بجلی بریک ڈاؤن کے اسباب
جمعرات کو پاکستان میں بجلی کا بڑا بریک ڈاؤن ہوا جس کے بعد سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے مختلف علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہوگئی ، یہ پاکستان میں پہلی بار نہیں ہوا ہے۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن ہوچکے ہیں۔ رواں برس کے آغاز پر اس وقت کی حکومت نے بجلی کے بریک ڈاؤن پر کہا تھا کہ ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن گڈو پاور پلانٹ میں خرابی کی وجہ سے ہوا جس کے بعد دیگر بجلی گھر بھی بند ہوئے۔
اس وقت گڈو میں خرابی کے بعد تربیلا اور منگلا بجلی گھروں سے بھی 10 ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی منقطع ہو گئی تھی۔ پاکستان میں یہ شعبہ سب سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرتا ہے اور یہی وہ شعبہ ہے جس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کی حالت دگر گوں ہے۔
پاکستان میں کوئلے، قدرتی گیس ، آبی ذرایع اور شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بجلی کی طلب کے بارے میں حکومتیں ہمیشہ غلط اعداد و شمار پیش کرتی رہی ہیں۔ کبھی کہا جاتا کہ پاکستان میں بجلی کی طلب 20 ہزار میگا واٹ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے سابق وزیر حماد اظہر نے دعویٰ کیا کہ 24ہزار284 میگا واٹ کی پاکستان میں طلب ہے۔ در اصل پاکستان میں بجلی کی سہولت سے 20 فیصد عوام محروم ہیں۔
اکنامک سروے 2021اور22کے مطابق پاکستان میں جتنے پاور پلانٹس نصب ہیں ان کی پیداواری صلاحیت 41ہزار 557 میگا واٹ ہے ، جب کہ رہائشی اور صنعتی شعبوں کی ضرورت 30 ہزار میگاواٹ ہے ، جب کہ تقسیم کار کمپنیوں کی صلاحیت 22 ہزار میگاواٹ تک محدود ہے۔ جب بجلی کی طلب بڑھتی ہے تو کم از کم 8 ہزار میگاواٹ کی طلب بڑھ جاتی ہے اور یہ کمی پوری کرنے کے لیے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔
گویا عوام کو ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نااہلی کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے تانبے کے تاروں کی جگہ المونیم کے تار استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں لائن لاسز میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ بوجھ بھی عوام پر پڑرہا ہے۔
بجلی کمپنیاں فیول ایڈجسمنٹ چارجز بھی لیتی ہیں اور یونٹ کے زیادہ استعمال پر بجلی کا نرخ بھی بڑھاتی ہیں اور اپنے بلوں میں ہر اقسام کے ٹیکس بھی شامل کرتی ہیں اور اگر کوئی صارف تاخیر سے بل جمع کرائے تو اس پر جرمانہ بھی عائد کرتی ہیں اور ان کی کارکردگی یہ ہے کہ بجلی کی مسلسل فراہمی کو بھی یقینی نہیں بنا سکتیں اور یہ عوام سے حاصل شدہ ٹیکس کو قومی خزانے میں بروقت جمع بھی نہیں کراتیں۔
لہٰذا ان کمپنیوں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ یہ جب اپنے صارف سے ٹیکس وصول کرتی ہیں تو ہر ماہ کے بل کے ساتھ ان ٹیکسوں کے قومی خزانے میں جمع کرانے کی رسید بھی ہر صارف کو دیں ، تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ ہمارے خون پسینے کی کمائی سے کتنی رقم جمع ہوئی ہے اور کتنی قومی خزانے میں گئی ہے ، کیونکہ عوام سے فیول ایڈجسمنٹ چارجز وصول کرنے والی کے الیکٹرک سوئی سدرن کی نا دھندہ ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پاکستان نے وزیر اعظم شہباز شریف سے شکایت کی ہے کہ کے الیکٹرک عوام کو 17اعشاریہ 5 روپے فی یونٹ کے بجائے 35 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فروخت کررہی ہے اور سوئی سدرن بھی وزارت توانائی کے اس ترجیحی حکم کی خلاف ورزی کررہی ہے جس کے تحت اسے کے الیکٹرک کو ترجیحی بنیاد پر گیس دینی تھی۔
اس کے نتیجے میں کے الیکٹرک صارفین پر 131 ارب روپے کا ناجائز بوجھ پڑ رہا ہے۔ ٹرانسپیرنسی نے وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں بہت سے انکشافات کیے ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کمپنی کا کام بجلی کی فراہمی نہیں بلکہ عوام کی جیبیں خالی کرانا ہے۔
درحقیقت بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں سفید ہاتھی بن گئی ہیں، کمپنیوں کی نااہلی اور انفرا اسٹرکچر پر اخراجات نہ کرنے کی وجہ سے لائن لاسز اور نقصانات کے باعث عوام کو لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ اضافی بلز بھی برداشت کرنا پڑے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ( نیپرا) نے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور نیپرا نے پاور پلانٹس کی کارکردگی غیر تسلی بخش اور بجلی کے محکمے میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے حفاظتی اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے۔
نیپرا رپورٹ کے مطابق تقسیم کار کمپنیز کے باعث 2022 میں گردشی قرض میں 343 ارب کا اضافہ ہوا، اور صرف لائن لاسز کی مد میں صارفین کو بلوں میں 113 ارب دینا پڑے۔ نیپرا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کنڈے کے ذریعے مجموعی نقصانات 230 ارب تک پہنچ گئے۔
تقسیم کار کمپنیاں کی ریکوری کے واجبات 1680ارب تک پہنچ گئے۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی اپنے دور میں 282 ارب ریکوریاں ڈیفالٹرز سے وصول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین نور عالم خان کا کہنا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں مافیا بیٹھا ہوا ہے، اگر کوئی کام رولز کے خلاف ہو تو نیب اور ایف آئی اے کو بھجوائیں گے۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی اوور بلنگ ثابت ہوگئی۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ پاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی نے اپنی رپورٹ پاورڈویژن کو جمع کرادی۔ پی آئی ٹی سی کی رپورٹ کے مطابق لیسکو میں 46 بیچز میں سے 6 میں اوور بلنگ ہوئی اور گیپکو میں 36 میں سے 7بیچز میں اوور بلنگ ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیسکو میں 30 میں سے 11 بیچز میں اوور بلنگ ثابت ہوئی۔ تحقیقات کے مطابق، 8 ماہ کے دوران ملتان، سکھر، کراچی، لاہور، حیدر آباد، گجرانوالہ اور فیصل آباد کے لاکھوں صارفین کو بجلی کے بل طے شدہ 31 روز کے بجائے 37 روز کی بنیاد پر کئی بار بھیجے گئے۔
31 روز میں 300 یونٹ کا بل 3200 روپے بنتا ہے، لہٰذا اس طرح صرف ایک روز کے اضافے سے بلوں میں 600 روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ خیال رہے کہ اس طرح بل زیادہ ریٹ والے سلیب کے لحاظ سے بنے گا اور صارف کو زیادہ رقم ادا کرنی پڑے گی ، یعنی بجلی کمپنیاں ایسے حربے استعمال کرتی ہیں۔
جن سے عوام کی ہی جیب پر ڈاکا پڑتا ہے۔ جمعرات کو ہونے والے اس بریک ڈاؤن کے بعد وزارتِ توانائی نے ایک ٹویٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جنوبی ٹرانسمیشن سسٹم میں حادثاتی خرابی کے باعث متعدد پاور پلانٹس مرحلہ وار ٹرپ ہو ئے ہیں جس سے ملک کے جنوبی حصوں میں بجلی کی ترسیل میں خلل پیدا ہوا ہے ، جب کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے ذرایع کے مطابق ملک میں بجلی کا 500 کے وی کا نظام بیٹھ گیا۔
وزارت توانائی کے ذرایع کا کہنا ہے کہ گڈو تھرمل پاور کے تمام یونٹ ٹرپ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے مختلف علاقوں کو بجلی کی فراہمی معطل ہوئی ، جن شہروں اور علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہوئی ان میں کراچی، جیکب آباد، شکار پور، دادو، سبی، رحیم یار خان، گھوٹکی، رحیم یار خان و دیگر علاقے شامل ہیں۔ ادھر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے واحد ادارے ترجمان کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ ہم اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔
پاکستان میں اس سے قبل بھی بجلی کے بڑے بریک ڈاؤن ہوچکے ہیں۔ رواں برس کے آغاز پر اس وقت کی حکومت نے بجلی کے بریک ڈاؤن پر کہا تھا کہ ملک میں بجلی کا بریک ڈاؤن گڈو پاور پلانٹ میں خرابی کی وجہ سے ہوا جس کے بعد دیگر بجلی گھر بھی بند ہوئے۔
اس وقت گڈو میں خرابی کے بعد تربیلا اور منگلا بجلی گھروں سے بھی 10 ہزار میگاواٹ بجلی کی فراہمی منقطع ہو گئی تھی۔ پاکستان میں یہ شعبہ سب سے زیادہ سرمایہ اکٹھا کرتا ہے اور یہی وہ شعبہ ہے جس کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کی حالت دگر گوں ہے۔
پاکستان میں کوئلے، قدرتی گیس ، آبی ذرایع اور شمسی توانائی کے ذریعے بجلی پیدا کی جاتی ہے۔ پاکستان میں بجلی کی طلب کے بارے میں حکومتیں ہمیشہ غلط اعداد و شمار پیش کرتی رہی ہیں۔ کبھی کہا جاتا کہ پاکستان میں بجلی کی طلب 20 ہزار میگا واٹ ہے۔ پی ٹی آئی حکومت کے سابق وزیر حماد اظہر نے دعویٰ کیا کہ 24ہزار284 میگا واٹ کی پاکستان میں طلب ہے۔ در اصل پاکستان میں بجلی کی سہولت سے 20 فیصد عوام محروم ہیں۔
اکنامک سروے 2021اور22کے مطابق پاکستان میں جتنے پاور پلانٹس نصب ہیں ان کی پیداواری صلاحیت 41ہزار 557 میگا واٹ ہے ، جب کہ رہائشی اور صنعتی شعبوں کی ضرورت 30 ہزار میگاواٹ ہے ، جب کہ تقسیم کار کمپنیوں کی صلاحیت 22 ہزار میگاواٹ تک محدود ہے۔ جب بجلی کی طلب بڑھتی ہے تو کم از کم 8 ہزار میگاواٹ کی طلب بڑھ جاتی ہے اور یہ کمی پوری کرنے کے لیے لوڈ شیڈنگ کی جاتی ہے۔
گویا عوام کو ڈسٹری بیوشن کمپنیوں کی نااہلی کی سزا بھگتنا پڑتی ہے۔ ڈسٹری بیوشن کمپنیوں نے تانبے کے تاروں کی جگہ المونیم کے تار استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں جس کے نتیجے میں لائن لاسز میں اضافہ ہوگیا ہے اور یہ بوجھ بھی عوام پر پڑرہا ہے۔
بجلی کمپنیاں فیول ایڈجسمنٹ چارجز بھی لیتی ہیں اور یونٹ کے زیادہ استعمال پر بجلی کا نرخ بھی بڑھاتی ہیں اور اپنے بلوں میں ہر اقسام کے ٹیکس بھی شامل کرتی ہیں اور اگر کوئی صارف تاخیر سے بل جمع کرائے تو اس پر جرمانہ بھی عائد کرتی ہیں اور ان کی کارکردگی یہ ہے کہ بجلی کی مسلسل فراہمی کو بھی یقینی نہیں بنا سکتیں اور یہ عوام سے حاصل شدہ ٹیکس کو قومی خزانے میں بروقت جمع بھی نہیں کراتیں۔
لہٰذا ان کمپنیوں کو پابند کیا جانا چاہیے کہ یہ جب اپنے صارف سے ٹیکس وصول کرتی ہیں تو ہر ماہ کے بل کے ساتھ ان ٹیکسوں کے قومی خزانے میں جمع کرانے کی رسید بھی ہر صارف کو دیں ، تاکہ ہمیں معلوم ہوسکے کہ ہمارے خون پسینے کی کمائی سے کتنی رقم جمع ہوئی ہے اور کتنی قومی خزانے میں گئی ہے ، کیونکہ عوام سے فیول ایڈجسمنٹ چارجز وصول کرنے والی کے الیکٹرک سوئی سدرن کی نا دھندہ ہے۔
ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل پاکستان نے وزیر اعظم شہباز شریف سے شکایت کی ہے کہ کے الیکٹرک عوام کو 17اعشاریہ 5 روپے فی یونٹ کے بجائے 35 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی فروخت کررہی ہے اور سوئی سدرن بھی وزارت توانائی کے اس ترجیحی حکم کی خلاف ورزی کررہی ہے جس کے تحت اسے کے الیکٹرک کو ترجیحی بنیاد پر گیس دینی تھی۔
اس کے نتیجے میں کے الیکٹرک صارفین پر 131 ارب روپے کا ناجائز بوجھ پڑ رہا ہے۔ ٹرانسپیرنسی نے وزیر اعظم کے نام اپنے خط میں بہت سے انکشافات کیے ہیں ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اس کمپنی کا کام بجلی کی فراہمی نہیں بلکہ عوام کی جیبیں خالی کرانا ہے۔
درحقیقت بجلی کی تقسیم کار کمپنیاں سفید ہاتھی بن گئی ہیں، کمپنیوں کی نااہلی اور انفرا اسٹرکچر پر اخراجات نہ کرنے کی وجہ سے لائن لاسز اور نقصانات کے باعث عوام کو لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ اضافی بلز بھی برداشت کرنا پڑے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ( نیپرا) نے بجلی تقسیم کار کمپنیوں کی کارکردگی پر سوالات اٹھا دیے ہیں اور نیپرا نے پاور پلانٹس کی کارکردگی غیر تسلی بخش اور بجلی کے محکمے میں کام کرنے والے ملازمین کے لیے حفاظتی اقدامات کو ناکافی قرار دیا ہے۔
نیپرا رپورٹ کے مطابق تقسیم کار کمپنیز کے باعث 2022 میں گردشی قرض میں 343 ارب کا اضافہ ہوا، اور صرف لائن لاسز کی مد میں صارفین کو بلوں میں 113 ارب دینا پڑے۔ نیپرا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کنڈے کے ذریعے مجموعی نقصانات 230 ارب تک پہنچ گئے۔
تقسیم کار کمپنیاں کی ریکوری کے واجبات 1680ارب تک پہنچ گئے۔ رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی اپنے دور میں 282 ارب ریکوریاں ڈیفالٹرز سے وصول کرنے میں ناکام رہی ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے چیئرمین نور عالم خان کا کہنا ہے کہ بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں میں مافیا بیٹھا ہوا ہے، اگر کوئی کام رولز کے خلاف ہو تو نیب اور ایف آئی اے کو بھجوائیں گے۔
بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کی اوور بلنگ ثابت ہوگئی۔ یہ اطلاعات بھی سامنے آئیں کہ پاور انفارمیشن ٹیکنالوجی کمپنی نے اپنی رپورٹ پاورڈویژن کو جمع کرادی۔ پی آئی ٹی سی کی رپورٹ کے مطابق لیسکو میں 46 بیچز میں سے 6 میں اوور بلنگ ہوئی اور گیپکو میں 36 میں سے 7بیچز میں اوور بلنگ ہوئی۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ فیسکو میں 30 میں سے 11 بیچز میں اوور بلنگ ثابت ہوئی۔ تحقیقات کے مطابق، 8 ماہ کے دوران ملتان، سکھر، کراچی، لاہور، حیدر آباد، گجرانوالہ اور فیصل آباد کے لاکھوں صارفین کو بجلی کے بل طے شدہ 31 روز کے بجائے 37 روز کی بنیاد پر کئی بار بھیجے گئے۔
31 روز میں 300 یونٹ کا بل 3200 روپے بنتا ہے، لہٰذا اس طرح صرف ایک روز کے اضافے سے بلوں میں 600 روپے کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ خیال رہے کہ اس طرح بل زیادہ ریٹ والے سلیب کے لحاظ سے بنے گا اور صارف کو زیادہ رقم ادا کرنی پڑے گی ، یعنی بجلی کمپنیاں ایسے حربے استعمال کرتی ہیں۔
جن سے عوام کی ہی جیب پر ڈاکا پڑتا ہے۔ جمعرات کو ہونے والے اس بریک ڈاؤن کے بعد وزارتِ توانائی نے ایک ٹویٹ میں اس بات کی تصدیق کی ہے کہ جنوبی ٹرانسمیشن سسٹم میں حادثاتی خرابی کے باعث متعدد پاور پلانٹس مرحلہ وار ٹرپ ہو ئے ہیں جس سے ملک کے جنوبی حصوں میں بجلی کی ترسیل میں خلل پیدا ہوا ہے ، جب کہ نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسپیچ کمپنی (این ٹی ڈی سی) کے ذرایع کے مطابق ملک میں بجلی کا 500 کے وی کا نظام بیٹھ گیا۔
وزارت توانائی کے ذرایع کا کہنا ہے کہ گڈو تھرمل پاور کے تمام یونٹ ٹرپ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے سندھ، بلوچستان اور پنجاب کے مختلف علاقوں کو بجلی کی فراہمی معطل ہوئی ، جن شہروں اور علاقوں میں بجلی کی فراہمی معطل ہوئی ان میں کراچی، جیکب آباد، شکار پور، دادو، سبی، رحیم یار خان، گھوٹکی، رحیم یار خان و دیگر علاقے شامل ہیں۔ ادھر کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے واحد ادارے ترجمان کے الیکٹرک کا کہنا ہے کہ ہم اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہیں۔