ابتدائی تشخیص سے بریسٹ کینسر کا علاج ممکن ہے ماہرین
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسس کے مطابق ایشیائی آبادی میں بریسٹ کینسر کی بلند سطح کراچی میں پائی جاتی ہے
پاکستان میں سرطان کی مریض خواتین میں سے 30 فیصد چھاتی(بریسٹ) کینسر کی شکار ہیں جو ایک تشویشناک امر ہے۔ ان خیالات کا اظہار ماہرین نے ایک تقریب میں کیا جو چھاتی کے سرطان سے آگہی کے لیے منعقد کی گئی تھی۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں بریسٹ کینسر آگاہی سیمینار سے خطاب میں ماہرین کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہر ایک منٹ بعد ایک عورت بریسٹ کینسر کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہر آٹھویں عورت اس مہلک مرض میں مبتلا ہے۔
صرف آگاہی پیدا کر کے اس شرح کو کم کیا جا سکتا ہے جبکہ کسی بھی ایشیائی آبادی میں بریسٹ کینسر کی شرح کراچی میں سب سے زیادہ ہے۔
بریسٹ کینسر دنیا میں کینسر سے اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ ابتداء میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہونے سے اس کا علاج ممکن ہے۔
سیمینار کی مہمان خصوصی ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ تھیں ان کے علاوہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر صبا سہیل، سابقہ میڈیکل سپرینٹنڈنٹ سول اسپتال کراچی ڈاکٹر نور محمد سومرو، ڈاکٹر فرحت جلیل، ڈاکٹر عمیمہ سلیم، ڈاکٹر صائمہ ودیگر نے خطاب کیا۔
سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر نصرت شاہ نے کہا کہ اکتوبر درحقیقت بریسٹ کینسر کے خلاف ایک جنگ کا مہینہ ہے لیکن اس جنگ کا ہتھیار آگہی ہے ہم آگہی پھیلا کر یہ جنگ جیت سکتے ہیں. یہ تنہا خواتین کی جنگ نہیں مردوں کو ہمارے شانہ بشانہ جنگ لڑنی ہے،کیونکہ ہمارے یہاں فیصلہ سازی کا اختیار مردوں کو ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی مرحلے میں اس بیماری کا علاج ممکن ہے اس کی مثال میری ایک سگی بہن ہے جو اس موذی مرض کے علاج کے بعد ہمارے ساتھ موجود ہے جبکہ والدہ اور ایک بڑی بہن اس بیماری میں جان سے چلی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ کینسر کے ابتدائی مرحلے پر تشخیص کا پہلا طریقہ تو خود تشخیص ہے اس میں کچھ مشکوک ہو تو اسکریننگ کی طرف بڑھا جائے۔
انہوں نے ڈاکٹر سے اپیل کی کہ خواتین میں یہ بات کینسر کے بارے میں جھجھک شرم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض پڑھے لکھے خاندانوں کے لوگ بھی اسکریننگ سے گریزاں رہتے ہیں۔ کرن اسپتال کے ڈاکٹر اصغر علی اصغر نے کہا کہ کورونا سے دنیا میں 45 لاکھ افراد جان سے گئے لیکن کینسر سے ایک سال میں دس لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، موت کی دوسری بڑی وجہ بریسٹ کینسر ہی ہے لیکن ہمارے خطے میں بریسٹ کینسر موت کی تیسری بڑی وجہ ہے کیونکہ ہمارے یہاں امراض قلب کے بعد دوسری بڑی وجہ انفیکشن ڈیزیز ہیں۔
ہمارے یہاں بریسٹ کینسر جس تیزی سے بڑھ رہا ہے 2040 ءتک یہ شرح دوگنی اور تین گنا تک ہوجائے گی۔ دیگر خطوں میں بریسٹ کینسر بڑھنے کی شرح ہمارے مقابلے میں کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ایک لاکھ میں سے 25 لوگوں میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔ہمارے یہاں ایک لاکھ میں سے 34 لوگوں کو بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔
امریکا میں یہ شرح 20 افراد فی لاکھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اقدامات ہیں جن سے بریسٹ کینسر کی شرح کم کی جاسکتی ہے، خواتین بارہ مہینے تک بچوں کو دودھ پلا کر چار فیصد تک بریسٹ کینسر کے خطرات کو کم کرسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایکسرسائز جس میں چھ ہزار قدموں کی چہل قدمی، پراسیس کیے ہوئے گوشت سے اجتناب، سبزیوں اور پھلوں کا استعمال،کیلشیئم اور وٹامن ڈی کا باقاعدگی سے استعمال بریسٹ کینسر سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر فرحت جلیل نے کہا کہ 45 سال عمر گزارنے والی خواتین کو سالانہ اسکریننگ لازمی طور پر کرانا چاہیئے۔ تقریب کے آخر میں مقررین کو پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ نے شیلڈز دیں ۔ سیمینار کے موقع پر ڈاؤ یونیورسٹی کے طلباء نے مختلف اسٹالز لگائے اور شرکت کے لئے آنے والے افراد کو پنک ربن پہنا ئی جبکہ پورے ڈاؤمیڈیکل کالج کو گلابی رنگوں سے سجایا گیا تھا۔
ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز میں بریسٹ کینسر آگاہی سیمینار سے خطاب میں ماہرین کا کہنا تھا کہ دنیا میں ہر ایک منٹ بعد ایک عورت بریسٹ کینسر کے باعث جان کی بازی ہار جاتی ہے۔ جبکہ پاکستان میں ہر آٹھویں عورت اس مہلک مرض میں مبتلا ہے۔
صرف آگاہی پیدا کر کے اس شرح کو کم کیا جا سکتا ہے جبکہ کسی بھی ایشیائی آبادی میں بریسٹ کینسر کی شرح کراچی میں سب سے زیادہ ہے۔
بریسٹ کینسر دنیا میں کینسر سے اموات کی دوسری سب سے بڑی وجہ ہے۔ ابتداء میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہونے سے اس کا علاج ممکن ہے۔
سیمینار کی مہمان خصوصی ڈاؤ یونیورسٹی کی پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ تھیں ان کے علاوہ ڈاؤ میڈیکل کالج کی پرنسپل پروفیسر صبا سہیل، سابقہ میڈیکل سپرینٹنڈنٹ سول اسپتال کراچی ڈاکٹر نور محمد سومرو، ڈاکٹر فرحت جلیل، ڈاکٹر عمیمہ سلیم، ڈاکٹر صائمہ ودیگر نے خطاب کیا۔
سیمینار سے بطور مہمان خصوصی خطاب کرتے ہوئے پروفیسر نصرت شاہ نے کہا کہ اکتوبر درحقیقت بریسٹ کینسر کے خلاف ایک جنگ کا مہینہ ہے لیکن اس جنگ کا ہتھیار آگہی ہے ہم آگہی پھیلا کر یہ جنگ جیت سکتے ہیں. یہ تنہا خواتین کی جنگ نہیں مردوں کو ہمارے شانہ بشانہ جنگ لڑنی ہے،کیونکہ ہمارے یہاں فیصلہ سازی کا اختیار مردوں کو ہی ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابتدائی مرحلے میں اس بیماری کا علاج ممکن ہے اس کی مثال میری ایک سگی بہن ہے جو اس موذی مرض کے علاج کے بعد ہمارے ساتھ موجود ہے جبکہ والدہ اور ایک بڑی بہن اس بیماری میں جان سے چلی گئیں۔ انہوں نے کہا کہ کینسر کے ابتدائی مرحلے پر تشخیص کا پہلا طریقہ تو خود تشخیص ہے اس میں کچھ مشکوک ہو تو اسکریننگ کی طرف بڑھا جائے۔
انہوں نے ڈاکٹر سے اپیل کی کہ خواتین میں یہ بات کینسر کے بارے میں جھجھک شرم کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کریں۔ دیکھا گیا ہے کہ بعض پڑھے لکھے خاندانوں کے لوگ بھی اسکریننگ سے گریزاں رہتے ہیں۔ کرن اسپتال کے ڈاکٹر اصغر علی اصغر نے کہا کہ کورونا سے دنیا میں 45 لاکھ افراد جان سے گئے لیکن کینسر سے ایک سال میں دس لاکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں، موت کی دوسری بڑی وجہ بریسٹ کینسر ہی ہے لیکن ہمارے خطے میں بریسٹ کینسر موت کی تیسری بڑی وجہ ہے کیونکہ ہمارے یہاں امراض قلب کے بعد دوسری بڑی وجہ انفیکشن ڈیزیز ہیں۔
ہمارے یہاں بریسٹ کینسر جس تیزی سے بڑھ رہا ہے 2040 ءتک یہ شرح دوگنی اور تین گنا تک ہوجائے گی۔ دیگر خطوں میں بریسٹ کینسر بڑھنے کی شرح ہمارے مقابلے میں کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت میں ایک لاکھ میں سے 25 لوگوں میں بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔ہمارے یہاں ایک لاکھ میں سے 34 لوگوں کو بریسٹ کینسر کی تشخیص ہوتی ہے۔
امریکا میں یہ شرح 20 افراد فی لاکھ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بعض اقدامات ہیں جن سے بریسٹ کینسر کی شرح کم کی جاسکتی ہے، خواتین بارہ مہینے تک بچوں کو دودھ پلا کر چار فیصد تک بریسٹ کینسر کے خطرات کو کم کرسکتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایکسرسائز جس میں چھ ہزار قدموں کی چہل قدمی، پراسیس کیے ہوئے گوشت سے اجتناب، سبزیوں اور پھلوں کا استعمال،کیلشیئم اور وٹامن ڈی کا باقاعدگی سے استعمال بریسٹ کینسر سے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔
ڈاکٹر فرحت جلیل نے کہا کہ 45 سال عمر گزارنے والی خواتین کو سالانہ اسکریننگ لازمی طور پر کرانا چاہیئے۔ تقریب کے آخر میں مقررین کو پرو وائس چانسلر پروفیسر نصرت شاہ نے شیلڈز دیں ۔ سیمینار کے موقع پر ڈاؤ یونیورسٹی کے طلباء نے مختلف اسٹالز لگائے اور شرکت کے لئے آنے والے افراد کو پنک ربن پہنا ئی جبکہ پورے ڈاؤمیڈیکل کالج کو گلابی رنگوں سے سجایا گیا تھا۔