مقبوضہ کشمیر کے جووینائل سینٹر میں قید تین پاکستانی بچے رہائی کے منتظر
دو بچوں کا تعلق کشمیر جبکہ ایک ننکانہ صاحب کا رہائشی ہے
جووینائل جسٹس بورڈ کے حکم کے باوجود مقبوضہ کشمیر میں نابالغ بچوں کے سینٹر میں قید تین پاکستانی بچوں کو رہائی نہیں مل سکی ہے، جووینائل سینٹر پونچھ میں قید دو بچوں کا تعلق کشمیر جبکہ ایک ننکانہ صاحب کا رہائشی ہے۔
دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے قیام کے لیے کام کرنے والی تنظیم آغاز دوستی نے دونوں ملکوں کی جیلوں میں قید ایک دوسرے ملک کے ماہی گیروں کی رہائی کی بھی اپیل کی ہے۔
مقبوضہ کشمیر پونچھ کے جووینائل جسٹس بورڈ نے 26 اگست 2022 کو دو بچوں 14 سالہ اصمد علی اور 16 سالہ خیام مقصود کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ تیسرے بچے احسن انور کی رہائی کا حکم 16 ماہ قبل دیا تھا جس پر مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج اور ادارے عمل درآمد نہیں کر رہے ہیں۔
جووینائل جسٹس بورڈ نے اصمد علی اور خیام مقصود کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں بچے بورڈ میں بیان حلفی جمع کروائیں کہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ بورڈ نے بھارتی حکام کو حکم دیا کہ ان بچوں کو قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے واپس بھیج دیا جائے۔
واضح رہے کہ 14 سالہ اصمد علی راولا کوٹ آزاد کشمیر کا رہائشی ہے جو گزشتہ برس 28 نومبر کو اپنے پالتو کبوتروں کو پکڑنے کی کوشش میں لائن آف کنٹرول عبور کر گیا تھا۔ اصمد علی کے خاندان نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم سے بچے کی رہائی اور واپسی کی اپیل کی تھی۔
جووینائل بورڈ کی طرف سے رہا کیے جانے والے 16 سالہ خیام مقصود کا تعلق پونچھ آزاد کشمیر سے ہے، وہ گزشتہ برس 24 اگست کو غلطی سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) عبور کر گیا تھا جس پر اسے مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے گرفتار کر لیا تھا۔ ایک سال بعد خیام مقصود کی رہائی کا حکم دیا گیا ہے۔
تیسرے بچے احسن انور کا تعلق ننکانہ صاحب کے علاقہ بچیکی سے ہے، اس کے دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ احسن کے بڑے بھائی حمزہ انور نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ان کا بھائی احسن انور دو اکتوبر 2019 کو گھرسے لاپتہ ہوا تھا اور 4اکتوبر 2019 کو رینجرز حکام نے انہیں اطلاع دی تھی کہ ان کا بھائی مقبوضہ کشمیر میں گرفتار ہوگیا ہے، ان کے بھائی کو قید میں تین سال ہوگئے ہیں۔ ان کی والدہ بیٹے کی راہ دیکھتی اور روتی رہتی ہیں۔ تین برسوں میں ان کا احسن سے کوئی رابطہ نہیں کروایا گیا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیقات کے مطابق جووینائل جسٹس بورڈ پونچھ نے جون 2021 میں احسن انور کو فوری رہا کرکے واپس پاکستان بھیجنے کا حکم دیا تھا لیکن بھارتی حکام نے ان احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔
ان بچوں کی رہائی کے لیے سرگرم بھارتی سماجی کارکن راہول کپور نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود پاکستانی بچوں کو واپس نہ بھیجنا انتہائی افسوسناک ہے۔ پاکستانی ہائی کمیشن ان بچوں کی شہریت کرچکا ہے، غلطی سے لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے علاوہ ان بچوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے، ان کی خواہش ہے کہ یہ بچے جلد سے جلد اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔
انہوں نے اس حوالے سے بھارت کی وزارت داخلہ اور خارجہ کو خطوط بھی لکھے ہیں کہ ان بچوں کا مستقبل تباہ نہ کیا جائے، انہیں فوری رہا کیا جائے تاکہ یہ اپنے والدین کے پاس واپس جا سکیں اور اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں سکیں۔
علاوہ ازیں، پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے قیام کے لیے سرگرم آغاز دوستی نامی این جی او نے دونوں ملکوں کے حکام سے اپیل کی ہے کہ اپنی اپنی جیلوں میں قید ایک دوسرے ملک کے ماہی گیروں کی رہائی کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ دونوں ملکوں کی جیلوں میں ماہی گیروں کی اموات کی خبروں سے ان کے خاندان تشویش میں مبتلا ہیں۔
آغاز دوستی نے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ دونوں حکومتیں ماہی گیروں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ ان ماہی گیروں کی جیلوں میں قیام کے دوران ان کی صحت کی جانچ کا انتظام کیا جائے اور ان کے آبائی ملک اور ماہی گیروں کے اہل خانہ تک رپورٹ پہنچائی جائے اور دونوں طرف ان کی بہترین دیکھ بھال کو یقینی بنایا جائے۔
ماہی گیروں کی فہرست دونوں حکومتوں کی مشترکہ کوششوں سے منظر عام پر لائی جانی چاہیے کیونکہ بعض اوقات ان کے خاندان کے افراد کو بھی ان کے خاندان کے افراد کا علم نہیں ہوتا جو دوسری طرف جیل میں بند ہیں۔ ایسا کرنے سے، ایک موقع ہے کہ وکلاء اور سول سوسائٹی کے ارکان قانونی اور انسانی مدد کی پیشکش کے لیے ایسے معاملات کو لینا چاہیں گے۔ ان تفصیلات کو ایک سرکاری پورٹل کے ذریعے عام کیا جا سکتا ہے، جسے وقتاً فوقتاً نئے افراد کی گرفتاری، موجودہ کی رہائی اور کیس کی تازہ ترین صورتحال کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جا سکتا ہے۔
دونوں طرف سے جو ماہی گیروں پر مقدمہ درج ہے انہیں رہا کیا جائے کیونکہ وہ مجرم نہیں ہیں اور ان کے خلاف ایسے کوئی مجرمانہ الزامات نہیں ہیں۔ تمام کشتیاں جو کسی بھی طرف سے قید ہیں انہیں رہا کیا جائے اور ماہی گیروں کو واپس کیا جائے۔ 2007 میں قائم ہونے والی پاک بھارت مشترکہ عدالتی کمیٹی کو فوری طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا اجلاس 2013 سے نہیں ہو سکا، اس لیے ماہی گیروں کی وسیع تر بہبود کے لیے اس مشترکہ کمیٹی کو بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
دوسری طرف پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے قیام کے لیے کام کرنے والی تنظیم آغاز دوستی نے دونوں ملکوں کی جیلوں میں قید ایک دوسرے ملک کے ماہی گیروں کی رہائی کی بھی اپیل کی ہے۔
مقبوضہ کشمیر پونچھ کے جووینائل جسٹس بورڈ نے 26 اگست 2022 کو دو بچوں 14 سالہ اصمد علی اور 16 سالہ خیام مقصود کو فوری رہا کرنے کا حکم دیا تھا جبکہ تیسرے بچے احسن انور کی رہائی کا حکم 16 ماہ قبل دیا تھا جس پر مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج اور ادارے عمل درآمد نہیں کر رہے ہیں۔
جووینائل جسٹس بورڈ نے اصمد علی اور خیام مقصود کی رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں بچے بورڈ میں بیان حلفی جمع کروائیں کہ دوبارہ ایسی غلطی نہیں کریں گے۔ بورڈ نے بھارتی حکام کو حکم دیا کہ ان بچوں کو قانونی تقاضے پورے کرتے ہوئے واپس بھیج دیا جائے۔
واضح رہے کہ 14 سالہ اصمد علی راولا کوٹ آزاد کشمیر کا رہائشی ہے جو گزشتہ برس 28 نومبر کو اپنے پالتو کبوتروں کو پکڑنے کی کوشش میں لائن آف کنٹرول عبور کر گیا تھا۔ اصمد علی کے خاندان نے پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم سے بچے کی رہائی اور واپسی کی اپیل کی تھی۔
جووینائل بورڈ کی طرف سے رہا کیے جانے والے 16 سالہ خیام مقصود کا تعلق پونچھ آزاد کشمیر سے ہے، وہ گزشتہ برس 24 اگست کو غلطی سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) عبور کر گیا تھا جس پر اسے مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی فوج نے گرفتار کر لیا تھا۔ ایک سال بعد خیام مقصود کی رہائی کا حکم دیا گیا ہے۔
تیسرے بچے احسن انور کا تعلق ننکانہ صاحب کے علاقہ بچیکی سے ہے، اس کے دو بھائی اور چار بہنیں ہیں۔ احسن کے بڑے بھائی حمزہ انور نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ ان کا بھائی احسن انور دو اکتوبر 2019 کو گھرسے لاپتہ ہوا تھا اور 4اکتوبر 2019 کو رینجرز حکام نے انہیں اطلاع دی تھی کہ ان کا بھائی مقبوضہ کشمیر میں گرفتار ہوگیا ہے، ان کے بھائی کو قید میں تین سال ہوگئے ہیں۔ ان کی والدہ بیٹے کی راہ دیکھتی اور روتی رہتی ہیں۔ تین برسوں میں ان کا احسن سے کوئی رابطہ نہیں کروایا گیا ہے۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیقات کے مطابق جووینائل جسٹس بورڈ پونچھ نے جون 2021 میں احسن انور کو فوری رہا کرکے واپس پاکستان بھیجنے کا حکم دیا تھا لیکن بھارتی حکام نے ان احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا ہے۔
ان بچوں کی رہائی کے لیے سرگرم بھارتی سماجی کارکن راہول کپور نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ عدالتی حکم کے باوجود پاکستانی بچوں کو واپس نہ بھیجنا انتہائی افسوسناک ہے۔ پاکستانی ہائی کمیشن ان بچوں کی شہریت کرچکا ہے، غلطی سے لائن آف کنٹرول عبور کرنے کے علاوہ ان بچوں نے کوئی جرم نہیں کیا ہے، ان کی خواہش ہے کہ یہ بچے جلد سے جلد اپنے گھروں کو واپس جا سکیں۔
انہوں نے اس حوالے سے بھارت کی وزارت داخلہ اور خارجہ کو خطوط بھی لکھے ہیں کہ ان بچوں کا مستقبل تباہ نہ کیا جائے، انہیں فوری رہا کیا جائے تاکہ یہ اپنے والدین کے پاس واپس جا سکیں اور اپنی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھیں سکیں۔
علاوہ ازیں، پاکستان اور بھارت کے مابین امن کے قیام کے لیے سرگرم آغاز دوستی نامی این جی او نے دونوں ملکوں کے حکام سے اپیل کی ہے کہ اپنی اپنی جیلوں میں قید ایک دوسرے ملک کے ماہی گیروں کی رہائی کے لیے اقدامات اٹھائیں۔ دونوں ملکوں کی جیلوں میں ماہی گیروں کی اموات کی خبروں سے ان کے خاندان تشویش میں مبتلا ہیں۔
آغاز دوستی نے پاکستان اور بھارت کی حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ دونوں حکومتیں ماہی گیروں کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔ ان ماہی گیروں کی جیلوں میں قیام کے دوران ان کی صحت کی جانچ کا انتظام کیا جائے اور ان کے آبائی ملک اور ماہی گیروں کے اہل خانہ تک رپورٹ پہنچائی جائے اور دونوں طرف ان کی بہترین دیکھ بھال کو یقینی بنایا جائے۔
ماہی گیروں کی فہرست دونوں حکومتوں کی مشترکہ کوششوں سے منظر عام پر لائی جانی چاہیے کیونکہ بعض اوقات ان کے خاندان کے افراد کو بھی ان کے خاندان کے افراد کا علم نہیں ہوتا جو دوسری طرف جیل میں بند ہیں۔ ایسا کرنے سے، ایک موقع ہے کہ وکلاء اور سول سوسائٹی کے ارکان قانونی اور انسانی مدد کی پیشکش کے لیے ایسے معاملات کو لینا چاہیں گے۔ ان تفصیلات کو ایک سرکاری پورٹل کے ذریعے عام کیا جا سکتا ہے، جسے وقتاً فوقتاً نئے افراد کی گرفتاری، موجودہ کی رہائی اور کیس کی تازہ ترین صورتحال کے مطابق اپ ڈیٹ کیا جا سکتا ہے۔
دونوں طرف سے جو ماہی گیروں پر مقدمہ درج ہے انہیں رہا کیا جائے کیونکہ وہ مجرم نہیں ہیں اور ان کے خلاف ایسے کوئی مجرمانہ الزامات نہیں ہیں۔ تمام کشتیاں جو کسی بھی طرف سے قید ہیں انہیں رہا کیا جائے اور ماہی گیروں کو واپس کیا جائے۔ 2007 میں قائم ہونے والی پاک بھارت مشترکہ عدالتی کمیٹی کو فوری طور پر بحال کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کا اجلاس 2013 سے نہیں ہو سکا، اس لیے ماہی گیروں کی وسیع تر بہبود کے لیے اس مشترکہ کمیٹی کو بحال کرنے کی اشد ضرورت ہے۔