ورلڈبینک کے 73 کروڑ ڈالرکے قرضے منسوخ ہونے کا خدشہ

9 منصوبوں کیلیے جاری ہوئے جو مکمل نہیں ہوسکے‘400 ملین ڈالر کا رعایتی قرض بھی شامل


Shahbaz Rana October 16, 2022
9 منصوبوں کیلیے جاری ہوئے جو مکمل نہیں ہوسکے‘400 ملین ڈالر کا رعایتی قرض بھی شامل (فوٹو : فائل)

ورلڈبینک نے کم از کم مسائل کے شکار 9 ایسے پراجیکٹس کی نشان دہی کی ہے جن کے730 ملین ڈالر کے قرضے منسوخ ہو سکتے ہیں۔

400 ملین ڈالر کے رعایتی قرضے میں 320 ملین ڈالر کا قرضہ پاکستان کے کوٹے کے تحت منسوخ کیا جا سکتا ہے جبکہ باقی دو منصوبوں کیلئے رقم بھی علاقائی کوٹے سے مختص کی گئی ہے۔

ان قرضوں کی ممکنہ منسوخی سے بچائی گئی رقم اب بھی پاکستان کو دی جا سکتی ہے اگر وہ سیلاب سے متعلقہ منصوبوں کو بروقت مکمل کرنے کا انتظام کر لے۔

ورلڈ بینک اور وفاقی حکومت کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ان 9 منصوبوں کے علاوہ کروڑوں ڈالر کی کئی اسکیمیں ایسی ہیں جو شیڈول کے بعد مکمل ہو رہی ہیں۔ ان اسکیموں پر یہ تمام پراگریس تباہ کن سیلاب سے پہلے جون2022 تک کی ہے۔

ورلڈ بینک ان مزید اسکیموں کی تصدیق کر رہا ہے جہاں سے فنڈزسیلاب سے متعلقہ منصوبوں کی طرف منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ 400 ملین ڈالر کا رعایتی قرضہ انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ ایسوسی ایشن(IDA) کی جانب سے دیا جا رہا ہے جو ورلڈ بینک گروپ کی ایک شاخ ہے۔

علاقائی کوٹہ کے تحت مختص کردہ 82 ملین ڈالر کا قرض بھی متاثر ہو سکتا ہے۔ ان رعایتی قرضوں کی منسوخی کو ایک سنگین مسئلہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ ممالک اکثر سستے طویل مدتی قرضوں تک رسائی کے خواہاں ہوتے ہیں، چاہے ان کے پاس مالی استطاعت بھی ہو۔

بین الاقوامی بینک برائے تعمیر نو اور ترقی (IBRD) کی طرف سے دیے گئے قرضوں میں سے مزید 330 ملین ڈالر کی نشاندہی کی گئی ہے عالمی بینک گروپ کا یہ رکن مسابقتی شرح پر قرضوں میں توسیع کرتا ہے۔

ورلڈ بینک پاکستان میں 54 آپریشنز کی مالی معاونت کر رہا ہے جن کی لاگت 13 بلین ڈالر ہے، ان میں IDA اور IBRD دونوں قرضے شامل ہیں۔ تاہم انکا 67 فیصد خرچ نہیں کیا جا تا جبکہ وفاقی منصوبوں کے لیے یہ تناسب61 فیصد ہے۔ پچھلے مالی سال میں، ورلڈ بینک نے 1.6 بلین ڈالر تقسیم کیے جو پچھلے سال کے 2.1 بلین ڈالر سے کم تھے۔

غیر ملکی مالی اعانت سے چلنے والے منصوبوں کی تکمیل ہمیشہ شیڈول کے بعد ہوتی ہے اور اکثر عمل درآمد سے متعلق چیلنجوں کی وجہ سے ان کی تشکیل نو کی جاتی ہے۔ ان منصوبوں کو زیادہ تر بین الاقوامی کنسلٹنٹس نے ڈیزائن کیا ہے۔ ورلڈ بینک نے سیلاب سے ہونے والے نقصانات کا اندازہ لگانے اور مالیاتی ضروریات کو جزوی طور پر پورا کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

ورلڈ بینک کے نائب صدر برائے جنوبی ایشیا، مارٹن رائزر نے واشنگٹن میں ڈونرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ تباہی کا سکیل بہت بڑا ہے، یہ 2005 کے زلزلے اور 2010 کے نقصانات سے زیادہ ہے تاہم، بحالی کے لیے بین الاقوامی امداد تب ہی موثر ہو سکتی ہے جب حکومت اپنی اقتصادی اصلاحات کی رفتار کو برقرار رکھے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ ورلڈ بینک بعض شرائط میں نرمی نہیں کرے گا جو اس نے بجٹ سپورٹ قرضوں کے اجرا کے لیے عائد کی ہیں۔ بینک پنجاب رورل واٹرسپلائی اینڈ سینیٹیشن منصوبے کے لیے 200 ملین ڈالر کا قرض منسوخ کر سکتا ہے، اس میں 100 ملین ڈالر کی رعایتی فنانسنگ بھی شامل ہے۔ منصوبے کی کل لاگت 442.4 ملین ڈالر ہے۔

اسی طرح پنجاب ریسورس امپروومنٹ اینڈ ڈیجیٹل ایفیکٹیونیس پروجیکٹ کیلیے 304 ملین ڈالر کے کل قرضے میں 100 ملین ڈالر کے قرض کی منسوخی کی بھی نشاندہی کی گئی ہے، ہائر ایجوکیشن ڈیولپمنٹ پراجیکٹ کے کل400 ملین ڈالررعایتی قرض میں کم از کم80 ملین ڈالر قرضہ کی کٹوتی کا بھی امکان ہے۔

2019میں منظور ہونے والا یہ منصوبہ مشکلات کا شکار ہے اور چند ماہ قبل ورلڈبینک کا عملدرآمد مشن مقررہ مدت میں عدم تکمیل پر اس کی منسوخی کی سفارز کر چکا ہے، پنجاب ایگریکلچر اینڈ رورل ٹرانسفارمیشن پروگرام کے 300 ملین ڈالر قرض میں 70 ملین ڈالر منسوخ ہو سکتا ہے۔425 ملین ڈالر کے نیشنل ٹرانسمیشن ماڈرنائزیشن پراجیکٹ کا 50 ملین ڈالر کا قرض بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔

ٹرانسمیشن پراجیکٹ کی منظوری 2017 میں دی گئی تھی اور جون 2022 تک 389 ملین ڈالر خرچ نہیں ہوئے تھے۔ اسی طرح پاکستان ہائیڈرومیٹ اینڈ کلائمیٹ سروسز پروجیکٹ کو 110 ملین ڈالر کے قرض کی منسوخی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جس میں علاقائی کوٹہ سے 14.6 ملین ڈالر شامل ہیں۔ مئی 2018 میں اس منصوبے کی کل لاگت 188 ملین تھی اور جون تک 175 ملین خرچ ہی نہیں ہوئے تھے۔ اس منصوبے کو عالمی بینک پہلے ہی غیر تسلی بخش قرار دے چکا ہے۔

خیبرپختونخوا اقتصادی راہداری منصوبے کے لیے 100 ملین ڈالر کا قرضہ بھی منسوخ کیا جا سکتا ہے۔ 436 ملین ڈالر کی لاگت کے منصوبے کو 2018 میں منظور کیا گیا تھا لیکن اسے عملدرآمد کے سنگین مسائل کا سامنا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں