او جی ڈی سی ایل میں اربوں کی کرپشن 4500 غیر قانونی بھرتیوں کا انکشاف
2009 سے 2012 کے دوران افسران اور سی بی اے یونین کے عہدیداروں نے اربوں روپے نقلی ملازمین کو دیکر فراڈ کیا، ذرائع
او جی ڈی سی میں اعلیٰ افسروں اور سی بی اے یونین کے عہدیداروں کی ملی بھگت سے ورکرز پارٹی سپیشن فنڈ ٹرسٹ کے اربوں روپے جعلی ملازمین کو دینے کا انکشاف ہوا ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو بتایا کہ او جی ڈی سی کی انتظامیہ نے نیب کو تحقیقات کے دوران بتایا ہے کہ 2009 سے 2012 کے دوران افسران اور سی بی اے یونین کے عہدیداروں نے اربوں روپے نقلی ملازمین کو دیکر فراڈ کیا۔ نیب کے تفتیش کاروں نے ورکرز پارٹی سپیشن فنڈ ٹرسٹ کو چلانے اور نئے ملازمین کی بھرتی کیلیے قواعد پر بریفنگ کیلیے او جی ڈی سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افرادی قوت مرزا بشارت کو طلب کیا تھا۔ مرزا بشارت نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ انھیں 2 ہفتے قبل نیب کے تفتیش کاروں کی طرف سے طلب کیا گیا تھا۔ او جی ڈی سی کی سالانہ آمدنی کا 5 فیصد ملازمین کی فلاح و بہبود کیلیے ورکرز پارٹی سپیشن فنڈ ٹرسٹ کو دیا جاتا ہے اور او جی ڈی سی کی سالانہ آمدنی تقریبا 100 ارب روپے ہے، ٹرسٹ کو او جی ڈی سی کا انسانی وسائل کا شعبہ اور سی بی اے یونین چلاتے ہیں۔
بوگس ادائیگیوں میں ملوث او جی ڈی سی کے افسروں اور سی بی اے یونین کے گینگ کو گیلانی دور کے ایک طاقتور وزیر کی مکمل حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے کچھ عرصہ تک نیب اس کیس میں ہاتھ نہیں ڈال سکا مگر نیب نے گزشتہ ماہ اس کیس کی تفتیش شروع کی اور ملزمان کی نشاندہی کیلیے او جی ڈی سی سے متعلقہ ریکارڈ حاصل کیا۔ نیب او جی ڈی سی میں 4500 ملازمین کی غیرقانونی بھرتی کی تحقیقات بھی کر رہا ہے، پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں قواعد و میرٹ سے ہٹ کر 4500 ملازمین کو بھرتی کیا تھا۔ او جی ڈی سی کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیپلزپارٹی دور سے قبل او جی ڈی سی کے ملازمین کی تعداد 9800 تھی، 2009 اور 2010 میں 480 افراد کو بھرتی کیا گیا، زیادہ تر غیرقانونی بھرتیاں 2010 سے 2012 کے دوران ہوئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان بھرتیوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور پابندی کے دوران کی گئیں، یہ بھرتیاں مکمل طور پر سیاسی تھی اور گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دور میں کی گئیں۔
بھرتیوں کیلیے انوکھا طریقہ اختیار کیا گیا اور ٹھیکیداروں کے روزانہ اجرت والے 4000 مزدوروں کو کنٹریکٹ ملازمین بنا دیا گیا اور اس سے کمپنی پر مزید 200 ملین روپے ماہانہ کا بوجھ پڑا۔ ان غیرقانونی بھرتیوں سے پیپلزپارٹی کے رہنما تو خوش ہوگئے مگر حقدار حق سے محروم رہے۔ ایک اور افسر نے بتایا کہ نوکری کا 5 لاکھ سے 10 لاکھ ریٹ مقرر تھا، ان غیرقانونی بھرتیوں میں بھی اربوں روپے کی کرپشن کی گئی۔ نیب او جی ڈی سی کی طرف سے کرائے پر لی گئی لینڈ کروزر کے حوالے سے بھی تحقیقات کر رہا ہے، او جی ڈی سی نے اپنے باس کیلیے پنیکل انٹرنیشنل سے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 12 لاکھ روپے ماہانہ پر لینڈ کروزر کرائے پر لی تھی۔ او جی ڈی سی کے ایم ڈی ریاض خان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ تحقیقات میں نیب سے مکمل تعاون کیا جارہا ہے۔
ذرائع نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل کو بتایا کہ او جی ڈی سی کی انتظامیہ نے نیب کو تحقیقات کے دوران بتایا ہے کہ 2009 سے 2012 کے دوران افسران اور سی بی اے یونین کے عہدیداروں نے اربوں روپے نقلی ملازمین کو دیکر فراڈ کیا۔ نیب کے تفتیش کاروں نے ورکرز پارٹی سپیشن فنڈ ٹرسٹ کو چلانے اور نئے ملازمین کی بھرتی کیلیے قواعد پر بریفنگ کیلیے او جی ڈی سی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر افرادی قوت مرزا بشارت کو طلب کیا تھا۔ مرزا بشارت نے ایکسپریس انویسٹی گیشن سیل سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ انھیں 2 ہفتے قبل نیب کے تفتیش کاروں کی طرف سے طلب کیا گیا تھا۔ او جی ڈی سی کی سالانہ آمدنی کا 5 فیصد ملازمین کی فلاح و بہبود کیلیے ورکرز پارٹی سپیشن فنڈ ٹرسٹ کو دیا جاتا ہے اور او جی ڈی سی کی سالانہ آمدنی تقریبا 100 ارب روپے ہے، ٹرسٹ کو او جی ڈی سی کا انسانی وسائل کا شعبہ اور سی بی اے یونین چلاتے ہیں۔
بوگس ادائیگیوں میں ملوث او جی ڈی سی کے افسروں اور سی بی اے یونین کے گینگ کو گیلانی دور کے ایک طاقتور وزیر کی مکمل حمایت حاصل تھی جس کی وجہ سے کچھ عرصہ تک نیب اس کیس میں ہاتھ نہیں ڈال سکا مگر نیب نے گزشتہ ماہ اس کیس کی تفتیش شروع کی اور ملزمان کی نشاندہی کیلیے او جی ڈی سی سے متعلقہ ریکارڈ حاصل کیا۔ نیب او جی ڈی سی میں 4500 ملازمین کی غیرقانونی بھرتی کی تحقیقات بھی کر رہا ہے، پیپلزپارٹی نے اپنے دور میں قواعد و میرٹ سے ہٹ کر 4500 ملازمین کو بھرتی کیا تھا۔ او جی ڈی سی کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیپلزپارٹی دور سے قبل او جی ڈی سی کے ملازمین کی تعداد 9800 تھی، 2009 اور 2010 میں 480 افراد کو بھرتی کیا گیا، زیادہ تر غیرقانونی بھرتیاں 2010 سے 2012 کے دوران ہوئیں۔ انہوں نے مزید بتایا کہ ان بھرتیوں کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور پابندی کے دوران کی گئیں، یہ بھرتیاں مکمل طور پر سیاسی تھی اور گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے دور میں کی گئیں۔
بھرتیوں کیلیے انوکھا طریقہ اختیار کیا گیا اور ٹھیکیداروں کے روزانہ اجرت والے 4000 مزدوروں کو کنٹریکٹ ملازمین بنا دیا گیا اور اس سے کمپنی پر مزید 200 ملین روپے ماہانہ کا بوجھ پڑا۔ ان غیرقانونی بھرتیوں سے پیپلزپارٹی کے رہنما تو خوش ہوگئے مگر حقدار حق سے محروم رہے۔ ایک اور افسر نے بتایا کہ نوکری کا 5 لاکھ سے 10 لاکھ ریٹ مقرر تھا، ان غیرقانونی بھرتیوں میں بھی اربوں روپے کی کرپشن کی گئی۔ نیب او جی ڈی سی کی طرف سے کرائے پر لی گئی لینڈ کروزر کے حوالے سے بھی تحقیقات کر رہا ہے، او جی ڈی سی نے اپنے باس کیلیے پنیکل انٹرنیشنل سے پیپرا رولز کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 12 لاکھ روپے ماہانہ پر لینڈ کروزر کرائے پر لی تھی۔ او جی ڈی سی کے ایم ڈی ریاض خان نے رابطہ کرنے پر بتایا کہ تحقیقات میں نیب سے مکمل تعاون کیا جارہا ہے۔