سوشل میڈیا ایڈز روکنے میں مددگار

ٹوئٹس کی مدد سے کسی علاقے میں اس مہلک مرض کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔

ٹوئٹس کی مدد سے کسی علاقے میں اس مہلک مرض کے پھیلاؤ کا اندازہ لگانا ممکن ہے۔ ۔ فوٹو : فائل

HYDERABAD:
یونی ورسٹی آف کیلی فورنیا کے ماہرین کی تازہ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ریئل ٹائم میڈیا جیسے کہ ٹوئٹر سے ایڈز اور منشیات سے جُڑے امراض کی ٹریکنگ اور ان کے ممکنہ پھیلاؤ پر قابو پانے میں مدد مل سکتی ہے۔

Preventive Medicine نامی جریدے میں شایع ہونے والی تحقیق کہتی ہے کہ کسی مخصوص علاقے سے ٹوئٹر پر دیے جانے والے پیغامات یا ٹوئٹس کو ایچ آئی وی کیسز کی جغرافیائی تقسیم سے متعلق ڈیٹا سے منسلک کرکے اس علاقے جنسی بیماریوں اور منشیات سے منسلک امراض کے ممکنہ پھیلاؤ کا اندازہ لگایا جانا ممکن ہے۔ ماضی میں کی گئی متعدد تحقیق میں منشیات کے استعمال اور جنسی رویوں اور متعدی امراض کے مابین تعلق پایا گیا ہے۔




اس تحقیق کے لیے محققین نے 26 مئی 2012ء سے 9دسمبر 2012ء کے درمیان امریکا میں کی جانے والی 55 کروڑ ٹوئٹس اکٹھے کیے، اور ان میں جنسی ترغیب کے لیے استعمال ہونے والی الفاظ کی نشان دہی کرنے کی غرض سے ایک الوگرتھم تخلیق کیا۔ پھر انھوں نے یہ دریافت کرنے کے لیے ایک نقشہ تشکیل دیا کہ کوئی ٹوئٹ کس علاقے سے کی گئی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایچ آئی وی کیسز کی جغرافیائی معلومات بھی ان کے سامنے تھیں۔ ریسرچ ٹیم کے تخلیق کردہ الوگرتھم یا طریقۂ کار نے جنسی ترغیبات کے الفاظ پر مشتمل 8538 اور منشیات کے استعمال سے متعلق 1342 ٹوئٹس کی نشان دہی کی۔ ان ٹوئٹس کو بعدازاں ایچ آئی وی کیسز کے جغرافیائی پھیلاؤ کے ڈیٹا سے ملایا گیا تو ان کے درمیان اہم تعلق سامنے آیا۔



محققین کے مطابق 9.4 فی صد ٹوئٹس کیلی فورنیا، 9 فی صد ٹیکسائس، 5.7 فی صد نیویارک، اور 5.4 فی صد فلوریڈا سے کی گئی تھیں۔ ایچ آئی وی کے جغرافیائی ڈیٹا کے مطابق جن علاقوں سے ٹوئٹ کی گئی تھیں وہاں ایچ آئی وی سے متاثرہ افراد رہائش پذیر تھے۔

اس تحقیق کی بنیاد پر محققین کا کہنا ہے اگر ٹوئٹر جیسے ریئل ٹائم سوشل میڈیا سے وسیع مقدار میں ڈیٹا اکٹھا کیا جاسکے تو اس کی بنیاد پر یہ سمجھا جاسکے گا کہ کس علاقے میں منشیات اور جنسی عمل سے وابستہ امراض کے پھیلنے کا امکان موجود ہے، اور وہاں اس کے سدباب کے لیے اقدامات بھی کیے جاسکیں گے۔
Load Next Story