23مارچ اور ہم

تا حد نگاہ لوگ تھے،ایک جوش تھا،دبا دبا جنون جو لہو میں دوڑ رہا تھا،آنکھوں میں آنسو تھے،ساتھ کھڑے۔۔۔


اری تاریخ بھی تاریخ قیام پاکستان کے شہیدوں اور جانثاروں کی طرف سے کبھی آنکھیں بند نہیں کر سکتی. فوٹو: فائل

تا حد نگاہ لوگ تھے،ایک جوش تھا،دبا دبا جنون جو لہو میں دوڑ رہا تھا،آنکھوں میں آنسو تھے،ساتھ کھڑے لوگوں سے کوئی خونی رشتہ نہیں تھالیکن پھر بھی وہ سب ایک ہی احساس کی مالا میں پروئے ہوئے لوگ تھے ان سب کے دل ایک تھے اور ان کی زبان صرف ایک ہی نعرہ بلند کر رہی تھی۔
''لے کے رہیں گے پاکستان
بن کے رہے گا پاکستان''

ان لوگوں کی کوئی زمین نہیں تھی اور اسی زمین کے حصول نے انہیں ایک کر دیا تھا۔اس قوم کا بس ایک قائد تھا اور وہ جو کہتا اسے منوانا بھی جانتا تھا۔ایک اُبلتا ہوا لاوا جو پھٹنا چاہتا تھا۔یہ دن یہ وقت جسے تمام دنیا نے ایک خواب سے تعبیر میں ڈھلتے دیکھا، وہ دن وہ وقت 23مارچ1940ء تھا۔جب نہ کوئی سندھی تھا،نہ کوئی بلوچی اور نہ ہی کوئی پنجابی تھا۔جب کہ اس جلوس میں بنگالی بھی شامل تھے وہ سب صرف مسلمان تھے،ایک خدا کو ماننے والے۔

23مارچ1940ء کو لاہور میں مسلمانوں کیلئے ایک الگ وطن کے حصول کیلئے قرارداد پیش کی گئی اور جسے متفقہ فیصلے سے منظور کر لیا گیا۔ جس میں بہت واضح الفاظ میں یہ کہہ دیا تھا۔

'' آل انڈیامسلم لیگ کے اس اجلاس کی یہ متفقہ رائے ہے کہ اس ملک میں اس وقت تک دستوری خاکہ قابل عمل یا مسلمانوں کیلئے قابل قبول ہو گا جب تک وہ درج ذیل اصولوں پر مرتب نہ کر لیا جائے۔یعنی جغرافیائی لحاظ سے ملحقہ علاقے الگ خطے بنا دیئے جائیں اور ان میں جو علاقائی ترمیمیں ضروری سمجھی جائیں نہ کر لی جائیں تاکہ ہندوستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں جن علاقوں میں مسلمانوں کی اکثریت ہے وہ یکجا ہو کر ایسی آزاد ریاستیں بن جائیں جو خود مختار اور مقتدر ہوں۔قہقوں کا اک شور تھاجو دیوانوں کے اس خواب پر ہنس رہا تھا۔پھرہندو پریس اس قرارداد کو قراردادپاکستان لکھنا شروع کر دیا اور یہ اصطلاح مسلمانوں کو اس قدر پسند آئی کہ آج اسے قرارداد پاکستان کے خطاب کے ساتھ تاریخ میں مسترد حثیت حاصل ہے۔

قرارداد پاکستان کو تاریخ برصغیر میں نہیں تاریخ عالم میں بھی ایک اہم سنگ میل حاصل ہے۔یہ واحد قرارداد تھی جو 6کروڑ مسلمانِ ہند کی تھی جو ایک آزادی اور ایک آزاد اسلامی مملکت کے قیام کا باعث بنی۔اس قرارداد سے اسلامیانِ ہند کی منتشر افرادی قوت اور ذہنی صلاحتیں بیدارو مستحکم ہوئیں اور 1945-46ء کے انتخابات میںمسلم لیگ کو تاریخی اکثریت حاصل ہوئی۔

پاکستان کیلئے اس قرارداد کی اتنی کی اہمیت ہے جتنا کہ کسی بھی کتاب کو پیش کرنے سے پہلے اس کے ٹائٹل کو اہمیت دی جاتی ہے۔سات سال میں جب یہ لاوا پک کر تیا ر ہوا تودنیا کے نقشے پر پاکستان نام کی زمین کو اُبھارا گیا۔لوگ آزادی کی خوشی میں سب کچھ بیچ کر جانیں گنوا کر سب اس زمین پر پہنچے تو دنیا نے بھائی چارے کی ایک اور مثال قائم ہوتے دیکھی۔آج اس جگہ اس یاد کیلئے مینار پاکستان قائم ہے۔ پاکستان قائم ہوا توشاید لوگوں کے ساتھ ساتھ قائد اعظم نے بھی یہی سوچا ہو گاکہ جنگ کسی حد تک ختم ہوگئی ،لوگ آزاد ہو گئے ،ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو گا،ہر طرف ایک آواز ہو گی ہم پاکستانی ہیں۔لیکن شاید اس لمحوں میں آسمان ہنسا ہو گا اور اس کی یہ ہنسی آج پاکستان کے ہر درو دیوار سے ٹکراتی محسوس ہو رہی ہے۔

کل تک جو لوگ پاکستان کی خاطر مر رہے تھے وہ آج پاکستان کے حصول کو غلط ٹھہرا رہے ہیں۔ جو کل صرف پاکستانی تھی وہ آج سندھی،بلوچی ،پٹھان اور پنجابی ہیں۔آج پنجاب کی حکومت صرف پنجاب کی حکومت ہے۔بلوچستان میں کیا ہو رہا ہے ہم جانتے تک نہیں ،سندھ تھر پارکر میں بھوک اور علاج کی سہولیات نا کافی ہونے کی وجہ سے معصوم بچے مر رہے ہیں لیکن ہمیں ایک دوسرے پر الزا م تراشی سے فرصت ملے تو غریب عوام کی بہتری کیلئے کچھ سوچیں۔ہم نے بنگال کھو دیا پھر بھی ہماری آنکھیں نہیں کھلیں۔ہم ایک دوسرے کیلئے مرنے کی بجائے ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔مرنے والے اور مارنے والے ہم خود ہی ہیں۔لاشیں بھی ہماری ہیں لوگ بھی ہمارے ہیں۔ہر طرف جلوس اور اشتعال بھی ہمارا ہے، اس جلوس میںجلنے والی گاڑیاں اور لٹنے والی دکانیں بھی ہماری ہیں۔ہم خود ہی تماشائی ہیں،لیکن اس سب میںپاکستان کا کیا قصور ہے؟ہم اپنے ملک اپنی ہی پہچان کو گالی کیوں دے رہے ہیں؟آخر پاکستان صرف پاکستانیوں کا کیوں نہیں؟ہم نے میچ کی ہار جیت کو خود پر طاری کر لیا ہے مگر ذہنوں سے لپٹی غلامی کی زنجیروں میں ہم آج تک قید ہی ہیں۔تبھی ہمارے گھروں میں ''STAR PLUS'' تو چلتا ہے مگر محبت اور خلوص نہیں ملتا۔آج ہر صوبے کا مسئلہ بس اسی صوبے کا مسئلہ ہے ہمارا نہیں۔

پاکستان کا قیام اسی نشان منزل کا ثمر ہے جہاں سے ہم نے بابائے قوم قائد اعظم کی قیادت میں سفر شروع کیا تھا۔ایک پولش(Polish) مفکر اسٹیز لاء نے چھٹی دہائی میں ایک عجیب بات کہی تھی۔
''آپ حقائق کی طرف سے تو آنکھیںبند کر سکتے ہیں لیکن یادیں نہیں مٹا سکتے''

ہماری تاریخ بھی تاریخ قیام پاکستان کے شہیدوں اور جانثاروں کی طرف سے کبھی آنکھیں بند نہیں کر سکتی۔ پاکستان ایک اچھا اور خوبصورت ملک ہے جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا کی ہر نعمت سے نوازہ ہے لیکن افسوس آج کی تاریخ میں جو حالات پیدا ہو چکے ہیں اس سے پاکستان کے چاند ستاروں کی چمک تو مانند پڑی ہی پڑی ہم اپنی پہچان بھی کھوتے جارہے ہیں۔

حالانکہ پاکستان ہی ہماری پہچان اور ہماری اساس ہے۔قائد اعظم پاکستان کو دنیائے اسلام کی جدید ترین فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔جس میں ہر پاکستانی بلا تفریق آزادی کی فضاء میںسانس لے سکے اور ملک و قوم کی ترقی میںخود کو برابر کا شریک سمجھے۔نہ کیسی کو قلت تعداد کا احساس ہو نہ کثرت تعداد پر گھمنڈ۔یہ ارشادات قائد اعظم اور قرارداد مقاصد سے انحراف کا ہی نتیجہ ہے کہ جمہوریت کیلئے بنائے گئے پاکستان میں عموماََ مارشل لاء کا راج رہا ہے۔ لیکن قائد اعظم مسلمانوں کیلئے ایک ایسی ماڈرن ریاست کے خواہ تھے جہاں لوگ ہرشعبہ ہائے زندگی میں ہیرئے کی مانند چمکتے نظر آئیں۔آزادی کوئی جامد چیز تو ہے نہیںکہ چھوئی،چکھی یا سونگھی جا سکے یہ تو احساس ہے اور اس احساس کو تقویت بخشنے کا طریقہ معاشی انصاف،سماجی مساوات اور قومیت کے شعور کی پرورش ہے۔ایک دوسرے میں کیڑئے نکالنے،بولیوں اور لباس کے جھگڑوں ،علاقائی عصیت پھیلانے سے قوم اور ملک دونوں کو نقصان ہو گا۔

آج عالم کائنات میں انسان کہاں سے کہا ں پہنچ چکا ہے۔افسوس صد افسوس ہمارے پاس اتنے قدرتی وسائل ہونے کے باوجود آج ہم کچھوے کی چال چل رہے ہیں وہ بھی رک رک کر۔ ہر ادارہ لوٹ مار اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔قائد اعظم اور شہید ملت کے بعد قوم قد آور اور با اصول اور باکردار قائدین سے محروم ہو گئی ہے۔مارشل لاء کی پابندیوں نے کردار سازی کا سلسلہ ہی منطقہ کر دیا ہے۔حلا ل و حرام ،جائز و ناجائز کے امتیازات بے معنی ہو چکے ہیں۔سب پیسے کی دوڑ میں شامل ہیں۔پاکستان کو نمائشی اور فرمائشی قیادت کی نہیں بلکہ ایسی قیادت کی ضرورت ہے جس کی مثال بابائے قوم قائد اعظم نے پیش کی تھی۔ہمارا یہ ملک ،ہمارا گھر بار،مال و دولت اور عزت و وقار ہے۔کون ہے کہ جو یہ کہہ سکے میرا گھر سلامت ہے،وطن کی پرواہ نہیں ۔

آج پاکستانیوں کو تمام اقوام عالم میںدہشت گردی کا لیبل دیا جا رہا ہے مگر ہم پھر بھی بیرونی ممالک کی امداد ،اسکی ملازمتوں کے حصول کیلئے مر جا رہے ہیں۔ہم پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتے ہیں،کیونکہ اس نے ہمیں کچھ نہیں دیا۔لیکن ہم نے اسے کیا دیا؟ہم یہ جانا نہیں چاہتے۔پہلے پاکستان کے حصول کیلئے زمین تقسیم ہوئی تھی مگر آج خود پاکستانیوں کیلئے زمین سندھی،بلوچی،پٹھانی اور پنجابی کیلئے بٹ گئی ہے۔مینار پاکستان وہی ہے،وہیں ہے مگر اس پر چڑھتی یہ گرد یہ بتا رہی ہے کہ
'' جو قومیں اپنا ماضی اور اپنی تاریخ بھول جاتی ہیں تاریخ انہیں بھلا دیتی ہے ''

آج 23مارچ 1940ء کی تاریخ ہمیں یاد ہے نہ اسکی تاریخی حیثیت یہ رونے کا مقام نہیں تو کیا ہے؟

یقین کیجیئے ہمارا ملک ایک عظیم ملک ہے اور یہی عظیم ملک ہماری پہچان ،ہماری اساس ہماری محبت و عزت اور ہمارا سب کچھ ہے اس لیئے اس ملک کی قدرتی نعمتوں اور دوسری بے شمار خوبیوں کو مد نظر رکھ کر صرف اور صرف پاکستان کی ترقی کیلئے سوچیئے اور اسی کیلئے اپنا آپ وقف کر دیں۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 300 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں