پاک بھارت تعلقات کی پیچیدگیاں

بھارت سمجھتا ہے کہ مذاکرات اور تعلقات کی بہتری پاکستان کی مجبوری ہے

salmanabidpk@gmail.com

پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کے تناظر میں موجود ڈیڈ لاک یا بداعتمادی کا ماحول صرف دونوں ممالک کے لیے ہی نہیں بلکہ خطہ کی مجموعی سیاست کے لیے بھی کئی طرح کے خطرات کی نشاندہی کرتا ہے ۔

کیونکہ اگر اس خطہ نے ترقی ، امن اور باہمی سیاسی و معاشی کی بنیاد پر آگے بڑھنا ہے تو اسے پاک بھارت تعلقات کی بہتری درکار ہے۔ لیکن یہ بہتری اسی صورت میں ممکن ہوسکتی ہے جب دونوں اطراف کی جانب سے اعتماد سازی اور ایک دوسرے کے ساتھ مل بیٹھ کر مختلف تنازعات کا باہمی حل تلاش کیا جائے ۔

بھارت خطہ میں ایک بڑا جمہوری ملک ہے اور اگر وہ خود بھی سیاسی ڈیڈ لاک کو اپنی سیاسی ترجیحات کا حصہ بنا کر معاملات کو حل کرنے سے دست بردار ہو جائے تو یہ مسئلہ حل نہیں ہوسکے گا۔

یہ ذمے داری پاکستان پر بھی ہے کہ وہ پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں جو بھی مسائل ہیں ان کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرے ۔لیکن بڑی ذمے داری بھارت پر بھی عائد ہوتی ہے کہ وہ '' موجودہ ڈیڈ لاک '' کو ختم کرے اور مسائل کو بات چیت یا دو طرفہ تعاون کے ساتھ حل کرنے کی کوششوں میں کلیدی کردار ادا کرے ۔

پاک بھارت تعلقات میں مسائل زیادہ گہرے اور پیچیدہ بھی ہیں اور سب سے بڑھ کر اعتماد سازی کا ماحول پیدا کرنا بنیادی ترجیح ہونی چاہیے ۔پچھلے دنوں Institute of Peace and Connectivity جو خطہ کی مجموعی سیاست میں ایک بڑے تھنک ٹینک کے طور پر کام کررہا ہے، نے ''انڈو پیسیفک حکمت عملی کے تناظر میں پاک بھارت تعلقات '' پر ایک بڑی فکری مجلس کا اہتمام کیا ۔

اس فکری نشست کے اہم مقرر جنوبی ایشیا کے امور کے ماہر اور پاک بھارت پر لکھی جانے والی متعدد کتابوں کے اہم مصنف پروفیسر کرسٹوف یعفریلوٹ تھے۔ وہ پیرس یونیورسٹی میں سینٹر فار اسٹڈیز بین الاقوامی تعلقات میں ریسرچ کے سربراہ ، کنگز کالج لندن میں بھارتی سیاست اور سوشیالوجی کے پروفیسراور کارنیگی اینڈومنٹ فار انٹرنیشنل پیس میں اہم اسکالر ہیں ۔

ان کی اہم کتابوں میں موڈیز انڈیا:ہندو نیشنلزم اینڈ دی رائز آف ایتھنک جمہوریت، دی پاکستان پیراڈوکس :عدم استحکام اور مزاحمت کی صلاحیت سمیت کئی دیگر کتب شامل ہیں۔ اس اہم تھنک ٹینک کے سربراہ پاکستان کے سابق وزیر خارجہ ، ممتاز دانشور، سیاست دان ،کئی کتابوں کے مصنف خورشید محمود قصوری ہیں۔


خورشید محمود قصوری کے بقول ان کو پختہ یقین ہے کہ ہمارے دور میں یعنی جنرل مشرف کے دور میں مسئلہ کشمیر کے حل کے لیے بنایا جانے والا فریم ورک تنازعہ جموں کشمیر کے حل کا واحد قابل عمل حل فراہم کرتا ہے ۔

فرانسیسی پروفیسر کرسٹو جعفریلوٹ کے بقول پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں تمام تر ناامیدی اور نامساعد حالات کے باوجود بہتری کی امید ہی وہ کام ہے جو ہمیں ہر سطح پر کرتے رہنا چاہیے ۔امریکی انڈو پیسیفک اسٹرٹیجی میں بھارت کی شمولیت پر ان کا کہنا تھا کہ انڈو پیسیفک میں بھارت کی موجودگی اصل محور چین کا خطہ میں بڑھتا ہوا اثر رسوخ تھا ۔

چین کی جانب سے دی جانے والی دھمکی ہی اس کی اصل وجہ بنی۔ روڈ اینڈ بیلٹ انیشیٹو کے آغاز اور بھارتی پڑوس میں چین کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے بعد بھارت کے بڑھتے ہوئے خدشات واضح ہوگئے تھے۔

مغرب کی ترجیح ہے کہ مسئلہ کشمیر اور دیگر مسائل باہر کے دباؤ کے بجائے بھارت کے اندر سے ان مسائل کے حل کے لیے آوازیں اٹھیں ۔

بھارت سمجھتا ہے کہ مذاکرات اور تعلقات کی بہتری پاکستان کی مجبوری ہے اور یہ ہی وجہ ہے کہ وہ بھارت پر دباؤ ڈالنے کے لیے عالمی توجہ بھی چاہتا ہے ۔ اسی بنیاد پر پاکستان معاملات کو بہتر بنانے میں تیسرے فریق کی بھی حمایت کرتا ہے ۔

مودی سمیت ان کے سخت گیر راہنما کوئی بھی سیاسی لچک دکھانے کے لیے تیار نہیں اور وہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اپنی جماعت کے مفاد میں پاکستان مخالف پالیسی کو ہی جاری رکھنا ہوگا ۔

لیکن اس کے باوجود دونوں ممالک میں موجود امن پسندوں کو حالات سے گھبرانے کے بجائے تعلقات کی بہتری کی نہ صرف آوازیں اٹھاتے رہنا چاہیے بلکہ ان کو اس نقطہ پر ہی زور دینا چاہیے کہ دونوں ممالک کے بہتر تعلقات ان ممالک کے ساتھ ساتھ خطہ کی سیاست پر مثبت براہ راست اثر دونوں ممالک کے عوام کے مفاد میں ہوگا۔
Load Next Story