ضمنی انتخابات کے نتائج ایک سیاسی تجزیہ
یہ سمجھنا ہوگا کہ ملتان کی سیٹ جیتنے سے کوئی جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی بحال نہیں ہوئی
ضمنی انتخابات کے نتائج سب کے سامنے ہیں۔ عمران خان نے چھ سیٹیں جیت لی ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اس جیت نے بھی خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ ان چھ سیٹوں پر عمران خان کی جیت بھی ان کے لیے خطرہ ہی ہے۔
اس کی ایک مثال یہ ہے کہ لاہور سے 2018کے انتخابات میں عمران خان نے سیٹ جیتی۔ انھوں نے خواجہ سعد رفیق کو شکست دی۔ تا ہم جیتنے کے بعد انھوں نے جب یہ سیٹ چھوڑی تو ضمنی انتخابات میں خواجہ سعد رفیق نے تحریک انصاف کو ہرا دیا۔
اس لیے عمران خان جتنے کم مارجن سے یہ سیٹیں جیتے ہیں۔ وہ اگر اب ان سیٹوں پر اپنا ٹکٹ کسی کو بھی دیں گے تو عین ممکن ہے کہ وہ یہ سیٹیں ہار جائیں ۔ اگر عمران خان نے اپنے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروائی ہوتیں تو ہم کہہ سکتے تھے کہ وہ اب دوبارہ کھمبے کو بھی ٹکٹ دیں گے تو وہ جیت جائے گا۔ لیکن عمران خان کی جیت بتا رہی ہے کہ وہ یہ سیٹیں دوبارہ ہار بھی سکتے ہیں۔
اب تحریک انصاف خود کہہ رہی ہے کہ اگر ملتان میں بھی عمران خان خود کھڑے ہوتے تو تحریک انصاف جیت سکتی تھی۔ عمران خان خود نہیں کھڑے تھے اس لیے شاہ محمود قریشی کی بیٹی بھی ہار گئی ہیں۔ ایسے میں میرا سوال ہے کہ یہ کیا انتخابی حکمت عملی ہے جہاں بھی عمران خان خود نہیں کھڑے ہونگے کسی کو ٹکٹ دیں گے وہ سیٹ آپ ہار جائیں گے۔
تین سو سیٹوں پر عمران خان خود نہیں کھڑے ہو سکتے۔ وہ ایک سیٹ پر ہی ممبر بن سکتے ہیں۔ باقی سیٹوں پر انھیں بہرحال امیدوار کھڑے کرنے ہیں۔ اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ان کے سوا ان کی جماعت میں کوئی بھی نہیں جو سیٹیں جیت سکے تو یہ کوئی جیت نہیں بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔ پھر عمران خان کوئی بڑی لیڈ سے بھی نہیں جیتے ہیں۔
اگر غیر معروف امیدوار بھی ان کا بھر پور مقابلہ کر سکتے ہیں تو پھر یہ کیا جیت ہے۔ عمران خان کی مقبولیت کے دعویداروں کو سمجھنا ہوگا مقبولیت کے امتحان میں وہ پاس نہیں ہوئے ہیں۔ مقبولیت کی نشانی جیت کا مارجن ہوتا ہے۔ آپ مردان میں دیکھیں آپ ننکانہ میں دیکھیں وہاں عمران خان کتنے کم مارجن سے جیتے ہیں۔
پیپلزپارٹی جیت کے جشن منا رہی ہے۔ لیکن پیپلزپارٹی کو سمجھنا ہوگا کہ ملتان کی جیت ن لیگ کی مرہون منت ہے۔ یہ سیٹ ن لیگ کی ہے۔ اس وقت کے اتحاد کی وجہ سے ن لیگ نے پیپلزپارٹی کو دی ہے، اگر ن لیگ کے عبد الغفار ڈوگر کھڑے ہوتے تو وہ زیادہ مارجن سے جیتتے۔ پیپلزپارٹی شاید اگلی دفعہ یہ سیٹ نہیں جیت سکے گی۔
کراچی کی سیٹ پیپلزپارٹی نے جیتی ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا ہوگا کہ ملتان کی سیٹ جیتنے سے کوئی جنوبی پنجاب میں پیپلزپارٹی بحال نہیں ہوئی۔ وہ اب بھی وہاں ن لیگ کے محتاج ہی ہیں۔ کراچی میں جیت یقینی طور پر جیت ہے۔ پھر عمران خان صرف کراچی میں ہی انتخاب لڑ رہے تھے جہاں ان کی صوبائی حکومت نہیں تھی۔
کے پی اور پنجاب میں ان کی صوبائی حکومتیں موجود تھیں۔ اس لیے کراچی میں وہ سیٹ ہار گئے ہیں۔ کیا اگر پنجاب اور کے پی میں بھی ان کی حکومتیں نہ ہوتیں تو وہ یہ کم مارجن والی سیٹیں جیت سکتے تھے۔
جہاں تک ایم کیو ایم کی بات ہے تو ان کا ووٹر باہر نہیں نکل رہا۔ وہاں عمران خان نے بھی کوئی زیادہ ووٹ نہیں لیے لیکن ایم کیو ایم کا ووٹر بائیکاٹ کے اثر میں لگ رہا ہے۔ پنجاب اور کے پی کی نسبت کراچی میں ووٹ کم کاسٹ ہوئے ہیں۔ اسی لیے جیتنے اور ہارنے والے دونوں کے ووٹ کم ہیں۔ لیکن ایم کیو ایم کا ووٹر تحریک انصاف کو ووٹ نہیں ڈال رہا۔ وہ گھر سے ہی نکل رہا۔ لندن کی بائیکاٹ کی کال زیادہ موثر نظر آرہی ہے۔
کے پی میں عمران خان کی دس سال سے حکومت ہے۔ لیکن مرادن میں مقابلہ سخت ہوا ہے۔ پشاور کی سیٹ عمران خان آسانی سے جیتے ہیں۔ چارسدہ میں بھی عمران خان کو مشکل نہیں ہوئی ہے۔ جے یو آئی کی کارکردگی اے این پی سے اچھی رہی ہے۔
اے این پی اگر پشاور میں بھی جے یو آئی کو لڑنے دیتی تو شاید بہتر تھا۔ کیونکہ جے یو آئی نے بلدیاتی انتخابات میں پشاور کے سٹی میئر کی سیٹ بھی جیتی تھی، لیکن اے این پی کے خود لڑنے کا فیصلہ درست ثابت نہیں ہوا۔ غلام بلور بہت بوڑھے ہو گئے ہیں۔
پنجاب میں بہت بات ہو رہی ہے۔ ن لیگ پر بہت تنقید ہو رہی ہے۔ عمران خان نے پنجاب کی دو سیٹیں فیصل آباد اور ننکانہ سے جیتی ہیں۔ ننکانہ میں مسلم لیگ (ن) کی ڈاکٹر شذرہ منصب نے عمران خان کے مقابلہ میں 78ہزار ووٹ لیے ہیں۔
اسی طرح عابد شیر علی نے بھی 75ہزار ووٹ حاصل کیے ہیں۔ عمران خان کے مقابلے میں یہ د ونوں غیر معروف امیدوار تھے۔ پھر ن لیگ نے کوئی انتخابی مہم بھی نہیں چلائی۔ کوئی جلسہ نہیں کیا۔ مریم نواز انتخابات سے قبل لندن چلی گئیں۔ حمزہ شہباز بھی میدان میں نہیں آئے۔ باقی ن لیگ کی قیادت حکومت میں ہے۔
اس لیے وہ انتخابی مہم میں شریک نہیں ہو سکتے تھے۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ ان ضمنی انتخابات میں ن لیگ نے کوئی مہم نہیں چلائی۔ بلکہ امیدواران کو بے آسرا عمران خان کے سامنے چھوڑ دیا۔پھر بھی ان امیدواران نے اچھے ووٹ لیے ہیں۔
پنجاب کی ان دو نشستوں کو سامنے رکھ کر یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ ن لیگ کا پارٹی ووٹ بینک ابھی قائم ہے۔ اگر صوبائی اسمبلی کے نتائج کو بھی سامنے رکھا جائے تو بھی ن لیگ کا ووٹ بینک قائم ہے۔ مسئلہ یہی ہے کہ ن لیگ نے بطور ایک سیاسی جماعت ان ضمنی انتخابات میں حصہ ہی نہیں لیا۔ان کی قیادت نے کوئی مہم نہیں چلائی۔
اس لیے یہ چھوٹا مارجن ایک موثر انتخابی مہم سے ختم ہوسکتا ہے۔ کوئی ایسا بڑا مارجن نہیں ہے کہ ہم کہہ سکیں کہ یہ ختم نہیں ہو سکتا۔ فلوٹنگ ووٹ کا مارجن ہے۔
ویسے بھی مہنگائی کی وجہ سے ایک اثر ہے۔ اس لیے جو لوگ ان انتخابی نتائج کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے لیے بہت خطرناک کہہ رہے ہیں وہ دیگر حقائق کو بھی سامنے ر کھیں۔ اگر عمران خان یہ دونوں سیٹیں خالی کر دیں تو پھر اگر وہ اپنے لوگوں کو ٹکٹ دیں گے تو کیا ہوگا۔ کیا تحریک انصاف کے عام امیدوار یہ سیٹیں جیت سکتے ہیں۔
ضمنی انتخابات عام انتخابات نہیں تھے۔ یہ طے ہوگیا ہے کہ پنجاب میں ابھی بھی ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان ہی معرکہ ہے۔ ن لیگ کا ووٹ بینک ابھی موجود ہے۔ وہ جیت کے لیے کافی ہے۔ صرف پارٹی کو مہم چلانے کی ضرورت ہے۔
عمران خان کے جلسوں کے مقابلہ پر جلسے کرنے ہونگے۔ کچھ پیسے خرچنا ہونگے۔ کہیں نہ کہیں محسن رانجھا کی بات میں وزن ہے کہ نواز شریف کی واپسی سے مسلم لیگ (ن) کی صورتحال بدل جائے گی۔ موجودہ صورتحال ن لیگ کے لیے کافی مشکل ہے۔ اس صورتحال میں اس قدر ووٹ کوئی عام بات نہیں۔
حالیہ ضمنی انتخابات کے نتائج سے حکومت کی پارلیمان میں دو سیٹیں بڑھی ہیں۔ تحریک انصاف اگر پارلیمان میں واپس جانے کا ارادہ کرے تو اس کی دو سیٹیں کم ہو گئی ہیں۔ اس لیے یہ ضمنی انتخابات حکومتی اتحاد کے لیے کوئی مکمل نقصان نہیں رہا۔ دو سیٹوں کے اضافہ سے حکومتی اتحاد بہتر پوزیشن میں آگیا ہے۔ عمران خان ساری سیٹیں رکھ نہیں سکتے۔
انھیں یہ جیتی ہوئی تمام سیٹیں خالی کرنی ہیں۔اسپیکر ایک ماہ میں یہ سیٹیں خالی ہونے کے حوالے سے رولنگ دیں گے۔جس کے بعد ان چھ سیٹوں پر دوبارہ انتخابات ہونگے۔
اس لیے اگر عمران خان ملک میں قبل از وقت انتخابات نہیں کروا سکتے تو پھر یہ جیت کوئی جیت نہیں۔ اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یہ جیت ضایع ہو جائے گی۔ بلکہ اگر عمران خان کسی موقع پر کوئی عدم اعتماد لاسکتے تھے تو وہ خطرہ بھی ختم ہوگیا۔ انھوں نے پارلیمان میں اپنی چھ سیٹیں کم کر لی ہیں۔ اس لیے سیاست میں جیت میں ہار اور ہار میں جیت ہوتی ہے۔ یہی سیاست کا حسن ہے۔