۔