کیا عمران خان کا بیانیہ مقبول ہورہا ہے
حالات یہ ظاہر کررہے ہیں کہ عوام ایک بار پھر عمران خان کا ہی انتخاب کریں گے
اتوار کے ضمنی انتخابات کے بعد پی ڈی ایم کے قائدین یقینی طور پر اس شخص یا اشخاص کے گروہ سے ضرور ناراض ہوں گے جس نے استعفے منظور کرکے ضمنی انتخابات کا مشورہ دیا تھا۔ تحریک انصاف نے ملک بھر سے اپنی نشستوں سے استعفیٰ دیا تھا لیکن کثیر جماعتی اتحاد نے انتہائی دانشمندی سے کام لیتے ہوئے ان حلقوں کے استعفے منظور کیے جہاں سے انہیں جیت کا یقین تھا۔
کراچی کی بات کریں تو ملیر ون کا حلقہ ہمیشہ سے ہی پیپلز پارٹی اور عبدالحکیم بلوچ کا رہا ہے۔ عبدالحکیم بلوچ جب ن لیگ میں تھے تب بھی یہاں سے وہی کامیاب ہوئے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی انہیں بمشکل شکست ہوئی، جس کے بعد انہوں نے دھاندلی کا الزام عائد کیا۔ یہ حلقہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں سرداری نظام ہے۔ یہاں اکثر ووٹ بلوچ قوم کا ہے۔ ہاں اگر ن لیگ کے امیدوار، جن کا تعلق کلمتی قبیلے سے ہے، جو پیپلز پارٹی کے حق میں دستبردار ہوئے نہ ہوتے تو ووٹ تقسیم ہوتا اور عمران خان جیت جاتے لیکن پی ڈی ایم اتحاد کے باعث ایسا نہ ہوا۔ اسی طرح ملیر ٹو ایم کیو ایم کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اس لیے ملک کے دیگر حلقوں کی طرح اس کا بھی انتخاب کیا گیا۔
پی ڈی ایم کی جانب سے استعفوں کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کی ایک میٹنگ میں پرویز خٹک نے یہ مشورہ دیا کہ تمام نشستوں سے عمران خان ہی الیکشن لڑیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ہی میٹنگ میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملتان سے گدی نشین کا مقابلہ گدی نشین ہی کرسکتا ہے، لہٰذا ٹکٹ انہی کے خاندان کو دیا جائے اور عمران خان راضی ہوگئے۔ عوام نے اس انتخاب میں یہ بھی ثابت کردیا کہ موروثی سیاست کوئی بھی جماعت کرے وہ قابل قبول نہیں اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی کو اس سیٹ پر شکست ہوئی۔
عمران خان نے کل سات نشستوں پر انتخاب لڑا جس میں سے چھ پر کامیاب ہوئے۔ انہوں نے بلور خاندان کو آبائی نشست پر شکست دی۔ مولانا قاسم جیسے انتہائی مستحکم اور مشہور امیدوار کو بھی جمعیت علمائے اسلام کے گھر اور وہ علاقہ جہاں مذہبی رجحان عوام میں بے حد مقبول ہے، میں بھی شکست دے دی۔ یہ تمام نتائج اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان جلسے کرکے عوام کو ری چارج رکھ رہے ہیں اور اپنے ایجنڈے یا پروپیگنڈے کو خوب پذیرائی دلا رہے ہیں۔
عوام نے ان کے کہے الفاظ کو شاید قبول کرلیا ہے۔ عوام بھی اب ماننے لگے ہیں کہ حکومت کو تبدیل کرنے میں بیرونی سازش کا ہاتھ تھا۔ عوام کو بھی ایسا لگنے لگا ہے کہ ستر سال سے ملک پر حکمرانی کرنے والے خاندانوں نے عوامی فلاح کےلیے کچھ نہیں کیا۔ کراچی جہاں ایم کیو ایم کا راج تھا، یہ شہر ملک کے اندر ایک الگ سلطنت تھی، جہاں متحدہ قومی موومنٹ کی ہی چلتی تھی۔ اس شہر سے اب ایم کیو ایم کا نشان ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی تو کامیاب ہورہی ہے لیکن ن لیگ کا حال وہی ہورہا ہے جو کراچی میں ایم کیو ایم کا ہوا۔
حالات ان نتائج سے مختلف ہوسکتے تھے اگر پی ڈی ایم جن دعووں کے ساتھ آئی تھی ان کو کسی حد تک پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتی۔ مہنگائی، مہنگائی کا رونا رونے والے جب آئے تو عوام کے حالات پہلے سے بھی بگاڑ کر رکھ دیے۔ آنے والوں پر سے سب الزامات صاف ہونے لگے، ملک سے فرار سیاست دان واپس آنے لگے اور عوام سے بولنے کا حق چھیننے کی کوشش کی جانے لگی تو نتائج تو پھر یہی آنے تھے۔
پی ڈی ایم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب عوام نہیں مانیں گے۔ حکمران اتحاد جتنا زیادہ وقت اقتدار میں گزارے گا عمران خان کا ایجنڈا اتنا ہی مستحکم ہوتا جائے گا۔ پی ڈی ایم کے پاس اب انتخابات کے اعلان کے علاوہ کوئی اور حل نہیں۔ ہاں ایک صورت اور ہے کہ عمران خان پر لٹکنے والی توشہ خانہ یا دیگر نااہلی کی تلواروں میں سے کوئی تلوار چل جائے اور وہ اس کھیل سے ہی باہر ہوجائیں۔ تحریک انصاف کے پاس بھی ان کا متبادل موجود نہیں ہے۔ عمران خان اگر قانونی راستے سے میدان سے باہر نہ ہوئے تو آخری حل نگران حکومت کا اعلان اور عام انتخابات ہیں۔ ایسے میں عوام کو ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پھر عمران خان کا ہی انتخاب کرتے ہیں یا کسی اور کا۔ حالات یہ ظاہر کررہے ہیں کہ عوام ایک بار پھر عمران خان کا ہی انتخاب کریں گے۔ اگلا عوامی انتخاب عمران خان اور پاکستان کےلیے انتہائی اہم ہوگا۔ عمران خان نے اس انتخاب کے بعد بھی اپنے نااہل ساتھیوں سے ہاتھ نہ چھڑایا اور عوام کو ریلیف نہ دیا تو ان کا بھی وہی حال ہوگا جو ابھی پی ڈی ایم کا ہے یا شاید اس سے بھی برا۔
کرسی کی چاہت اگر پی ڈی ایم کی جماعتوں کے دل میں بسی رہی تو وہ انتخابات کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کریں گے جس کے بعد یہ امکان ہے کہ عمران خان ایک بار پھر مار چ کا اعلان کردیں اور یہ اعلان کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو اب حالات کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کی بہتری کےلیے فیصلہ کرنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کراچی کی بات کریں تو ملیر ون کا حلقہ ہمیشہ سے ہی پیپلز پارٹی اور عبدالحکیم بلوچ کا رہا ہے۔ عبدالحکیم بلوچ جب ن لیگ میں تھے تب بھی یہاں سے وہی کامیاب ہوئے۔ گزشتہ انتخابات میں بھی انہیں بمشکل شکست ہوئی، جس کے بعد انہوں نے دھاندلی کا الزام عائد کیا۔ یہ حلقہ دیہی علاقوں پر مشتمل ہے جہاں سرداری نظام ہے۔ یہاں اکثر ووٹ بلوچ قوم کا ہے۔ ہاں اگر ن لیگ کے امیدوار، جن کا تعلق کلمتی قبیلے سے ہے، جو پیپلز پارٹی کے حق میں دستبردار ہوئے نہ ہوتے تو ووٹ تقسیم ہوتا اور عمران خان جیت جاتے لیکن پی ڈی ایم اتحاد کے باعث ایسا نہ ہوا۔ اسی طرح ملیر ٹو ایم کیو ایم کا گڑھ تصور کیا جاتا ہے اس لیے ملک کے دیگر حلقوں کی طرح اس کا بھی انتخاب کیا گیا۔
پی ڈی ایم کی جانب سے استعفوں کی منظوری کے بعد تحریک انصاف کی ایک میٹنگ میں پرویز خٹک نے یہ مشورہ دیا کہ تمام نشستوں سے عمران خان ہی الیکشن لڑیں۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اس ہی میٹنگ میں شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ملتان سے گدی نشین کا مقابلہ گدی نشین ہی کرسکتا ہے، لہٰذا ٹکٹ انہی کے خاندان کو دیا جائے اور عمران خان راضی ہوگئے۔ عوام نے اس انتخاب میں یہ بھی ثابت کردیا کہ موروثی سیاست کوئی بھی جماعت کرے وہ قابل قبول نہیں اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی کو اس سیٹ پر شکست ہوئی۔
عمران خان نے کل سات نشستوں پر انتخاب لڑا جس میں سے چھ پر کامیاب ہوئے۔ انہوں نے بلور خاندان کو آبائی نشست پر شکست دی۔ مولانا قاسم جیسے انتہائی مستحکم اور مشہور امیدوار کو بھی جمعیت علمائے اسلام کے گھر اور وہ علاقہ جہاں مذہبی رجحان عوام میں بے حد مقبول ہے، میں بھی شکست دے دی۔ یہ تمام نتائج اس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ عمران خان کی مقبولیت میں پہلے سے بھی زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ عمران خان جلسے کرکے عوام کو ری چارج رکھ رہے ہیں اور اپنے ایجنڈے یا پروپیگنڈے کو خوب پذیرائی دلا رہے ہیں۔
عوام نے ان کے کہے الفاظ کو شاید قبول کرلیا ہے۔ عوام بھی اب ماننے لگے ہیں کہ حکومت کو تبدیل کرنے میں بیرونی سازش کا ہاتھ تھا۔ عوام کو بھی ایسا لگنے لگا ہے کہ ستر سال سے ملک پر حکمرانی کرنے والے خاندانوں نے عوامی فلاح کےلیے کچھ نہیں کیا۔ کراچی جہاں ایم کیو ایم کا راج تھا، یہ شہر ملک کے اندر ایک الگ سلطنت تھی، جہاں متحدہ قومی موومنٹ کی ہی چلتی تھی۔ اس شہر سے اب ایم کیو ایم کا نشان ختم ہوتا جارہا ہے۔ یہ بھی غور طلب ہے کہ پنجاب میں پیپلز پارٹی تو کامیاب ہورہی ہے لیکن ن لیگ کا حال وہی ہورہا ہے جو کراچی میں ایم کیو ایم کا ہوا۔
حالات ان نتائج سے مختلف ہوسکتے تھے اگر پی ڈی ایم جن دعووں کے ساتھ آئی تھی ان کو کسی حد تک پورا کرنے میں کامیاب ہوجاتی۔ مہنگائی، مہنگائی کا رونا رونے والے جب آئے تو عوام کے حالات پہلے سے بھی بگاڑ کر رکھ دیے۔ آنے والوں پر سے سب الزامات صاف ہونے لگے، ملک سے فرار سیاست دان واپس آنے لگے اور عوام سے بولنے کا حق چھیننے کی کوشش کی جانے لگی تو نتائج تو پھر یہی آنے تھے۔
پی ڈی ایم کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اب عوام نہیں مانیں گے۔ حکمران اتحاد جتنا زیادہ وقت اقتدار میں گزارے گا عمران خان کا ایجنڈا اتنا ہی مستحکم ہوتا جائے گا۔ پی ڈی ایم کے پاس اب انتخابات کے اعلان کے علاوہ کوئی اور حل نہیں۔ ہاں ایک صورت اور ہے کہ عمران خان پر لٹکنے والی توشہ خانہ یا دیگر نااہلی کی تلواروں میں سے کوئی تلوار چل جائے اور وہ اس کھیل سے ہی باہر ہوجائیں۔ تحریک انصاف کے پاس بھی ان کا متبادل موجود نہیں ہے۔ عمران خان اگر قانونی راستے سے میدان سے باہر نہ ہوئے تو آخری حل نگران حکومت کا اعلان اور عام انتخابات ہیں۔ ایسے میں عوام کو ہی اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ پھر عمران خان کا ہی انتخاب کرتے ہیں یا کسی اور کا۔ حالات یہ ظاہر کررہے ہیں کہ عوام ایک بار پھر عمران خان کا ہی انتخاب کریں گے۔ اگلا عوامی انتخاب عمران خان اور پاکستان کےلیے انتہائی اہم ہوگا۔ عمران خان نے اس انتخاب کے بعد بھی اپنے نااہل ساتھیوں سے ہاتھ نہ چھڑایا اور عوام کو ریلیف نہ دیا تو ان کا بھی وہی حال ہوگا جو ابھی پی ڈی ایم کا ہے یا شاید اس سے بھی برا۔
کرسی کی چاہت اگر پی ڈی ایم کی جماعتوں کے دل میں بسی رہی تو وہ انتخابات کا راستہ اختیار کرنے سے گریز کریں گے جس کے بعد یہ امکان ہے کہ عمران خان ایک بار پھر مار چ کا اعلان کردیں اور یہ اعلان کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں ہوگا۔ لہٰذا سیاسی جماعتوں کو اب حالات کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کی بہتری کےلیے فیصلہ کرنا ہوگا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔