سیلاب سیاست اور مہنگائی

ہمارے معاشرے میں آپسی تعلقات میں شدت کا عنصر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے


Editorial October 19, 2022
ہمارے معاشرے میں آپسی تعلقات میں شدت کا عنصر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے (فوٹو فائل)

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ سیلابی پانی کو نکالنے کے لیے تمام کاوشیں کی جارہی ہیں ، ہر متاثرہ خاندان میں پچیس ہزار روپے تقسیم کیے جا رہے ہیں، کھڑے پانی کی وجہ سے بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔

وزیراعظم ایک روزہ دورے پر بلوچستان کے متاثر علاقے صحبت پور پہنچے جہاں انھوں نے متاثرین کے لیے ریلیف اور بحالی کے کاموں کا جائزہ لیا۔

سیلاب زدگان کی بحالی کے سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف انتہائی متحرک اور فعال کردار ادا کررہے ہیں ، وہ تواتر کے ساتھ سیلاب سے متاثر ہ علاقوں میں جا رہے ہیں ، امدادی کاموں کی نگرانی کر رہے ہیں، بارشوں اور سیلاب کی وجہ سے مواصلات متاثر ہیں اور دور دراز علاقوں میں لوگوں کی حالت زار کے بارے میں جاننا یا ان کے لیے کسی قسم کی امداد کا سامان بہم پہنچانا ایک مشکل ترین مرحلہ ہے۔

پنجاب اور خیبر پختون خوا کی حکومتوں اور مرکزی حکومت کے درمیان تعلقات آئیڈیل نہیں ہیں۔ ادھر عمران خان نئے الیکشن وقت سے پہلے کرانے کے لیے لانگ مارچ کا عندیہ دے رہے ہیں ، ایسے موقع پر قومی یک جہتی میں واضح طور سے محسوس ہوتی دراڑیں نہ صرف بحالی کے کاموں میں مشکلات کا سبب بن رہی ہیں بلکہ عوام کی پریشانی اور بے یقینی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

اس وقت یہ ذمے داری صرف وزیر اعظم شہباز شریف یا دیگر حکومتی اہلکاروں پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ صوبائی اور مرکزی حکام کو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر قوم کو اس مشکل سے نکالنے کی کوشش کرنا ہوگی۔

بیان بازی سے قطع نظر قومی لیڈروں کو لمحہ بھر کے لیے ضرور غور کرنا چاہیے کہ قومی آفت پر سیاست کر کے وہ کون سے مقصد حاصل کر سکتے ہیں؟ اقتدار کی چاہ میں اختیار کیے گئے منفی طرز عمل کی حقیقت آج نہیں تو کل عوام کے سامنے عیاں ہو جائے گی۔ اس وقت جو بھی خود کو عوام کا دوست سمجھتا ہے، اسے تصادم کے بجائے مفاہمت اور انتشار کے بجائے اتحاد کے ذریعے موجودہ تباہ کاری سے عوام کو نکالنے کی بات کرنی چاہیے۔

پاکستان کو سیلاب کی شکل میں موجودہ شدید تباہی کا ایک ایسے وقت میں سامنا ہے جب معاشی حالات کی وجہ سے پاکستانی معیشت پہلے ہی شدید دباؤ کا شکار ہے۔ حکومت کو غیر ملکی قرض کی ادائیگی کے لیے کسی بھی طرح وسائل فراہم کرنے کی جدوجہد کرنا پڑ رہی ہے۔

ملک کو مہنگائی کی دلدل میں دھکیل دیا گیا ہے ، آٹا ، گھی ، تیل ، چاول ، دالیں ، سبزیاں غریب کی قوت خرید سے باہر ہوگئی ہیں۔

ملک تاریخ کی بلند ترین مہنگائی کے دور سے گذر رہا ہے ، بھوک و افلاس سے عوام مر رہے ہیں سیلاب زدگان کی حالت زار پر کسی کو رحم نہیں آرہا ، حکومت غریب کو ریلیف دینے اور مہنگائی و بے روزگاری کو کنٹرول کرنے میں مکمل ناکام ہوچکی ہے۔

یہ ہمارا قومی رویہ بن چکا ہے کہ ہم اپنی غلطیوں سے سبق سیکھنے کے بجائے اسے قسمت کا لکھا سمجھ کر سمجھوتے کر لیے جاتے ہیں۔

مجموعی طور پر ہماری بے حسی آسمانوں سے باتیں کر رہی ہے۔ اس وقت پاکستان کا بیشتر حصہ خوفناک سیلاب کی زد میں ہے۔ پاکستان کی بہت بڑی آبادی کا کل مال و متاع پانی میں بہہ چکا ہے۔ ہزاروں انسانی جانیں ضایع ہو چکیں۔ لاکھوں جانوروں کو پانی نگل گیا، پاکستان کی زراعت تباہ ہو گئی جس کے اثرات آنے والے دنوں میں بھگتنا پڑیں گے۔

پاکستان کو خوراک کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارا امپورٹ بل بڑھ جائے گا۔ زراعت اور دیہی صنعت سے وابستہ لوگ بے روزگار ہو چکے۔ سیلاب زدہ علاقوں کی ساری صنعت تباہ ہو گئی ہے مشینری پانی میں بہہ گئی یا چلنے کے قابل نہیں رہی۔

اس وقت ملک میں سب سے بڑا مسئلہ غربت کا ہے۔ غربت کی ایک اور وجہ کرپشن ہے، کرپشن کی ہمارے معاشرے میں مختلف اقسام ہیں جس کی وجہ سے نظام کا بنیادی ڈھانچہ بیرونی طور پر مضبوط مگر اندرونی ساخت کو دیمک چاٹ چکی ہے، کچھ لوگوں کا وسائل پر قبضہ کرنا اور عام مزدور طبقے کو متوسط رکھنا ہے۔

بھاری ٹیکسوں سے کچل کر بیروزگاروں کو غربت کی لکیر سے نیچے رہنے پر مجبور کر دیا جاتاہے۔ مزدور طبقہ اور عام آدمی کو بنیادی ضرورتوں سے محروم رکھا جاتا ہے۔ خصوصی طو ر پر صحت و علاج، پانی، انصاف کی فراہمی، مہنگائی، ملازمت، قرضوں کی فراہمی اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات پر بھی عدم دلچسپی کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں آپسی تعلقات میں شدت کا عنصر تیزی سے بڑھتا جا رہا ہے، ایک دوسرے پر سبقت کی دوڑ میں، ہر شخص اپنے مفاد کی خاطراپنی ضروریات کی تکمیل کے حصول کے لیے انسانی قدروں کو پامال کر رہا ہے، کوئی بھی ایک دوسرے کی مدد کے لیے تیار نہیں ہے، دولت کے نشے نے آخر میں ما دی ترجیحات کو انسانیت سے بلند کر دیا ہے، ہمارا اقتصادی نظام تباہ ہوکر رہ گیا ہے۔

اس عمل سے اجارہ داری جنم لے رہی ہے جو کہ معاشرے میں غربت کی ایک او ر وجہ ہے، زیادہ تر لوگ آمدنی کے جدید ذریعے سے واقف ہی نہیں، زیادہ تر لوگ جدید ٹیکنالوجی کو اپنے کاروباری ضروریات کے لیے اپنانے کے قابل ہی نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ کاروبار میں آمدنی کی کمی اور بین الاقومی معیار کے نتائج سامنے نہیں آتے۔ پاکستان کا کاروباری طبقہ محدود ہے، تعلیم کی کمی کے باعث نچلا طبقہ اور مزدور اپنے حقوق سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔

پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کی وجہ سے ملک کا بڑا حصہ پانی میں گھرا ہوا ہے، آنے والے کئی سال معیشت کو بہتر کرنے میں لگ جائیں گے، موسم سرما کے باعث صورتحال مزید خراب ہوسکتی ہے، سطح غربت سے نیچے پہلے ہی 8 کروڑ لوگ تھے جن میں اب مزید اضافہ ہوجائے گا۔ پاکستانی معیشت حالیہ سیلاب کی وجہ سے شدید معاشی اور انسانی بحران کا شکار ہے، ملکی معیشت کو مہنگائی، بیرونی مالی دباؤ اور غیر یقینی صورت حال کا سامنا ہے۔

موجودہ مالی سال معاشی شرح نمو ہدف سے کم رہنے کا امکان ہے، سیلاب کے باعث فصلیں متاثر ہوئی ہیں اور خوراک کے عدم تحفظ کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ مہنگائی کی وجہ خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ، سیلاب اور روپے کی قدر میں کمی ہے۔

معمولات زندگی کو برقرار رکھنے والی سرگرمیوں، مارکیٹس تک پہنچنے میں مشکلات اور سپلائی چین میں رکاوٹوں کے باعث چھوٹے کاروباری ادارے بھی متاثر ہوئے ہیں۔ دکانوں اور گوداموں میں بارش کا پانی بھر جانے سے کھانے پینے کا موجودہ ذخیرہ خراب ہو گیا ہے، نقصان زدہ اسٹاک میں 23فیصد کے ساتھ زیادہ تر گندم کے ذخائر شامل ہیں اور دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگوں کو خوراک کے شدید بحران کا سامنا ہے۔

اس وقت اصل نقصانات کا علم نہیں ہے۔ متاثرہ اور بے گھر خاندانوں کو بنیادی ڈھانچے کی مکمل تباہی کا سامنا ہے، پینے کا پانی دستیاب نہیں ہے۔ اشیائے خورونوش کی دستیابی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔

اگلے کئی سال ہمیں سیلاب کے اثرات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ بدقسمتی یہ کہ نہ ہمارے پاس لوگوں کو بچانے کی کوئی پلاننگ تھی نہ بحالی کی کوئی پلاننگ ہے۔ ہم ہر کام دکھاؤے کے لیے کرتے ہیں۔ ہیلی کاپٹروں پر فضائی جائزوں سے لوگوں کی مصیبتیں کم نہیں ہو سکتیں ، ہمیں زمین پر اترنا پڑے گا۔ لوگوں تک پہنچنا انھیں خوراک پہنچانا انھیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنا اصل کام ہے، سیلابی پانی کی وجہ سے بیماریوں کا جو سیلاب آنے والا ہے اس کی ہم نے کیا تیاری کی ہے۔

ہماری صوبائی حکومتیں مکمل تباہی کا انتظار کرتی ہیں۔ قبل از وقت اقدامات میں ہم مکمل فیل ہو چکے ہیں۔ اس کے بعد ریلیف کے کاموں کو ہم نے دکھاؤے تک محدود رکھا۔ اب جب سب کچھ ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اپنوں اور بیگانوں کو آوازیں دے رہے ہیں۔

سول سوسائٹی بھی میڈیا پر تباہی دیکھ کر متحرک ہوئی ہے۔ بین الاقوامی پابندیوں کے باعث ہم بہت اچھے کام کرنے والی فلاحی تنظیموں سے ہاتھ دھو چکے ہیں جن کا وسیع اور فعال نیٹ ورک تھا۔ ان کو کام نہیں کرنے دیا جارہا۔ حکومتوں پر لوگوں کو اعتماد نہیں کہ ان کے عطیات حق داروں تک پہنچتے بھی ہیں یا سیاسی جماعتوں کے کارکن کھا جاتے ہیں۔

پاکستان میں صرف ایک ہی منظم ادارہ ہے اور وہ فوج ہے جس کے جوان ملک بھر میں اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں ان کے پاس تربیت بھی ہے اور مشینری بھی ہے، ہمارا سول سیٹ اپ انتہائی بوسیدہ ہو چکا۔ سول ڈیفنس کا محکمہ ہم مفلوج کر چکے۔انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کسی سیاسی جماعت نے اپنے ورکرز کو فلاحی کاموں کی تربیت نہیں دی نہ ہی ان کی تنظیم سازی اتنی موثر ہے جن کے ذریعے ریلیف آپریشن چلایا جا سکے۔

ہماری پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں سے درخواست ہے کہ وہ ایسے موقع پر جب عوام پانی میں ڈوب رہے ہیں خدارا ٹانگیں کھینچنے والی سیاست کو کچھ عرصہ فریز کر دیں صرف اور صرف ریلیف کے کاموں پر توجہ دیں۔ آیندہ الیکشن میں سیاسی جماعتوں کو عوامی خدمت کی بنیاد پر ووٹ ملنے چاہئیں۔ حرف آخر حکومت کوچاہیے وہ ایسے موثر اقدامات کرے جوinflationکو جڑ سے اکھاڑ دیں اور کرنسی مستحکم ہو جائے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں