ایک لفظ کی تباہ کاریاں

barq@email.com

آپ یقین کریں، ان دنوں ہمیں بڑا شدید غصہ آیا ہوا ہے، اتنا شدید کہ ہمیں خود بھی پتہ نہیں کہ کتنا شدید غصہ ہے۔ یوں سمجھ لیجیے کہ ''نقطہ بلاسٹ'' سے بس تھوڑا ہی کم۔ اگریہ غصہ ہمیں کسی آدمی پر آیا ہوتا یاآدمی نہ سہی، کسی وزیر، مشیر،معاون خصوصی یا لیڈر پر آیا ہوتا تو ہم کب کے اسے شہید اوراپنے آپ کو غازی کے مرتبے پر فائز کرچکے ہوتے لیکن ہمارے اس بے پناہ اورشدید غصے کا ٹارگٹ کوئی انسان یاانسان نماچیزنہیں بلکہ ایک لفظ''غیرت'' ہے، جی ہاں لفظ غیرت جو ہماری تمام تر پسماندگی اوربدنصیبی کا باعث ہے۔

سنا ہے ادھر ولایت میں نپولین نام کا ایک آدمی تھا جو ڈراموں میں ''بونے'' کا پارٹ کرتا تھا، اس لیے نپولین بوناپارٹ بھی کہلاتا تھا،کہتے ہیں کہ اس نے ڈکشنری سے ''ناممکن'' کا لفظ نکال کر کسی پرانی قبرمیں دفن کردیا تھا لیکن کم بخت وہ طریقہ بھی اپنے ساتھ لے گیا،جس طریقے سے اس نے لفظ ناممکن کو ڈکشنری سے نکال باہرکیا تھا، اگر وہ طریقہ ہمیں معلوم ہوتا تو ہم بھی اس بدبخت ،سیاہ بخت اور تیرہ بخت لفظ ''غیرت'' کو ڈکشنری سے تو کیا دنیا ہی سے نکال چکے ہوتے اور اب اس کی داستاں تک بھی نہ ہوتی۔

داستانوں میں۔ اس لیے سمجھ میںنہیں آرہاہے کہ ہم ترقی کے دشمن نمبر ون لفظ ''غیرت'' کے ساتھ کیاکریں،کیوں کہ پاکستان کی پچھترسالہ تاریخ کامطالعہ اورمشاہدہ اورتحقیق کرنے کے بعد ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہماری تمام تر پسماندگی کا ذمے داریہی لفط غیرت ہے۔ہمیں پکا پکا یقین ہے کہ اگر یہ منحوس، ترقی چوس اورخڑوس لفظ نہ ہوتا تو ہم بام ترقی پرکب کے پہنچ چکے ہوتے ۔

ہم دیکھ رہے ہیں کہ جہاں لڑکیاں پڑھ لکھ کر اور پھر لکھ پڑھ کر اپنا، اپنے خاندان اور اپنے ملک وقوم کانام روشن کرنے کو نکلتی ہیں تو یہ کم بخت لفظ ''غیرت'' ان کے راستے میں دیوار بن کر کھڑا ہوجاتاہے بلکہ داڑھ کا کنکر اورجوتے کی کیل بن جاتاہے، یوں سمجھ لیں کہ ابھی تک پاکستان کی آدھی آبادی کو آزادی ملی ہی نہیں اور یہ سب کچھ اس شرمناک، خطرناک اور دہشت ناک لفظ ''غیرت''کاکیا دھرا ہے۔

ہمیں ایسی بہت ساری لڑکیوں کے بارے میں پتہ ہے کہ بیچاریاں لکھ پڑھ کو جب اپنا ''کیرئیر'' بنانے نکلتی ہیں تو یہ غیرت آڑے آجاتی ہے اور انھیں اپنے لواحقین سے بے گناہ، بے خطا قتل کروا دیتی ہے، گویا وہ غنچے بن کھلے مرجھا جاتے ہیں ۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ لفظ غیرت ہی ہماری ترقی کی راہ میں حائل ہے ورنہ ہم اب تک نہ جانے کہاں پہنچ چکے ہوتے،نہ جانے ایسے کتنے ''غنچے''اب تک اس منحوس غیرت کا شکار ہوئے ہوں۔ایک طرف تو ہم کہتے ہیں کہ آزادی انسان کا حق ہے، اقوام متحدہ کے چارٹرمیں بھی لکھا ہواہے کہ ''انسان آزاد پیدا ہوا ہے اورآزاد رہے گا''


سوچنے والی بات ہے کہ انسان جب پیداہوتا ہے تو اس کے جسم پر ایک ''تار'' تک نہیں ہوتا لیکن یہ غیرت کے علمبردار اسے لباس کا غلام بنا لیتے ہیں، ہمارے نزدیک تو ''غلامی ''کی پہلی نشانی وہ لباس ہے جو کسی دوسری تہذیب سے مستعار لیا ہو۔

سمجھ میں نہیں آتا اگرکوئی ایسے غیرملکی یا دوسری ثقافت کے لباس کی جگہ اپنے علاقائی لباس کو ترجیح دیتا ہے ہے تو اس میں برائی کیا ہے بلکہ ہمارا تو خیال ہے بلکہ یقین ہے کہ اگر لباس کو کلچر سے ہم آہنگ کردیا جائے تو معاشرے کاکچھ بھی نہیں بگڑے گا بلکہ مقامی کلچر کی شان بڑھ جائے گی حالانکہ اگر کوئی خاتون اس اپنے روایتی لباس میں بازار میں نکل جائے گی اور پورا بازارگھوم کر آجائے گی تو کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ بے پردگی ہورہی ہے، اگر کسی مقام پر وہ مقامی لباس میں کام کرے گی تو بھی اس کی کام کی کارکردگی میں فرق نہیں آئے گا، تو پھر عرب و ایران کی تہذیب و ثقافت پر اترانے کی کیا تک ہے ۔

کسی مخصوص لباس کو مذہبی حیثیت دینا اور پھر اسے کلچر بھی کہنا درست نہیں ہے۔ لہٰذا ہمارے ایک مخصوص طبقے کو ''غیرت'' کا استعمال وہاں کرنا چاہیے جہاں ضرورت ہے جیسے جھوٹ بولنا ہماری غیرت کو گوارا نہیں ہے، کسی کی دولت پر ڈاکا ڈالنا غیرت مندوں کی نشانی نہیں ہے۔ اس لیے ؎

پاتے نہیں جب راہ تو چڑھ جاتے ہیں نالے

رکتی ہے مری طبع تو ہوتی ہے رواں اور

ہم چاہتے ہیں کہ سارے انصاف پسند، ترقی پسند لوگ ہمارے ساتھ ہولیں اور پھردیکھیے اندازگل افشانی گفتار۔
Load Next Story