اسٹریٹ کرائم کا عفریت ذمے دار کون آخری قسط

اعداد و شمار کے مطابق کراچی میں ستمبر کے مہینے تک 56,500 جرم کی وارداتیں رپورٹ ہو چکی ہیں جن کا اگر ماہانہ تناسب نکالا جائے تو ایک ماہ میں 6,227 وارداتیں رپورٹ ہوئی ہیں ، جن میں ڈکیتی اور راہزنی میں مزاحمت کے دوران 56 افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔

گھروں میں 303 ڈکیتی کی وارداتیں ہوئیں، اور ان نو ماہ کے دوران کراچی کے شہریوں سے 19000 موبائل فون اسلحہ کے زور پر چھین لیے گئے۔ کراچی میں موٹر سائیکل چوری کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے، گزشتہ نو ماہ میں کراچی سے 35,000 موٹر سائیکل چوری ہوئے جب کہ 1383 مختلف ماڈلز کی کاریں بھی چوری ہوئیں۔

کاریں چھیننے کی وارداتیں بھی اب تک رکی نہیں ہیں اور پچھلے نو ماہ کے عرصے میں 104 کاریں اسلحہ کے زور پر چھینی جا چکی ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق ایک ماہ میں 2,111 موبائل فونز با آسانی چھین لیے جاتے ہیں۔

ان اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو میری اس بات کی تصدیق ہو جاتی ہے کہ چونکہ تھانوں میں نفری کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے اس لیے جرائم پیشہ افراد بہت آسانی سے کہیں بھی واردات کرکے فرار ہوجاتے ہیں اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جب تک تھانوں میں مناسب نفری کا انتظام نہیں کیا جائے گا ، اسی طرح بے گناہ اور معصوم شہری ان جرائم پیشہ افراد کا نشانہ بنتے رہیں گے۔

نہ تو اسنیپ چیکنگ سے مثبت نتائج مل سکتے ہیں اور نہ ہی ایک ایس ایچ او کو ایک تھانے سے ہٹا کر دوسرے تھانے میں لگانے سے مسائل حل ہوں گے۔

موٹر سائیکل کی چوری میں اب تک اتفاقا جتنے بھی چور پکڑے گئے ان میں سے پچانوے فیصد نشے کے عادی افراد ہیں ، جنھیں اپنے ٹوٹتے ہوئے نشے کو پورا کرنے کے لیے سب سے آسان کام موٹر سائیکل اور کاریں چوری کرکے ان کے مختلف پارٹس بیچ کر اپنے نشے کا سامان لینا نظر آتا ہے۔

وہیکل چوری اور چھیننے کی وارداتیں روکنے کے لیے ایک علیحدہ یونٹ اینٹی کار لفٹنگ سیل کے نام سے کام کر رہا ہے جس کی کارکردگی سب کے سامنے ہے۔

یہ سیل مختلف علاقوں سے لاوارث ملنے والی چوری شدہ کاریں اور موٹر سائیکلیں جمع کرکے ایک دن ان کی مالکان کو واپسی کا فوٹو سیشن کروا کر میڈیا کو جاری کر دیتے ہیں اور اس کے بعد چین کی بنسی بجانے لگتے ہیں۔ چھینے جانیوالی گاڑیاں تو اگر کسی کی قسمت ہی اچھی ہو تو ملتی ہیں وگرنہ ان پر فاتحہ پڑھنا ہے بہتر ہے۔

یہی حال موبائل فونز کی ریکوری کا ہے ۔ جون 2022 میں ایس ایس یو نے سی پی ایل سی ، کراچی کے ساتھ ایک تقریب میں شہریوں کو 49 چھینے اور چوری شدہ موبائل فونز واپس کروائے۔ یہ تھی 19,000 چھینے ہوئے موبائل فونز کی ٹوٹل ریکوری۔ اور میرے رائے میں یہ بھی ان لوگوں سے برآمد کیے گئے ہوں گے جنھوں نے چوری یا چھیننے کے بعد اپنی بے وقوفی کی وجہ سے موبائل فون استعمال کرلیا ہوگا۔

ابھی پولیس نے ایک بڑا کام کیا ہے، یہ پتہ چلا کر کہ کراچی سے چھیننے والے موبائل فونز افغانستان اسمگل کیے جا ر ہے ہیں۔


یہ پولیس کا بڑا کام ہی تو ہے کہ پتہ چلا لیا کہ موبائل فونز جا کہاں رہے ہیں اور ساتھ ہی متاثرین کو ایک خاموش میسیج کہ اب صبر کر لیں، افغانستان سے تو فونز واپس آ نہیں سکتے۔ مخصوص اوقات میں ، مخصوص پوائنٹس پر اسنیپ چیکنگ کروانے کا مقصد کیا ہے؟ اس کے بجائے اگر پٹرولنگ اور وہ بھی موٹر سائیکل پٹرولنگ پر توجہ دی جائے تو مثبت نتائج حاصل کیے جاسکتے ہیں۔

موبائل پٹرولنگ کا فائدہ اس لیے نہیں ہے کہ اول تو موبائل میں مناسب تعداد میں اسٹاف نہیں ہوتا اور دوسرا تھانوں میں موجود موبائلز کی حالت ایسی ہوتی ہے کہ وہ کسی مشکوک شخص کا پیچھا کرنے کی طاقت نہیں رکھتی۔ موٹر سائیکل گشت نہ صرف مرکزی شاہراہوں پر بلکہ گلیوں کے اندر بھی کروایا جا سکتا ہے۔

ان دنوں اسٹریٹ کرائم کے زیادہ تر واقعات گلیوں کے اندر ہی رونما ہو رہے ہیں ، کیونکہ جرائم پیشہ افراد جانتے ہیں کہ گلیوں میں پولیس کا گشت یا گشت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس لیے مختلف علاقوں میں اسٹریٹ کرائم کے واقعات کی جو سی سی، ٹی وی فوٹیجز موصول ہوتی ہیں۔

ان میں واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ گلیوں کے اندر جرائم پیشہ افراد کتنے اطمینان سے تین تین اور چار چار کی ٹولیوں میں موٹر سائیکلز پر آتے ہیں اور واردات کرکے نکل جاتے ہیں۔ گشت پر مامور اہلکاروں کو اس بات کی تربیت دیا جانا از حد ضروری ہے کہ دوران گشت جرائم پیشہ افراد کی پہچان کیسے ہو؟ یہ سب کام تھانے کے ہیڈ محرر کی اولین ذمے داری ہے ، لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ ھیڈ محرران کی اکثریت نے اپنی مدد کے لیے ڈیوٹی منشی لگا رکھے ہیں جو اپنی مرضی سے کسی بھی اہلکار کی ڈیوٹی کسی بھی Beat میں لگا دیتے ہیں۔

ہیڈ محرر کا کام اب صرف یہی رہ گیا ہے کہ کسی علاقے میں کہاں کہاں گٹکا ماوا ، شیشہ اور دیگر ایسے کام چلوانے ہیں جہاں سے ہفتہ یا ماہانہ مل سکے ، اگر کسی علاقے میں آپ کو سڑک کے کنارے اور فٹ پاتھ پر پتھاروں اور ٹھیلوں کی بھر مار نظر آئے تو سمجھ جائیں اس تھانے کا ہیڈ محرر کوئی پرانا اور سمجھدار شخص ہے۔

یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ کہیں سڑک کنارے یا فٹ پاتھ پر پتھارے اس تھانے کے ہیڈ محرر کی مرضی کے بغیر لگائے جا سکیں بلکہ اب تو کچھ ایس ایچ اوز بھی یہ کام سمجھ گئے ہیں اور یہ بیٹ انھوں نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے۔

اسٹریٹ کرائم کے ختم نہ ہونے کی ایک اور سب سے اہم وجہ افسران بالا کے حکم پر صرف اپنی کرسی بچانے اور کارکردگی دکھانے کے لیے اصل جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری کی کوشش کرنے کے بجائے پولیس منشیات کے عادی اشخاص یا آوارہ گرد اشخاص کو پکڑ کر ان پر منشیات یا ناجائز اسلحہ کی برآمدگی کا مقدمہ درج کر دیتی ہے۔

یہ ہر ذی ہوش شخص سمجھ سکتا ہے کہ جب اصل ذمے داروں کو پکڑنے کے بجائے دیگر افراد کو پکڑ کر ان پر جھوٹے مقدمات قائم کیے جائیں گے اور اصل اسٹریٹ کرمنلز ویسے ہی دندناتے پھریں گے تو جرائم میں کمی کیسے نظر آئے گی؟ لہٰذا پولیس افسر کی سب سے پہلی قانونی اور اخلاقی ذمے داری اصل ملزمان کو کیفر کردار تک پہنچانا ہے نہ کہ افسران کے احکامات پر، ڈر اور خوف کی وجہ سے صرف گنتی پوری کرنے کے لیے جھوٹے مقدمات قائم کرنا ہے۔

ارباب اختیار سے گذارش ہے کہ خدارا اقربا پروری اور سفارش کی کچھ وقت کے لیے سہی لیکن پست پشت ڈال کر سنجیدگی سے کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کو روکنے کی تدابیر کی جائیں او ر سر دست اس کے لیے سب سے پہلے اپنے دوستوں، رشتہ داروں اور ان تمام غیر متعلقہ افراد سے تمام پولیس گارڈز واپس بلوائی جائیں اور ہیڈ کوارٹرز اور ان یونٹس سے بھی پولیس کے جوانوں کو تھانوں میں بھیجا جائے جہاں ان کی چنداں ضرورت نہیں ہے ، تاکہ کراچی کے تھانوں میں نفری کی کمی کو پورا کیا جاسکے۔

پولیس کو جاری کیے جانے والے فنڈز کا جائز اور بروقت استعمال کیا جائے تاکہ تھانے کے سطح پر پولیس کو جدید آلات اور گاڑیوں سے آراستہ کیا جاسکے۔

پولیس کے افسران اور دیگر وی آئی پیز اور ان کے خاندان کے افراد تو پولیس گارڈز کے سایہ میں گھروں سے نکلتے ہیں، اس بچے کے لیے، اس باپ اور اس بھائی کے لیے بھی کوئی حفاظتی تدابیر عمل میں لائیں جائیں جو صبح اپنے گھر سے آنکھوں میں خواب سجائے نکلتا ہے لیکن رات کو اس کی کفن میں لپٹی ہوئی لاش اس کے گھر پہنچائی جاتی ہے۔
Load Next Story