عالمگیر لسانیات اور اردو
ہر علاقے کی اہمیت کے اعتبار سے زبانیں بھی اپنی ارتقائی منازل طے کرنے کی الگ الگ تاریخ رکھتی ہیں۔
ISLAMABAD:
اظہار خیال یا کمیونی کیشن کا سب سے بڑا ذریعہ زبان ہے۔ زبان ایسا دو دھاری آلہ ہے جس سے بیک وقت محبت اور نفرت کا کام لیا جاتا ہے۔ کبھی یہ ذریعہ اظہار ہے تو کبھی انداز اخفاء۔ زبانوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ علاقائی، قومی، عالمی، مادری۔ کہتے ہیں ''سفر وسیلہ ظفر ہے''۔ جیسے جیسے آپ سفر طے کرتے جائیں، آپ محسوس کریں گے کہ ہر علاقے کی زبان اور طرز زندگی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہو گی۔ جغرافیائی اعتبار سے ہمارا شمار ایشیاء کے جنوب میں واقع ایک ایسے خطے سے ہے جس میں قومی زبان اردو کے علاوہ بے شمار علاقائی زبانیں کثرت سے بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ اسی طرح مملکت خداداد پاکستان کی قومی زبان پاکستانی ہونی چاہیے تھی، ایران کی ایرانی، افغانستان کی افغانی وغیرہ وغیرہ۔ اے ڈی اظہر نے اپنے مضمون میں اس خیال کا اظہار کیا کہ ''جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں زبان کا نام متذکرہ ملک سے بنتا ہے، اسی طرح چینی، جاپانی اور روسی وغیرہ کی مانند اردو کا نام بدل کر پاکستانی کر دینا چاہیے۔'' بقول جواہر لعل نہرو ''اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا بے معنی بات ہے، اردو سرزمین ہند میں پیدا ہوئی ہے۔'' ہر علاقے کی اہمیت کے اعتبار سے زبانیں بھی اپنی ارتقائی منازل طے کرنے کی الگ الگ تاریخ رکھتی ہیں۔
زبان کو بولنے اور لکھنے کی ابتدا اور ترقی قدیم یونان میں ایک المیہ سے ہوئی، عرب میں قصیدہ گوئی سے، ہندوستان میں داستانوں اور جاپان میں ہائیکو کی بدولت ہوئی لیکن پوری دنیا میں بولی، لکھی اور سمجھی جانے والی عام زبان انگریزی ہے۔ بیشتر ممالک نے اس کو دستوری اور ریاستی زبان قرار دیا ہے۔ پاکستان، ایران اور ہندوستان کے سرحدی مسلم ملک افغانستان کے بلند و بالا پہاڑوں میں دو بڑی طاقتوں کو یہاں مخفی دولت کا علم ہوا اور یوں پہلے سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ سوویت یونین کی شکست اور اس کے افغانستان سے انخلا کے لیے امریکا نے بے دریغ سرمایہ خرچ کیا اور جس نے پورے خطے کو کلاشنکوف اور ہیروئن جیسی معاشرتی و سماجی برائیوں کو جنم دیا۔ پاکستان کے اندرونی معاملات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے، جس کے منفی اور تباہ کن اثرات آج ہماری قوم بھگت رہی ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین مختلف آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو کر فقط روس رہ گیا اور یوں امریکا سپر پاور سے سپریم پاور بن گیا۔ برطانوی شاہی زبان انگریزی ایک مربوط قاعدہ اور گرامر کے تحت تھی۔ رفتہ رفتہ برطانیہ کی عالمگیریت کم ہوتی گئی جس کی جگہ امریکا نے لے لی۔ امریکا میں بولی اور سمجھنے والی زبان برطانوی زبان سے بہت مختلف ہے یعنی کسی مربوط قاعدے اور گرامر، کامے، فل اسٹاپ، سیمی کولن کے بغیر اس زبان کا استعمال پوری دنیا میں رائج ہو چکا ہے۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کر دی۔ عجب انقلاب ہے جو قابل حیرت ہے۔
دنیا کی مشکل زبان جرمن بھی ہے، اس سلسلے میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ جرمن زبان کی تدریس میں کوشاں ہے۔ انسان کو اپنی مادری زبان سے جتنا لگاؤ اور پیار ہے اس کے باوجود مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان پر قدرت رکھنا درحقیقت اضافی قابلیت مانا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند بھی ایک طویل عرصے تک برطانوی سیاست کا مرکز رہا ہے، اس لیے یہاں رائل خاندان کے اثرات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ پورے برصغیر کی سرکاری زبان برطانوی انگلش کے باوجود وہاں رہائشی مسلمان ہندو کی اکثریتی آبادی قومی اور مادری زبان اردو یا ہندی تھی۔ ہندی بولنے میں اردو جیسی ہے اور لکھنے میں اس کے رسم الخط میں واضح فرق ہے جب کہ زبان کی تاریخ بہت قدیمی ہے۔ اس میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ برصغیر ہند کی وسعت ایک ایسے عظیم سمندر جیسی ہے جس میں مختلف زبانوں کے دھارے آ ملتے ہیں، جس میں جتنا لسانی تنوع ملتا ہے شاید ہی دنیا کا کوئی اور خطہ اس کی مثال پیش کر سکے۔ یہاں کے مخصوص تاریخی حالات اور تمدنی عوامل کی بنا پر زبانیں باہم اثر پذیر ہوتی رہی ہیں، اس لیے اردو کا مطالعہ محض اردو کا مطالعہ نہیں رہتا بلکہ اور بھی کئی زبانوں کے تجزیاتی اور تقابلی مطالعے کی ضرورت پیش آتی ہے، اس لیے لسانی مباحث میں متنوع مگر نزاعی نظریات ملتے ہیں، ایسے نظریات جو بعض اوقات متناقض بھی ہیں۔
انگریزی زبان کو ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے جب کہ اردو بولنا اور لکھنا صرف اور صرف متوسط اور نچلے طبقے کی پہچان اور شناخت بن چکا ہے۔ نجی شعبے میں قائم تعلیمی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات یورپین اسٹائل میں انگریزی بولنا اور مغربی لباس کی نمود و نمائش نے ملک میں اردو کے معیار کو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔ موجودہ دور پرائمری سطح پر انگلش میڈیم تعلیم کا ہے، بچوں کو قطعاً درست انداز میں اپنی مادری زبان سے ناواقفیت ہے، حتیٰ کہ اردو کی گنتی بھی معدوم ہو کر رہ گئی ہے، شاید اس کی بنیادی وجہ ہمارا بگڑتا ہوا معاشی اور سماجی نظام ہے۔ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا معاشی تنگدستیوں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے جیسی تیسی ملازمت مل جائے اسی پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ اچھی اور معیاری ملازمت کا حصول اچھی انگریزی لکھنے، اچھا بولنے اور کمپیوٹر پر مہارت اولین شرط ہے۔ ایسے حالات میں اگر ہم اردو ادب کی بات کریں تو لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل کام ہو جاتا ہے۔ ادب میں شاعری، نثر، نظم، غزل اور ڈرامہ نگاری کمیونی کیشن کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہے۔ اردو ڈرامہ کھیل کھیل میں عام آدمی تک موثر پیغام کی رسائی ہے۔
مشاعرے کی محفلوں کی ریاستی اور نجی سطح پر انعقاد میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ موجودہ ڈرامہ معیاری نہیں ہے اور چند ہی دنوں میں اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ اردو ادب کے ترقی اور فروغ کے سلسلے میں ماہ فروری 2014ء کو کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والا پانچواں سہ روزہ عالمی کراچی لٹریچر فیسٹیول ایک مثبت اور حوصلہ افزا کوشش ہے، جس میں دانشور مقررین اور شائقین کی بھرپور تعداد نے شرکت کر کے اردو ادب سے دلچسپی کا ثبوت دیا۔ اسی روز یعنی 8 فروری 2014ء کی شام کو کراچی کے مقامی آڈیٹوریم میں ڈاکٹر عالیہ امام کی نئی تخلیق ''اکیسویں صدی میں سائنس اور ادب، تضاد کہاں'' کے عنوان سے ایک مختصر اور ادبی تقریب رونما ہوئی، جس میں راقم کو بھی شرکت کا موقع ملا۔ اردو زبان اور اردو ادب کو ترویج دینے کے لیے اس طرح کے پروگرامز کا منعقد کیا جانا ایک بہترین عمل ثابت ہو گا۔
اظہار خیال یا کمیونی کیشن کا سب سے بڑا ذریعہ زبان ہے۔ زبان ایسا دو دھاری آلہ ہے جس سے بیک وقت محبت اور نفرت کا کام لیا جاتا ہے۔ کبھی یہ ذریعہ اظہار ہے تو کبھی انداز اخفاء۔ زبانوں کو مختلف حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ علاقائی، قومی، عالمی، مادری۔ کہتے ہیں ''سفر وسیلہ ظفر ہے''۔ جیسے جیسے آپ سفر طے کرتے جائیں، آپ محسوس کریں گے کہ ہر علاقے کی زبان اور طرز زندگی ایک دوسرے سے بہت مختلف ہو گی۔ جغرافیائی اعتبار سے ہمارا شمار ایشیاء کے جنوب میں واقع ایک ایسے خطے سے ہے جس میں قومی زبان اردو کے علاوہ بے شمار علاقائی زبانیں کثرت سے بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ اسی طرح مملکت خداداد پاکستان کی قومی زبان پاکستانی ہونی چاہیے تھی، ایران کی ایرانی، افغانستان کی افغانی وغیرہ وغیرہ۔ اے ڈی اظہر نے اپنے مضمون میں اس خیال کا اظہار کیا کہ ''جس طرح دنیا کے دیگر ممالک میں زبان کا نام متذکرہ ملک سے بنتا ہے، اسی طرح چینی، جاپانی اور روسی وغیرہ کی مانند اردو کا نام بدل کر پاکستانی کر دینا چاہیے۔'' بقول جواہر لعل نہرو ''اردو کو مسلمانوں کی زبان قرار دینا بے معنی بات ہے، اردو سرزمین ہند میں پیدا ہوئی ہے۔'' ہر علاقے کی اہمیت کے اعتبار سے زبانیں بھی اپنی ارتقائی منازل طے کرنے کی الگ الگ تاریخ رکھتی ہیں۔
زبان کو بولنے اور لکھنے کی ابتدا اور ترقی قدیم یونان میں ایک المیہ سے ہوئی، عرب میں قصیدہ گوئی سے، ہندوستان میں داستانوں اور جاپان میں ہائیکو کی بدولت ہوئی لیکن پوری دنیا میں بولی، لکھی اور سمجھی جانے والی عام زبان انگریزی ہے۔ بیشتر ممالک نے اس کو دستوری اور ریاستی زبان قرار دیا ہے۔ پاکستان، ایران اور ہندوستان کے سرحدی مسلم ملک افغانستان کے بلند و بالا پہاڑوں میں دو بڑی طاقتوں کو یہاں مخفی دولت کا علم ہوا اور یوں پہلے سوویت یونین کی افواج نے افغانستان پر حملہ کر دیا۔ سوویت یونین کی شکست اور اس کے افغانستان سے انخلا کے لیے امریکا نے بے دریغ سرمایہ خرچ کیا اور جس نے پورے خطے کو کلاشنکوف اور ہیروئن جیسی معاشرتی و سماجی برائیوں کو جنم دیا۔ پاکستان کے اندرونی معاملات خراب سے خراب تر ہوتے چلے گئے، جس کے منفی اور تباہ کن اثرات آج ہماری قوم بھگت رہی ہے۔ افغانستان میں سوویت یونین مختلف آزاد ریاستوں میں تقسیم ہو کر فقط روس رہ گیا اور یوں امریکا سپر پاور سے سپریم پاور بن گیا۔ برطانوی شاہی زبان انگریزی ایک مربوط قاعدہ اور گرامر کے تحت تھی۔ رفتہ رفتہ برطانیہ کی عالمگیریت کم ہوتی گئی جس کی جگہ امریکا نے لے لی۔ امریکا میں بولی اور سمجھنے والی زبان برطانوی زبان سے بہت مختلف ہے یعنی کسی مربوط قاعدے اور گرامر، کامے، فل اسٹاپ، سیمی کولن کے بغیر اس زبان کا استعمال پوری دنیا میں رائج ہو چکا ہے۔ رہی سہی کسر انٹرنیٹ نے پوری کر دی۔ عجب انقلاب ہے جو قابل حیرت ہے۔
دنیا کی مشکل زبان جرمن بھی ہے، اس سلسلے میں گوئٹے انسٹیٹیوٹ جرمن زبان کی تدریس میں کوشاں ہے۔ انسان کو اپنی مادری زبان سے جتنا لگاؤ اور پیار ہے اس کے باوجود مادری زبان کے علاوہ دوسری زبان پر قدرت رکھنا درحقیقت اضافی قابلیت مانا جاتا ہے۔ برصغیر پاک و ہند بھی ایک طویل عرصے تک برطانوی سیاست کا مرکز رہا ہے، اس لیے یہاں رائل خاندان کے اثرات بدرجہ اتم موجود ہیں۔ پورے برصغیر کی سرکاری زبان برطانوی انگلش کے باوجود وہاں رہائشی مسلمان ہندو کی اکثریتی آبادی قومی اور مادری زبان اردو یا ہندی تھی۔ ہندی بولنے میں اردو جیسی ہے اور لکھنے میں اس کے رسم الخط میں واضح فرق ہے جب کہ زبان کی تاریخ بہت قدیمی ہے۔ اس میں کسی قسم کی مبالغہ آرائی نہیں ہے کہ برصغیر ہند کی وسعت ایک ایسے عظیم سمندر جیسی ہے جس میں مختلف زبانوں کے دھارے آ ملتے ہیں، جس میں جتنا لسانی تنوع ملتا ہے شاید ہی دنیا کا کوئی اور خطہ اس کی مثال پیش کر سکے۔ یہاں کے مخصوص تاریخی حالات اور تمدنی عوامل کی بنا پر زبانیں باہم اثر پذیر ہوتی رہی ہیں، اس لیے اردو کا مطالعہ محض اردو کا مطالعہ نہیں رہتا بلکہ اور بھی کئی زبانوں کے تجزیاتی اور تقابلی مطالعے کی ضرورت پیش آتی ہے، اس لیے لسانی مباحث میں متنوع مگر نزاعی نظریات ملتے ہیں، ایسے نظریات جو بعض اوقات متناقض بھی ہیں۔
انگریزی زبان کو ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے جب کہ اردو بولنا اور لکھنا صرف اور صرف متوسط اور نچلے طبقے کی پہچان اور شناخت بن چکا ہے۔ نجی شعبے میں قائم تعلیمی یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلباء و طالبات یورپین اسٹائل میں انگریزی بولنا اور مغربی لباس کی نمود و نمائش نے ملک میں اردو کے معیار کو تقریباً ختم ہی کر دیا ہے۔ موجودہ دور پرائمری سطح پر انگلش میڈیم تعلیم کا ہے، بچوں کو قطعاً درست انداز میں اپنی مادری زبان سے ناواقفیت ہے، حتیٰ کہ اردو کی گنتی بھی معدوم ہو کر رہ گئی ہے، شاید اس کی بنیادی وجہ ہمارا بگڑتا ہوا معاشی اور سماجی نظام ہے۔ یونیورسٹی کے فارغ التحصیل طلبا معاشی تنگدستیوں اور تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ سے جیسی تیسی ملازمت مل جائے اسی پر اکتفا کر لیتے ہیں۔ اچھی اور معیاری ملازمت کا حصول اچھی انگریزی لکھنے، اچھا بولنے اور کمپیوٹر پر مہارت اولین شرط ہے۔ ایسے حالات میں اگر ہم اردو ادب کی بات کریں تو لوگوں کو سمجھانا بہت مشکل کام ہو جاتا ہے۔ ادب میں شاعری، نثر، نظم، غزل اور ڈرامہ نگاری کمیونی کیشن کا سب سے بڑا اور اہم ذریعہ ہے۔ اردو ڈرامہ کھیل کھیل میں عام آدمی تک موثر پیغام کی رسائی ہے۔
مشاعرے کی محفلوں کی ریاستی اور نجی سطح پر انعقاد میں قابل ذکر کمی آئی ہے۔ موجودہ ڈرامہ معیاری نہیں ہے اور چند ہی دنوں میں اپنی افادیت کھو دیتا ہے۔ اردو ادب کے ترقی اور فروغ کے سلسلے میں ماہ فروری 2014ء کو کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقد ہونے والا پانچواں سہ روزہ عالمی کراچی لٹریچر فیسٹیول ایک مثبت اور حوصلہ افزا کوشش ہے، جس میں دانشور مقررین اور شائقین کی بھرپور تعداد نے شرکت کر کے اردو ادب سے دلچسپی کا ثبوت دیا۔ اسی روز یعنی 8 فروری 2014ء کی شام کو کراچی کے مقامی آڈیٹوریم میں ڈاکٹر عالیہ امام کی نئی تخلیق ''اکیسویں صدی میں سائنس اور ادب، تضاد کہاں'' کے عنوان سے ایک مختصر اور ادبی تقریب رونما ہوئی، جس میں راقم کو بھی شرکت کا موقع ملا۔ اردو زبان اور اردو ادب کو ترویج دینے کے لیے اس طرح کے پروگرامز کا منعقد کیا جانا ایک بہترین عمل ثابت ہو گا۔