’ تاریخ کا قتل‘ لیاقت دشمنی سے لیاقت فراموشی تک پھیلی کہانی

پاکستان کی خاطر جان قربان کردینے والے عظیم راہ نما شہیدملت خان لیاقت علی خان کے یوم شہادت پر خصوصی تحریر


محفوظ النبی خان October 16, 2022
پاکستان کی خاطر جان قربان کردینے والے عظیم راہ نما شہیدملت خان لیاقت علی خان کے یوم شہادت پر خصوصی تحریر

پاکستان میں یوں تو وزرائے اعظم کی تحقیر کا سلسلہ گذشتہ 75 سال سے جاری ہے لیکن پہلے وزیراعظم کو لیاقت دشمنی کا سامنا کرنا پڑا اور شہادت کے بعد لیاقت فراموشی کا سلسلہ تاحال جاری ہے۔

لیاقت علی خان سے متعلق ڈس انفارمیشن اور کردارکشی کے دائرے میں ان کی شریک حیات اور بیٹوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ یہاں تک کے ان کے چھوٹے بیٹے کو شدید علالت کے باعث علاج معالجہ کے لیے مالی اعانت کی ضرورت پڑی تب بھی مخصوص لابی نے مخالفت کے تیر برسانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی لیکن وہ یہ بھول گئے کہ شہید ملت لیاقت علی خان ہندوستان کے علاقوں مشرقی پنجاب، یوپی اور دہلی میں اپنی متروکہ املاک کا پاکستان میں متبادل لے سکتے تھے، جو انہوں نے Claim نہیں کیا۔ دہلی میں اپنا جو وسیع و عریض مکان انہوں نے بلامعاوضہ حکومت پاکستان کو پیش کردیا تھا، اس کا محض کرایہ ہی کروڑوں میں تھا، جس کا ان کی شریک حیات اور اولاد نے کبھی دعویٰ نہیں کیا۔

کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر عظیم شخصیت کی کام یابی کے پیچھے ایک عورت کا کردار ہوتا ہے، چناںچہ لیاقت علی خان کی کام یابیوں میں ان کی شریک حیات محترمہ رعنا لیاقت علی خان کا اہم حصہ دکھائی دیتا ہے۔ ان کے شوہر کے قتل کے وقت ان کی عمر تقریباً 46 سال تھی، دو کم سن بچوں کا ساتھ تھا۔ بظاہر زندگی گزارنے کے حالات مسدود تھے۔

اسلام قبول کرنے کے بعد وہ اپنے خاندان سے قطعاً لاتعلق ہوچکی تھیں۔ پاکستان میں ان کا اپنا کوئی رشتہ دار موجود نہ تھا۔ ملک میں کوئی ذاتی مکان یاجائیداد بھی نہ تھی۔ ایسے میں انہوں نے انتہائی جرأت مندی، اعلیٰ صلاحیتوں اور تعلیمی قابلیت کو اپنی زیست کے لیے منتخب کیا اور سرکاری وظیفے پر انحصار کے بجائے قومی خدمت کے لیے ملازمت کو ترجیح دی۔ بحیثیت سفیر پاکستان کی فارن سروس سے وابستہ رہیں۔

ہالینڈ میں خدمات کے دوران ایک کھیل کے مقابلے میں ملکہ جولیانا کو شکست دینے کے بعد ملنے والا محل نما مکان اپنے شوہر کی روایت پر کاربند رہتے ہوئے حکومت پاکستان کو تحفتاً پیش کردیا جو آج کل پاکستانی سفیر کے زیر استعمال ہے۔ بیگم رعنا نے قیام پاکستان کے فوراً بعد ایک جانب مہاجرین کی آبادکاری کے لیے حکومت کی امداد کے بغیر مکانات تعمیر کرکے متاثرین کو فراہم کیے۔

دوسری جانب ریاستی امور میں حکومت کا ہاتھ بٹانے کے لیے خواتین کو متحرک کیا۔ ویمن نیشنل گارڈ، پاک بحریہ میں ویمن نیول ریزرو متعارف کرانے کے ساتھ ساتھ گھریلو صنعت وغیرہ کو منظم کیا۔

وزیراعظم لیاقت علی خان کے خلاف روایتی عنوانات میں سوویت یونین کے مجوزہ دورے اور قائداعظم ؒ کے آخری ایام میں ان سے تعلقات شامل ہیں۔ زیرنظر مضمون میں ان اعتراضات کے تناظر میں بعض اہم انکشافات تحقیق کا ماحصل ہیں۔

ملک کے مایہ ناز سفارت کار سوویت یونین (روس) میں پاکستان کے پہلے سفارت خانے میں اہم منصب پر فائز ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی کے مطابق ماسکو میں پاکستان کے سفیر شعیب قریشی نے اپنی اعلٰی سفارت کاری اور ذاتی اثرورسوخ استعمال کرتے ہوئے سوویت یونین کے نائب وزیر خارجہ گرومیکو کے ذریعے وزیر اعظم کے سرکاری دورہ کے لیے اہتمام کردیا تھا، جس کے مطابق وزیراعظم کو نومبر 1951 میں روس کے قومی دن کے موقع ماسکو جانا تھا۔

لیاقت علی خان نے وزارت خارجہ کے ذریعے اس دورے پر آمادگی کا اظہار کرتے ہوئے روسی حکومت کو آگاہ کردیا تھا۔ اس دعوت نامے کو حتٰی الامکان خفیہ رکھا گیا۔ پروگرام کے مطابق لیاقت علی خان کو روس کے قومی دن کے موقع پر شام کے وقت ماسکو پہنچنا تھا تاکہ وہ جوزف اسٹالین کے عشائیے میں شرکت کرسکیں جو سوویت راہ نما اپنے قومی دن کے موقع پر دیتے تھے۔

وزیراعظم نے کمال فراست سے ماسکو پہنچنے کے اوقات مقرر کیے تھے تاکہ وہ سوویت یونین کے قومی دن کی پریڈ میں سلامی کے چبوترے پر موجود نہ رہ کر خارجہ پالیسی میں غیروابستگی کو بر قرار رکھ سکیں۔ سوویت راہ نماگرومیکو بعدازآں مملکت کے صدر کے منصب پر بھی فائز رہے تھے، جس سے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ روس کے اس دورے کا علم ان کی کابینہ اور وزارت خارجہ کو تھا، جہاں سے یہ خبر غیرممالک کو منتقل ہوگئی۔

اسی دوران پاکستان میں مقیم امریکی سفیر ایواوارن نے وزیراعظم سے ملاقات کرکے مشرق وسطیٰ میں اپنے حلیفوں کے اتحاد سے متعلق امریکی حکومت کی تجویز پیش کی۔ امریکی سفیر نے جس کا ذکر 12 اکتوبر 1951 کو اپنے ایک سفارتی مراسلے میں اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو تحریر کیا تھا کہ لیاقت علی خان نے امریکی تجویز پر قطعاً دل چسپی کا اظہار نہیں کیا بلکہ کہا کہ مسئلہ کشمیر کے حل کو ان کے نزدیک بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مذکورہ مراسلے کو امریکی حکومتی پالیسی کے مطابق قارئین کے لیے افشا کیا جاچکا ہے۔

امریکی سفیر کے مراسلے کے محض چار دن بعد 16 اکتوبر کو لیاقت علی خان کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے منظر سے ہٹادیا گیا۔ خواجہ ضیاء الدین جہانگیر کی تحقیق کے مطابق شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی کے دورۂ پاکستان کے موقع پران کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ میں وزیراعظم کو بم سے اڑانے کی سازش کی گئی جو کام یاب نہ ہوسکی۔

وزیراعظم کے قتل کے تناظر میں 20 جولائی 2006 کو ایک اور امریکی دستاویز افشا کی گئی جس میں صدر ہیری ایس ٹرومین نے یہ اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے افغان بادشاہ ظاہر شاہ اور پاکستان میں اپنے سہولت کاروں کی مدد سے لیاقت علی خان کو قتل کرایا تھا۔ بدقسمتی سے وزیراعظم کے قتل کی تفتیش کرنے والا اسپیشل پولیس کا آئی جی معہ تحقیقاتی مواد فضائی حادثے کا شکار ہوگیا جب کہ جسٹس منیر کمیشن رپورٹ میں بھی امریکی کردار کو قومی سلامتی کے نام پر ظاہر نہیں کیاگیا۔

ممتاز محقق خواجہ ضیاء الدین جہانگیر کے مطابق لیاقت علی خان کی شہادت سے کچھ عرصہ قبل برٹش انڈین آرمی کے آسٹریلوی نژاد افسر ــرابرٹ کا تھارن (Robert cawthorn) کو انٹیلی جینس کے اعلیٰ منصب پر محکماتی کارروائی کے مطابق پراسرار طور پر فائز کردیا گیا تھا۔ میجر جنرل رابرٹ اس عہدے پر9 سال تک کا م کرتے رہے جو حیران کن ہے۔

لیاقت علی خان نے اپنے امریکا کے سرکاری دورے میں بارہا واضح کیا تھا کہ وہ روس کا دورہ ضرور کریں گے اور سوویت یونین سے خیرسگالی کے طور پر 1951 کے اوائل میں رونما ہونے والی راولپنڈی سازش میں مبینہ طور پر بعض کمیونسٹ عناصر کے ملوث ہونے کے الزام کے باوجود وزیراعظم نے کمیونسٹ پارٹی پر پابندی نہیں لگائی اور راولپنڈی سازش کیس میں مبینہ طور پر شریک ملزمان جن پر کورٹ مارشل اور سرسری سماعت کے امکانات موجود تھے لیکن سازش کے مقدمے کو مکمل انصاف کے پیش نظر عدالت عالیہ کے ججوں پر مشتمل سول ٹریبونل کے سپرد کیا گیا۔

ان اقدامات کی وجہ سے سوویت یونین میں انہیں تحسین کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ گوکہ روس کی نظر میں پاکستان اور ہندوستان کی قیادتیں قومی بورژوا کے زمرے میں آتی تھیں۔ پاکستان نے برصغیر کی آزادی کے عظیم راہ نمامحمد علی جناح کو ہندوستان کے برعکس پہلا گورنر جنرل منتخب کیا تھا جب کہ ہندوستان نے سابق وائسرائے لارڈ لوئس ماؤنٹ بیٹن کو آزاد ہندوستان کا کو گورنر جنرل بنایا تھا۔

یہ بھارتی عمل نوآبادیاتی نظام کا تسلسل تصور کیا جاتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے وزیراعظم کو دوسری مرتبہ روس کے دورے کی دعوت بھی بھارتی وزیراعظم جواہرلعل نہرو کے دورے سے پانچ سال قبل دی گئی تھی۔

قائداعظم کی زندگی کے آخری ایام کے دوران لیاقت جناح تعلقات کو موضوع بحث بنایا جاتا ہے اور کرنل ڈاکٹر الہی بخش، ملک غلام محمد وغیرہ کے بیانات کا ذکر اس بحث کی بنیاد ہے لیکن مئی سے 11 ستمبر 1948تک قائداعظم ؒ کے اے ڈی سی کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والی شخصیت بریگیڈیئر نورحسین کی تحریری یادداشتوں کو نظرانداز کیا جاتا ہے، جب کہ ADC کی حیثیت سے وہ سائے کی طرح شب وروز قائد کی خدمت میں حاضر رہتے تھے۔

انہوں نے اپنی تحریروں میں ڈاکٹر الٰہی بخش وغیرہ کے پروپیگنڈے کو اپنے ذاتی مشاہدے کے مطابق نہ صرف مسترد کیاہے بلکہ درست حقائق پیش کیے ہیں۔ حالات کی ستم ظریفی یہ ہے کہ بریگیڈئیرنورحسین کے قیمتی تاثرات کی مناسب تشہیر کو ایک حکمت عملی کے تحت منظرعام پر لانے سے بھی روکا گیا۔

مستند تحقیق کے مطابق اس وقت کے وزیرخزانہ ملک غلام محمد نے اگست 1948 میں وزیراعظم کو قائداعظم کی علالت کے باعث بطور متبادل قائم مقام گورنر جنرل کے تقرر کی تجویز کو کابینہ کے ایجنڈے میں شامل کرنے پر زور دیا تھا جسے لیاقت علی خان نے مسترد کردیا تھا اور کہا تھا کہ محمد علی جناح پورے برصغیر کے مسلمانوں کے قائد ہیں اور ان کو متفقہ طور پر آئین ساز اسمبلی کا صدر منتخب کیاگیا تھا جن کے ذریعے برطانوی حکومت نے پاکستان کو آزادی کا پروانہ دیا تھا اور وہ بالاتفاق گورنر جنرل کے منصب پر فائز ہوئے تھے۔

غلام محمد کی تجویز کے حامیوں میں گورنر جنرل کے مشیر برائے کشمیر مشتاق احمد گورمانی اور سول سروس کا ایک سنیئرافسر شامل تھے۔ نام وربیوروکریٹ سید ہاشم رضا نے اپنی یادداشت میں لکھا ہے کہ 11ستمبر1948 کی شب ان کو پیغام موصول ہوا کہ وزیراعظم نے فوری گورنر جنرل ہاؤس طلب کیا ہے۔ وہاں پہنچنے پر انہوں نے دیکھا کہ لیاقت علی خان سر پکڑے لان میں تنہا بیٹھے ہیں۔ مجھے دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ہمارے قائد رخصت ہوگئے ہیں۔

اب دو کام ہیں ان کے جانشین کا انتخاب جس پر میں سوچ بچار کررہا ہوں، دوسرا کام ان کے مدفن کی جگہ کا تعین، جو آپ کو کرنا ہے۔ مدفن شہر میں کسی بلند مقام پر ہونا چاہیے۔ قائداعظم سے لیاقت علی خان کی گہری والہانہ وابستگی کا اندازہ اس امر سے بھی ہوتا ہے کہ ممتاز صحافی شاہد حسین بخاری نے چوہدری خلیق الزماں سے انٹرویو کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ، جس کے مطابق چوہدری خلیق الزماں اور لیاقت علی خان کے ہم راہ سفر کے دوران قائداعظم کی شدید علالت کے باعث ان کے جانشین کے لیے نواب آف بھوپال سر حمیداللہ خان کا نام تجویز کیا تھا، لیکن لیاقت علی خان اس پر خاموش رہے تھے۔

ممتاز قانون داں سید ابو عاصم کا کہنا ہے کہ نواب آف بھوپال سر حمیداللہ خان پاکستان میں کسی بھی عہدے کے خواہش مند نہیں تھے۔ وہ کہتے تھے کہ پارلیمانی جمہوریت میں اپنا مضبوط حلقہ انتخاب ضروری ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔ نام ور بیورو کریٹ سید ہاشم رضا نے بھی نواب صاحب کے حوالے سے اسی قسم کا بیان منسوب کیا ہے۔ خواجہ ضیاالدین جہانگیرسید کی تحقیق کے مطابق ملک غلام محمد نے قائداعظم کی زندگی ہی میں خود کو ان کا جانشین قرار دینا شروع کردیا تھا۔

امریکی سفارت خانے کے فوجی اتاشی نیتھونیل رمزے ہاس کاٹ Nethonial Ramze hoskot نے واشنگٹن اپنی حکومت کو ارسال کیے جانے وا لے مراسلے میں مطلع کیا تھا کہ ملک غلام محمد گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم کے جانشین ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں مگر وہ مجھے ذہنی مریض نظر آتے ہیں۔ کرنل ہاس کاٹ کا مراسلہ انٹرنیٹ پر موجود ہے۔

کرنل موصوف ہندوستان کی آزادی کے وقت 15 اگست 1948 کو دہلی میں امریکی سفارت خانے میں ہوتے تھے اور بہت تھوڑے عرصہ بعد ان کو پاکستان میں امریکی سفارت خانے میں تعینات کردیا گیا جہاں وہ جون 1949 تک اپنے فرائض انجام دیتے رہے۔ قدرت کو کچھ اور منظور تھا اور ملک غلام محمد قائداعظم کی وفات کے بعد گورنر جنرل نہ بن سکے۔ اس منصب پر خواجہ ناظم الدین فائز ہوئے البتہ لیاقت علی خان کے قتل کے بعد وہ اسکندرمرزا، ایوب خان، مشتاق احمد گورمانی اور چوہدری محمد علی کی حمایت سے گورنر جنرل کے عہدے پر پہنچ گئے۔

لیاقت علی خان سے متعلق ڈس انفارمیشن کی ایک طویل فہرست ہے۔ ممتاز مصنف کے کے عزیز نے الزام تراشی اور کردارکشی کے لامتناہی سلسلے کو قلم بند کرتے ہوئے سردار شوکت حیات کی جانب سے عائد کردہ چند الزامات کا ذکر کیا ہے جن میں قائداعظم کے لیے وزیراعظم کے بجائے گورنرجنرل کے عہدے کا انتخاب، انڈین نیشنل کانگریس کے معروف راہ نما بھولا بھائی ڈیسائی سے لیاقت علی خان کے مبینہ مذاکرات اور کشمیر کے تناظر میں ولبھ بھائی پٹیل کی مبینہ پیشکش وغیرہ شامل ہیں۔

گورنر جنرل کے عہدہ کے لیے قائداعظم نے اپنے تقرر سے متعلق خود پسندیدگی کا اظہار کیا تھا جو9 اگست1947کو کراچی کلب میں سر غلام حسین ہدایت اللہ کے استقبالیے میں قائد کی تقریر کی صورت ریکارڈ کا حصہ ہے۔ بھولا بھائی ڈیسائی سے مبینہ مذاکرات کے انعقاد کی خبروں کو خود انڈین نیشنل کانگریس نے لغو قرار دیا تھا۔

یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ لیاقت علی خان سرسید احمد خان کے بعد دوسرے اہم مسلم راہ نما تھے جنہوں نے دو قومی نظریے پر غیرمتزلزل یقین رکھتے ہوئے کبھی انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ دو قوی نظریہ ہی پاکستان کی اساس ہے۔ سردار ولبھ بھائی پٹیل کی جموں و کشمیر اور ریاست حیدر آباد دکن کے تناظر میں مبینہ پیشکش بھی بعید از قیاس ہے۔

ظاہر ہے کہ نہ تو سردار ولبھ بھائی پٹیل محض ذاتی حیثیت میں ایسی کوئی پیشکش کر سکتے تھے اور نہ ہی لیاقت علی خان اس کا جواب دینے کی پوزیشن میں تھے۔ اس حوالے سے دونوں ممالک کی پارلیمان اور اعلٰی ترین قیادت کی منظوری درکار ہوتی۔ کشمیر کا پاکستان سے الحاق لیاقت علی خان کا نصب العین تھا، یہاں تک کہ ہندوستان کے دورے کے موقع پر انہوں نے کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کے اعلٰی نمائندے سے ریاست میں استصواب رائے پر بات چیت کی تھی جو ریکارڈ پر موجود ہے۔

شریف الدین پیرزادہ بھی بے بنیاد الزامات عائد کرنے میں پیش پیش ہیں۔ الزامات کی صحت کا انحصار الزام عائد کرنے والوں کے کردار پر ہوتا ہے۔ مذکورہ دونوں شخصیات کے کردار سے سب واقف ہیں۔ ''آواز دوست'' نامی اپنی تصنیف میں مختار مسعود نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ہم راہ فیصل آباد (لائل پور) سے لاہور کے سفر کا حوالہ دیتے ہوئے لیاقت علی خان کے بارے میں محترمہ سے منسوب بعض ریمارکس تحریر کیے ہیں جو سراسر غلط ہیں۔ ظاہر ہے کہ محترمہ مختار مسعود کے سوال یا کسی سیاق وسباق کے بغیر کیوں لیاقت علی خان کا ذکر کرتیں۔

ستم ظریفی ہے کہ ایسی ایک آدھ کتاب بھی شایع کرائی گئی جس میںنہ صرف لیاقت علی خان بلکہ ان کے آباء واجداد تک کو بغض و عناد کا نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ایک اور معروف بیوروکریٹ قدرت اللہ شہاب نے بھی اپنی تصنیف میں جہاں لیاقت علی خان کی شہادت کا ذکر غم واندوہ کے جذبات کے ساتھ کیا ہے وہیں بدقسمتی سے ڈاکٹرالہی بخش اور غلام محمد جیسے افراد کے بیانات سے متاثر ہوکر تاریخی حقائق کے برعکس کچھ باتیں لکھ ڈالی ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔

مئی تا ستمبر1948قائداعظم کے اے ڈی سی رہنے والے بریگیڈیئرنور حسین کی تحریریں اور بیانات اگر قائداعظم کی وفات کے فوری بعد منظر عام پر آجاتے تو جناح لیاقت تعلقات کے بارے میں مخصوص لابی کو منفی کو پروپیگنڈے کا موقع نہ ملتا، مگر بریگیڈیئر نور حسین کو اپنی سرکاری ملازمت کی پابندیوں کی وجہ سے بھی ان حقائق کو سامنے لانے کا موقع نہیں ملا۔

اب قائداعظم کے اے ڈی سی کی تحریریں اور بیانات ریکارڈ پر موجود ہیں، جن کا مطالعہ سچ کو جاننے کے لیے اہم ہے۔ محترمہ فاطمہ جناح سے منسوب کتاب بھی جی الانہ کی لکھی ہوئی ہے جو مادرملت کی رحلت کے کافی عرصے بعد شایع ہوئی۔ اس کتاب کے مندرجات بھی تحقیق طلب ہیں۔

لیاقت فراموشی کا عمل اب بھی منظم طور پر جاری ہے۔ انٹرنیٹ سے لیاقت علی خان کے قتل کے تناظر میں سعادت حسن منٹو کی دو تحریریں اپنی جگہ سے ہٹا دی گئی ہیں۔ پہلی تحریر17اکتوبر جب کہ دوسری 23 اکتوبر1951کی تھی۔ وکی پیڈیا میں اسی حوالے سے ایک تجزیاتی مضمون نکال کر متعصبانہ تحریرر کو جگہ دے دی گئی ہے۔

وزیراعظم کی کردارکشی ایک خاص منصوبے کے تحت شروع کی گئی جب لاہور کے ایک اردو روزنامے کے مدیر نے وزیراعظم سے ایک بڑی متروکہ عمارت کو الاٹ کرنے کی فرمائش کی جسے انہوں نے تسلیم نہ کرتے ہوئے کہا کہ متروکہ املاک پر ہندوستان سے منتقل ہونے والے مسلمانوں کا حق ہے۔ یہاں ایک اور حوالہ دینا ضروری ہے جس کو تاریخ دانوں نے فراموش کر رکھا ہے۔

ممتاز سیاست داں میاں ممتاز دولتانہ نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا تھا کہ لیاقت علی خان نے شہادت سے چند روز قبل بتایا تھا کہ ان کی اپوزیشن لیڈر حسین شہید سہروردی سے بات ہوگئی ہے، وہ حکومت میں شمولیت پر آمادہ ہیں۔ قبل اس کے کہ اس کام یابی کے ثمرات سے قوم مستفیض ہوتی لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ مشرقی پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے سرکردہ لیڈر اے کے فضل الحق پہلے ہی حکومت کا حصہ بن چکے تھے۔

لیاقت علی خان صوبہ بلوچستان میں قاضی عیسٰی جیسی اہم مقامی قیادت کو ایجنٹ ٹو گورنر جنرل کے عہدے پر فائز کرنا چاہتے تھے، لیکن نہ صرف یہ کہ یہ ان کے دائرہ اختیار میں نہ تھا اور مرکزی کابینہ کے اراکین نے یک زبان ہو کر مشورہ دیا تھا کہ اس منصب پر سنیئر سول سرونٹ کو تعینات کیا جائے۔ پاکستان سے الحاق کرنے والی دیسی ریاستوں کے والیان کو لیاقت علی خان بڑی اہمیت دیتے تھے۔

جونا گڑھ سے ملحق ریاست مانا ودر کے والی خان محی الدین خان نے مضمون نگار کو بتایا تھا کہ ایک تقریب کے دوران لیاقت علی خان نے ان سے کہا تھا کہ وہ میری ریاست ماناودر کے والی کی حیثیت سے گدی پر بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ نواب جونا گڑھ مہابت خانجی، سر صادق محمد خان عباسی، احمد یارخاں، چوہدری غلام عباس، سردار ابراہیم و دیگر ریاستوں کے راہ نماؤں سے متعلق ان کی اپنے دفتری عملے کو واضح ہدایات تھیں کہ ان میں سے کوئی بھی شخصیت ٹیلیفون کرے یا ملنے آ ئے تو مجھے فوری مطلع کیا جائے خواہ میں کابینہ اجلاس میں ہی کیوں نہ شریک ہوں۔ یوں تو پاکستان کی تاریخ مسخ کرنے کی مسلسل کوشش کی گئی ہے، لیکن لیاقت فراموشی خصوصی ہدف ہے۔

ایک طرف لیاقت علی خان کے خلاف دشنام طرازیوں کا ازدہام ہے، دوسری طرف ان کے دورِوزارت عظمی اور قبل ازیںآل انڈ یا مسلم لیگ کے اعزازی سیکریٹری کی حیثیت سے ان کے کارناموں کو نظرانداز کیا گیا ہے۔ مسلم لیگ کے اعزازی سیکریٹری کی حیثیت سے ان کی جدوجہد اور کاوشیں قائداعظم کے بعد سب سے زیادہ اہم اور نمایاں ہیں۔ غیرمنقسم ہندوستان کی عبوری حکومت میں وزیرخزانہ کی حیثیت سے ان کے پیش کردہ بجٹ کے علاوہ اس دور کے دیگر کارناموں کا ذکر بھی تاریخ کی کتابوں سے حذف کردیا گیا ہے۔

ان کے پیش کردہ عام آدمی بجٹ نے کانگریس کے راہ نماؤں پر واضح کردیا تھا کہ متحدہ پاکستان میں ان کی بنیا دوستی لیاقت علی خان جیسے راہ نماؤں کی موجودگی میں برقرار نہیں رہ سکتی اور اس طرح کانگریسی راہ نما تقسیم ہند پر راضی ہوگئے تھے۔ لیاقت علی خان کے چار سالہ دور وزارت عظمی میں ریاست کو استحکام نصیب ہوا۔ خارجہ امور میں لیاقت۔ نہرو پیکٹ کی تشکیل دنیا بھر میں انسانی حقوق کے تناظر میں اقوام متحدہ کے منشور کے بعد وقوع پذیر ہو نے والی دوسری سب سے بڑی دستاویز ہے۔

پاکستان اور ہندوستان میں اقلیتوں کے تحفظ کے ضمن میں اس معاہدہ کا جاری رہنا ناگزیر ہے، لیکن بدقسمتی سے ملک میں تواتر کے ساتھ آنے والی حکومتوں نے اسے فراموش کر رکھا ہے۔ موجودہ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس2022 کی سائیڈلائن پر ہندوستان میں اقلیتوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کا ذکر کرتے ہوئے بھی لیاقت۔نہرو معاہدہ کا تذکرہ نہیں کیا۔ پاکستان اور ہندوستان کے مابین تبادلہ آبادی کے نتیجے میں متروکہ املاک کے حق ملکیت کا تعین بھی لیاقت علی خان ہی کا کارنامہ ہے جس کے لیے انہوں نے دو بین الاقوامی معاہدے کیے تھے۔

آل انڈیا مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ کے سربراہ اور پاکستان مسلم لیگ کے بانی صدرچوہدری خلیق الزماں کے وہ الفاظ بھی منظرعام پر لانا ضروری سمجھتا ہوں جو انہوں نے شہید ملت کے قتل کے حوالے سے مجھ سے گفتگو میں کہے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے بعض حلقوں میں یہ سوچ تھی کہ قائداعظم، لیاقت علی خان اور میں خود ہندوستان سے آئے اور ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز ہوگئے۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد اس سوچ کا نشانہ وزیراعظم اور میں خود بنا، لیکن جب لیاقت علی خان وزیراعظم کے ساتھ ساتھ حکم راں مسلم لیگ کے صدر بھی منتخب ہوگئے تو ان حلقوں کی توپوں کا رخ وزیراعظم کی جانب ہوگیا، جو غیرملکی آشیرباد کے ذریعے ان کے قتل پر منتج ہوا۔

ایک اور سیاست داں احمد رضا قصوری کے مطابق مذکورہ حلقے یہ سمجھتے تھے کہ لیاقت علی خان کی موجودگی میں ان کی باری آنا ممکن نہیں۔ تحریک پاکستان کے معروف کارکن وقار احمد زبیری کے مطابق قائد ملت نے پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے آل انڈیا مسلم لیگ کی کمیٹی آف ایکشن کے سربراہ نواب اسماعیل خان کو بتایا تھا کہ ان کے خلاف سازشیں ہورہی ہیں اور قائداعظم کی وفات کے بعد ان سازشوں میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔

تاریخ، واقعات کے 60 ،70 سال بعد مرتب ہونا شروع ہوتی ہے ۔ اب اس سلسلے میں پیش رفت دیکھی جانے لگی ہے۔ واقعات کے رونما ہونے کے وقت اور اس کے چند سالوں تک جذبات، ذاتی پسند ناپسند، اعتراضات اور مخالفت کا دور دورہ رہتا ہے اور اب لیاقت علی خان کی شہادت کے 71 سال بعد ان کے حوالے سے تاریخ میں پیش آنے والے حقائق کو منظرعام پر لایا جانے لگا ہے۔

بدقسمتی سے ان کی زندگی اور اس کے بعد کئی عشروں تک بلکہ آج تک بھی ان کے حوالے سے نہ صرف حقائق کو توڑمروڑ کر پیش کیا جاتا رہا بلکہ زردصحافت کے استعمال سے بھی کبھی کبھی گریز نہیں کیا گیا، لیکن لیاقت علی خان کی شخصیت اور کارنامو ںکی مثال اس بلندوبالا پہاڑ کی سی ہے جو مطلع ابرآلود ہونے کی وجہ سے کچھ دیر کے لیے آنکھوں سے اوجھل ہوجاتا ہے لیکن جیسے ہی بادل چھٹنے لگتے ہیں پہاڑ اپنی پوری آب وتا ب کے ساتھ جلوہ افروز ہوتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں