لاہور چڑیا گھر کے شیروں اور ٹائیگرز کے ڈی این اے کروانے کا فیصلہ
ڈی این اے سے باہمی رشتوں، نسل اور خاندان کی درست معلومات حاصل کی جا سکیں
لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک میں شیروں اور ٹائیگرز کا ڈی این اے کروانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ان کے باہمی رشتوں، نسل اور خاندان کی درست معلومات حاصل کی جا سکیں۔
پاکستان میں سرکاری چڑیا گھروں میں پہلی بار ان جانوروں کے ڈی این اے کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا جس کے لیے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز کے ماہرین کی مدد بھی لی جا سکے گی۔ ماہرین کے مطابق اس اقدام سے شیروں کی صحت، ان کی درست جوڑا بندی اور بہترین افزائش لی جا سکے گی۔
لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک میں شیروں اور ٹائیگرز کی بڑی تعداد موجود ہے۔ تاہم محکمے کے پاس سائنسی بنیادوں پر ایسا ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ کون سے شیر اور ٹائیگر ایک ہی فیملی سے ہیں، تاہم اب لاہور زو مینجمنٹ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ چڑیا گھر اور سفاری پارک میں موجود تمام شیروں اور ٹائیگرز کا ڈی این اے کروایا جائے گا جس سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ ان کا باہمی رشتہ اوریجنل نسل کون سی ہے۔
ویٹرنری ماہر ڈاکٹر رضوان خان نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ یہ بہت اہم اقدام ہے، ڈی این اے کی مدد سے ہمیں دو بڑے فائدے ہوں گے۔ پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم یہ جان سکیں گے کہ کون سے شیر یا ٹائیگر کسی دوسرے شیر اور ٹائیگر کس قدر ملتا جلتا ہے، ان کے شجرہ نسب کی پہچان ہوسکے گی، اس کو ہم فیلو جنیٹک کہتے ہیں۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں یہ معلوم ہو سکے گا کہ جینیاتی طور پر کسی جانور میں کس بیماری کے جراثیم موجود ہیں یا نہیں اور اس سے کسی نر اور مادہ کے جوڑا بنانے میں مدد ملے گی تاکہ ان سے صحت مند افزائش لی جا سکے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وائلڈ لائف کے پاس خود تو ڈی این اے کرنے کی سہولت موجود نہیں ہے اس کے لیے ہمیں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز، ورچوئل یونیورسٹی یا پھر پنجاب یونیورسٹی کی مدد لینا پڑے گی۔ ڈی این اے کے لیے جانور کے خون کے نمونہ جات، جسم کے بال جڑ سمیت یا پھر دونوں چیزیں لی جا سکتی ہیں۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیق کے مطابق لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک میں موجود شیروں اور ٹائیگرز کی ٹیگنگ کی گئی ہے اور اس ٹیگنگ کی بنیاد پر ہی ان کے رہن سہن اور صحت کا ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے تاہم ڈی این اے کی وجہ سے سائنسی طور پر ان جانوروں سے متعلق جنیاتی معلومات حاصل ہوسکیں گی۔
واضع رہے کہ لاہور زو مینجمنٹ کمیٹی نے اس اقدام کی منظوری دے دی ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب وائلڈ لائف اور سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات کریں گے۔
پاکستان میں سرکاری چڑیا گھروں میں پہلی بار ان جانوروں کے ڈی این اے کا ریکارڈ مرتب کیا جائے گا جس کے لیے یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز کے ماہرین کی مدد بھی لی جا سکے گی۔ ماہرین کے مطابق اس اقدام سے شیروں کی صحت، ان کی درست جوڑا بندی اور بہترین افزائش لی جا سکے گی۔
لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک میں شیروں اور ٹائیگرز کی بڑی تعداد موجود ہے۔ تاہم محکمے کے پاس سائنسی بنیادوں پر ایسا ریکارڈ موجود نہیں ہے کہ کون سے شیر اور ٹائیگر ایک ہی فیملی سے ہیں، تاہم اب لاہور زو مینجمنٹ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ چڑیا گھر اور سفاری پارک میں موجود تمام شیروں اور ٹائیگرز کا ڈی این اے کروایا جائے گا جس سے یہ معلوم ہوسکے گا کہ ان کا باہمی رشتہ اوریجنل نسل کون سی ہے۔
ویٹرنری ماہر ڈاکٹر رضوان خان نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ یہ بہت اہم اقدام ہے، ڈی این اے کی مدد سے ہمیں دو بڑے فائدے ہوں گے۔ پہلا فائدہ یہ ہوگا کہ ہم یہ جان سکیں گے کہ کون سے شیر یا ٹائیگر کسی دوسرے شیر اور ٹائیگر کس قدر ملتا جلتا ہے، ان کے شجرہ نسب کی پہچان ہوسکے گی، اس کو ہم فیلو جنیٹک کہتے ہیں۔
دوسرا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں یہ معلوم ہو سکے گا کہ جینیاتی طور پر کسی جانور میں کس بیماری کے جراثیم موجود ہیں یا نہیں اور اس سے کسی نر اور مادہ کے جوڑا بنانے میں مدد ملے گی تاکہ ان سے صحت مند افزائش لی جا سکے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ وائلڈ لائف کے پاس خود تو ڈی این اے کرنے کی سہولت موجود نہیں ہے اس کے لیے ہمیں یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینمل سائنسز، ورچوئل یونیورسٹی یا پھر پنجاب یونیورسٹی کی مدد لینا پڑے گی۔ ڈی این اے کے لیے جانور کے خون کے نمونہ جات، جسم کے بال جڑ سمیت یا پھر دونوں چیزیں لی جا سکتی ہیں۔
ایکسپریس ٹربیون کی تحقیق کے مطابق لاہور چڑیا گھر اور سفاری پارک میں موجود شیروں اور ٹائیگرز کی ٹیگنگ کی گئی ہے اور اس ٹیگنگ کی بنیاد پر ہی ان کے رہن سہن اور صحت کا ڈیٹا مرتب کیا جاتا ہے تاہم ڈی این اے کی وجہ سے سائنسی طور پر ان جانوروں سے متعلق جنیاتی معلومات حاصل ہوسکیں گی۔
واضع رہے کہ لاہور زو مینجمنٹ کمیٹی نے اس اقدام کی منظوری دے دی ہے تاہم اس کا حتمی فیصلہ ڈائریکٹر جنرل پنجاب وائلڈ لائف اور سیکریٹری جنگلات و جنگلی حیات کریں گے۔