شور
قدرت کے بنائے گئے ابدی اصولوں نے انسان کی زندگی حددرجہ بہتر کر دی ہے
کنگ فشر (Kingfisher) چھوٹا سا پرندہ ہے۔ نیلے، سبز، سفید اور سرخ رنگوں سے مزین یہ خوبصورت پرندہ قدرت کا حسین شاہکار ہے۔
کنگ فشر کی عمومی غذا چھوٹی مچھلیاں ہوتی ہیں۔ پانی کے ذخیرہ سے تھوڑا اوپر بیٹھ کر غور سے مچھلیوں کی ترتیب دیکھتا رہتا ہے۔ پھر یکدم پانی میں چھلانک لگا کر مچھلی کو اپنی لمبی چونچ سے پکڑ کر واپس آ جاتا ہے۔ قدرت کا کرشمہ یہ ہے کہ جب کنگ فشر فضا سے پانی میں داخل ہوتا ہے تو اس کی کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آتی، یا یہ سمجھ لیجیے کہ بہت ہی کم ہوتی ہے۔
عام لوگوں کے لیے شاید کوئی خاص بات نہیں ہے مگر پانی میں داخلہ کی خاموشی نے سائنس بالخصوص ٹرینوں کی رفتار اور آواز کو یکسر تبدیل کر کے رکھ ڈالا۔ آمد و رفت کے سب سے موثر ذریعہ یعنی ریل گاڑی کے نظام میں انقلاب برپا کر دیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی بات کر رہا ہوں، پاکستان نہیں۔ جہاں ٹرین کا نظام سیاسی لوگوں کی باتوں، نعروں اور دعوؤں کی طرح کھوکھلا ہے۔
ریلوے کے تمام وزراء ریل گاڑیوں کے نظام کو معمولی سا بہتر بنانے کے بجائے صرف سیاست کرتے رہے۔ بلکہ کے پی سے تعلق رکھنے والے ریلوے کے ایک وزیر تو ملازمین کی تنخواہوں میں سے بھی کمیشن وصول فرماتے تھے،اس الزام کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔ بہرحال ہمارے پورے ملک کا ہر نظام حد درجہ ادنیٰ اور عامیانہ ہے۔ اس کی بہتری اب کسی کے ہاتھ میں بھی نہیں۔ ذہن میں یہ سوال ضرور رونما ہو گا کہ ایک چھوٹے سے پرندے نے ترقی یافتہ دنیا کے ریلوے کے نظام کو کس طرح تبدیل کر دیا۔
جاپان میں تیز رفتار ٹرینوں کا آغاز 1964 میں ہو چکا تھا۔ Osaka اور Fukuoko ملک کے دو بڑے شہر ہیں۔ ان کے درمیان پانچ سو پندرہ کلومیٹر کا ٹریک ہے جس پر بلٹ ٹرینیں رواں دواں رہتی ہیں۔ روزانہ ان ٹرینوں میں چونسٹھ ملین لوگ سفر کرتے ہیں۔ جاپانی حکومت کے پاس عوامی شکایات موصول ہونی شروع ہوئیں کہ جب تیزرفتار ٹرینیں سرنگوں سے باہر نکلتی ہیں تو ہوا کے دباؤ میں تبدیلی کی بدولت ایک دھماکا ہوتا ہے جس سے گرد واطراف کے لوگ پریشان ہوتے ہیں۔
کئی بار یہ شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔ دروازوں اور کھڑکیوں کے اندر بھی ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔ Eiji Nakatsu نام کا انجینئر بلٹ ٹرینوں کا ٹیکنیکل جی ایم تھا۔ حکومت نے اسے یہ کام سونپا کہ تحقیق کرے اور پھر تیزرفتار ٹرینوں سے پیدا ہونے والے شور کو ختم کرے۔ یہ حددرجہ مشکل کام تھا۔ نکاٹسو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ ہوا کے دباؤ سے پیدا ہونے والا شور کس طرح کم کیا جائے۔ مختلف تجربات کرتا رہا مگر اپنے مقصد میں کوئی کامیابی نہ ہو پائی۔
نکاٹسو انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ پرندوں پر بھی غور وخوض کرتا تھا۔ Bird watching اس کا سب سے بڑا جنون تھا۔ جنگل میں جا کر مختلف پرندوں کو دوربین سے دیکھتا رہتا تھا۔ ان کی آوازیں ریکارڈ کرتا تھا اور اکثر اوقات وڈیو بناتا رہتا تھا۔ گھر واپس آ کر گھنٹوں پرندوں کی رفتار اور عادات پر تحقیق کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ ایک دن اتفاقیہ طور پر نظر کنگ فشر پر پڑی۔ معصوم پرندہ بڑے آرام سے مچھلی کے شکار میں جتا ہوا تھا۔ ایجی اس کی وڈیو بناتا رہا۔
قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اس کی یہ وڈیو ٹرانسپورٹ کی دنیا میں انقلاب لے کر آئے گی۔ گھر آ کر حسب معمول ایجی نے کنگ فشر کی آبی ذخائر میں گھسنے کی وڈیو دیکھنی شروع کی۔ یک دم اندازہ ہوا کہ پرندہ جب فضا سے پانی میں داخل ہوتا ہے تو کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آتی۔ نکاٹسو گھنٹوں اپنی بنائی ہوئی وڈیو پر غور کرتا رہا مگر کچھ پلے نہیں پڑا۔ دفتر جا کر معاملہ اپنی ٹیم کے سامنے رکھا اور ان سے تجربہ اور تحقیق کرنے کو کہا۔ دس کے قریب نوجوان انجینئر اس کام میں مصروف ہو گئے۔ دو ماہ کی محنت شاقہ کے بعد جواب ملا جو حددرجہ حیرت انگیز تھا۔
کنگ فشر کی چونچ کافی لمبی ہوتی ہے۔ پرندہ چونچ کو پانی میں داخل کرتا ہے اور پھر پانی میں ڈبکی لگاتا ہے۔ لمبی چونچ اتنی جگہ بنا چکی ہوتی ہے کہ پانی میں سے کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آتی۔ جناب، اس تحقیق نے قیامت برپا کر ڈالی اور ریلوے کے نظام کو تبدیل کر ڈالا۔ ایجی نے حکومت سے درخواست کی کہ اگر بلٹ ٹرین سے پیدا ہونے والے شور کو کم کرنا ہے تو اس کے آگے والے حصے کی شکل کنگ فشر کی چونچ کی طرح ہونی چاہیے۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔
پانچ برس کے کام کے بعد 1997 میں دنیا کی سب سے تیزرفتار بلٹ ٹرین وجود میں آئی۔ اس کا آگے والا حصہ مکمل طور پر کنگ فشر کی چونچ جیسا تھا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سرنگ سے نکلتے ہوئے ہوا کے دباؤ سے پیدا ہونے والا شور تقریباً ختم ہو گیا۔ بلٹ ٹرین کی رفتار بڑھ کر تین سو کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گئی اور اس میں استعمال ہونے والی انرجی بھی چالیس فیصد کم ہو گئی۔ یہ برق رفتار ٹرین اب پوری دنیا میں ترقی کی پہچان بن چکی ہے۔ شور ختم ہو چکا ہے۔ قدرت کے بنائے گئے ابدی اصولوں نے انسان کی زندگی حددرجہ بہتر کر دی ہے۔
اس کے برعکس یقین ہے کہ اگلے سو سال تک ہمارے عظیم ملک میں نہ تو جدید ترین ریلوے کا نظام قائم ہو گا اور نہ ہی شور سے پیدا ہونے والے مہیب مسائل پر کسی قسم کا غور وفکر کیا جائے گا۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہم جدید دنیا کی ترقی سے سیکھنے کے بجائے ان کے متضاد چلنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم کوئی نہ کوئی ایسی تاویل گڑھ لیتے ہیں جس سے ہمارے جاہلانہ اعتماد کو کسی قسم کی کوئی بنیاد مل سکے۔
جناب! ہم تو اپنے مقدس ترین مقامات پر سورج کی شعاعوں اور حرارت کے مطابق خودکار چھتریاں تک یورپ اور امریکا سے بنواتے ہیں۔ پھر انھیں کی چھاؤں میں بیٹھ کر مغرب کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کی بربادی کی دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ بلٹ ٹرین بنانا تو خیر دور کی بات ہے، ہم تو اچھی سائیکل بھی نہیں بنا پائے۔ بات شور سے شروع ہوئی تھی۔ اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ کتنا عرصہ ہو گیا ہے کہ مکمل سکوت میں بیٹھے ہوئے۔ کم ازکم میرے پاس تو اپنے اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے اردگرد ایک پاگل پن کی حد تک ہر طرح کا شور موجود ہے۔ ہر وقت بلند آواز کی زد میں رہتے ہیں۔ ہمارے اعصاب ان کھردری اور ناقص آوازوں سے برباد ہو چکے ہیں۔ مگر حکومتی یا غیرحکومتی سطح پر اتنے اہم عنصر پر کوئی بھی غور کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ یورپی دنیا میں آواز کو آلودگی (Noise Pollution) کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس کا تصور تک نہیں ہے۔
سیاست دانوں بلکہ حکمرانوں سے شروع کیجیے۔ کسی کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ کسی بھی تفریق کے بغیر کسی قومی سطح کے سیاست دان کی باتیں سن لیجیے۔ تمام گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریر بلکہ تقاریر فرماتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو یہ اندازہ نہیں کہ گفتگو میں شائستگی کا کتنا اہم رول ہے۔ دیوانوں کی طرح حددرجہ بلند ترین آواز سے ایک دوسرے کو گالیاں نکالتے ہیں اور انھیں کسی قسم کا احساس نہیں ہوتا کہ غیرشعوری طور پر عام لوگوں کا کتنا نقصان کر رہے ہیں۔
خواتین سیاست دانوں کا بھی یہی وطیرہ ہے۔ ان کی تربیت کرنے والوں نے انھیں بتایا ہی یہ ہے کہ جتنا زور سے بولو گے، عوام میں اتنی ہی زیادہ پذیرائی ہو گی۔ یہ ابتر جواز ہمارے ملک میں کسی حد تک درست بھی ہے۔ عوام کے سامنے آپ دھیمے انداز میں بات کریں تو قطعاً متاثر نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ان کی تربیت ہی غلط خطوط پر کر دی گئی ہے۔ لیڈر کی شور والی آواز کو دبنگ قرار دیا جاتا ہے۔ اس پر والہانہ نعرے لگائے جاتے ہیں، رقص کیا جاتا ہے۔ تقریر کو رہنے دیجیے۔ سیاسی جلسوں میں انتہائی گھٹیا طرز کے گانے بھی ببانگ دہل لگائے جاتے ہیں۔
یہ سماں خراشی بغیر کسی شرمندگی کے جاری رہتی ہے۔ اب تو مذہبی سیاسی جماعتیں بھی فلک شگاف جذباتی نعروں اور گانوں کی مرہون منت اپنے جلسوں میں خون کو گرماتی ہیں۔ ویسے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس گرم خون سے ملک کی کیا خدمت ہو رہی ہے۔ ہاں! اس جذباتی شور سے اکابرین کی دولت میں بے حساب اضافہ ضرور ہو رہا ہے۔
آپ کو ویسے بڑے سیاست دانوں کی تقاریر سننی ہیں تو قائداعظم اور برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کی تقاریر ضرور سنئے۔ یہ مکمل طور پر صوتی لحاظ کے شاہکار ہیں۔ بہرحال جہالت اوپر سے نیچے تک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجود ہے۔ جس میں کان پھاڑنے والا شور بھی موجود ہے۔ کیونکہ اب یہ ہماری شخصیت کا حصہ بن چکا ہے اس لیے اس کج فہمی پر کوئی بات کرنا ہی عبث ہے۔
سڑکوں پر ٹریفک کا غیرمتوازن شور وغوغہ، ٹی وی پر اینکروں، تجزیہ کاروں اور مسخروں کی کان کا پردہ پھاڑتی ہوئی آوازیں، اب ہر طرف موجود ہیں۔ یہاں ایک بھی ایسا حکمران موجود نہیں ہے جو لوگوں کو Noise Pollution سے بچنے کی تلقین کرے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیوں کرے۔ ہمارا تو سارا نظام ہی جذباتیت کے شور سے لتھڑا ہوا ہے۔ اسے کنگ فشر جیسی خاموشی کیسے راس آئے گی؟
کنگ فشر کی عمومی غذا چھوٹی مچھلیاں ہوتی ہیں۔ پانی کے ذخیرہ سے تھوڑا اوپر بیٹھ کر غور سے مچھلیوں کی ترتیب دیکھتا رہتا ہے۔ پھر یکدم پانی میں چھلانک لگا کر مچھلی کو اپنی لمبی چونچ سے پکڑ کر واپس آ جاتا ہے۔ قدرت کا کرشمہ یہ ہے کہ جب کنگ فشر فضا سے پانی میں داخل ہوتا ہے تو اس کی کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آتی، یا یہ سمجھ لیجیے کہ بہت ہی کم ہوتی ہے۔
عام لوگوں کے لیے شاید کوئی خاص بات نہیں ہے مگر پانی میں داخلہ کی خاموشی نے سائنس بالخصوص ٹرینوں کی رفتار اور آواز کو یکسر تبدیل کر کے رکھ ڈالا۔ آمد و رفت کے سب سے موثر ذریعہ یعنی ریل گاڑی کے نظام میں انقلاب برپا کر دیا۔ ترقی یافتہ ممالک کی بات کر رہا ہوں، پاکستان نہیں۔ جہاں ٹرین کا نظام سیاسی لوگوں کی باتوں، نعروں اور دعوؤں کی طرح کھوکھلا ہے۔
ریلوے کے تمام وزراء ریل گاڑیوں کے نظام کو معمولی سا بہتر بنانے کے بجائے صرف سیاست کرتے رہے۔ بلکہ کے پی سے تعلق رکھنے والے ریلوے کے ایک وزیر تو ملازمین کی تنخواہوں میں سے بھی کمیشن وصول فرماتے تھے،اس الزام کی تحقیقات کی جانی چاہیے۔ بہرحال ہمارے پورے ملک کا ہر نظام حد درجہ ادنیٰ اور عامیانہ ہے۔ اس کی بہتری اب کسی کے ہاتھ میں بھی نہیں۔ ذہن میں یہ سوال ضرور رونما ہو گا کہ ایک چھوٹے سے پرندے نے ترقی یافتہ دنیا کے ریلوے کے نظام کو کس طرح تبدیل کر دیا۔
جاپان میں تیز رفتار ٹرینوں کا آغاز 1964 میں ہو چکا تھا۔ Osaka اور Fukuoko ملک کے دو بڑے شہر ہیں۔ ان کے درمیان پانچ سو پندرہ کلومیٹر کا ٹریک ہے جس پر بلٹ ٹرینیں رواں دواں رہتی ہیں۔ روزانہ ان ٹرینوں میں چونسٹھ ملین لوگ سفر کرتے ہیں۔ جاپانی حکومت کے پاس عوامی شکایات موصول ہونی شروع ہوئیں کہ جب تیزرفتار ٹرینیں سرنگوں سے باہر نکلتی ہیں تو ہوا کے دباؤ میں تبدیلی کی بدولت ایک دھماکا ہوتا ہے جس سے گرد واطراف کے لوگ پریشان ہوتے ہیں۔
کئی بار یہ شور اتنا زیادہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی نیند میں خلل پڑتا ہے۔ دروازوں اور کھڑکیوں کے اندر بھی ارتعاش پیدا ہو جاتا ہے۔ Eiji Nakatsu نام کا انجینئر بلٹ ٹرینوں کا ٹیکنیکل جی ایم تھا۔ حکومت نے اسے یہ کام سونپا کہ تحقیق کرے اور پھر تیزرفتار ٹرینوں سے پیدا ہونے والے شور کو ختم کرے۔ یہ حددرجہ مشکل کام تھا۔ نکاٹسو کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا کہ ہوا کے دباؤ سے پیدا ہونے والا شور کس طرح کم کیا جائے۔ مختلف تجربات کرتا رہا مگر اپنے مقصد میں کوئی کامیابی نہ ہو پائی۔
نکاٹسو انجینئر ہونے کے ساتھ ساتھ پرندوں پر بھی غور وخوض کرتا تھا۔ Bird watching اس کا سب سے بڑا جنون تھا۔ جنگل میں جا کر مختلف پرندوں کو دوربین سے دیکھتا رہتا تھا۔ ان کی آوازیں ریکارڈ کرتا تھا اور اکثر اوقات وڈیو بناتا رہتا تھا۔ گھر واپس آ کر گھنٹوں پرندوں کی رفتار اور عادات پر تحقیق کرنے میں مصروف رہتا تھا۔ ایک دن اتفاقیہ طور پر نظر کنگ فشر پر پڑی۔ معصوم پرندہ بڑے آرام سے مچھلی کے شکار میں جتا ہوا تھا۔ ایجی اس کی وڈیو بناتا رہا۔
قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ اس کی یہ وڈیو ٹرانسپورٹ کی دنیا میں انقلاب لے کر آئے گی۔ گھر آ کر حسب معمول ایجی نے کنگ فشر کی آبی ذخائر میں گھسنے کی وڈیو دیکھنی شروع کی۔ یک دم اندازہ ہوا کہ پرندہ جب فضا سے پانی میں داخل ہوتا ہے تو کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آتی۔ نکاٹسو گھنٹوں اپنی بنائی ہوئی وڈیو پر غور کرتا رہا مگر کچھ پلے نہیں پڑا۔ دفتر جا کر معاملہ اپنی ٹیم کے سامنے رکھا اور ان سے تجربہ اور تحقیق کرنے کو کہا۔ دس کے قریب نوجوان انجینئر اس کام میں مصروف ہو گئے۔ دو ماہ کی محنت شاقہ کے بعد جواب ملا جو حددرجہ حیرت انگیز تھا۔
کنگ فشر کی چونچ کافی لمبی ہوتی ہے۔ پرندہ چونچ کو پانی میں داخل کرتا ہے اور پھر پانی میں ڈبکی لگاتا ہے۔ لمبی چونچ اتنی جگہ بنا چکی ہوتی ہے کہ پانی میں سے کسی قسم کی کوئی آواز نہیں آتی۔ جناب، اس تحقیق نے قیامت برپا کر ڈالی اور ریلوے کے نظام کو تبدیل کر ڈالا۔ ایجی نے حکومت سے درخواست کی کہ اگر بلٹ ٹرین سے پیدا ہونے والے شور کو کم کرنا ہے تو اس کے آگے والے حصے کی شکل کنگ فشر کی چونچ کی طرح ہونی چاہیے۔ چنانچہ ایسے ہی ہوا۔
پانچ برس کے کام کے بعد 1997 میں دنیا کی سب سے تیزرفتار بلٹ ٹرین وجود میں آئی۔ اس کا آگے والا حصہ مکمل طور پر کنگ فشر کی چونچ جیسا تھا۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ سرنگ سے نکلتے ہوئے ہوا کے دباؤ سے پیدا ہونے والا شور تقریباً ختم ہو گیا۔ بلٹ ٹرین کی رفتار بڑھ کر تین سو کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گئی اور اس میں استعمال ہونے والی انرجی بھی چالیس فیصد کم ہو گئی۔ یہ برق رفتار ٹرین اب پوری دنیا میں ترقی کی پہچان بن چکی ہے۔ شور ختم ہو چکا ہے۔ قدرت کے بنائے گئے ابدی اصولوں نے انسان کی زندگی حددرجہ بہتر کر دی ہے۔
اس کے برعکس یقین ہے کہ اگلے سو سال تک ہمارے عظیم ملک میں نہ تو جدید ترین ریلوے کا نظام قائم ہو گا اور نہ ہی شور سے پیدا ہونے والے مہیب مسائل پر کسی قسم کا غور وفکر کیا جائے گا۔ افسوس ہوتا ہے کہ ہم جدید دنیا کی ترقی سے سیکھنے کے بجائے ان کے متضاد چلنے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ہم کوئی نہ کوئی ایسی تاویل گڑھ لیتے ہیں جس سے ہمارے جاہلانہ اعتماد کو کسی قسم کی کوئی بنیاد مل سکے۔
جناب! ہم تو اپنے مقدس ترین مقامات پر سورج کی شعاعوں اور حرارت کے مطابق خودکار چھتریاں تک یورپ اور امریکا سے بنواتے ہیں۔ پھر انھیں کی چھاؤں میں بیٹھ کر مغرب کو کافر قرار دیتے ہوئے ان کی بربادی کی دعائیں بھی مانگتے ہیں۔ بلٹ ٹرین بنانا تو خیر دور کی بات ہے، ہم تو اچھی سائیکل بھی نہیں بنا پائے۔ بات شور سے شروع ہوئی تھی۔ اپنے آپ سے سوال کیجیے کہ کتنا عرصہ ہو گیا ہے کہ مکمل سکوت میں بیٹھے ہوئے۔ کم ازکم میرے پاس تو اپنے اس سوال کا کوئی معقول جواب نہیں ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ ہمارے اردگرد ایک پاگل پن کی حد تک ہر طرح کا شور موجود ہے۔ ہر وقت بلند آواز کی زد میں رہتے ہیں۔ ہمارے اعصاب ان کھردری اور ناقص آوازوں سے برباد ہو چکے ہیں۔ مگر حکومتی یا غیرحکومتی سطح پر اتنے اہم عنصر پر کوئی بھی غور کرنے کو تیار نہیں بلکہ اس کا ذکر بھی نہیں کیا جاتا۔ یورپی دنیا میں آواز کو آلودگی (Noise Pollution) کے زمرے میں رکھا جاتا ہے۔ مگر ہمارے ہاں اس کا تصور تک نہیں ہے۔
سیاست دانوں بلکہ حکمرانوں سے شروع کیجیے۔ کسی کو اٹھا کر دیکھ لیجیے۔ کسی بھی تفریق کے بغیر کسی قومی سطح کے سیاست دان کی باتیں سن لیجیے۔ تمام گلا پھاڑ پھاڑ کر تقریر بلکہ تقاریر فرماتے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کو یہ اندازہ نہیں کہ گفتگو میں شائستگی کا کتنا اہم رول ہے۔ دیوانوں کی طرح حددرجہ بلند ترین آواز سے ایک دوسرے کو گالیاں نکالتے ہیں اور انھیں کسی قسم کا احساس نہیں ہوتا کہ غیرشعوری طور پر عام لوگوں کا کتنا نقصان کر رہے ہیں۔
خواتین سیاست دانوں کا بھی یہی وطیرہ ہے۔ ان کی تربیت کرنے والوں نے انھیں بتایا ہی یہ ہے کہ جتنا زور سے بولو گے، عوام میں اتنی ہی زیادہ پذیرائی ہو گی۔ یہ ابتر جواز ہمارے ملک میں کسی حد تک درست بھی ہے۔ عوام کے سامنے آپ دھیمے انداز میں بات کریں تو قطعاً متاثر نہیں ہوں گے۔ کیونکہ ان کی تربیت ہی غلط خطوط پر کر دی گئی ہے۔ لیڈر کی شور والی آواز کو دبنگ قرار دیا جاتا ہے۔ اس پر والہانہ نعرے لگائے جاتے ہیں، رقص کیا جاتا ہے۔ تقریر کو رہنے دیجیے۔ سیاسی جلسوں میں انتہائی گھٹیا طرز کے گانے بھی ببانگ دہل لگائے جاتے ہیں۔
یہ سماں خراشی بغیر کسی شرمندگی کے جاری رہتی ہے۔ اب تو مذہبی سیاسی جماعتیں بھی فلک شگاف جذباتی نعروں اور گانوں کی مرہون منت اپنے جلسوں میں خون کو گرماتی ہیں۔ ویسے آج تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اس گرم خون سے ملک کی کیا خدمت ہو رہی ہے۔ ہاں! اس جذباتی شور سے اکابرین کی دولت میں بے حساب اضافہ ضرور ہو رہا ہے۔
آپ کو ویسے بڑے سیاست دانوں کی تقاریر سننی ہیں تو قائداعظم اور برطانیہ کے وزیراعظم ونسٹن چرچل کی تقاریر ضرور سنئے۔ یہ مکمل طور پر صوتی لحاظ کے شاہکار ہیں۔ بہرحال جہالت اوپر سے نیچے تک ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کی طرح موجود ہے۔ جس میں کان پھاڑنے والا شور بھی موجود ہے۔ کیونکہ اب یہ ہماری شخصیت کا حصہ بن چکا ہے اس لیے اس کج فہمی پر کوئی بات کرنا ہی عبث ہے۔
سڑکوں پر ٹریفک کا غیرمتوازن شور وغوغہ، ٹی وی پر اینکروں، تجزیہ کاروں اور مسخروں کی کان کا پردہ پھاڑتی ہوئی آوازیں، اب ہر طرف موجود ہیں۔ یہاں ایک بھی ایسا حکمران موجود نہیں ہے جو لوگوں کو Noise Pollution سے بچنے کی تلقین کرے۔ سوال تو یہ بھی ہے کہ کیوں کرے۔ ہمارا تو سارا نظام ہی جذباتیت کے شور سے لتھڑا ہوا ہے۔ اسے کنگ فشر جیسی خاموشی کیسے راس آئے گی؟