قناعت
دولت کی ریل پیل اور سوسائٹی میں اعلیٰ مقام نے اس کے ذہن میں تَکبّر بھردیا تھا۔
ساجد اور یاسمین قریبی رشتہ دار تھے۔ دونوں کے والدین کا شمار انتہائی قابل احترام اور امیر لوگوں میں ہوتا تھا۔
لیکن والدین کی نسبت ساجد اور یاسمین کے رویوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے، اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ ساجد کا پورا گھرانا گردش میں آگیا۔ ساجد کے والدین اور ایک چچا جو بہت ہی پیار کرنے والے تھے، ایک سال کے اندر اندر دنیا سے رخصت ہوگئے۔
والدین کی وفات کے بعد ساجد اس بھری دنیا میں تنہا رہ گیا۔ اب وہ سارا دن محنت کرتا اور جو کچھ ملتا اس پر خدا کا شُکر بجا لاتا۔ رات کو روکھی سوکھی کھاکر بھی اس کا دل مطمئن رہتا۔
وہ انتہائی محنتی اور دیانت دار ہونے کے ساتھ ہر معاملے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے والا تھا۔ وہ نہ تو کسی کا دل دُکھاتا تھا اور نہ ہی کسی کو بلاوجہ تنگ کرتا تھا۔ وہ ہر کسی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا تھا۔ غرض بڑا ہی صابر، قناعت پسند اور اﷲ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والا تھا۔ اس کے برعکس یاسمین نہایت مغرور تھی۔
دولت کی ریل پیل اور سوسائٹی میں اعلیٰ مقام نے اس کے ذہن میں تَکبّر بھردیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ یہ دولت، یہ عزت سب ہماری محنت کا نتیجہ ہے۔ اور یہ ہماری مرضی ہے کہ جس طرح چاہیں اپنی زندگی گزاریں۔ وہ اپنی ہر بات کو اَنا کا مسئلہ بنا لیتی تھی۔ وہ نہ تو کسی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتی تھی اور نہ ہی کسی کے دُکھ درد کو اپنا دُکھ درد سمجھتی تھی۔
کوئی فقیر دروازے پر مانگنے آتا تو اس کا رویہ حیرت انگیز طور پر اشتعال انگیز ہوتا۔ وہ بڑی بے رحمی سے اُسے جھڑک کر بھگا دیتی تھی۔ وہ سب کچھ میسّر ہونے کے باوجود اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شُکر نہ ادا کرتی بلکہ وہ تو ہمیشہ اس بات کا رونا روتی کہ ہمارے پاس مزید اور کچھ ہونا چاہیے۔ دوسروں کے پاس جو چیز دیکھتی اس کی بھی تمنا کرتی بلکہ اس سے بڑھ کر چاہتی۔ وہ قناعت کی شدید مخالف تھی۔
اس کا نظریہ تھا کہ انسان کے پاس اتنا کچھ ہونا چاہیے کہ اس کی نسلیں کھائیں۔
ساجد ان تمام چیزوں کا بے حد مخالف تھا۔ وہ اس سے کہتا، دیکھو یاسمین! یہ دولت، عزت، شہرت سب خدا کی دین ہے۔ یہ آج ہے تو کل نہیں ہے۔ وہ مثال دیتا کہ پرندے صبح سویرے بھوکے پیاسے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں لیکن شام کو پیٹ بھر کر گھونسلوں میں چلے جاتے ہیں۔ کیا وہ رزق کا ذخیرہ کرتے ہیں؟
وہ کبھی بھوکے نہیں مرتے۔ نیکی یہ ہے کہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شُکر ادا کریں اور ان نعمتوں کا کچھ حصہ ان پر خرچ کریں جو اس کے مستحق ہیں۔ یاسمین اس کی باتوں کا تمسخر اُڑایا کرتی۔
ایک دن ساجد کو اس کی محنت کا صلہ مل گیا۔ وہ ایک پرائیویٹ مِل میں بہت بڑے عہدے پر فائز ہوگیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کی سن لی تھی۔
اب اس کے پاس وہ تمام آسائش تھیں جو دنیاداری کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اﷲ تعالی نے اس کی ہر وہ خواہش پوری کی جو اس کے دل میں تھی۔ اب اس کے پاس ایک خوب صورت بنگلہ، کار اور بہترین مستقبل تھا۔ اس کے باوجود وہ بالکل پہلے کی طرح ہے۔ قناعت پسند اور رحم دل، اﷲ تعالی کے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ دولت پر غرور نہیں کرتا۔
اﷲ تعالی اس کو اپنی رحمت سے نواز رہا ہے۔ جب کہ یاسمین کے پاس کچھ نہیں سوائے لوگوں کی نفرتوں کے۔ اس کی دولت بھی اس کے کسی کام نہیں آرہی۔
دوستو! یہ زندگی چند روز کی ہے۔ ہمیں محبت سے لوگوں کے دل جیتنے چاہئیں۔ اﷲ تعالی کا شُکر ادا کرنا اور جو وہ دے رہا ہے، اس پر قناعت کرنی چاہیے۔ پھر دیکھیے اﷲ تعالیٰ کیسے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔
لیکن والدین کی نسبت ساجد اور یاسمین کے رویوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ دونوں ایک دوسرے کی ضد تھے۔ قسمت کی ستم ظریفی دیکھیے، اچانک نہ جانے کیا ہوا کہ ساجد کا پورا گھرانا گردش میں آگیا۔ ساجد کے والدین اور ایک چچا جو بہت ہی پیار کرنے والے تھے، ایک سال کے اندر اندر دنیا سے رخصت ہوگئے۔
والدین کی وفات کے بعد ساجد اس بھری دنیا میں تنہا رہ گیا۔ اب وہ سارا دن محنت کرتا اور جو کچھ ملتا اس پر خدا کا شُکر بجا لاتا۔ رات کو روکھی سوکھی کھاکر بھی اس کا دل مطمئن رہتا۔
وہ انتہائی محنتی اور دیانت دار ہونے کے ساتھ ہر معاملے میں اﷲ تعالیٰ سے ڈرنے والا تھا۔ وہ نہ تو کسی کا دل دُکھاتا تھا اور نہ ہی کسی کو بلاوجہ تنگ کرتا تھا۔ وہ ہر کسی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا تھا۔ غرض بڑا ہی صابر، قناعت پسند اور اﷲ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والا تھا۔ اس کے برعکس یاسمین نہایت مغرور تھی۔
دولت کی ریل پیل اور سوسائٹی میں اعلیٰ مقام نے اس کے ذہن میں تَکبّر بھردیا تھا۔ وہ سمجھتی تھی کہ یہ دولت، یہ عزت سب ہماری محنت کا نتیجہ ہے۔ اور یہ ہماری مرضی ہے کہ جس طرح چاہیں اپنی زندگی گزاریں۔ وہ اپنی ہر بات کو اَنا کا مسئلہ بنا لیتی تھی۔ وہ نہ تو کسی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتی تھی اور نہ ہی کسی کے دُکھ درد کو اپنا دُکھ درد سمجھتی تھی۔
کوئی فقیر دروازے پر مانگنے آتا تو اس کا رویہ حیرت انگیز طور پر اشتعال انگیز ہوتا۔ وہ بڑی بے رحمی سے اُسے جھڑک کر بھگا دیتی تھی۔ وہ سب کچھ میسّر ہونے کے باوجود اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا شُکر نہ ادا کرتی بلکہ وہ تو ہمیشہ اس بات کا رونا روتی کہ ہمارے پاس مزید اور کچھ ہونا چاہیے۔ دوسروں کے پاس جو چیز دیکھتی اس کی بھی تمنا کرتی بلکہ اس سے بڑھ کر چاہتی۔ وہ قناعت کی شدید مخالف تھی۔
اس کا نظریہ تھا کہ انسان کے پاس اتنا کچھ ہونا چاہیے کہ اس کی نسلیں کھائیں۔
ساجد ان تمام چیزوں کا بے حد مخالف تھا۔ وہ اس سے کہتا، دیکھو یاسمین! یہ دولت، عزت، شہرت سب خدا کی دین ہے۔ یہ آج ہے تو کل نہیں ہے۔ وہ مثال دیتا کہ پرندے صبح سویرے بھوکے پیاسے رزق کی تلاش میں نکلتے ہیں لیکن شام کو پیٹ بھر کر گھونسلوں میں چلے جاتے ہیں۔ کیا وہ رزق کا ذخیرہ کرتے ہیں؟
وہ کبھی بھوکے نہیں مرتے۔ نیکی یہ ہے کہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کا شُکر ادا کریں اور ان نعمتوں کا کچھ حصہ ان پر خرچ کریں جو اس کے مستحق ہیں۔ یاسمین اس کی باتوں کا تمسخر اُڑایا کرتی۔
ایک دن ساجد کو اس کی محنت کا صلہ مل گیا۔ وہ ایک پرائیویٹ مِل میں بہت بڑے عہدے پر فائز ہوگیا۔ اﷲ تعالیٰ نے اس کی سن لی تھی۔
اب اس کے پاس وہ تمام آسائش تھیں جو دنیاداری کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ اﷲ تعالی نے اس کی ہر وہ خواہش پوری کی جو اس کے دل میں تھی۔ اب اس کے پاس ایک خوب صورت بنگلہ، کار اور بہترین مستقبل تھا۔ اس کے باوجود وہ بالکل پہلے کی طرح ہے۔ قناعت پسند اور رحم دل، اﷲ تعالی کے بندوں سے محبت کرتا ہے۔ دولت پر غرور نہیں کرتا۔
اﷲ تعالی اس کو اپنی رحمت سے نواز رہا ہے۔ جب کہ یاسمین کے پاس کچھ نہیں سوائے لوگوں کی نفرتوں کے۔ اس کی دولت بھی اس کے کسی کام نہیں آرہی۔
دوستو! یہ زندگی چند روز کی ہے۔ ہمیں محبت سے لوگوں کے دل جیتنے چاہئیں۔ اﷲ تعالی کا شُکر ادا کرنا اور جو وہ دے رہا ہے، اس پر قناعت کرنی چاہیے۔ پھر دیکھیے اﷲ تعالیٰ کیسے اپنی نعمتوں سے نوازتا ہے۔