ضمنی انتخابات جمہوریت کا حسن
جمہوری سفر کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی سب سے بھاری ذمے داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے
گزشتہ روز ضمنی الیکشن میں قومی اسمبلی کی آٹھ اور صوبائی اسمبلی کی تین نشستوں پر انتخابی معرکے میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان چھ قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیاب رہے ، جب کہ تحریک انصاف اپنی دو نشستیں گنوا بیٹھی ، دونوں نشستوں پر پیپلزپارٹی کے امیدوار کامیاب ہوئے ، دو صوبائی نشستوں پر پی ٹی آئی اور ایک پر ن لیگ کامیاب ہوئی۔
مجموعی طور پر انتخابی عمل پرامن ماحول میں جاری رہا ، کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا، البتہ انتخابی نتائج کے حوالے سے کچھ امیدواروں نے اپنی شکایت کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
بلاشبہ الیکشن کمیشن ان شکایات کے ازالے کے لیے قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ موجودہ ضمنی انتخابات ایک ایسے ماحول میں منعقد ہوئے، جس میں سیاسی کشیدگی اور تلخی کا عنصر نمایاں ہے ، پی ڈی ایم پر مشتمل جماعتوں کی وفاق میں حکومت ہے ، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں ، جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار ہے۔
بطور احتجا ج تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی سے استعفے دے رکھے ہیں اور ان کے چیئرمین عمران خان روزانہ کی بنیاد پر جلسے کررہے ہیں اور نئے عام انتخابات کی تاریخ لینے پر بضد نظر آتے ہیں جب کہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اگلے سال مقررہ وقت پر انتخابات کروانا چاہتی ہے۔
گو کہ عمران خان نے چھ نشستوں سے کامیابی حاصل کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے لیکن ان کو یہ جیتی ہوئی نشستیں چھوڑنی پڑ جائیں گی جن پر دوبارہ الیکشن ہوگا ، یعنی قوم کا قیمتی سرمایہ سیاسی انا کے بھینٹ چڑھ جائے گا۔
بہرحال ضمنی انتخابات کا انعقاد اور اس میں ووٹرز کا بڑھ ۔چڑھ کر حصہ لینا اس امر کا غماز ہے کہ ابھی عوام کا یقین ووٹ اور جمہوریت پر قائم ہے ، لہٰذا اہل سیاست کو بھی قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ، جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے لیے مل جل کر کام کرنا چاہیے ، تاکہ جمہوریت ہمیشہ قائم و دائم رہے اور پارلیمنٹ میں بہتر قانون سازی کا عمل بھی جاری و ساری رہے۔
ملک کی ترقی و خوشحالی کا راز جمہوریت کے تسلسل میں پنہاں ہے۔اس جمہوری سفر کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی سب سے بھاری ذمے داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے،وہ باہمی سیاسی تنازعات میں اس حد تک نہ آگے چلے جائیں کہ غیرجمہوری قوتوں کو آگے آنے کا موقع ملے اور جمہوری سفر کے تسلسل میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔
مجموعی طور پر انتخابی عمل پرامن ماحول میں جاری رہا ، کوئی بڑا ناخوشگوار واقعہ رونما نہیں ہوا، البتہ انتخابی نتائج کے حوالے سے کچھ امیدواروں نے اپنی شکایت کا اظہار کرتے ہوئے الیکشن کمیشن جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
بلاشبہ الیکشن کمیشن ان شکایات کے ازالے کے لیے قانون کے مطابق فیصلہ کرے گا۔ موجودہ ضمنی انتخابات ایک ایسے ماحول میں منعقد ہوئے، جس میں سیاسی کشیدگی اور تلخی کا عنصر نمایاں ہے ، پی ڈی ایم پر مشتمل جماعتوں کی وفاق میں حکومت ہے ، پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پی ٹی آئی کی حکومتیں ہیں ، جب کہ سندھ میں پیپلزپارٹی برسر اقتدار ہے۔
بطور احتجا ج تحریک انصاف کے اراکین نے قومی اسمبلی سے استعفے دے رکھے ہیں اور ان کے چیئرمین عمران خان روزانہ کی بنیاد پر جلسے کررہے ہیں اور نئے عام انتخابات کی تاریخ لینے پر بضد نظر آتے ہیں جب کہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت اگلے سال مقررہ وقت پر انتخابات کروانا چاہتی ہے۔
گو کہ عمران خان نے چھ نشستوں سے کامیابی حاصل کرکے ایک ریکارڈ قائم کیا ہے لیکن ان کو یہ جیتی ہوئی نشستیں چھوڑنی پڑ جائیں گی جن پر دوبارہ الیکشن ہوگا ، یعنی قوم کا قیمتی سرمایہ سیاسی انا کے بھینٹ چڑھ جائے گا۔
بہرحال ضمنی انتخابات کا انعقاد اور اس میں ووٹرز کا بڑھ ۔چڑھ کر حصہ لینا اس امر کا غماز ہے کہ ابھی عوام کا یقین ووٹ اور جمہوریت پر قائم ہے ، لہٰذا اہل سیاست کو بھی قومی مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے ، جمہوریت کے استحکام اور تسلسل کے لیے مل جل کر کام کرنا چاہیے ، تاکہ جمہوریت ہمیشہ قائم و دائم رہے اور پارلیمنٹ میں بہتر قانون سازی کا عمل بھی جاری و ساری رہے۔
ملک کی ترقی و خوشحالی کا راز جمہوریت کے تسلسل میں پنہاں ہے۔اس جمہوری سفر کے تسلسل کو برقرار رکھنے کی سب سے بھاری ذمے داری سیاستدانوں پر عائد ہوتی ہے،وہ باہمی سیاسی تنازعات میں اس حد تک نہ آگے چلے جائیں کہ غیرجمہوری قوتوں کو آگے آنے کا موقع ملے اور جمہوری سفر کے تسلسل میں رکاوٹ پیدا ہو جائے۔