ڈوبتا بیانیہ
ہمارے ہاں جو ٹرمپ، مودی ، پیوتن بلوسنارو جیسی سیاست کرنے والا اس وقت موجود ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ خان صاحب ہے
بات کسی نظریے کی نہیں، بات ہے ان حقیقتوں کی جن سے نظریے بنتے ہیں، ان نظریوں پر پھر بیانیے بنتے ہیں،ان بیانیوں کو لوگوں کے کانوں تک پہنچایا جاتا ہے، ان بیانیوں کی بھی بولیاں لگتی ہیں، کئی سوداگر اترتے ہیں، یہ بیانیوں سے پھر بیانیے لڑتے ہیں، اسی اقتدار کی جنگ میں۔ یہ کام سوشل میڈیا نے بہت گھمبیر کردیا ہے۔
روس نے ٹرمپ کے الیکشن کے زمانے میں امریکا کے اندرپروپیگنڈہ کے جھنڈے گاڑ ے، یہ سب سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہوا کل تک یہ کام سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈہ امریکا کرتا تھا۔ شام سے ہوئی ہجرت نے جب یورپی ممالک میں پناہ گاہیں مانگیں اور ان کے لبرل اقدار والی حکومتوں نے سرخم کیے بھی تو وہاں دائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کی چاندی لگی۔
ایسی ہجرتوں سے انھوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو خطرہ سمجھا۔ لوگ ایسے بیانیے سے متاثر ہوئے۔ دائیں بازو کی سیاست کرنے والی جماعتوں کی نشستیں بڑھیں پارلیمان میں ۔
یہ انتہا پرست دائیں بازو کے لوگ ہنگری میں تو حکومت بنا بیٹھے اور اب تو اٹلی میں بھی۔ ہندوستان کو بھی یہ بیماری لگی ان کا پورا سیکیولر ازم کا دعویٰ ، دہائیوں کی محنت آج گھٹنے ٹیک کے بیٹھ گئی۔
پیوتن نے بھی روس کو یرغمال کیا، وہ جمہوریت سے ڈرتا تھا۔ اس نے روس کے اندر قوم پرستی کے جنوں کو بڑھوا دیا اور یہ کہا کہ مغرب کے ممالک و امریکا ، روس سے نفرت کرتے ہیں۔ روس کے لوگوں کے لاشعور میں ہے کہ ہم سپر طاقت ہیں۔ دوستو وسکی سے لے کر، پشکن، ٹالسٹائی اور ان کے ادب سے بھی جھلک ملتی ہے۔
یہ جو سوشلسٹ بیانیہ تھا جو دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد کرنسی بنا، وہ بھی ہوائوں میں تھا لیکن تھا رومانس سے بھرا ، جس سے میں بھی متاثر رہا، بہت سائنسی بھی تھا مگر کارل مارکس کی حد تک۔ اس پر اجارہ داری بنائی سوشلسٹ آمریتوں نے، ریاستیں ناکام ہوگئیں۔ مغرب میں تھا تو کیپٹل ازم مگر جمہوریت بھی تھی، اسی سماجی اظہار رائے کی آزادی بھی تھی، مگر دونوں جانب جو ترقی پذیر ممالک کی سیٹلائٹ تھی اسی میں آمریتیں بھی بیٹھی تھیں۔
اس بار بیانیہ بنانے میں جھوٹ اور غلط خبروں نے بڑا کردار ادا کیا ۔ سوشل میڈیا پر کچھ بھی کہہ دو کوئی پوچھنے والا نہیں، لیکن ساتھ ساتھ مخصوص گروپوں نے اسے خوب استعمال کیا اپنے مفادات کے لیے ۔ امریکا میں ٹرمپ نے اسے استعمال کیا اور پتا چلا کہ دنیا کی اتنی بڑی طاقت اور علم رکھنے والی ریاست میں بھی اتنی جہالت اب بھی موجود ہے۔ یہی حال برازیل کا تھا اور اسی طرح مودی نے ہندوتوا کی وبا سے معصوم ذہنوں کو گمراہ کیا۔
لیکن یہ سب جو ہوا یا ہورہا ہے وہ مستقل نہیں ہے۔ جس طرح سرد جنگ میں سوویت یونین اور اس کے ساتھ مشرقی یورپ کی ریاستیں جہاں چاسسکو جیسے آمر تھے گرگئیں۔ اس بار یوکرین کے ساتھ روس کی جنگ نے ایک نیا موڑ پیدا کیا ہے۔ تاریخ ایک نئے زینے میں داخل ہونے جارہی ہے۔
یہ جنگ گھمسان کی ہو بھی سکتی ہے اور قوی امکان ہے کہ نہ ہو، کیونکہ روس کو بہت بڑی شکست ہونے جارہی ہے۔ وہاں یقینا پیوتن اپنا اقتدار گنوا بیٹھے گا۔ یہ جنگ روس کے ہاتھ سے نکل گئی روس بحیثیت سماج اتنا گونا گوں نہیں ہے۔ نہ اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی کی چیزیں بنتی ہیں،جس طرح چین میں بنتی ہیں۔ اس کے پاس سارا تقریبا ڈالر باہر سے تیل و گیس بیچنے کی مد میں آتا ہے۔
برازیل میں پوئلا لالا، بولسنارو کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست دے چکا ہے، لیکن تیس اکتوبر کے ہونے والے دوسرے مرحلے میں یہ چیز اور بھی واضح ہوگی، ایران میں چالیس سال بعد بالاخر آمریت کے خلاف عورتیں نکل آئی ہیں اور یہ تحریک لگتا ہے کہ اور بھی مضبوط ہوگی، جس نے پورے مشرقی وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے۔ افغانستان میں جرات سے عورتیں مظاہرے کررہی ہیں اور ایسے مظاہروں کو روکنا اب طالبان کے لیے کوئی بات نہیں۔
پاکستان میں اسی بیانیہ کو اس وقت شکست کا سامنا ہوتے ہوئے نظر آیا، جب سوات کے لوگ اسی دہشت گردی کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں باہر نکل آئے۔ آجکل اس ملک میں ملالہ بھی آئی ہوئی ہے، جس سے لڑکیوں کو تعلیم کا حق دینے کی جدوجہد اور مستحکم ہوتی ہے۔ خود خیبر پختونخوا کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان اور عمران خان صاحب کی پارٹی کا آپس میں اتحاد ہے۔ اس لیے سوات میں ان مظاہروں میں خیبر پختونخوا کی حکومت کے خلاف بھی نعرے بازی ہوئی۔
ہمارے ہاں جو ٹرمپ، مودی ، پیوتن بلوسنارو جیسی سیاست کرنے والا اس وقت موجود ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ خان صاحب ہے۔ خان صاحب پاکستان کی تاریخ کے انتہائی منفرد سیاستدان نکلے ۔ ان کے پاس ایک بیانیہ تھا ، سیاستدانوں کو کھلی گالیاں دیں اور انھیں کرپٹ قرار دیا۔ ان کے پیچھے جو لوگ کھڑے تھے انھوں نے جمہوری اداروں کو نقصان پہنچایا ۔ یہ ان کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے جس کا اعتراف انھوں نے اب کیا بھی ہے لیکن جتنی کرپشن و اقربا پروری انھوں نے کی، اس کی ان کو اجازت تھی، پنجاب انتہائی کم زور شخص کو دیا اور فرح گوگی کو ڈیفیکٹو وزیر اعلیٰ بنا دیا جو خود بنی گالہ میں رہتی تھی۔
خان صاحب چند جوانوں زلفی بخاری، شہباز گل اور ایسے کئی لوگوں کو اپنے ساتھ لے کے چلتے رہے۔ بیانیہ پر بیانیہ دیتے رہے ۔ یوں کہیے سوشل میڈیا پر ان کا جیسے کنٹرول ہوگیا تھا،وہ کسی بھی لحاظ سے کارکردگی دینے میں بالکل ناکام ہو گئے۔ آئین اور جمہوریت کی دھجیاں اڑادی۔
ان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے گئی، اس کو انھوں نے امریکی سازش قرار دیا۔ جو ان کے چاہنے والے تھے وہ اس طرح ان پے اندھا یقین رکھتے تھے جس طرح ہندوتوا والے مودی سے، سفید فام قوم پرست ٹرمپ سے محبت رکھتے ہیں اور آج کل یہ بھی ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں ۔
ایک کام جو انھوں نے کیا وہ مذہب کو جنرل ضیاء الحق کی طرح استعمال کیا ۔ خود جو تاریخی اعتبار سے رجعت پسند بیانیہ تھا وہ اس کا چکمک بن گئے اور تمام لوگ اینکروں سے لے کے شرفاء سب کو ایک بند گلی تک پہنچا دیا۔ اس سے پہلے جو موقع پرست لوگ تھے جب سمجھتے تھے کہ پیپلز پارٹی یا نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا جارہا ہے وہ ایک دم سے اپنی صفیں درست کرلیتے تھے، اب کے ایسا ہونا شاید ہی ممکن ہو۔
اس لیے اب پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے ایک کامیاب ریاست بننے کا۔ ان دس سالوں میں جمہوریت کو ناکام کرنے کے لیے جو عمران خان اور ہمنوائوں نے بیانیہ بنایا ، مارکیٹ میں وہ بیانیہ آہستہ آہستہ اپنی افادیت کھو رہا ہے ، لیکن اس ملک کو بہت نقصان بہرحال اس بیانیہ نے پہنچایا ہے، جس نقصان کی تلافی کے لیے ایک وقت درکار ہے۔
دنیا بھر سے جمہوریت کے اندر بیماری پھیلی تھی کہ کوئی بھی انتہا پرست بیانیہ بنا کے لوگوں کے جذبات سے کھیل کر حکومت بنالے، اب ایسا ہونا ممکن نہ ہوگا آیندہ بیس سالوں میں اگر Climate Change کوئی شدید بحران پیدا نہیں کر پاتی تو دنیا بہت تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ ریاستوں پر بین الاقوامی قانون اور زیادہ اثر رکھے گا۔
یوں کہیے دنیا کی ہر ریاست کے لیے لازم ہوگا کہ وہ جمہوری طریقہ کار اپنائے وگرنہ بین الاقوامی رشتوں کے اعتبار سے اسے پریوار میں ساتھ نہیں بٹھایا جائے گا۔
روس نے ٹرمپ کے الیکشن کے زمانے میں امریکا کے اندرپروپیگنڈہ کے جھنڈے گاڑ ے، یہ سب سوشل میڈیا کے ذریعے ممکن ہوا کل تک یہ کام سوویت یونین کے خلاف پروپیگنڈہ امریکا کرتا تھا۔ شام سے ہوئی ہجرت نے جب یورپی ممالک میں پناہ گاہیں مانگیں اور ان کے لبرل اقدار والی حکومتوں نے سرخم کیے بھی تو وہاں دائیں بازو کی سیاست کرنے والوں کی چاندی لگی۔
ایسی ہجرتوں سے انھوں نے اپنی تہذیب و ثقافت کو خطرہ سمجھا۔ لوگ ایسے بیانیے سے متاثر ہوئے۔ دائیں بازو کی سیاست کرنے والی جماعتوں کی نشستیں بڑھیں پارلیمان میں ۔
یہ انتہا پرست دائیں بازو کے لوگ ہنگری میں تو حکومت بنا بیٹھے اور اب تو اٹلی میں بھی۔ ہندوستان کو بھی یہ بیماری لگی ان کا پورا سیکیولر ازم کا دعویٰ ، دہائیوں کی محنت آج گھٹنے ٹیک کے بیٹھ گئی۔
پیوتن نے بھی روس کو یرغمال کیا، وہ جمہوریت سے ڈرتا تھا۔ اس نے روس کے اندر قوم پرستی کے جنوں کو بڑھوا دیا اور یہ کہا کہ مغرب کے ممالک و امریکا ، روس سے نفرت کرتے ہیں۔ روس کے لوگوں کے لاشعور میں ہے کہ ہم سپر طاقت ہیں۔ دوستو وسکی سے لے کر، پشکن، ٹالسٹائی اور ان کے ادب سے بھی جھلک ملتی ہے۔
یہ جو سوشلسٹ بیانیہ تھا جو دوسری جنگ عظیم کے فوراً بعد کرنسی بنا، وہ بھی ہوائوں میں تھا لیکن تھا رومانس سے بھرا ، جس سے میں بھی متاثر رہا، بہت سائنسی بھی تھا مگر کارل مارکس کی حد تک۔ اس پر اجارہ داری بنائی سوشلسٹ آمریتوں نے، ریاستیں ناکام ہوگئیں۔ مغرب میں تھا تو کیپٹل ازم مگر جمہوریت بھی تھی، اسی سماجی اظہار رائے کی آزادی بھی تھی، مگر دونوں جانب جو ترقی پذیر ممالک کی سیٹلائٹ تھی اسی میں آمریتیں بھی بیٹھی تھیں۔
اس بار بیانیہ بنانے میں جھوٹ اور غلط خبروں نے بڑا کردار ادا کیا ۔ سوشل میڈیا پر کچھ بھی کہہ دو کوئی پوچھنے والا نہیں، لیکن ساتھ ساتھ مخصوص گروپوں نے اسے خوب استعمال کیا اپنے مفادات کے لیے ۔ امریکا میں ٹرمپ نے اسے استعمال کیا اور پتا چلا کہ دنیا کی اتنی بڑی طاقت اور علم رکھنے والی ریاست میں بھی اتنی جہالت اب بھی موجود ہے۔ یہی حال برازیل کا تھا اور اسی طرح مودی نے ہندوتوا کی وبا سے معصوم ذہنوں کو گمراہ کیا۔
لیکن یہ سب جو ہوا یا ہورہا ہے وہ مستقل نہیں ہے۔ جس طرح سرد جنگ میں سوویت یونین اور اس کے ساتھ مشرقی یورپ کی ریاستیں جہاں چاسسکو جیسے آمر تھے گرگئیں۔ اس بار یوکرین کے ساتھ روس کی جنگ نے ایک نیا موڑ پیدا کیا ہے۔ تاریخ ایک نئے زینے میں داخل ہونے جارہی ہے۔
یہ جنگ گھمسان کی ہو بھی سکتی ہے اور قوی امکان ہے کہ نہ ہو، کیونکہ روس کو بہت بڑی شکست ہونے جارہی ہے۔ وہاں یقینا پیوتن اپنا اقتدار گنوا بیٹھے گا۔ یہ جنگ روس کے ہاتھ سے نکل گئی روس بحیثیت سماج اتنا گونا گوں نہیں ہے۔ نہ اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی کی چیزیں بنتی ہیں،جس طرح چین میں بنتی ہیں۔ اس کے پاس سارا تقریبا ڈالر باہر سے تیل و گیس بیچنے کی مد میں آتا ہے۔
برازیل میں پوئلا لالا، بولسنارو کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں شکست دے چکا ہے، لیکن تیس اکتوبر کے ہونے والے دوسرے مرحلے میں یہ چیز اور بھی واضح ہوگی، ایران میں چالیس سال بعد بالاخر آمریت کے خلاف عورتیں نکل آئی ہیں اور یہ تحریک لگتا ہے کہ اور بھی مضبوط ہوگی، جس نے پورے مشرقی وسطیٰ کو اپنی لپیٹ میں لے لینا ہے۔ افغانستان میں جرات سے عورتیں مظاہرے کررہی ہیں اور ایسے مظاہروں کو روکنا اب طالبان کے لیے کوئی بات نہیں۔
پاکستان میں اسی بیانیہ کو اس وقت شکست کا سامنا ہوتے ہوئے نظر آیا، جب سوات کے لوگ اسی دہشت گردی کے خلاف ہزاروں کی تعداد میں باہر نکل آئے۔ آجکل اس ملک میں ملالہ بھی آئی ہوئی ہے، جس سے لڑکیوں کو تعلیم کا حق دینے کی جدوجہد اور مستحکم ہوتی ہے۔ خود خیبر پختونخوا کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طالبان اور عمران خان صاحب کی پارٹی کا آپس میں اتحاد ہے۔ اس لیے سوات میں ان مظاہروں میں خیبر پختونخوا کی حکومت کے خلاف بھی نعرے بازی ہوئی۔
ہمارے ہاں جو ٹرمپ، مودی ، پیوتن بلوسنارو جیسی سیاست کرنے والا اس وقت موجود ہے وہ کوئی اور نہیں بلکہ خان صاحب ہے۔ خان صاحب پاکستان کی تاریخ کے انتہائی منفرد سیاستدان نکلے ۔ ان کے پاس ایک بیانیہ تھا ، سیاستدانوں کو کھلی گالیاں دیں اور انھیں کرپٹ قرار دیا۔ ان کے پیچھے جو لوگ کھڑے تھے انھوں نے جمہوری اداروں کو نقصان پہنچایا ۔ یہ ان کے ہاتھوں میں کھیلتے رہے جس کا اعتراف انھوں نے اب کیا بھی ہے لیکن جتنی کرپشن و اقربا پروری انھوں نے کی، اس کی ان کو اجازت تھی، پنجاب انتہائی کم زور شخص کو دیا اور فرح گوگی کو ڈیفیکٹو وزیر اعلیٰ بنا دیا جو خود بنی گالہ میں رہتی تھی۔
خان صاحب چند جوانوں زلفی بخاری، شہباز گل اور ایسے کئی لوگوں کو اپنے ساتھ لے کے چلتے رہے۔ بیانیہ پر بیانیہ دیتے رہے ۔ یوں کہیے سوشل میڈیا پر ان کا جیسے کنٹرول ہوگیا تھا،وہ کسی بھی لحاظ سے کارکردگی دینے میں بالکل ناکام ہو گئے۔ آئین اور جمہوریت کی دھجیاں اڑادی۔
ان کی حکومت عدم اعتماد کے ذریعے گئی، اس کو انھوں نے امریکی سازش قرار دیا۔ جو ان کے چاہنے والے تھے وہ اس طرح ان پے اندھا یقین رکھتے تھے جس طرح ہندوتوا والے مودی سے، سفید فام قوم پرست ٹرمپ سے محبت رکھتے ہیں اور آج کل یہ بھی ایک بند گلی میں پھنس چکے ہیں ۔
ایک کام جو انھوں نے کیا وہ مذہب کو جنرل ضیاء الحق کی طرح استعمال کیا ۔ خود جو تاریخی اعتبار سے رجعت پسند بیانیہ تھا وہ اس کا چکمک بن گئے اور تمام لوگ اینکروں سے لے کے شرفاء سب کو ایک بند گلی تک پہنچا دیا۔ اس سے پہلے جو موقع پرست لوگ تھے جب سمجھتے تھے کہ پیپلز پارٹی یا نواز شریف کو اقتدار سے الگ کیا جارہا ہے وہ ایک دم سے اپنی صفیں درست کرلیتے تھے، اب کے ایسا ہونا شاید ہی ممکن ہو۔
اس لیے اب پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے ایک کامیاب ریاست بننے کا۔ ان دس سالوں میں جمہوریت کو ناکام کرنے کے لیے جو عمران خان اور ہمنوائوں نے بیانیہ بنایا ، مارکیٹ میں وہ بیانیہ آہستہ آہستہ اپنی افادیت کھو رہا ہے ، لیکن اس ملک کو بہت نقصان بہرحال اس بیانیہ نے پہنچایا ہے، جس نقصان کی تلافی کے لیے ایک وقت درکار ہے۔
دنیا بھر سے جمہوریت کے اندر بیماری پھیلی تھی کہ کوئی بھی انتہا پرست بیانیہ بنا کے لوگوں کے جذبات سے کھیل کر حکومت بنالے، اب ایسا ہونا ممکن نہ ہوگا آیندہ بیس سالوں میں اگر Climate Change کوئی شدید بحران پیدا نہیں کر پاتی تو دنیا بہت تبدیل ہونے جا رہی ہے۔ ریاستوں پر بین الاقوامی قانون اور زیادہ اثر رکھے گا۔
یوں کہیے دنیا کی ہر ریاست کے لیے لازم ہوگا کہ وہ جمہوری طریقہ کار اپنائے وگرنہ بین الاقوامی رشتوں کے اعتبار سے اسے پریوار میں ساتھ نہیں بٹھایا جائے گا۔