ایکسپریس اور میں
ایکسپریس کے اس حسین گلشن میں طرح طرح کے خوبصورت اور رنگارنگ پھول شامل ہیں
اس یادگار اور تاریخی دن کو دو چار سال نہیں بلکہ چوبیس برس بیت چکے ہیں باالفاظِ دیگر:
یہ چند برس کی بات نہیں
چوتھائی صدی کا قصّہ ہے
دن اور تاریخ تو ٹھیک سے یاد نہیں مگر یہ 1998 کا واقعہ ہے جب ایکسپریس کو نکلے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو۔جب ایک خوشگوار شام کو ایکسپریس کے ایڈیٹر اور مایہ ناز صحافی اور اپنے پیارے دوست نیّر علوی(خُلد آشیانی) سے اُن کے دفتر میں خوشگوار اور یادگار ملاقات ہوئی تھی۔حسب معمول چائے سے تواضع کی۔
اُس وقت وہ بہت اچھے موڈ میں تھے اور جس کے آثار اُن کے چہرے پر نمایاں تھے۔آغازِ گفتگو اِن الفاظ سے ہوا''ایک چیلنج درپیش ہے کیا آپ اسے قبول کریں گے؟ '' ''نیّر بھائی زندگی تو بجائے خود ایک چیلنج ہے۔ فرمائیے! کیا ہے؟'' یہ کہہ کر میں چپ ہوگیا اور وہ مسکرا کر گویا ہوئے ''اس اخبار کی بھاری ذمے داری میرے کندھوں پر ہے۔
کیا آپ شیئر کریں گے؟'' ''میں سمجھا نہیں آپ فرمائیں'' میں نے جواباً استفسار کیا۔انھوں نے کہا ''آپ کو ہمارے لیے کالم لکھنا ہے'' ''نیّر بھائی آپ کی بات میرے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے''میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ دن اور آج کا دن ہے کہ میں ایکسپریس کے ساتھ مسلسل وابستہ ہوں اور عہد و پیماں کے اِس سلسلہ کو ہر قیمت اور ہر حالت میں بدستور قائم رکھے ہوئے ہوں۔''اخبار کی پالیسی؟ '' ''اس سوال کی کوئی ضرورت نہیں آپ ریڈیو والے ہیں۔
آپ خود بہتر جان سکتے ہیں''اُن کے چہرے پر اطمینان اور خوشی کے آثار صاف نظر آرہے تھے اور ''کالم کے موضوعات؟''میرا دوسرا سوال تھا۔''آپ کو کھلی آزادی ہے جو چاہیں لکھیں بس شرط صرف یہ ہے کہ قارئین کے لیے دلچسپ ہو اور اخبار کے حق میں بہتر ہو''بس اِسی پر گفتگو ختم ہوگئی۔
شروع شروع میں یہ ہوا کہ میں نے ہفتہ میں ایک سے زیادہ بلکہ دو تین کالم بھی لکھے اور پھر اس کے بعد دیگر لوگ اس کارواں میں شامل ہوتے چلے گئے۔بقولِ مجروحؔ سلطانپوری:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اِس کارواں میں کچھ نئے لوگ اور بعض دوسرے اخبارات کو چھوڑ کر جوائن کرنے والے کالم نگار بھی شامل تھے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ نئے پرانے سبھی اِس کارواں کا حصہ ہیں البتہ کچھ پیارے داغِ مفارقت دے گئے اور اپنی ناقابلِ فراموش یادیں چھوڑ گئے:
جیون کے سفر میں راہی ملتے ہیں بچھڑ جانے کو
اور دے جاتے ہیں یادیں تنہائی میں تڑپانے کو
ایکسپریس کے اس حسین گلشن میں طرح طرح کے خوبصورت اور رنگارنگ پھول شامل ہیں جن کی مہک الگ الگ اور ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔
اللہ تعالیٰ اِس گلشن کو سدا بہار رکھے اور اِس کے حسن و جمال میں اضافے پر اضافہ ہوتا رہے۔نیّر بھائی نے جب یہ پودا لگایا تھا تو اُس وقت یہ ننھا منا سا تھا اور اب ماشاء اللہ یہ بڑا ہوتے ہوتے ایک تناور درخت بن چکا ہے۔مجھے فخر ہے کہ اِس کی آبیاری میں میرا ہاتھ بھی شامل ہے۔
ابھی تھوڑا عرصہ باقی ہے جب پچیس سال پورے ہوجائیں گے۔ انتظامیہ کے لیے مجھ ناچیز کی یہ تجویز ہے کہ سِلور جوبلی کا ایک شاندار جشن منایا جائے جس میں اِس کمترین کو بھی شامل رکھا جائے کیونکہ بحیثیت کالم نگار یہ میری بھی سِلور جوبلی ہوگی کیونکہ ایکسپریس اور میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور ہم قدم ہیں اور اتنا پرانا ساتھ شاید کسی اور کالم نگار کا نہیں۔نیا اخبار نکالنا کوئی ہنسی کھیل نہیں کیونکہ دوسرے کئی اخبار میدانِ صحافت میں اپنی جگہ بنا چکے تھے۔''وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔''یہ علوی صاحب کا کہنا تھا جو بالکل بجا تھا لیکن اگر عزمِ محکم ہو تو کوئی کام ناممکن نہیں۔
مشکلیں نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
نیّر علوی صاحب کو اپنی خوداعتمادی اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی پر کامل یقین تھا اور اخبار کی انتظامیہ کو نیّر بھائی کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ تھا۔
ہمتِ مرداں مددِ خدا
چناچہ ایکسپریس نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبول سے مقبول تر ہوتا گیا اور آج اِس کا شمار صف ِ اوّل کے اخبارات میں ہوتا ہے اور اس کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔
نیّر بھائی کو میں نے یہ واقعہ بھی سنایا تھا کہ جب میرے عزیز دوست اور جانے مانے قلم کار شکیل عادل زادہ بیمثل ڈائجسٹ''سب رنگ'' کی اشاعت کا بیڑا اٹھا رہے تھے تو باتوں باتوں میں میں نے اُن سے کہا تھا کہ:''شکیل بھائی! ڈائجسٹوں کی بھرمار میں آپ کے ڈائجسٹ کا بھلا کیا ہوگا؟''
انھوں نے عزمِ محکم کے ساتھ یہ فرمایا تھا کہ ''نہیں ایسا نہیں، ابھی ایک ڈائجسٹ کی گنجائش موجود ہے جو تمام ڈائجسٹوں سے بہتر اور منفرد ہو۔'' سو یہی بات ایکسپریس کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے اور واقعتاً ہوا بھی یہی۔قارئین نے ایکسپریس کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
آج عالم یہ ہے کہ ایکسپریس پاکستان کے گیارہ شہروں سے بیک وقت شایع ہورہا ہے جن میں لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ،ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، رحیم یار خان اور سکھر شامل ہیں۔اِس کے قارئین کی تعداد بہت بڑی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
ایکسپریس کو جوائن کرتے وقت میں نے عہد کیا تھا کہ جو کچھ لکھوں گا وہ قلم برداشتہ ہوگا اور میں اپنے اس عہد پر آج تک قائم ہوں۔ میں نے یہ عہد بھی کیا تھا کہ نہ کبھی کسی کی طرفداری کروں گا اور نہ کسی کی مخالفت۔الحمد للہ میں اپنے اس عہد پر قائم ہوں۔ اِس وقت مجھے بھگت کبیر داس کا یہ خوبصورت دوہا یاد آرہا ہے:
کبیرا کھڑا باجار میں مانگت سب کی کھَیر
نہ کاہُو سے دوستی نہ کاہُو سے بَیر
مطلب کبیر بازار کے بیچوں بینچ کھڑا ہوا ہے اور سب کی خیر مانگ رہا ہے، نہ کسی سے دوستی ہے اور نہ کسی سے دشمنی۔ میرے اب تک 1000 سے زائد کالم چھپ چکے ہیں اور اس تمام عرصہ میں میں نے کبھی ضمیر فروشی اور قلم فروشی نہیں کی۔
یہ بات بھی کچھ کم قابل ذکر نہیں کہ ایکسپریس کی اس چوبیس سالہ طویل رفاقت کے دوران کبھی کوئی بدمزگی یا رکاوٹ پیش نہیں آئی۔افراد کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ ہم آہنگی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
میری کوشش یہی رہی کہ اپنے کالموں میں تنوع اور تازگی برقرار رکھنے کے لیے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا جائے۔ ایک اور بات یہ کہ میں نے اپنی کالم نگاری کا آغاز ایک مختلف اسلوب اور اندازِ بیاں سے کیا جس کے حوالہ سے مرزا غالبؔ کا یہ مقطع پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اسے بہت پسند کیا ہے بلکہ بعض ہم قلم بھی کبھی کبھار اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ چلتے چلتے یہ انکشاف بھی کہ میں چند برسوں سے رعشہ کے مرض میں مبتلا ہوکر صاحبِ فراش ہوں اور اس کے بعد آنکھوں کے آپریشن کی وجہ سے بینائی سے بھی محروم ہوچکا ہوں اور لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں ہوں لیکن اِس کے باوجود اپنی دست ِ راست بیٹی مَہ وش فاروقی نے اپنی بھرپور اعانت سے مجھے اس محرومی کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔میں بولتا ہوں اور وہ قلم بند کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے تندرست و توانا رکھے۔ (آمین)
آپ سے گزارش ہے کہ ہمارے حق میں دعائے خیر فرمائیں۔میری کوشش اور خواہش ہے کہ ایکسپریس کے ساتھ میرا تعلق تادمِ آخر قائم رہے۔اِن شاء اللہ۔
یہ چند برس کی بات نہیں
چوتھائی صدی کا قصّہ ہے
دن اور تاریخ تو ٹھیک سے یاد نہیں مگر یہ 1998 کا واقعہ ہے جب ایکسپریس کو نکلے ہوئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کل کی بات ہو۔جب ایک خوشگوار شام کو ایکسپریس کے ایڈیٹر اور مایہ ناز صحافی اور اپنے پیارے دوست نیّر علوی(خُلد آشیانی) سے اُن کے دفتر میں خوشگوار اور یادگار ملاقات ہوئی تھی۔حسب معمول چائے سے تواضع کی۔
اُس وقت وہ بہت اچھے موڈ میں تھے اور جس کے آثار اُن کے چہرے پر نمایاں تھے۔آغازِ گفتگو اِن الفاظ سے ہوا''ایک چیلنج درپیش ہے کیا آپ اسے قبول کریں گے؟ '' ''نیّر بھائی زندگی تو بجائے خود ایک چیلنج ہے۔ فرمائیے! کیا ہے؟'' یہ کہہ کر میں چپ ہوگیا اور وہ مسکرا کر گویا ہوئے ''اس اخبار کی بھاری ذمے داری میرے کندھوں پر ہے۔
کیا آپ شیئر کریں گے؟'' ''میں سمجھا نہیں آپ فرمائیں'' میں نے جواباً استفسار کیا۔انھوں نے کہا ''آپ کو ہمارے لیے کالم لکھنا ہے'' ''نیّر بھائی آپ کی بات میرے لیے حکم کا درجہ رکھتی ہے''میں نے مسکراتے ہوئے کہا اور وہ دن اور آج کا دن ہے کہ میں ایکسپریس کے ساتھ مسلسل وابستہ ہوں اور عہد و پیماں کے اِس سلسلہ کو ہر قیمت اور ہر حالت میں بدستور قائم رکھے ہوئے ہوں۔''اخبار کی پالیسی؟ '' ''اس سوال کی کوئی ضرورت نہیں آپ ریڈیو والے ہیں۔
آپ خود بہتر جان سکتے ہیں''اُن کے چہرے پر اطمینان اور خوشی کے آثار صاف نظر آرہے تھے اور ''کالم کے موضوعات؟''میرا دوسرا سوال تھا۔''آپ کو کھلی آزادی ہے جو چاہیں لکھیں بس شرط صرف یہ ہے کہ قارئین کے لیے دلچسپ ہو اور اخبار کے حق میں بہتر ہو''بس اِسی پر گفتگو ختم ہوگئی۔
شروع شروع میں یہ ہوا کہ میں نے ہفتہ میں ایک سے زیادہ بلکہ دو تین کالم بھی لکھے اور پھر اس کے بعد دیگر لوگ اس کارواں میں شامل ہوتے چلے گئے۔بقولِ مجروحؔ سلطانپوری:
میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا
اِس کارواں میں کچھ نئے لوگ اور بعض دوسرے اخبارات کو چھوڑ کر جوائن کرنے والے کالم نگار بھی شامل تھے۔ موجودہ صورتحال یہ ہے کہ نئے پرانے سبھی اِس کارواں کا حصہ ہیں البتہ کچھ پیارے داغِ مفارقت دے گئے اور اپنی ناقابلِ فراموش یادیں چھوڑ گئے:
جیون کے سفر میں راہی ملتے ہیں بچھڑ جانے کو
اور دے جاتے ہیں یادیں تنہائی میں تڑپانے کو
ایکسپریس کے اس حسین گلشن میں طرح طرح کے خوبصورت اور رنگارنگ پھول شامل ہیں جن کی مہک الگ الگ اور ایک سے بڑھ کر ایک ہے۔
اللہ تعالیٰ اِس گلشن کو سدا بہار رکھے اور اِس کے حسن و جمال میں اضافے پر اضافہ ہوتا رہے۔نیّر بھائی نے جب یہ پودا لگایا تھا تو اُس وقت یہ ننھا منا سا تھا اور اب ماشاء اللہ یہ بڑا ہوتے ہوتے ایک تناور درخت بن چکا ہے۔مجھے فخر ہے کہ اِس کی آبیاری میں میرا ہاتھ بھی شامل ہے۔
ابھی تھوڑا عرصہ باقی ہے جب پچیس سال پورے ہوجائیں گے۔ انتظامیہ کے لیے مجھ ناچیز کی یہ تجویز ہے کہ سِلور جوبلی کا ایک شاندار جشن منایا جائے جس میں اِس کمترین کو بھی شامل رکھا جائے کیونکہ بحیثیت کالم نگار یہ میری بھی سِلور جوبلی ہوگی کیونکہ ایکسپریس اور میں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چل رہے ہیں اور ہم قدم ہیں اور اتنا پرانا ساتھ شاید کسی اور کالم نگار کا نہیں۔نیا اخبار نکالنا کوئی ہنسی کھیل نہیں کیونکہ دوسرے کئی اخبار میدانِ صحافت میں اپنی جگہ بنا چکے تھے۔''وقت کم اور مقابلہ سخت ہے۔''یہ علوی صاحب کا کہنا تھا جو بالکل بجا تھا لیکن اگر عزمِ محکم ہو تو کوئی کام ناممکن نہیں۔
مشکلیں نیست کہ آساں نہ شود
مرد باید کہ ہراساں نہ شود
نیّر علوی صاحب کو اپنی خوداعتمادی اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی پر کامل یقین تھا اور اخبار کی انتظامیہ کو نیّر بھائی کی صلاحیتوں پر پورا بھروسہ تھا۔
ہمتِ مرداں مددِ خدا
چناچہ ایکسپریس نکلا اور دیکھتے ہی دیکھتے مقبول سے مقبول تر ہوتا گیا اور آج اِس کا شمار صف ِ اوّل کے اخبارات میں ہوتا ہے اور اس کا اپنا ایک منفرد مقام ہے۔
نیّر بھائی کو میں نے یہ واقعہ بھی سنایا تھا کہ جب میرے عزیز دوست اور جانے مانے قلم کار شکیل عادل زادہ بیمثل ڈائجسٹ''سب رنگ'' کی اشاعت کا بیڑا اٹھا رہے تھے تو باتوں باتوں میں میں نے اُن سے کہا تھا کہ:''شکیل بھائی! ڈائجسٹوں کی بھرمار میں آپ کے ڈائجسٹ کا بھلا کیا ہوگا؟''
انھوں نے عزمِ محکم کے ساتھ یہ فرمایا تھا کہ ''نہیں ایسا نہیں، ابھی ایک ڈائجسٹ کی گنجائش موجود ہے جو تمام ڈائجسٹوں سے بہتر اور منفرد ہو۔'' سو یہی بات ایکسپریس کے بارے میں بھی کہی جاسکتی ہے اور واقعتاً ہوا بھی یہی۔قارئین نے ایکسپریس کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔
آج عالم یہ ہے کہ ایکسپریس پاکستان کے گیارہ شہروں سے بیک وقت شایع ہورہا ہے جن میں لاہور، کراچی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ،ملتان، فیصل آباد، گوجرانوالہ، سرگودھا، رحیم یار خان اور سکھر شامل ہیں۔اِس کے قارئین کی تعداد بہت بڑی ہے جس میں روز بروز اضافہ ہورہا ہے۔
ایکسپریس کو جوائن کرتے وقت میں نے عہد کیا تھا کہ جو کچھ لکھوں گا وہ قلم برداشتہ ہوگا اور میں اپنے اس عہد پر آج تک قائم ہوں۔ میں نے یہ عہد بھی کیا تھا کہ نہ کبھی کسی کی طرفداری کروں گا اور نہ کسی کی مخالفت۔الحمد للہ میں اپنے اس عہد پر قائم ہوں۔ اِس وقت مجھے بھگت کبیر داس کا یہ خوبصورت دوہا یاد آرہا ہے:
کبیرا کھڑا باجار میں مانگت سب کی کھَیر
نہ کاہُو سے دوستی نہ کاہُو سے بَیر
مطلب کبیر بازار کے بیچوں بینچ کھڑا ہوا ہے اور سب کی خیر مانگ رہا ہے، نہ کسی سے دوستی ہے اور نہ کسی سے دشمنی۔ میرے اب تک 1000 سے زائد کالم چھپ چکے ہیں اور اس تمام عرصہ میں میں نے کبھی ضمیر فروشی اور قلم فروشی نہیں کی۔
یہ بات بھی کچھ کم قابل ذکر نہیں کہ ایکسپریس کی اس چوبیس سالہ طویل رفاقت کے دوران کبھی کوئی بدمزگی یا رکاوٹ پیش نہیں آئی۔افراد کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑا بلکہ ہم آہنگی میں اضافہ ہی ہوا ہے۔
میری کوشش یہی رہی کہ اپنے کالموں میں تنوع اور تازگی برقرار رکھنے کے لیے مختلف موضوعات پر قلم اٹھایا جائے۔ ایک اور بات یہ کہ میں نے اپنی کالم نگاری کا آغاز ایک مختلف اسلوب اور اندازِ بیاں سے کیا جس کے حوالہ سے مرزا غالبؔ کا یہ مقطع پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔
ہیں اور بھی دنیا میں سخنور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالبؔ کا ہے اندازِ بیاں اور
مجھے یہ کہتے ہوئے بہت خوشی محسوس ہو رہی ہے کہ اسے بہت پسند کیا ہے بلکہ بعض ہم قلم بھی کبھی کبھار اسے اختیار کر لیتے ہیں۔ چلتے چلتے یہ انکشاف بھی کہ میں چند برسوں سے رعشہ کے مرض میں مبتلا ہوکر صاحبِ فراش ہوں اور اس کے بعد آنکھوں کے آپریشن کی وجہ سے بینائی سے بھی محروم ہوچکا ہوں اور لکھنے پڑھنے کے قابل نہیں ہوں لیکن اِس کے باوجود اپنی دست ِ راست بیٹی مَہ وش فاروقی نے اپنی بھرپور اعانت سے مجھے اس محرومی کا احساس تک نہیں ہونے دیا۔میں بولتا ہوں اور وہ قلم بند کرتی ہے۔ اللہ تعالیٰ اُسے تندرست و توانا رکھے۔ (آمین)
آپ سے گزارش ہے کہ ہمارے حق میں دعائے خیر فرمائیں۔میری کوشش اور خواہش ہے کہ ایکسپریس کے ساتھ میرا تعلق تادمِ آخر قائم رہے۔اِن شاء اللہ۔