تعبیرکی تلاش
پاکستان اور کئی دیگر ملکوں میں عورتوں کے آگے نہ بڑھنے کی بنیادی وجہ جمہوریت کا نہ ہونا یا اس کے تسلسل کا فقدان ہے
سامی روایات کے مطابق روئے زمیں پر پہلا خواب حضرت حوا نے دیکھا تھا۔ عبرانی زبان میں ''حوا'' کے معنی ''حیات'' کے ہیں ، اگر اس روایت کو درست مان لیا جائے تو ہزاروں برس سے ان کی بیٹیاں اپنے اپنے زمانے میں باکمال اور بے مثال رہی ہیں۔
ان میں سے قبل مسیح کی چند وہ عورتیں ہیں جو کنیز سے ملکہ بنیں اور جنھوں نے اپنے آقاؤں کی تقدیر بدل ڈالی۔ ہم اشوک کو اشوک اعظم بنانے والی بندو متی سے ملتے ہیں۔ چوتھی صدی عیسوی کی ہپتاشیا ہے جو ریاضی، فلسفے اور سائنسی علوم میں اپنا ثانی نہیں رکھتی تھی۔
یہ ریاضی داں اور فلسفی ، عیسائیت کے ابتدائی برسوں میں سخت گیر عیسائیوں کے غیض و غضب کا شکار ہوئی۔ اسکندریہ کی اس بیٹی کو سنگسار کیا گیا، اس کی لاش گلیوں میں گھسیٹی گئی، نادر و نایاب کتابوں پر مشتمل اس کی لائبریری جلا دی گئی اور اس کے ایجاد کیے ہوئے سائنسی آلات توڑ دیے گئے۔
عہد نامہ قدیم میں ہمیں بہت سی ان عورتوں کا قصہ ملتا ہے جنھوں نے اپنے اپنے زمانوں میں اپنی ذہانت اور حسن کا سکہ جمایا، اسی طرح ہماری ملاقات ملکہ سبا سے ہوتی ہے۔ تاریخ کے صفحے ان عورتوں کے ذکر سے بھرے ہوئے ہیں، جو کنیز سے ملکہ بنیں، بادشاہ گر ہوئیں۔
ان میں ہمیں ملکہ زبیدہ، ملکہ شجرۃالدر، رضیہ سلطانہ، چاند بی بی، ملکہ نور جہاں اور ملکہ الزبتھ اول ایسی عورتیں ملتی ہیں جنھوں نے اپنی ذہانت اور سیاست میں بازی گری سے وسیع و عریض سلطنتوں پر حکومت کی۔
ان میں جھانسی کی رانی اور بیگم حضرت محل ہیں جن کی آنکھوں میں آزادی کے خواب تھے اور ان خوابوں کی تعبیر کے لیے انھوں نے اپنی جان نثار کردی۔ ان ہی میں جون آف آرک ایسی دلیر اور داد شجاعت دینے والی تھی جس نے نو عمری میں برطانوی فوج کو شکست دی، فرانس کو برطانوی تسلط سے آزاد کرایا، شومیٔ قسمت کہ برطانوی فوج کے ہاتھوں گرفتار ہوئی اور صرف 19 برس کی عمر میں ''جادوگرنی'' قرار دے کر زندہ جلا دی گئی۔
انیسویں صدی کے نصف آخر سے حوا کی بیٹیوں نے اپنے حقوق کے لیے سیاسی جنگ لڑنی شروع کی۔ ایک نہایت مشکل اور صبر آزما جنگ۔ یہاں ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ آزادی اور جمہوری حقوق کی جنگ غلام اور نیم غلام مردوں نے بے جگری سے لڑی ہے۔
اس لڑائی میں ان کے ساتھ عورتیں بھی شریک رہی ہیں۔ ہندوستان، افریقا، امریکا اور دنیا کے دوسرے حصے، ہر جگہ مقامی باشندے نو آبادکاروں کے زیر تسلط رہے۔ یہ سیکڑوں برس پر پھیلی ہوئی ایک ایسی جنگ تھی جس میں کروڑوں مرد، عورتیں اور بچے مارے گئے۔ یہ سب لوگ اس عورت کا خاندان تھے جو دنیا میں پہلی خواب دیکھنے والی کہی گئی۔
وقت گزرنے کے ساتھ ہی یہ ہوا ہے کہ عورتوں کے حقوق جدوجہد میں بہت سے مرد بھی شامل ہوگئے ہیں۔ یہ سلسلہ انیسویں صدی میں اسٹوارٹ مل سے شروع ہوا اور اب ان مردوں کا شمار مشکل ہے جو ایک ایسی دنیا کا خواب دیکھتے ہیں، جہاں عورتیں ان کے شانہ بہ شانہ ہوں اور ایک ایسی دنیا وجود میں آسکے جہاں رنگ، نسل، زبان کے ساتھ ہی صنف کی بنیاد پر کوئی تفریق نہ ہو۔
ہماری لڑکیاں اور عورتیں آزادی کے خواب دیکھتی ہیں۔ انفرادی طور پر اب ان کے بہت سے خوابوں کو تعبیر ملتی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ گلوبل جینڈر گیپ کے اشاریے پر نگاہ ڈالیے تو گزشتہ پانچ برسوں کے دوران پاکستان آخری نمبر سے صرف ایک سیڑھی اوپر ہے۔
پاکستان کی عاصمہ جہانگیر جو بیس برس کی عمر سے اپنے ملک اور اپنے لوگوں کے جمہوری حقوق کے لیے خواب دیکھتی رہی جس کی تمام زندگی عورتوں، بچوں اور محروم طبقات کو مٹھی بھر انصاف دلانے کے لیے لڑائی لڑتے گزری اور جو ابھی چند ہفتوں پہلے اس دنیا سے چلی گئی ہے۔
وہ ''حوا'' کی ایک ایسی بیٹی تھی جس کی ہر سانس جمہوریت، انصاف اور مساوی حقوق کی لڑائی کے لیے وقف تھی، اگر عالم بالا میں کوئی ایسی بیٹھک موجود ہے جہاں عاصمہ کے لیے حضرت حوا کی قدم بوسی کے بعد ان سے مکالمہ ممکن ہو تو انھوں نے اس کی پیشانی چوم لی ہوگی اور اسے اس کی جرأت کے لیے کتنی داد دی ہوگی۔
22 برس کی ملالہ یوسف زئی کو کیسے بھول سکتے ہیں جو چند دنوں پہلے یہاں سے ہوکر گئی ہے جس نے تعلیم حاصل کرنے کی خواہش کی تھی اور جس کے لیے زندگی کا سب سے حسین خواب دوسری لڑکیوں کو تعلیم سے آشنا کرنا تھا۔ یہ ایک ایسی خواہش تھی جس کی سزا اسے گولیوں کا نشانہ بنا کر دی گئی۔ آج وہ ڈاکٹروں کی ہنرمندی اور طبی سائنس کی معجزہ نمائی کے سبب زندہ ہے۔
اس کی زندگی پاکستان کو ایک نوبل امن انعام سے نوازنے کا سبب بن گئی، وہ عالمی سطح پر منزلیں مار رہی ہے۔
آکسفورڈ یونیورسٹی میں پڑھ رہی ہے اور چند دنوں پہلے اس نے مشہور و معروف ٹی وی اینکر ڈیوڈلیٹرمین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں پاکستان میں اس نقطہ نظر کے خلاف لڑنا ہے جو عورتوں کو مساوی حقوق دینے کے لیے تیار نہیں اور جو انھیں تعلیم کا حق نہیں دینا چاہتے۔ ملالہ اس بات پر ایمان رکھتی ہے کہ صرف تعلیم وہ ہتھیار ہے جو ہماری دنیا کی نوجوان نسل کو انتہا پسندی اور تعصبات سے لڑنے کی طاقت دے سکتی ہے۔
پوری دنیا میں خواتین اور انسانی حقوق کے لیے جدوجہد کرنے والوں کی قربانیاں رنگ لا رہی ہیں۔ اس کی ایک بڑی مثال سعودی عرب ہے۔
آج جب پاکستان میں لوگوں کا ایک بڑا حلقہ، بعض جماعتیں اور چند دانشور ''خواتین کے عالمی دن'' کے منائے جانے کے خلاف ہیں، ان پر یہ خبر بجلی بن کر گری ہوگی کہ جدہ میں مسکراتی ہوئی خواتین نے یہ عالمی دن سڑکوں پر جاگنگ کرتے ہوئے منایا۔ اس سے پہلے خواتین کو گاڑی چلانے، بغیر محرم کے سفر کرنے اور کاروبار اور نوکری کرنے سمیت کئی امتیازی قوانین کا سامنا تھا، جنھیں اب ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ سعودی عرب میں سینما پر 39 سال سے پابندی عائد تھی۔
اب یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے، بہت جلد درجنوں سینما گھر مختلف شہروں میں کھلنے والے ہیں۔ یوم خواتین کے موقع پر جاگنگ کرنے والی یونیورسٹی میں پڑھنے والی ایک نوجوان لڑکی سماکنسارا کا کہنا تھا کہ وہ ظلم کے موضوع پر تعلیم حاصل کر رہی ہے، اب وہ اپنی صلاحیتوں کو اپنے ملک میں آزما سکے گی۔
عورتوں کو کھیلوں میں حصہ لینے اور اسٹیڈیم میں جا کر میچ دیکھنے کی آزادی ہوگی۔ کاش ہمارے ملک کے عورت بیزار حلقے بھی اپنا رویہ تبدیل کرلیں کیونکہ دنیا میں اب کسی بھی انسان کے ساتھ کسی بھی بنیاد پر امتیازی سلوک کرنا ایک غیر مہذب اور قابل مذمت فعل تصور کیا جاتا ہے۔
انسان اپنے حقوق کے لیے ہزاروں سال سے جدوجہد میں مصروف ہے۔ عورتوں کے حقوق بھی بنیادی انسانی اور جمہوری حقوق کا ایک ناگزیر حصہ ہیں۔ 21 ویں صدی میں اس عظیم جدوجہد کے ثمرات تیزی سے سامنے آنے شروع ہوچکے ہیں۔ آج کی دنیا پر نظر ڈالیے تو آپ کو عورتوں کی کامیابیوں کی چند نہیں بلکہ بہت سی مثالیں ملیں گی۔
جرمنی کی چانسلر، برطانیہ کی وزیر اعظم، فیس بک کی شریک بانی ملینا گیٹس، فیس بک کی سی ای او شرل سینڈ برگ، جنرل موٹرز کی سی ای او میری بار، یوٹیوب کی سوسن وزز کچی محض چند نام ہیں۔ فوربس نے دنیا کی طاقتور ترین عورتوں کی ایک فہرست مرتب کی ہے۔
سیاست، حکومت، میڈیا، انٹرٹینمنٹ، فنانس اور ٹیکنالوجی سمیت وہ کون سا شعبہ ہے جہاں عورتیں تیزی سے اپنی جگہ نہیں بنا رہی ہیں۔ دنیا کی طاقتور عورتوں میں صرف امریکا یا یورپ ہی نہیں بلکہ دیگر ملکوں کی عورتیں بھی شامل ہیں۔
ان ملکوں میں تائیوان، چلی، سنگاپور، بنگلہ دیش، انڈیا، میانمار، چین، ہانگ کانگ، روس، ویت نام، ترکی، سعودی عرب، انگولا، یو اے ای اور جنوبی کوریا شامل ہیں۔
کتنے دکھ کی بات ہے کہ پاکستانی عورتوں کو ابھی وہ مقام اور مواقعے نہیں مل سکے ہیں جن کی وہ بجا طور پر مستحق ہیں۔ ایک نہایت اہم بات جسے ہمارے دانشور اور طاقتور مقتدر حلقے سمجھنے کے باوجود ماننے اور عمل کرنے پر آمادہ نہیں وہ یہ ہے کہ آپ پوری دنیا کے تقریباً دو سو ملکوں کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ عورتوں نے جن ملکوں میں نسبتاً کم مشکلات سے کامیابیاں حاصل کی ہیں ان کی غالب ترین اکثریت جمہوری ملکوں پر مشتمل ہے۔
پاکستان اور کئی دیگر ملکوں میں عورتوں کے آگے نہ بڑھنے کی بنیادی وجہ جمہوریت کا نہ ہونا یا اس کے تسلسل کا فقدان ہے۔
یہاں یہ کہنے کی اجازت دیجیے کہ عورتوں سمیت کسی بھی طبقے کے حقوق کی لڑائی جمہوریت کی بالادستی کی جدوجہد کا ایک لازمی اور ناگزیر حصہ ہے۔ پاکستان میں جمہوریت اور پارلیمنٹ کی بالادستی کے لیے 70 برس سے جاری جدوجہد اب فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ خواتین تنظیموں کو بھی اس حوالے سے اپنا موثر کردار ادا کرنا ہوگا۔
حقیقی جمہوریت ہوگی تو امتیازی اور غیر مساوی قوانین کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا اور پاکستانی عورت زیادہ تیزی سے ترقی کرسکے گی۔ روئے زمین پر پہلا خواب دیکھنے والی جناب حوا کی بیٹیاں اور بیٹے سنہرے روپہلے خواب دیکھ رہے ہیں اور ان کی تعبیرکی تلاش میں ہیں۔