سرکاری ادارے اور ملازمین کی شہنشاہیت

کراچی سے کشمور تک احتجاج کے نام پر سرکاری ڈاکٹروں اور طبی عملے نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے


شہریار شوکت October 24, 2022
آئے دن سرکاری اداروں میں کام بند ہوجانا عوام کےلیے باعث اذیت ہے۔ (فوٹو: فائل)

ملک بھر کے سرکاری ملازمین اس قدر بے خوف ہیں کہ انہیں متعلقہ وزیروں کے احکامات کی بھی فکر نہیں ہوتی۔ سرکاری ملازمین آخر اس قدر بے خوف ہیں کیوں؟ صاف سی بات ہے انہیں معلوم ہے کہ جس ادارے میں وہ ہیں, کام ہو یا نہ ہو، منافع ہو یا نہ ہو، انہیں تنخواہیں ملتی رہیں گی۔

ادارے کے نگران یا حکومتی ذمے دار کے پاس زیادہ سے زیادہ بس یہی اختیار ہے کہ کام نہ کرنے والے سرکاری عملے یا عملے کے ایسے افراد جن سے شکایت ہو ان کا ٹرانسفر کردے یا پھر ان کی انکوائری کرالے۔ بہت ہی بڑا ایکشن لے لیا تو انہیں معطل کیا جاسکتا ہے اور سرکاری ملازمین یہ اچھے سے جانتے ہیں کہ انہیں کس طرح بحال ہونا ہے اور کس راستے کا انتخاب کرنا ہے۔

حکومت سندھ کے محکمہ صحت کا بے خوف عملہ بھی ان دنوں اپنے الاؤنس کی بحالی کےلیے سراپا احتجاج ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی او پی ڈیز بند ہیں، مسیحا کہلانے والے یہ افراد لوگوں کی جان و صحت کی پرواہ کیے بغیر سیاہ پٹیاں باندھے احتجاج میں مصروف نظر آرہے ہیں۔ اب چاہے کوئی زندہ رہے یا مرجائے دھرنا تو ہوگا۔ یہ احتجاج ہیلتھ رسک الاؤنس کے معاملے پر کیا جارہا ہے۔

کراچی سے کشمور تک احتجاج کے نام پر سرکاری ڈاکٹروں اور طبی عملے نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے۔ ایکسرے اور ٹیسٹ کےلیے آنے والے مریض مشکلات کا شکار ہیں۔ اسی طرح صوبے بھر کے سرکاری اسپتالوں میں زیر علاج افراد کی دیکھ بھال کرنے والا عملہ بھی اس لیے غائب ہے کہ کورونا کی وبائی صورتحال کے دنوں میں حکومت نے جو ہیلتھ رسک الاؤنس تنخواہ میں شامل کیا تھا وہ حالات معمول پر آنے پر کیوں ختم کردیا گیا؟

حالات بہتر ہوگئے، کورونا کیسز میں کمی آگئی لیکن الاؤنس پھر بھی جاری رکھا جائے۔ صاحب بہادر کی تنخواہ میں ایک بار جو رقم شامل ہوگئی وہ آخر کیسے ملنا بند ہوسکتی ہے۔ یہاں ان افراد سے کوئی یہ پوچھنے والا نہیں کہ کیا پولیس اہلکاروں کو گولی الاؤنس، ڈکیتی رسک الاؤنس وغیرہ دیا جاتا ہے؟ ان کا تو ہاؤس رینٹ بھی اس قدر کم ہوتا ہے جس میں کوئی جھونپڑی بھی کرائے پر نہ دے۔ حکوت سندھ کے تمام دعوے بس دعوے ہی رہ گئے ہیں۔ محکمہ صحت نے اس معاملے کا نوٹس بھی لیا۔ وزیرصحت سندھ نے احکامات بھی جاری کیے لیکن ڈاکٹروں اور پیرامیڈیکل اسٹاف نے ان سب کو ہوا میں اڑا دیا اور ایسا ہونے کی بس ایک ہی وجہ ہے کہ ملازمت جانے کا کسی قسم کا کوئی خوف نہیں۔

یہ بے خوفی صرف سندھ یا صرف محکمہ صحت کے عملے میں نہیں بلکہ یہ ملک کے ہر صوبے، ہر شہر کے ہر چھوٹے بڑے ادارے کے سرکاری عملے کی طبیعت کا حصہ ہے۔ اساتذہ کا جب دل کرے احتجاج کے نام پر تعلیمی عمل منسوخ، ڈاکٹروں کا جب دل کرے اسپتالوں کو تالے، حکومت کسی کی بھی ہو، دعوے جتنے بھی ہوں، حقیقت یہ ہے کہ حکومت چاہے جتنی بھی سنجیدہ کیوں نہ ہو وہ ایک سرکاری خاکروب کو بھی کنٹرول نہیں کرسکتی۔ اس کا بھی دل چاہے گا تو کام کرے گا نہیں چاہے گا تو کون وزیر، کون مشیر اور کون نگران؟

اس معاملے میں ہمیں دنیا سے سیکھنا ہوگا۔ سب سے پہلے تو ملک میں اداروں کو حکومتی تحویل میں لینے کی غلطی بند کرنا ہوگی۔ سیاسی جماعتوں کو ایک ہوکر قانون سازی کرنا ہوگی اور ملک کے تمام اداروں کو پرائیویٹ سیکٹر کے حوالے کرنا ہوگا۔ سندھ میں جس طرح شہید محترمہ بینظیر یوتھ ڈیولپمنٹ پروگرام کے تحت پرائیویٹ اداروں کو فنڈ جاری کیے جاتے ہیں یا پھر سندھ ایجوکیشنل فنڈ کے تحت اسکولوں کو فنڈز کا اجرا کیا جاتا ہے اور وہ حکومتی نگرانی میں طلبا کو مفت تعلیم فراہم کرتے ہیں، اب ہر سرکاری تعلیمی ادارے کو اسی طرح چلانا ہوگا۔ تمام سرکاری تعلیمی اداروں کی انتظامیہ پرائیویٹ اداروں کے حوالے کردی جائے، حکومت فنڈز کا اجرا کرے اور ان اداروں کی نگرانی کرے۔ اسی طرح صحت کے مراکز بھی پرائیویٹ انتظامیہ کے حوالے کیے جائیں۔ ایسا کرنے سے حکومت کے اخراجات میں بھی کمی آئے گی، کرپشن بھی کم ہوگی اور روز روز کے احتجاج سے بھی جان چھوٹ جائے گی۔ حتیٰ کہ علاقائی سیکیورٹی بھی پرائیویٹ کمپنیوں کو دے دی جائے تو بھی کوئی برائی نہیں، شاید تھانہ کلچر میں بھی بہتری آجائے۔

حکومت کے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نظر نہیں آتا۔ حکومت نے اگر اپنے عملے کو کنٹرول نہ کیا تو ایسا نہ ہو کہ عوام ان کے مقابلے میں احتجاج پر نکل پڑیں۔ مہنگائی اور حکومت کی غلط پالیسیوں سے پریشان عوام پہلے ہی مشکلات جھیل رہے ہیں۔ ایسے میں آئے دن سرکاری اداروں میں کام بند ہوجانا عوام کےلیے باعث اذیت ہے، جبکہ سرکاری عملے کو پیسوں میں اضافے کے علاوہ کوئی مسئلہ، مسئلہ نظر ہی نہیں آتا۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں