سیاسی اور معاشی مسائل

usmandamohi@yahoo.com

سندھ میں کئی ماہ سے گورنر سندھ کی نشست خالی تھی۔ پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد سندھ کے پی ٹی آئی کے گورنر عمران اسمٰعیل نے اپنی پارٹی کے ارکان کے قومی اسمبلی سے استعفے کی اقتدا میں خود بھی گورنر سندھ کے عہدے سے سبکدوشی اختیار کرلی تھی۔

شہباز حکومت نے ایم کیو ایم کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے انھیں دیگر کئی مراعات دینے کے علاوہ سندھ کی گورنر شپ بھی آفر کی تھی۔

ایم کیو ایم نے اپنا گورنر مقررکرنے کی آفر کو خوش دلی سے قبول کر لیا تھا مگر اس عہدے کے لیے وہاں کئی امیدوار کھڑے ہو گئے ایسے میں پارٹی کے لیے کوئی ایک نام دینا بہت مشکل تھا ، البتہ اس سلسلے میں ایم کیو ایم کی سینئر ممبر نسرین جلیل کا نام فائنل کر دیا گیا تھا مگر اسی دوران ایم کیو ایم میں کامران ٹیسوری کی شمولیت اور ان کو ڈپٹی کنوینرکا عہدہ دینے پر پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں کافی اختلافات سامنے آئے۔

کامران ٹیسوری پارٹی کے لیے کوئی نئی شخصیت نہیں تھے وہ پہلے بھی پارٹی میں فاروق ستار کی سفارش پر شامل کر لیے گئے تھے۔ اس وقت فاروق ستار ایم کیو ایم سے باہر اپنی الگ پارٹی چلا رہے ہیں۔

اسی پارٹی کے نام پر کچھ عرصہ قبل منعقد ہونے والا ضمنی الیکشن انھوں نے بھی لڑا مگر اس میں انھیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا۔ اگرچہ انھیں بہت نقصان اٹھانا پڑا تھا مگر وہ پھر بھی کامران ٹیسوری کے قریب رہے۔ کامران ٹیسوری اب ایک دفعہ پھر ایم کیو ایم میں داخل ہونے کی کوشش میں کامیاب رہے۔

اس دفعہ انھیں خالد مقبول صدیقی اور اظہارالحسن جیسے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کی حمایت حاصل ہوگئی اور انھیں رابطہ کمیٹی کا ڈپٹی کنوینر مقرر کر دیا گیا۔ اس تقرری پر پارٹی میں کچھ ممبران نے تنقید کی مگر انھیں نہ صرف اس عہدے پر برقرار رکھا گیا بلکہ گورنر سندھ کے لیے دوسرے ممبران کے ساتھ ان کا نام بھی نامزد کر دیا گیا۔ اس نامزدگی میں چار جن میں کشور زہرا، عبدالواسع، عامر خان اور کامران ٹیسوری شامل تھے۔

پہلے نسرین جلیل کو گورنر سندھ کے لیے فیوریٹ سمجھا جا رہا تھا مگر ایوان صدر کی جانب سے ان کے نام کو کلیئرنس نہیں مل رہی تھی کیونکہ انھوں نے الطاف حسین کے زمانے میں بھارت سمیت کئی غیر ملکی سفارت خانوں کو ملک کے خلاف خطوط لکھے تھے۔ اس دفعہ دیگر ناموں میں کامران ٹیسوری کا نام ایوان صدر کو بھا گیا۔

وہ دراصل ایم کیو ایم میں رہتے ہوئے بھی ایم کیو ایم سے دور سمجھے جاتے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ کامران ٹیسوری کے مسئلے پر پارٹی میں دو دھڑے بن چکے ہیں ۔

ایم کیو ایم کے اہم رہنما شہاب امام جنھوں نے کامران ٹیسوری کو گورنر سندھ کے لیے نامزد کیے جانے پر پارٹی سے استعفیٰ دے دیا تھا اب انھوں نے پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کر لی ہے۔ کامران ٹیسوری کی تقریب حلف برداری میں خالد مقبول صدیقی اور وسیم اختر کے علاوہ خواجہ اظہارالحسن نے بھی شرکت کی۔

لگتا ہے ان عہدیداران کی وجہ سے ہی کامران ٹیسوری کی پارٹی میں شمولیت ممکن ہوسکی اور پھر انھیں گورنر کے لیے بھی نامزد کیا گیا۔

ایم کیو ایم میں ان کے خلاف مخالفت کی وجہ یہ بھی ہے کہ جب وہ پہلی مرتبہ پارٹی میں شامل نہ ہو سکے تو انھوں نے ایم کیو ایم کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا تھا انھوں نے ایم کیو ایم کے رہنماؤں پر مال بنانے کے الزامات بھی لگائے تھے۔ یہ لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے ہیں یہ اب ڈیفنس میں رہائش اختیار کرچکے ہیں جب کہ انھوں نے عوام کی کوئی خدمت نہیں کی ہے۔


اس وقت بعض حلقے کامران ٹیسوری کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ وہ پڑھے لکھے نہیں اور انھیں گورنر سندھ کی اہم ذمے داری سونپ دی گئی ہے جب کہ ایسا نہیں ہے وہ ایک پڑھے لکھے انسان ہیں وہ کراچی یونیورسٹی سے گریجویٹ ہیں۔ وہ تجارت پیشہ ہیں اور گولڈ کی تجارت ان کا آبائی کاروبار ہے۔

کراچی کے صرافوں میں ان کا ایک بڑا نام ہے۔ ان کا کاروبار کراچی سے لے کر سنگاپور تک پھیلا ہوا ہے۔ ان کی گوناگوں خوبیوں کی وجہ سے ہی وہ پہلے پرویز مشرف کے بہت قریب مانے جاتے تھے اس کے بعد وہ فاروق ستار کے ساتھی بن گئے۔

فاروق ستار انھیں ایم کیو ایم میں اپنے وقت میں اعلیٰ عہدہ دلانا چاہتے تھے مگر وہ ویسا نہ کرسکے اب وہ کامران ٹیسوری کے گورنر مقرر ہونے پر بہت خوش ہیں۔ انھوں نے کامران کے گورنر مقرر ہونے پر اپنی ٹویٹ میں بہت خوشی کا اظہار کیا ہے۔

کراچی کے کئی سیاستدانوں نے انھیں مبارک باد پیش کی ہے جن میں پاک سرزمین پارٹی کے رہنما مصطفیٰ کمال بھی شامل ہیں۔ انھوں نے اپنی ٹویٹ میں امید ظاہر کی ہے کہ ان کے دور میں کراچی کے مسائل حل ہوں گے اور عوام کی پریشانیاں دور ہوں گی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ کراچی کے مسائل اتنے زیادہ بڑھ چکے ہیں کہ اب انھیں ٹالا نہیں جا سکتا۔ ان کو سنجیدگی سے حل کرنا ہوگا۔

کامران ٹیسوری نے خود بھی گورنر سندھ کا حلف اٹھانے کے بعد کہا ہے کہ'' وہ عوام کے اعتماد پر پورا اترنے کی بھرپور کوشش کریں گے اور اپنی ذمے داریوں کی ادائیگی کے سلسلے میں سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔'' ایم کیو ایم کے عہدیداران اور ممبران کو اب ان سے تمام اختلافات ختم کر دینے چاہئیں۔ اس لیے کہ اب وہ ایک ذمے دار عہدے پر پہنچ چکے ہیں۔ ان کے ساتھ اختلاف کے بجائے مکمل تعاون کرنا چاہیے۔

ایم کیو ایم کے رہنماؤں کو اس لیے بھی اب خوش ہونا چاہیے کہ حکومتی اتحاد نے ان کے ساتھ جو وعدہ کیا تھا وہ اس نے پورا کر دیا ہے۔ اب انھیں اس اتحاد کا پورا پورا ساتھ دینا چاہیے اور اپنے گورنر کے ذریعے کم سے کم کراچی کی صحیح مردم شماری کرانے کے سلسلے میں پیش رفت کرنا چاہیے۔

کراچی کے مسائل میں پانی اور صفائی کے مسئلے بھی بہت اہم ہیں پھر اس وقت کراچی چوروں اور ڈاکوؤں کی آماج گاہ بنا ہوا ہے ، اس مصیبت سے عوام کو نجات دلانے کے لیے ضروری اقدام کرنا چاہیے۔

نئے بلدیاتی انتخابات ملتوی ہو گئے ہیں،بلدیاتی انتخابات جب بھی ہوں ان میں صرف عوام کے مسائل حل کرنے والے امیدواروں کو ہی سامنے لانا ضروری ہے۔

کراچی کے مسائل کے حل کے سلسلے میں دوسری سیاسی پارٹیوں نے بھی عوام سے وعدے کیے ہیں۔ اس ملتوی ہونے والے الیکشن سے پہلے پہلے ایم کیو ایم کو فیوریٹ قرار دیا جا رہا تھا مگر اب پارٹی میں اختلافات کی وجہ سے لگتا ہے کہ ایم کیو ایم اپنا میئر بنانے میں ناکام رہے البتہ پی ٹی آئی کے لیے اس مرتبہ روشن چانس نظر آ رہا ہے کیونکہ اس وقت عمران خان نے پورے ملک میں حقیقی آزادی کا بیانیہ اختیار کرکے کافی مقبولیت حاصل کر لی ہے مگر اکثر مبصرین کا کہنا ہے کہ آڈیو لیکس نے عمران خان کے لیے مسائل پیدا کیے،مگر ضمنی قومی اسمبلی کے انتخابات نے ثابت کیا ہے کہ عمران کی مقبولیت بڑھی ہے۔

اگرچہ مخالف ناقدین کہہ رہے ہیں کہ وہ پہلے بھی تقریباً چار سال ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں مگر انھوں نے عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا۔ اب وہ پھر نئے سرے سے وعدے کر رہے ہیں مگر لوگ تذبذب کا شکار نظر آتے ہیں۔ ان کی اسٹیبلشمنٹ سے الجھنے کی پالیسی سے بھی لوگ خوش نظر نہیں آ رہے ۔

اس وقت ملک کو سیاسی استحکام کی سخت ضرورت ہے کیونکہ اس کے بغیر ملک کی معاشی حالت درست نہیں ہوسکتی مگر سیاسی خلفشار رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے جس سے ملک کے معاشی حالات مزید بگڑنے کا خطرہ ہے۔
Load Next Story