سیاسی بے چینی

meemsheenkhay@gmail.com

جب ہم پیدا ہوتے ہیں تو ہم بہت غصے میں چیختے اور چلاتے ہیں کہ ہم کن احمقوں کی دنیا میں آگئے ہیں، یہ بات تو ولیم شیکسپیئر نے کہی تھی۔

ان کی بات کو مان لیتے ہیں مگر معاف کیجیے گا کہ آپ کو ہماری بات سے بھی اتفاق کرنا ہوگا اب بچے کی ڈلیوری نارمل ہو یا سرجری سے وہ بہت کم روتا ہے۔

اس کی وجہ یہ ہے کہ نامعلوم آواز اس کے کانوں میں آتی ہے کہ '' بیٹا آ تو گئے ہو اب حالات کے ذمے دار بھی تم ہی ہو'' کیونکہ وہ نامعلوم آواز اس کے کان میں کہتی ہے کہ '' تمہیں دل و جان سے مبارک ہوکہ تم آئی ایم ایف کے قرض دار پیدا ہوئے ہو، اور یاد رکھنا کہ تم یہ قرض نہیں اتار سکو گے کہ تمہارے ماں باپ بھی قرض دار پیدا ہوئے تھے اور یہ سلسلہ سالوں سے چل رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ لہٰذا اب تم تیاری کرو کہ بقیہ زندگی کیسے گزرے گی ویسے تو وہی گزرے گی جو تمہارے ماں باپ کی گزری ہے۔''

قارئین! آپ یقین کریں کوئی نیکی کرتا ہے تو ہم سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ یہ کیسے ممکن ہوا بلکہ لوگ ایک دوسرے کو حیرت زدہ ہوکر دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ یہ نیکی کیسے گلاب کے پھول کی طرح کھل گئی گزشتہ دنوں چینی کے کرتا دھرتاؤں نے وافر مقدار میں پیداوار ہونے کی وجہ سے برآمدات کی اجازت مانگی تھی امید تو ہے کہ انھیں ان کے ہم منصب ضرور اجازت دے دیں گے کہ یہ روایت گزشتہ 40 سال سے متواتر کامیابی کے ساتھ رواں دواں ہے قوم کی بقا کا کسی کو احساس نہیں۔ گزشتہ دنوں سندھ کے میہڑ شہر کے بیوپاری سیٹھ نانک رام نے گندم کا خالص آٹا 65 روپے فی کلو میں فروخت کرکے حاجیوں ، پرہیز گار لوگوں کو بے بسی کے امتحان میں ڈال دیا، اسے کہتے ہیں نیکی۔

اس شخص نے حکومت سے برآمد کے لیے درخواست نہیں کی۔ بس نیکی کرنی تھی کردی۔ آٹا ، دودھ ، دہی کے بعد بیکری والوں نے ڈبل روٹی، پاپے بھی مہنگے کر دیے۔ بیکری والوں نے ازخود ان چیزوں پر قیمتیں بڑھائی ہیں۔ میدہ یا چینی پر قیمتیں کیا بڑھا دی گئی ہیں گزشتہ کئی ماہ سے بیکری کے سامان میں کسی قسم کا اضافہ نہیں ہوا۔ انڈے خود ساختہ مہنگے کر دیے ہیں۔ کوئی پرسان حال نہیں جو دل چاہے کرتے رہیں۔

سندھ حکومت خاموش ہے پرائس کنٹرول اور محکمہ بیورو آف سپلائیز بھی خاموش ہے تو پھر قوم بھی خاموش ہوگئی ہے مگر یہ یاد رہے کہ خاموشی مجبوری کے تحت اچھی چیز نہیں ہے لوگوں نے چپ کا تالا ڈال لیا ہے جس دن یہ تالا کھل گیا تو پھر سب ٹھیک ہوجائے گا۔

گزشتہ دنوں ایک صاحب سے ملاقات ہوئی کہنے لگے کہ '' باہرکی نوکری چھوڑ آیا ہوں۔ آپ کوئی مشورہ دیں 5 لاکھ میرے پاس ہیں۔'' میں نے ان سے پوچھا '' آپ کی عمر کتنی ہے؟ '' کہنے لگے'' 60 سال۔'' میں نے کہا ''قومی بچت میں ڈال دیں۔ 6 یا 7 ہزار مل ہی جائیں گے۔'' کہنے لگے ''کیوں نہ کوئی کاروبار کرلوں۔'' میں نے کہا ''میرا بھی یہی مشورہ ہے۔'' کہنے لگے '' اب رائے دیں ،کیا کروں؟'' میں نے کہا '' سب سے زیادہ کمائی سبزی فروش کی ہے۔


منڈی سے بھنڈی 100 روپے کلو لے کر 80 روپے پاؤ یعنی کے 320 روپے کلو فروخت کر رہے ہیں، توری 70 روپے کلو لا کر 200 روپے کلو فروخت کرتے ہیں۔'' محترم گفتگو کے دوران بہت ہی گھٹیا برانڈ کا سگریٹ پی رہے تھے۔ میں نے کہا '' جس سبزی فروش کی چپل ٹوٹی ہوئی اور کپڑے میلے ہوتے ہیں کاروبار کے دوران یہ دکھاؤا ہے جس سبزی فروش سے راقم سبزی خریدتا ہے وہ 350 روپے کے پیکٹ والا سگریٹ پیتا ہے شام کو 6 بجے کے بعد 1000 سی سی گاڑی میں گھومتا ہے۔

آپ بھی سبزی کی دکان کھول لیں۔ دودھ، دہی کی کھول لیں، فروٹ کی کھول لیں، دال چاول بیچنے کی کھول لیں اور خوب دل بھر کر لوٹ مار کریں۔ قوم سے ایک یا دو افراد آئیں گے تھوڑا بہت لے دے کر ان کو روانہ کیجیے۔'' فٹ پاتھ لوگوں کے چلنے کے لیے ہے اس پر اپنا تخت سبزی کا مزے میں لگائیں۔

آپ سے کوئی نہیں پوچھے گا۔ ایک سوزوکی میں 5 سبزی فروش سامان لاتے ہیں، سوزوکی والے کے حوالے سے بتا رہا ہوں، سبزی منڈی سے لے کر 10 کلو میٹر تک کا کرایہ فی مسافر جو سبزی لے کر آرہا ہے وہ 200 روپے دیتا ہے جگہ کا کرایہ وہ نہیں دیتا، حکومتی جگہ پر قبضہ کر رہا ہے، وہ فٹ پاتھ جو قوم کے چلنے کے لیے ہے ان پر ان دادا گیروں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ ریاست سب سے طاقت ور ہوتی ہے مگر افسوس ریاست میں رہنے والے ان کو یہ سہولتیں دیتے ہیں۔ پچھلے دنوں میں ایک علاقے سے گزر رہا تھا، ٹریفک بہت جام تھا۔

اس کی وجہ سوئیٹر، قمیضوں اور پاجامے فروخت کرنے والے تھے، ان کے ناجائز ٹھیلوں کی وجہ سے ٹریفک بہت بلاک ہو گیا تھا۔ ایک غیر ملکی معزز شخص اپنا ٹھیلا درمیان میں کھڑا کرکے موجود تھا، مجھ سے اگلی گاڑی میں ایک پاکستانی تھا، اس نے اس غیر ملکی سے کہا جو اردو بھی نہیں بول سکتا تھا کہ تم کونے میں کھڑے ہو جاؤ، وہ ایک دلیر نوجوان لڑکا تھا، جس کی دلیری کو سلام کیا جاسکتا ہے۔

اس غیر ملکی نے اس جوان لڑکے کو مکا مارا اور ایک مکا اس کی 80 لاکھ کی گاڑی پر مارا۔ بس پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ پھر اسے بچانے والے 4 غیر ملکی آگئے ، مگر اس لڑکے نے ان چاروں کو مار مار کر لہولہان کردیا۔ اس میں سے دو جان بچا کر بھاگ گئے ،جو یہاں قانون کے ذمے دار ہیں وہ ان غیر ملکیوں کی غیر سنجیدہ اور داداگیری کو ختم کریں یہ آپ کے لیے بہتر ہے۔

نہیں تو یہ وبال بن جائیں گے۔ جو ٹھیلے لگاتے ہیں، کچرا چنتے ہیں، ان کے شناختی کارڈ چیک کریں اور اگر کارڈ ہے تو اس کی تفصیلات لیں۔ ایسا نہ ہو کہ پانی سر سے اوپر گزر جائے اس سے بہتر ہے کہ اس کا سدباب کیا جائے اس سے پہلے کہ حالات بگڑ جائیں۔ قوم ان سیاسی جھگڑوں سے تنگ آچکی ہے۔

پی ڈی ایم کا اپنا منشور ہے، پی ٹی آئی کا اپنا منشور ہے، آپ لوگ آپس میں بیٹھ کر بات کریں، ضروری ہے کہ ذہنوں میں غلط تاثر لے کر بات کو طول دیا جائے اگر حکومت نے سلجھا ہوا فیصلہ نہیں کیا تو بدمزگی پیدا ہوگی۔

حکومت اور اپوزیشن بہت سنجیدگی سے مذاکرات کرے اور کسی نتیجے پر پہنچنے کی کوشش کریں۔ (ق) لیگ کے بزرگوار چوہدری شجاعت نے وزیر اعظم کو یقین دلایا کہ مل کر چلیں گے۔ چوہدری صاحب! قوم پر احسان ہی کرنا ہے تو حکومت اور اپوزیشن کو دوستانہ ماحول کی میز پر بٹھائیں۔ ادھر کراچی میں بلدیاتی الیکشن پھر غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیے گئے ہیں ، دیکھیں کہ کیا نتیجہ نکلتا ہے۔
Load Next Story