بے بسی کا احساس تھا
ایک بے بسی کا احساس تھا جس نے مجھے سر تا پا ایسا جکڑا کہ میں کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ لاقانونیت، عدم تحفظ، بے
ایک بے بسی کا احساس تھا جس نے مجھے سر تا پا ایسا جکڑا کہ میں کچھ کہنے کے قابل ہی نہیں رہی۔ لاقانونیت، عدم تحفظ، بے چارگی ہے کہ بڑھتی ہی جا رہی ہے۔ خوف کی دبیز دھند سے نکلنے کا راستہ نہیں مل رہا اب ہم گھر کے دروازوں پر بھی محفوظ نہیں۔ اس احساس نے جڑ پکڑ لی ہے مگر کہاں جائیں اتوار کی رات بہن کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے ان کے ساتھ ڈاکٹر کے پاس جانا پڑ گیا ۔ راستے میں ایک دو کام تھے وہ بھی کرنے کا ارادہ پختہ ہو گیا کمیٹی کی کچھ رقم بھی ساتھ رکھ لی کہ دے آئیں گے۔ پہلے ڈاکٹر کے گئے بہن کا چیک اپ کروایا، بہنوئی کہنے لگے سی این جی کل بند ہے پہلے گاڑی میں سی این جی بھروا لیتے ہیں اب راستے میں جو پمپ آئے سب پر لمبی لمبی لائنیں تھیں رات 8 بجے کا ٹائم تھا اسی طرح آگے بڑھتے بڑھتے ایک پمپ ملا۔ بہن کہنے لگیں میں بس اس لائن میں لگ جاتے ہیں کافی دیر کے بعد نمبر آیا گاڑی فل کروا کر واپسی کا قصد کیا ٹائم زیادہ ہو گیا تھا 10 بج رہے تھے اس لیے سوچا سیدھا گھر چلا جائے۔ گھر سے ایک دو اسٹاپ پہلے گاڑی کا ٹائر پنکچر ہو گیا۔
بہنوئی حیران کہ ابھی 6 دن پہلے تو نئے ٹائر ڈلوائے ہیں بہنوئی ٹائر لے کر پنکچر لگوانے چلے کہ لائٹ چلی گئی جس کی وجہ سے وہ ہمیں چھوڑ کر آگے پنکچر لگوانے گئے اب ہم لوگ گاڑی سے اتر کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو گئے بالکل برابر میں ٹاؤن آفس تھا جہاں کچھ لوگ موجود تھے۔ ٹاؤن آفس کے برابر میں شادی ہال تھا وہاں تقریب ہو رہی تھی، رونق لگی ہوئی تھی ہم لوگ بہنوئی کا انتظار کرتے کرتے تھک کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے۔ ڈر و خوف کی ہلکی سی کیفیت بھی موجود نہیں تھی آپس میں بات کر رہے تھے کہ اچانک دو لڑکے بائیک پر گزرتے ہمیں دیکھ کر رک گئے ایک لڑکا بائیک پر بیٹھا رہا ہمیں جب بھی محسوس نہیں ہوا کہ یہ ڈاکو ہیں میں سمجھی خواتین کو اس طرح گاڑی کے پاس بیٹھا دیکھ کر مدد کو آئے ہیں دوسرا لڑکا جو کہ گرے شلوار قمیض میں ملبوس صورت سے معقول قریب آیا اور گن نکال کر سب کو کور کر لیا۔ بھانجے کے سر پر گن رکھ کر کہنے لگا جو کچھ ہے نکال کر دے دو، سب نے اپنے موبائل، پرس، پیسے وغیرہ اس کے حوالے کر دیے پھر بہن کا زیور اتروا لیا اور بڑے سکون و آرام سے چلے گئے ۔ کچھ فاصلے پر پولیس موجود تھی مگر کسی نے دادرسی نہیں کی موبائل یا پیسے کا غم نہیں کہ یہ سب چیزیں آنی جانی ہیں مگر تکلیف دہ احساس یہ ہے ہم محفوظ نہیں ہیں اگر ہمارے پاس کچھ نہ ہوتا تو وہ ہمیں مار بھی سکتے تھے۔
قانون کے محافظ کس کام کے جب ان کی موجودگی میں ڈاکو آئیں اور بڑے اطمینان سے واردات کریں اور رفو چکر ہو جائیں حیرت اس بات پر ہے کہ ٹاؤن آفس میں موجود لوگوں نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا اور واردات کے بعد بھی نکل کے نہیں پوچھا اس وقت یہ حال تھا کہ ایک منٹ بھی وہاں ٹھہرنا محال تھا مگر مجبوری تھی بہنوئی نہیں آئے تھے کوئی موبائل فون پاس نہیں تھا کہ گھر اطلاع کر دیتے ۔ گاڑی کھلی ہوئی تھی لائٹ گئی ہوئی تھی اور ہم خواتین اکیلی وہاں کھڑی تھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کریں تو کیا کریں روز ہماری طرح سیکڑوں لوگ ایسی کیفیت سے گزرتے ہوں گے مگر ہماری جان و مال کے تحفظ دینے والے پتہ نہیں بے خبر کیوں ہیں۔
کراچی سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں روز قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں سپریم کورٹ کے دیے ہوئے فیصلوں کی نفی پنچایت کے کیے ہوئے فیصلوں پر عمل درآمد کر کے کی جاتی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ چنیوٹ کی صاحب بی بی ہو یا مظفر گڑھ کی آمنہ پر کیے جانے والے مظالم کی ذمے دار پولیس ہے۔ قانون کی بالادستی قائم رکھنے والے ادارے جب مجرموں کی پشت پناہی کرنے لگیں تو اس طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں قانون کی بالادستی کے ذریعے ہی ہم ان جرائم پر قابو پا سکتے ہیں آج مجرمانہ ذہنیت کا مالک جو ذرا سی بھی طاقت رکھتا ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے اس کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ سکندر نامی شخص نے پورے اسلام آباد کو بے بس کر دیا تھا آج ہم عوام کو کچھ پتہ نہیں چلا کہ اس سکندر کو کتنی سزا ہوئی۔ روز خبر ملتی ہے کہ آج اتنے ڈاکو اتنے چور اچکے پکڑے گئے مگر ہمارے عدالتی نظام کی پیچیدگیوں کی وجہ سے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں ان میں سے آج تک کتنوں کو سزا ملی کچھ معلوم نہیں ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ کون لوگ ہیں جو بھتہ خوروں، اغوا برائے تاوان اور دوسرے جرائم میں ملوث لوگوں کو پناہ دیتے ہیں مگر ہم کبھی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے مگر عوام جس خوف و دہشت کی فضا میں سانس لے رہے ہیں اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے لوگوں میں بے بسی بڑھ رہی ہے یہ بے بسی بڑھتے بڑھتے کسی انارکی میں تبدیل نہ ہو جائے کیونکہ بے بسی بڑھتے بڑھتے انسان یا تو مر جاتا ہے یا دوسروں کو مار دیتا ہے۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی خودکشی کا رجحان یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم زمینی سطح کی کس نہج پر پہنچ گئے ہیں جن کے پاس پیسہ ہے وہ دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہیں مگر جو لوگ زر نہیں رکھتے وہ کہاں جائیں۔ کوئی راستہ امن کی طرف نہیں جاتا معاشرے میں عدم مطابقت کی جو کیفیت ہے وہ کسی دن اللہ نہ کرے آتش فشاں کی چھپی ہوئی آگ کی طرح اگر یہ لاوا پگھل گیا تو ہر چیز بہا کر لے جائے گا۔ وفاقی حکومتیں ہوں یا صوبائی حکومتیں قانون نافذ کرنے والے رکھوالوں کو قانون کا نفاذ کرنے میں آزاد چھوڑ دیں جب تک پولیس میں بھرتیاں سیاسی وابستگیوں پر ہوتی رہیں گی اسی طرح جرائم بڑھتے رہیں گے۔ دوسرا ناجائز اسلحے کی بھرمار نے بھی جرائم کی تعداد میں اضافہ کیا ہے ناجائز اسلحہ لوگوں سے واپس لیا جائے کیونکہ اسٹریٹ کرائمز کا شکار کرنے والے اکثر مجرم اسی بل بوتے پر اچھلتے ہیں۔ بلوچ پل کے نیچے اکثر پولیس کی وین آتے جاتے گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو روکتی ہے مگر ان کا مقصد قطعی جرائم کی روک تھام نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد تو صرف اور صرف روزانہ کی دیہاڑی بنانا ہے ان ناکوں پر اکثر صرف عام لوگوں کو پکڑا جاتا ہے۔ 100/50 روپے لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آتے جاتے سب لوگ روزانہ یہ تماشہ دیکھتے ہیں ان 100 / 50 کے چکر میں کتنے ہی جرائم پیشہ صاف نکل جاتے ہیں اور آگے جا کر دیدہ دلیری سے واردات کرتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے اگر پکڑے بھی گئے تو کوئی بات نہیں کچھ لے دے کر چھوٹ جائیں گے۔
بہنوئی حیران کہ ابھی 6 دن پہلے تو نئے ٹائر ڈلوائے ہیں بہنوئی ٹائر لے کر پنکچر لگوانے چلے کہ لائٹ چلی گئی جس کی وجہ سے وہ ہمیں چھوڑ کر آگے پنکچر لگوانے گئے اب ہم لوگ گاڑی سے اتر کر فٹ پاتھ پر کھڑے ہو گئے بالکل برابر میں ٹاؤن آفس تھا جہاں کچھ لوگ موجود تھے۔ ٹاؤن آفس کے برابر میں شادی ہال تھا وہاں تقریب ہو رہی تھی، رونق لگی ہوئی تھی ہم لوگ بہنوئی کا انتظار کرتے کرتے تھک کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئے۔ ڈر و خوف کی ہلکی سی کیفیت بھی موجود نہیں تھی آپس میں بات کر رہے تھے کہ اچانک دو لڑکے بائیک پر گزرتے ہمیں دیکھ کر رک گئے ایک لڑکا بائیک پر بیٹھا رہا ہمیں جب بھی محسوس نہیں ہوا کہ یہ ڈاکو ہیں میں سمجھی خواتین کو اس طرح گاڑی کے پاس بیٹھا دیکھ کر مدد کو آئے ہیں دوسرا لڑکا جو کہ گرے شلوار قمیض میں ملبوس صورت سے معقول قریب آیا اور گن نکال کر سب کو کور کر لیا۔ بھانجے کے سر پر گن رکھ کر کہنے لگا جو کچھ ہے نکال کر دے دو، سب نے اپنے موبائل، پرس، پیسے وغیرہ اس کے حوالے کر دیے پھر بہن کا زیور اتروا لیا اور بڑے سکون و آرام سے چلے گئے ۔ کچھ فاصلے پر پولیس موجود تھی مگر کسی نے دادرسی نہیں کی موبائل یا پیسے کا غم نہیں کہ یہ سب چیزیں آنی جانی ہیں مگر تکلیف دہ احساس یہ ہے ہم محفوظ نہیں ہیں اگر ہمارے پاس کچھ نہ ہوتا تو وہ ہمیں مار بھی سکتے تھے۔
قانون کے محافظ کس کام کے جب ان کی موجودگی میں ڈاکو آئیں اور بڑے اطمینان سے واردات کریں اور رفو چکر ہو جائیں حیرت اس بات پر ہے کہ ٹاؤن آفس میں موجود لوگوں نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا اور واردات کے بعد بھی نکل کے نہیں پوچھا اس وقت یہ حال تھا کہ ایک منٹ بھی وہاں ٹھہرنا محال تھا مگر مجبوری تھی بہنوئی نہیں آئے تھے کوئی موبائل فون پاس نہیں تھا کہ گھر اطلاع کر دیتے ۔ گاڑی کھلی ہوئی تھی لائٹ گئی ہوئی تھی اور ہم خواتین اکیلی وہاں کھڑی تھیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ کریں تو کیا کریں روز ہماری طرح سیکڑوں لوگ ایسی کیفیت سے گزرتے ہوں گے مگر ہماری جان و مال کے تحفظ دینے والے پتہ نہیں بے خبر کیوں ہیں۔
کراچی سمیت ملک کے بیشتر حصوں میں روز قانون کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں سپریم کورٹ کے دیے ہوئے فیصلوں کی نفی پنچایت کے کیے ہوئے فیصلوں پر عمل درآمد کر کے کی جاتی ہے مگر کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ چنیوٹ کی صاحب بی بی ہو یا مظفر گڑھ کی آمنہ پر کیے جانے والے مظالم کی ذمے دار پولیس ہے۔ قانون کی بالادستی قائم رکھنے والے ادارے جب مجرموں کی پشت پناہی کرنے لگیں تو اس طرح کے واقعات جنم لیتے ہیں قانون کی بالادستی کے ذریعے ہی ہم ان جرائم پر قابو پا سکتے ہیں آج مجرمانہ ذہنیت کا مالک جو ذرا سی بھی طاقت رکھتا ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے اس کا کوئی بال بھی بیکا نہیں کر سکتا۔ سکندر نامی شخص نے پورے اسلام آباد کو بے بس کر دیا تھا آج ہم عوام کو کچھ پتہ نہیں چلا کہ اس سکندر کو کتنی سزا ہوئی۔ روز خبر ملتی ہے کہ آج اتنے ڈاکو اتنے چور اچکے پکڑے گئے مگر ہمارے عدالتی نظام کی پیچیدگیوں کی وجہ سے صاف بچ کر نکل جاتے ہیں ان میں سے آج تک کتنوں کو سزا ملی کچھ معلوم نہیں ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ کون لوگ ہیں جو بھتہ خوروں، اغوا برائے تاوان اور دوسرے جرائم میں ملوث لوگوں کو پناہ دیتے ہیں مگر ہم کبھی ان پر ہاتھ نہیں ڈالتے مگر عوام جس خوف و دہشت کی فضا میں سانس لے رہے ہیں اس کا اندازہ کسی کو نہیں ہے معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے لوگوں میں بے بسی بڑھ رہی ہے یہ بے بسی بڑھتے بڑھتے کسی انارکی میں تبدیل نہ ہو جائے کیونکہ بے بسی بڑھتے بڑھتے انسان یا تو مر جاتا ہے یا دوسروں کو مار دیتا ہے۔
معاشرے میں بڑھتی ہوئی خودکشی کا رجحان یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم زمینی سطح کی کس نہج پر پہنچ گئے ہیں جن کے پاس پیسہ ہے وہ دوسرے ممالک کا رخ کر رہے ہیں مگر جو لوگ زر نہیں رکھتے وہ کہاں جائیں۔ کوئی راستہ امن کی طرف نہیں جاتا معاشرے میں عدم مطابقت کی جو کیفیت ہے وہ کسی دن اللہ نہ کرے آتش فشاں کی چھپی ہوئی آگ کی طرح اگر یہ لاوا پگھل گیا تو ہر چیز بہا کر لے جائے گا۔ وفاقی حکومتیں ہوں یا صوبائی حکومتیں قانون نافذ کرنے والے رکھوالوں کو قانون کا نفاذ کرنے میں آزاد چھوڑ دیں جب تک پولیس میں بھرتیاں سیاسی وابستگیوں پر ہوتی رہیں گی اسی طرح جرائم بڑھتے رہیں گے۔ دوسرا ناجائز اسلحے کی بھرمار نے بھی جرائم کی تعداد میں اضافہ کیا ہے ناجائز اسلحہ لوگوں سے واپس لیا جائے کیونکہ اسٹریٹ کرائمز کا شکار کرنے والے اکثر مجرم اسی بل بوتے پر اچھلتے ہیں۔ بلوچ پل کے نیچے اکثر پولیس کی وین آتے جاتے گاڑیوں اور موٹرسائیکل سواروں کو روکتی ہے مگر ان کا مقصد قطعی جرائم کی روک تھام نہیں ہے بلکہ ان کا مقصد تو صرف اور صرف روزانہ کی دیہاڑی بنانا ہے ان ناکوں پر اکثر صرف عام لوگوں کو پکڑا جاتا ہے۔ 100/50 روپے لے کر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ آتے جاتے سب لوگ روزانہ یہ تماشہ دیکھتے ہیں ان 100 / 50 کے چکر میں کتنے ہی جرائم پیشہ صاف نکل جاتے ہیں اور آگے جا کر دیدہ دلیری سے واردات کرتے ہیں کیونکہ ان لوگوں کو یقین ہوتا ہے کہ کوئی کچھ کہنے والا نہیں ہے اگر پکڑے بھی گئے تو کوئی بات نہیں کچھ لے دے کر چھوٹ جائیں گے۔