مسئلہ فاقے کا نہیں لالچ کا ہے
ضرورت سے زیادہ خوراک پیدا کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔اصل مسئلہ اسے آخری انسان تک بنا ضایع ہوئے پہنچانا ہے
ابھی تو ہمیں سیاسی عدم استحکام اور دہشت گردی کا دوبارہ سر اٹھانا ہی دو بڑے خطرے محسوس ہو رہے ہیں۔ مگر اگلے چند ماہ میں ان دونوں سے بھی بڑا ایک اور خطرہ سروں پے منڈلا رہا ہے۔یعنی بھوک کا خطرہ۔
اگر حالیہ بارشوں اور سیلاب کے سبب لگ بھگ ساڑھے تین کروڑ پاکستانی بے گھر نہ بھی ہوتے تب بھی خوراک کی آسمان سے چھوتی قیمتیں ستر فیصد پاکستانی گھرانوں کو اپنی ماہانہ کمائی کا پچاس فیصد صرف خوراک پر صرف کرنے پر مجبور کر رہی تھیں۔اس کا ایک بنیادی سبب گزشتہ ایک برس سے ہونے والی مسلسل مہنگائی ہے۔بالخصوص خوراک کی قیمت اب ششماہی و ماہانہ کے پائیدان سے پھسل کر روزانہ کے مرحلے تک آن پہنچی ہے۔
عام آدمی کو کیسے سمجھائیں کہ بھیا یہ سب محض سرکاری نااہلی کا نتیجہ نہیں بلکہ کوویڈ کی وبا ، عالمی معیشت کی زبوں حالی، یوکرین روس مناقشہ ، ڈالر کی مسلسل بڑھتی طاقت ، تیل اور گیس کی قیمتوں اور موسمیاتی پاگل پن کے نتیجے میں پچھلے ایک برس میں عالمی سطح پر ہی خوراک کی قیمتیں اوسطاً چونتیس فیصد بڑھ چکی ہیں۔
عام آدمی تو بس یہ جانتا ہے کہ آج اگر وہ گاجر ڈھائی سو روپے فی کلو خرید رہا ہے تو گزشتہ روز یہی گاجر تین سو روپے فی کلو میں کیوں دستیاب ہے۔
گاجر بھلا کون سی ڈالر میں خریدی جاتی ہے یا یوکرین سے آتی ہے۔اور کیا سبب ہے کہ خوراک کی قیمتوں میں ماہانہ اٹھائیس فیصد اضافہ ہو رہا ہے اور سو روپے کی قوتِ خرید چالیس روپے کے برابر رہ گئی ہے۔
اب آئیے سر پر منڈلاتے خطرے کی طرف۔ اس برس اگر سیلاب نہ بھی آتا تب بھی زرعی اخراجات میں اضافے، کسان کے منافع میں کمی اور گندم کی امدادی قیمت میں ساڑھے تین سو روپے من ( ساڑھے اٹھارہ سو سے بائیس سو روپے ) اضافے کے باوجود گندم کی کاشت کے رقبے میں دو فیصد سے زائد کی کمی آئی،لیکن سیلاب کے بعد صورت یہ ہے کہ سندھ میں گندم اور چاول کی کاشت کے روایتی علاقوں میں پانی کھڑا ہے۔
امونیا فاسفیٹ کے بیگ کی قیمت ایک برس کے دوران چھ ہزار سے اڑ کے پندرہ ہزار روپے کی ڈال پر جا بیٹھی ہے۔
اس کا ایک سبب اگر یوکرین روس مناقشہ اور گیس کی قیمت میں اضافہ بتایا جا رہا ہے تو ایک سبب چھپایا بھی جا رہا ہے یعنی افغانستان کو کھاد کی اسمگلنگ کا ریکٹ۔
اگر گندم کی اگلی فصل کے لیے امدادی قیمت میں آٹھ سو روپے فی من اضافے کی ترغیباتی تجویز پر بھی عمل ہو جائے تب بھی گندم کی بوائی کسان کو وارا نہیں کھا رہی۔
کیوں وارا نہیں کھا رہی۔اس کے لیے محض کھیت سے گھر تک کی سپلائی چین دیکھنا کافی ہے۔ پانچ ماہ کی محنت سے گندم پیدا کرنے والے کسان سے اس سال یہ گندم انیس سو سے بائیس سو روپے میں آڑھتی نے خرید کے اس کو پانچ سو روپے فی من منافع پر ستائیس سو روپے میں فلور مل کو بیچ دیا اور فلور مل والے نے اسے آٹا کر کے تیرہ سو روپے اور شامل کر کے اسے چار ہزار روپے فی من پر دکان دار کے حوالے کر دیا اور دکاندار نے فی من پانچ سو روپے بڑھا کر اسے پینتالیس سو روپے میں مجھے اور آپ کو بیچ دیا۔اور جب یہی من تندور والے نے خریدا تو اس نے فی نان اضافی پانچ روپے گاہک کو ٹکا دیِے۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب کسان سے بائیس سو روپے میں خریدی گئی گندم میرے باورچی خانے میں یا تندوری روٹی کی شکل میں پانچ ہزار روپے فی من پڑ رہی ہے تو کسان اپنی ہی گندم پر ستائیس سو روپے فی من کا اضافہ دیکھ کے کتنے شوق سے اگلی فصل کی بوائی میں جت جائے گا۔
اور جب یہی گندم اسے بیج کی شکل میں ساڑھے چار ہزار روپے فی من واپس خریدنا پڑ رہی ہو تو وہ کیوں اور کس کے لیے یہ قربانی دے گا ؟ یہی حال گندم کے بعد سب سے زیادہ استعمال ہونے والے چاول کا بھی ہے،بلکہ اس میں تو بچولیوں کی شرحِ منافع گندم سے بھی زیادہ ہے۔
پھر بھی اچھی خبر یہ ہے کہ اس دنیا میں جتنی خوراک پیدا ہو رہی ہے وہ آج بھی سب کا پیٹ بھرنے کے لیے کافی ہے۔اگر بیچ میں سے لالچ اور ذرایع پر قبضے کی عادت سے جان چھوٹ جائے۔مگر یہ کہنا جتنا آسان ہے کرنا دوگنا مشکل ہے۔
اس لالچ اور قبضے کی خو کے سبب اس وقت ہر چار سیکنڈ میں ایک انسان فاقے کے ہاتھوں مر جاتا ہے۔تراسی کروڑ انسان رات کو بھوکے سوتے ہیں اور چالیس فیصد عالمی آبادی ( تین اعشاریہ ایک ارب) ناکافی غذائیت سے جوج رہی ہے۔
اس کے سبب نوزائیدہ بچوں کا قد پوری طرح نہیں بڑھ پاتا اور ان کی ناقص جسمانی نشوونما انھیں باقی عمر کے لیے بیماریوں کا آسان ہدف بنا لیتی ہے۔
مثلاً ورلڈ ہنگر انڈیکس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت ناکافی غذائیت اور بھک مری اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے انسانی مسائل کے اعتبار سے دو خطے سب سے زیادہ خطرے میں ہیں۔اول صحارا پار افریقی ممالک اور دوم ہمارا جنوبی ایشیا۔
ایک سو اکیس ممالک پر مشتمل ورلڈ ہنگر انڈیکس میں اگر جنوبی ایشیا کو دیکھا جائے تو سری لنکا مالی طور پر دیوالیہ ہونے کے باوجود خوراک کی عام آدمی تک ترسیل کے تعلق سے اب تک بہتر حالت میں ہے۔انڈیکس میں اس کا نمبر چونسٹھ ہے ، نیپال اکیاسیویں ، بنگلہ دیش چوراسیویں ، پاکستان ننانوے ، بھارت ایک سو سات اور افغانستان ایک سو آٹھویں نمبر پر ہے۔
بھارت کا قصہ بہت عجیب ہے۔آبادی کے اعتبار ( ایک ارب چالیس کروڑ ) سے یہ چین کے بعد دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔چین اور جاپان کے بعد ایشیا کی تیسری بڑی معیشت ( پونے چار ٹریلین ڈالر ) ہے۔سالانہ شرحِ نمو چھ فیصد ہے جو کہ خاصی متاثر کن ہے۔
چین کے بعد سب سے زیادہ گندم پیدا کرنے والا ملک ہے۔اس کے باوجود بھارت کا ورلڈ ہنگر انڈیکس میں گراف دو ہزار انیس میں ایک سو ایک درجے سے گذر کے آج ایک سو ساتویں درجے تک گر گیا ہے۔سترہ فیصد آبادی ناکافی غذائیت کا شکار ہے اور بچوں میں جسمانی نمو کی کمی کی شرح لگ بھگ بیس فیصد ہے جو دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔اسی فیصد دولت کے مالک دس فیصد بھارتی ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ ضرورت سے زیادہ خوراک پیدا کرنا کوئی مسئلہ نہیں۔اصل مسئلہ اسے آخری انسان تک بنا ضایع ہوئے پہنچانا ہے۔اور اس دنیا میں جتنی بھی خوراک پیدا ہوتی ہے اس کا دس فیصد ہم بنا استعمال کے ضایع کر دیتے ہیں۔
(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)