کیڈٹ کالج مری میں ساتویں جماعت کے طالبعلم سے اجتماعی زیادتی
تفتیش کے لیے پولیس کے پہنچنے پر انتظامیہ اور طلبہ کا احتجاج، کمرے میں بند کردیا، 2 ملزمان گرفتار
پولیس نے والد کی مدعیت میں مقدمہ درج کرلیا (فوٹو فائل)
تھانہ مری کے علاقے میں واقع کیڈٹ کالج مری میں زیرتعلیم ساتویں جماعت کے طالب علم سے ہاسٹل میں اسلحہ کی نوک پر مبینہ زیادتی ہوئی جس کا مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق پولیس نے متاثرہ بچے کے والد کی مدعیت میں زیادتی کرنے والے 2 ملزمان سمیت مدد کرنے میں ملوث 4 ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کرکے 2 کو گرفتار کرلیا۔ مقدمے میں متاثرہ بچے کے والد نے بتایا کہ میں لاہور کا رہائشی ہوں اور اپنے 12 سالہ بیٹے کو کیڈٹ کالج مری میں داخل کروا رکھا ہے، جو کالج کے ہاسٹل میں رہائش پذیر ہے۔بیٹا ساتویں جماعت میں زیر تعلیم ہے۔ 16 اکتوبر کو فون پر بیٹے سے بات ہوئی تو اس نے رونا شروع کردیا۔
مدعی مقدمہ کے مطابق بار بار دریافت کرنے پر بیٹے نے کچھ نہ بتایا تو بیٹے کو لے کر گھر آ گیا۔ بیٹا انتہائی خوف زدہ اور سہما ہوا تھا۔ کچھ وقت بعد اس کے حواس بحال ہوئے تو اس نے گواہوں کی موجودگی میں بتایا کہ 10 اکتوبر کی شب ہاسٹل کے کمرے میں سو رہا تھا کہ حسن آفریدی، شاہنواز، تیمور اور سعود مسلح حالت میں آئے۔
والد کے مطابق بیٹے نے بتایا کہ سعود کے ہاتھ میں پستول تھا، جس نے مجھے جگایا اور تیمور نے میرے گلے پر ہاتھ رکھ کر دبائے رکھا۔ دیگر 2 افراد حسن آفریدی اور شاہنواز نے زبردستی زیادتی کا نشانہ بنایا اور کسی کو بتانے کی صورت میں جان سے مارنے کی دھمکیاں دیں۔ بعد ازاں بیٹے نے تمام واقعہ پرنسپل کو بتایا تو پرنسپل نے ڈانٹ ڈپٹ کرکے بیٹے کو چپ کرادیا اور دھمکی دی کہ کسی سے ذکر کیا تو کالج سے نکال دوں گا۔
زیادتی کیس میں گرفتار دو ملزمان مری پولیس کی تحویل میں
پولیس نے مقدمہ درج کرکے واقعے کی تفتیش شروع کردی ہے۔ دریں اثنا پولیس ٹیم واقعے سے متعلق دریافت کے لیے کالج پہنچی تو انتظامیہ و طلبہ نےپولیس ٹیم کو کمرے میں بند کرکے پتھراؤ اور ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ پتھراؤ سے پولیس موبائل وین کے شیشے ٹوٹ گئے۔
بعد ازاں پرنسپل اور ایس پی کوہسار فیصل سلیم نے موقع پر پہنچ کر پولیس ٹیم کو آزاد کرایا۔ ہنگامی صورتحال کے پیش نظر راولپنڈی سے ایلیٹ فورس و دیگر نفری بھی طلب کرلی گئی۔ بعد ازاں مزاحمت و پتھراؤ کرنے پر کالج کے ایڈمن آفیسر سمیت 9 نامزد افراد و دیگر طلبہ کے خلاف بھی الگ سے مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
پولیس حکام کا کہنا تھا کہ ساتویں جماعت کے طالب سے زیادتی کرنے کے مقدمے میں ملوث 2 ملزمان حسن آفریدی اور سعود آفریدی کو گرفتار کرلیاگیا ہے جب کہ دیگر 2 ملزمان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
ذرائع کے مطابق پولیس افسران و کالج انتظامیہ کے مابین ملزمان کی حوالگی کے لیے مذکرات ہوئے جب کہ متاثرہ بچے کا میڈیکل بھی کرایا گیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ مزاحمت کرنے والے عناصر کے خلاف بھی قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
ایف آئی آر میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، پرنسپل
دریں اثنا کیڈٹ کالج کے پرنسپل پروفیسر حافظ آفتاب احمد کا بیان سامنے آگیا جس میں انہوں نے کہا ہے کہ ایک واقعہ پیش آیا ہے جس میں کالج کے چار بچوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی، مدعی محمد عمران کا بیٹا کلاس 7th میں پڑھتا ہے، طالب علم 16 اکتوبر کو اپنی والدہ کے ساتھ چھٹی پر کالج سے گھر گیا۔
پرنسپل نے کہا ہے کہ طالب علم کی والدہ خود میرے پاس آئیں اور کہا کہ بیٹا کچھ بچوں کے رویے سے پریشان ہے کہتا ہے گھر لے جائیں، طالب علم کو والدہ کے ساتھ جانے کی اجازت دے دی تاکہ اسے بریک مل جائے اس کے سوا کوئی بات نہیں ہوئی، بعد ازاں وہ کالج سے خوشی خوشی چلے گئے اور پھر ایف آئی آر سامنے آگئی، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افراد کالج آئے اور بتایا کہ چار بچے مطلوب ہیں گرفتاری دی جائے دو بچے موجود تھے ان کے حوالے کردیے۔
انہوں نے کہا کہ کالج میں چار ہاؤسز و چار ہاسٹلز ہیں جہاں ہر ایک کمرے میں 12 سے زائد بچے ہوتے ہیں، کہیں جگہوں پر 36 بچے بھی ہیں، رات کے وقت بھی لائٹس آن رکھی جاتی ہیں، راہدریوں میں نگرانی کے لیے کلوز سرکٹ کیمرے نصب ہیں، چار جے سی اوز ییں جو بچوں کی مانیٹرنگ کے لیے رات بھر موجود رہتے ہیں، یہ ممکن ہی نہیں کہ کسی بچے کے ساتھ جنسی زیادتی کی جائے اور وہ بھی تین چار افراد مل کر کریں۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کے بیڈ کے درمیان گنجائش دو فٹ سے زیادہ نہیں رکھی جاتی، بچہ اگر کروٹ لے، کھانسے تب بھی ساتھ والے بیڈ والا بچہ اسے محسوس کرتا ہے، یہ ممکن نہیں کالج کی حدود میں بڑے بڑے کمروں میں، اتنے اسٹاف اور بچوں کی موجودگی میں اتنا بڑا واقعہ ہوجائے۔
پرنسپل نے کہا کہ ایف آئی آر میں حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، مجھ سے طالب علم 16 اکتوبر کو باقاعدہ مل کر دعائیں لیتے ہوئے گھر گیا، معاملے کو کسی غلط انداز میں اچھالنے کے لیے اور رنگ میں پیش کیا گیا جس کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں، پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا احترام کرتے ہیں اگر وہ شکایت لے کر آئے ہیں تو کالج مکمل تعاون کرنے کا پابند یے۔
انہوں ںے مزید کہا کہ دو بچے جو کالج موجود تھے وہ پولیس کو دے دیئے اور دو گھروں میں ہیں، میڈیکل یا تفتیش میں جو صورتحال سامنے آئے گی وہ بچے ان کا سامنا کریں گے۔