حماس دہشت گرد یا مزاحمتی تحریک

اسلامی مزاحمتی تحریک حماس فلسطین میں آزادیٔ بیت المقدس اور مظلوم فلسطینیوں کی غاصب اسرائیلی دشمن سے آزادی کی جنگ لڑ

اسلامی مزاحمتی تحریک حماس فلسطین میں آزادیٔ بیت المقدس اور مظلوم فلسطینیوں کی غاصب اسرائیلی دشمن سے آزادی کی جنگ لڑ رہی ہے اور اس جنگ کو دو دہائیوں سے زائد کا عرصہ بیت چکا ہے لیکن اسلامی مزاحمتی تحریک روز اول سے سینہ سپر ہے، تحریک حماس کے حوالے سے حال ہی میں کچھ ایسی چہ مہ گوئیاں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ جس میں حماس کو دہشت گرد قرار دیا جا رہا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے کہ حما س کو دہشت گرد گروہ میں شامل کر دیا جائے، یہ بھی بڑی واضح بات ہے کہ حماس کا تعلق مصر میں معروف جماعت اخوان المسلمون سے ہے جس کے بانی حسن البناء تھے۔ حسن البناء ایک عظیم اسلامی رہنما تھے، انھوں نے اخوان المسلون کی بنیاد مصر میں رکھی جس کے بعد اخوان کی شاخیں پوری دنیا میں مختلف ناموں سے پہچانی جاتی ہیں اور فلسطین میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس در اصل اخوان المسلمون ہی کا ایک حصہ ہے۔

تحریک حماس کی بنیاد 1987ء میں سر زمین انبیاء علیہم السلام فلسطین میں رکھی گئی، اس تنظیم کے بانی شہید شیخ احمد یاسین ہیں کہ جن کو اسرائیل نے ایک ڈرون میزائل حملے میں شہید کر دیا تھا، شیخ احمد یاسین کے بعد تنظیم کی ذمے داری ڈاکٹر عبد العزیز رنتیسی نے سنبھالی اور اسرائیل نے ان کو بھی شہید کر دیا جس کے بعد تنظیم کے سیاسی شعبے کے سربراہ کی حیثیت سے خالد مشعل موجود ہیں جب کہ اسماعیل ہنیہ فلسطینی پٹی غزہ میں فلسطین کے وزیر اعظم ہیں اور ان کا تعلق بھی حما س کے ساتھ ہے۔

حماس نے اپنی تاسیس کے بعد سے دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی کی ہے اور اب حماس ایک مزاحمتی تنظیم ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعت بھی ہے جس نے 2006ء کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کی تھی اور فلسطین میں حکومت سازی کی تھی تاہم اس موقعے پر بھی عالمی سامراجی قوتوں اور غاصب صیہونی ریاست اسرائیل نے حماس کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا اور ظلم تو یہ تھا کہ حماس کے اثاثے منجمند کرنے کے ساتھ ساتھ یورپی یونین اور امریکا سمیت دیگر مغربی قوتوں نے حماس کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ یہ بھی کوشش کی گئی کہ حما س کو حکومت بنانے کے عمل سے دور رکھا جائے اور اس عنوان سے غزہ کو ملنے والی بین الاقوامی امداد کو بھی رو ک لیا گیا اور اس موقعے پر حماس تنہا ہو گئی تھی تاہم اس کڑے وقت میں ایران نے حما س کو حکومت چلانے اور بنانے کے لیے بھاری مالی تعاون کیا تھا جس کے بعد غزہ میں حماس حکومت قائم ہو سکی تھی ۔

غزہ میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس نے حکومت تو قائم کر لی لیکن عالمی سامراج اور مغربی پنڈتوں کو یہ بات بالکل بھی پسند نہ آئی اور انھوں نے غاصب اسرائیل کے ذریعے 2008ء میں غزہ پر بڑا فضائی حملہ کر دیا جس کے نتیجے میں درجنوں کیا بلکہ سیکڑوں فلسطینی جام شہادت نوش کر گئے، غزہ کا محاصرہ کر لیا گیا جو تا حال جاری ہے، اس حملے کے جواب میں حماس نے فلسطینیوں کا دفاع کیا اور دفاع کا یہ عمل 22 روز جاری رہنے کے بعد بالآخر اسرائیل کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور حماس کامیاب ہو گئی۔ حماس اپنی تاسیس کے بعد سے اب زیادہ طاقتور ہو چکی ہے اور مسلح بھی ہو چکی ہے اور صلاحیت رکھتی ہے کہ غاصب اسرائیلی دشمن کو کسی بھی جارحیت کا منہ توڑ جواب دیا جا سکے۔


سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر اسرائیل کے ساتھ حماس کا موازنہ کیا جائے اور پوری دنیا میں ایک عام ریفرنڈم کیا جائے تو اس کا نتیجہ کیا ہو گا؟ کیا دنیا کے لوگ یہ جواب دینگے کہ اسرائیل کے مقابلے میں حماس دہشتگرد تنظیم ہے؟ یا پھر اسرائیل کے ظلم و ستم اور اس کی جارحیت کی تاریخ جاننے کے بعد اسرائیل کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ اسرائیل ایک دہشتگرد اور غیر قانونی اور غیر انسانی ریاست ہے جسے صیہونیوں نے اپنے مفادات کی خاطر وجود میں لا کر دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کی ناپاک منصوبہ بندی کی ہے۔ بہر حال جواب بہت ہی واضح ہے کہ غاصب اسرائیل کہ جو گزشتہ پینسٹھ برسو ں سے فلسطین کے مظلوم عوام بشمول معصوم بچوں، خواتین، جوانوں اور بزرگوں کو خطر ناک اور مہلک ہتھیاروں سے قتل کر رہا ہے اس کے مقابلے میں اسلام کی قوت سے سرشار مٹھی بھر یہ حماس کے جوان کس طرح دہشت گرد قرار دیے جا سکتے ہیں؟ کس نے امریکا کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اسرائیل جیسی سفاک ریاست کے جرائم کے سامنے سینہ سپر ہونے کے جرم میں کسی کو دہشت گرد قرار دے؟ آخر امریکا نے آج تک اسرائیلی مظالم کے باوجود اسرائیل کو دہشت گرد ریاست قرار کیوں نہیں دیا؟ آخر یہ پوری دنیا کیوں فلسطینیوں پر ہونے والے اسرائیلی مظالم پر خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے؟ اگر کسی نے اسرائیل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر لی اور مزاحمت شروع کر دی تو کیا اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ دہشت گرد بن گیا؟ نہیں ایسا نہیں ہونا چاہئیے! امریکا سمیت یورپی ممالک کو چاہیے کہ غاصب اسرائیل کی پشتبانی چھوڑ دیں اور مسئلہ فلسطین پر دوہرا معیار بھی ترک کر دیں۔

دہشت گردی میں اور مزاحمت میں بہت واضح فرق موجود ہوتا ہے، دہشت گردی وہ ہے جس میں معصوم انسانوں کو بے گناہ قتل کر دیا جائے او مزاحمت کا مطلب دہشت گردی کے خلاف اپنا دفاع کرنا اور اپنی جان وما ل ، عزت و آبرو و ناموس کا تحفظ ، شعائر اللہ کا تحفظ کرنا یہ سب مزاحمت اور جہاد میں ہے نہ کہ دہشت گردی کا حصہ ہے، بلکہ دہشت گردی وہ ہے جو غاصب صیہونی اسرائیل کر رہا ہے اور دہشت گردی یہ بھی ہے کہ امریکا اور یورپ اسرائیلی دہشت گردی کی حمایت کر رہے ہیں۔ ہمارے معاشرو ں میں ہی رہنے والے چند نادان لوگ بھی امریکا اور اسرائیل کے بہکاوے میں آ کر انھی کی زبان بولنا شروع کر دیتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر اپنے آقاؤں کو خوش کریں، کیونکہ امریکا اور اسرائیل سمیت ان کے ایجنٹ بھی یہی چاہتے ہیں کہ قتل و غارت ہو، مسلم ممالک کی سر زمینوں پر غاصب اسرائیل کا تسلط قائم ہو، اور اس کام کے لیے راہ ہموار کی جاتی ہے۔

مغربی پنڈتوں اور صیہونیوں نے لبنان کو اسرائیل کے شکنجے سے آزاد کروانے والی اسلامی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کو بھی دہشتگرد قرار دیا اور اب کوشش کر رہے ہیں کہ یورپی یونین بھی حزب اللہ کو دہشتگرد قرار دے ، مغربی پنڈتوں نے حزب اللہ کو بدنام کرنے کے لیے مذہب کا نام استعمال کیا لیکن ناکام رہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حزب اللہ کہ جس کی لبنانی پارلیمنٹ میں دو درجن سے زائد نشستیں موجود ہیں اس کو کس طرح دہشت گرد قرار دیا جا سکتا ہے، حماس کہ جس کی غزہ میں حکومت قائم ہے آخر کس طرح دہشت گرد قرار دی جا سکتی ہے؟ امریکا کو یہ بات جان لینی چاہیے کہ امریکی اعلانات پر کسی کو دہشت گرد کہنے سے کوئی دہشت گرد نہیں ہو سکتا بلکہ امریکا اپنی تسلی کے لیے یہ اعلانات کر رہا ہے اور اپنے ایجنٹوں سے کروا رہا ہے جس کا کوئی مقصد حاصل نہ ہو، مزاحمت مزید تقویت حاصل کر رہی ہے اور اسلامی مزاحمت ہی کی فتح ہو گی۔

حالیہ دنوں مصر میں بھی گزشتہ طویل عرصے سے جاری بحث کا خاتمہ مصری عدالت کے فیصلے کے ساتھ ہوا ہے کہ جس میں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کو دہشت گرد قرار دیا گیا ہے اور اس تنظیم پر مصر میں پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ مصر ایک تاریخی ملک ہے اور یہا ں کے باسی سمجھدار ہیں وہ یقینا ان باتوں پر بھروسہ نہیں کریں گے، ہو سکتا ہے کہ حماس کے بعض قائدین سے ماضی میں کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہوں لیکن کچھ غلطیوں اور کچھ افراد کی وجہ سے ہم پوری تنظیم اور اس کی قربانیوں کو فراموش نہیں کر سکتے ، اس تحریک نے جد وجہد آزادی فلسطین کی خاطر سیکڑوں شہداء کی قربانی دی ہے اور انشاء اللہ یہ تحریک جار ی و ساری رہے گی اور دشمن ہمیشہ ناکام رہے گا۔ تحریک کا سفر جاری رہے گا لوگ آتے جاتے رہیں گے۔ حماس اور حزب اللہ اسلام کے دو بازو ہیں جنہیں دنیا کی کوئی طاقت اسلام کے تن سے جدا نہیں کر سکتی۔
Load Next Story