سرخ جنت کا متلاشی ’’بنجارہ ‘‘

Warza10@hotmail.com

لاہور کی سیاسی تہذیب و تربیت کے نشانات بنانے میں جہاں وارث میرکی نصابی و عملی کاوشیں ہیں وہیں احتجاجی ادب کے فخر زمان بھی کم متحرک نہیں ، وہیں فرخ سہیل گویندی ایسا سیاسی و جنونی تہذیب یافتہ نظریاتی دوست بھی سر زمین لاہور سے نکالا جس نے کبھی نہ سیاسی نظریات سے پہلو تہی کی اور نہ ہی کبھی اپنی حرکی صلاحیتوں کو معدوم ہونے دیا ، اس لمحے مجھے خاموش طبع مگر جمہوری تہذیب میں جانفشانی سے سرگرم آپا افضل توصیف اور شائستہ حبیب ( بیگم فخر زمان) بھی ذہن سے محو نہیں ہوتیں۔

یادوں کی یہ مالا اور اس میں کھوجانے کا سبب بھی ہمیشہ فرخ ہی بنے رہے ، نجانے اس خبطی کو کیا سوجھا کہ آج کے مارکیٹنگ اور صرف اور صرف منافع کے نام پر لوٹ کھسوٹ کے سماج میں'' بے توقیر'' ہونے والے لکھنے پڑھنے اور کتب بینی کا شعور بیدار کرنے کے لیے کتابیں چھاپنے اور تاریخ کو لوگوں تک منتقل کرنے کا ٹھیکہ لے لیا۔

شاید کے اس کے اندرکا بابا شیخ رشید اور ڈاکٹر مبشر حسن بیٹھا اسے کچوکے لگاتا رہتا ہے اور فرخ سہیل کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا ۔جنم ماتا کو چھوڑنے کا عذاب جب احساس کا حصہ بن جائے تو فرد کے اندر کی بے چین روح اسے زندگی کے سفر میں ہی مصروف رکھتی ہے۔

فرخ سہیل سے سرگودھا کیا چھوٹا کہ وہ اپنی جوانی کے لاہور کے شہر کو بھی غچہ دے دے کر سیر سپاٹوں میں مصروف رہا،اب یہ آوارہ گردی تھی تلاش کی پیاس تھی یا جہان گردی،اس کا فیصلہ آج اس کی تقریبا آٹھ سو صفحات کی ضخیم کتاب '' میں ہوں جہاں گرد'' کے تذکرے سے ہی کیا جا سکتا ہے۔

میرے اور نظیر اکبر آبادی کے نزدیک فرخ سہیل گویندی وہ ''بنجارہ'' ہے جو سماج کے دکھ سمجھنے اور انھیں یکجا کرکے پورے سماج کو تبدیل کرنے کی امنگ کا جہاں گرد سے زیادہ آوارہ گرد ہے۔فرخ سہیل کی ملکوں ملکوں جہاں گردی کی یہ کتاب مجھے فروری کے آخری ہفتے میں ملی اور اس وقت سے اس کتاب کے پچاس سے زائد باب پڑھتا گیا پڑھتا گیا مگر دلچسپی کم نہ ہوئی۔

گو کہیں کہیں فرخ واقعے میں ڈنڈی مارتا ہوا خلوتوں کے جلوؤں سے آگاہ نہیں کرتا مگر پھر بھی نظر رکھنے والے جب سرخے نکل آئیں تو ان سے بچنا بھی فن ہی ہے ، یوں تو '' میں ہوں جہاں گرد '' ایک سفرنامہ کہا جا سکتا ہے مگر یہ سفر نامے سے زیادہ سیاسی اور سماجی تحرک پیدا کرنے کی وہ کوشش ہے جس کو فرخ سہیل نے نہایت خوبصورتی سے زبان کی چاشنی برقرار رکھتے ہوئے بیان کیا ہے۔

فرخ کی اس کتاب کے مطالعے کے دوران ایسا لگا کہ جنرل ضیا کے ظالمانہ دور ،گرفتاریاں ، جمہوریت پسندوں کی پیٹیں لہولہان کرتے ہوئے بندوق دار کردار آج بھی اسی طرح قائم دائم ہیں ، ہاں اگر بدلہ ہے تو ادبی بیٹھکوں کی جگہ برگر شاپ اور تہذیب بکھیرتے ہوئے چائے خانوں اور چوباروں کی جگہ آؤٹ لیٹ میں غیر شائستہ نسل کے بے وقعت اڑتے قہقہے اور تالیاں ، باقی جنرل ضیا کی بربریت کے مقابلے کا وہ سیاسی شعور جس نے فرخ سہیل گویندی اور ان ایسے ہزاروں دیے۔

وہ سیاسی تربیت اور شعور اب ناپید ہوکر بد تہذیبی جھوٹ اور عقیدہ پرستی میں لپیٹی جا رہی ہے اور نئی نسل کو سیاسی تاریخ سے گمراہ کرکے عقیدت بھری جہالت کی تبدیلی کا ''کارنس'' بجایا جا رہا ہے اور اس جھوٹ کے بیانیے پر دھمال بھی ڈالی جارہی ہے۔

فرخ سہیل نے شاید اپنی سیاسی سوچ اور نظریے کی عافیت کے لیے ملکوں ملکوں گھومنے اور اپنے نظریے پر مستحکم رہنے کی درست راہ نکالی اور ''بنجارہ'' بننے کی ٹھان لی ، اس لمحے کے لیے فرخ ایسوں کے لیے ہی شاید نظیر اکبر آبادی نے کہا تھا کہ!

تو بدھیا لادے بیل بھرے جو پورب پچھم جاوے گا

یا سود بڑھا کر لاوے گا یا ٹوٹا گھاٹا پاوے گا

قزاق اجل کا رستے میں جب بھالا مار گراوے گا


دھن دولت ناتی پوتا کیا اک کنبہ کام نہ آوے گا

سب ٹھاٹھ پڑا رہ جاوے گا جب لاد چلے گا بنجارا

فرخ سہیل گویندی کی اس جہاں گردی کے مطالعے نے یہ بات تو ثابت کر دی کہ ہمیں سیاسی معاشی اور سماجی طور سے بیرونی نہیں بلکہ انھی ضیائی فکر قذاقوں نے لوٹا ہے جو فرخ سہیل کو جہاں گردی پر مجبور کر رہے تھے، افضل توصیف کو رانا نوید کے زخم سہلانے پر مجبور کر رہے تھے اور حامد میر و عامر میر سے وارث میر کے قلم کی سیاہی چھیننا چاہ رہے تھے۔

فرخ سہیل گویندی'' میں ہوں جہاں گرد '' میں جہاں اپنے سفر کے ابتدائی ایام کی روداد سناتا ہے ، وہیں ابتدائی تین ممالک ایران ترکی اور بلغاریہ کے ریل سفر کے واقعات اور مشکلات کو بھی بیان کرتا ہے مگر اسے ان سب سے زیادہ خوشی بلغاریہ کے ویزے ملنے پر ہوئی کیونکہ وہ سیاسی طور سے سوشلسٹ بابا شیخ رشید کے سیاسی خوابوں کو عملی شکل دیکھنا چاہتا تھا ،گو سوشلسٹ بلغاریہ کے ویزے کا حصول جان جوکھوں میں ڈالنے والا تھا مگر فرخ بھی سیاسی لگن کی طاقت لیے بلغاریہ سفارت خانے پہنچ ہی گیا۔

یوں تو اس آٹھ سو صفحات کی کتاب میں جا بجا واقعات مل جائیں گے مگر بلغاریہ کے ویزہ ملنے کی خوشی دراصل اس جبر و ضیائی مارشل لا میں سیاسی فتح تھی جس میں فرخ سرخرو ہوا تھا ۔

سفارت خانے کے واقعے میں فرخ کی خوشی اور خوف کے رنگ کچھ اس طرح رقمطراز ہوئے کہ'' بلغاریہ کے ویزے کے حصول کے لیے تین گھنٹے گذارنے کے لیے میں جونہی چائے کے کھوکھے پر آیا تو اسی لمحے روسی ساخت کی بھاری بھرکم موٹر سائیکلوں میں دو خفیہ اہلکار میرے قریب پہنچے اور گھیرا ڈال لیا اور کہا !کیا ہم آپ کا شناختی کارڈ دیکھ سکتے ہیں؟

''جی جی ! بالکل...''

حلق خشک اور چہرہ مسکرا رہا تھا۔''اندر'' ہو جانے کا خوف نہ تھا مگر جہاں گردی اور وہ بھی سرخ جنت کو چھو لینے کی خوشی کے مٹ جانے کے اندیشے تھے۔ یہ جنرل ضیا کا وہ سفاک دور تھا جہاں سوشلسٹ روس کے دوست ملک جانے والے افراد کی زندگی اجیرن بنا دی گئی تھی ، سیاسی تربیت کے داؤ پیچ اختیار کرکے خفیہ والوں سے جان چھڑائی اور بلغاریہ کا ویزا بمعہ اسپیشل اجازت نامہ مجھے بابائے سوشلسٹ شیخ رشید کے نام پر مل گیا۔

سوشلسٹ بلغاریہ کا یہ ویزا پاکر جو خوشی اس وقت ہوئی وہ اب تک میری شخصیت سے الگ نہ ہو سکی ہے، اسی جہاں گردی میں جب فرخ بلغاریہ پہنچے تو وہی اسپیشل زرد رنگ کا رقعہ میری آسانی بنا اور یوں سیاسی آدرشوں کے بنجارے کی وہ خوشی دیدنی تھی جب بلقان ایکسپریس آندریو ریلوے اسٹیشن کے قریب پہنچی اور میں سوشلسٹ بلغاریہ کی حدود میں!

'' کارل مارکس کی تصویر اور ایک بڑا سا نیون سائن ، سوشلسٹ آرٹ کا نمونہ ، مزدور اور کھیتوں میں کام کرتے دہقان ، ملوں کی چمنیوں سے نکلتا دھواں اور سر بلند کیے ایک نعرہ زن عورت ، جس کے ایک ہاتھ میں قلم اور دوسرے میں سرخ پرچم...

جب یہ سب کچھ دیکھا تو میں خود سے گویا ہوا کہ !

آہا! میں سرخ جنت میں ہوں...واقعی؟

میں ''آہنی دیوار'' پارکرگیا۔
Load Next Story