پاکستان میں بچوں کا ادب
2000 سے 2022 تک کا ایک جائزہ
سن ۲۰۰۰ء کے بعد دنیا جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہوئی، اُس کا اندازہ شاید ہی کوئی لگا سکے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے انقلابات کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر پوری دنیا متاثر ہوئی۔
ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے متاثر ہونے کی وجہ سے جہاں پاکستان، سیاسی، معاشرتی، معاشی طور پر تبدیل ہوا وہیں ان تمام محرکات کے اثرات ادب پر بھی پڑے۔ اس طرح لامحالہ ہم بچوں کے اَدب میں بھی تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔
۲۰۰۰ء سے قبل جب ہم ماضی میں بچوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں ہمیں نظیر اکبرآبادی، سورج نرائن مہر، بے نظیر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اسماعیل میرٹھی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، رگھوناتھ سہائے، فراق گورکھ پوری، ابوالاثر حفیظ جالندھری، مولانا تاجور نجیب آبادی، عبدالمجید سالک، اختر شیرانی اور مولانا چراغ حسن حسرت سمیت بے شمار ادیبوں اور شعرا نظر آتے ہیں جنھوں نے بچوں کے لیے کہانیاں، مضامین اور نظمیں لکھیں۔
۲۰۰۰ء کے بعد بچوں کے ۷۹ رسائل شائع ہوئے، جن میں بیشتر رسائل زمانے کی نظر ہو کر بند ہوگئے۔ ان رسائل میں تعلیم وتربیت، ماہ نامہ نونہال، ماہ نامہ ساتھی کو ہم بچوں کے نمائندہ رسائل کے طور پر لے سکتے ہیں جنھوں نے اپنی مستقل اشاعت کے ذریعے بچوں کی تعلیم وتفریح کا خیال رکھا۔
ہم درد نونہال میں سرگرمیوں اور مضامین کی تعداد بہت زیادہ بڑھادی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بچوں کے لیے رسالہ خریدنے والے والدین بچوں کے رسائل میں کہانیوں کے مطالعے سے زیادہ تعلیمی قسم کی سرگرمیوں کو پسند کر تے ہیں۔ اس وجہ سے رسائل کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر رسالہ مرتب کیا جائے۔ لیکن اس کے منفی اثرات بھی ہیں، اس حوالے سے بچوں کی معروف ادیبہ سیما صدیقی بچوں کے ایک رسالے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
ورک شیٹ اور ذہنی آزمائش کے سلسلے معیاری ہیں۔ آج کل کے بچوں کا ''وژ ن'' بہت وسیع ہے لہٰذا ن کو متوجہ کرنا اور متوجہ رکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ ذہنی سرگرمیوں اور کہانیوں کا تناسب ساٹھ اور چالیس فی صد محسوس ہوا۔ کہانیاں چالیس فی صد کم تھیں۔
ان کا تناسب بڑھانا چاہیے، تاکہ بچوں کو یہ اسکول لائبریری کی کوئی ایکٹویٹی بک نہ لگے۔ بلکہ ''تفریحی رسالہ'' لگے۔ ذہنی اور معلوماتی رجحانات کو فروغ دینا رسالے کی کام یابی ہے مگر ساتھ ہی بچوں کی تخیلاتی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا بے حد ضروری ہے اور یہ کہانیوںکے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مثلاً اگر کہانی نگار لکھے کہ جن کی آنکھیں انگارہ جیسی، رنگت کوے جیسی اور جسامت ہاتھی جیسی تھی تو لفظوں سے بنی اس تصویر کو بچہ اپنے چشم تصور سے دیکھ سکے گا۔ جتنا لکھا ہے اس سے آگے بھی سوچ سکے گا۔
کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے مختلف اداروں نے بچوں کے لیے دل چسپ کتابیں شائع کیں، ہر بڑے ادارے نے بچوں کے لیے الگ سے کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ ۲۰۰۰ء سے قبل شیخ غلام علی اینڈ سنز اور فیروز سنز جیسے بڑے ادارے بچوں کے ادب پر چھائے ہوئے تھے لیکن نئی صدی کے آغاز کے بعد ان اداروں کی چمک ماند پڑگئی اور یہاں پرانا اسٹاک بیچنے پر اکتفا کیا جانے لگا، نئی کتابوں کو شائع کرنے کے بجائے یہ کیا گیا کہ پرانے ٹائٹلز کو دوبارہ شائع کیا جانے لگا۔ نئی کتابوں کی اشاعت کم ہو کر رہ گئی۔
شیخ غلام علی اینڈ سنز کا قیام ۱۸۸۷ء میں عمل میں لایا گیا۔ بچوں کے لیے جگنو رسالہ کا اجرا اور بچوں کے لیے رنگین اور نئے تقاضوں کے مطابق دل کش کتابوں کی اشاعت بھی شیخ غلام علی اینڈ سنز کا طرہ امتیاز رہا ہے۔
اب تک مختلف موضوعات اور اصناف پر ہزاروں کتابیں اس ادارے کے تحت شائع ہوئی ہیں۔ ملک کے معروف مصنفوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس ادارے کو اُٹھان دی۔
شیخ غلام علی اینڈ سنز نے بچوں کے لیے نئی کتابوں کی اشاعت میں کمی کردی ہے، لیکن بچوں کے لیے اس ادارے کے تحت معروف مصنّفین کی کتابوں کی مشہور زمانہ سیریز شروع کی گئی تھیں، اس پروجیکٹ کے تحت مائی لارڈ حقہ، پیٹو بلی، مقدس جھوٹ، گنڈک کا بھوت، شکاری اور بھوت، دو آنے، جلیبیاں، جلاوطن، ناگ راجا، لکڑہارے کا بیٹا اور اپریل فول جیسی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ یہ کتابیں آج بھی کتب میلوں کے انعقاد کے موقعوں پر فروخت ہوتی نظر آتی ہیں۔
''مولوی فیروزالدین خان'' اپنے وقت کے جیّد علما میں سے تھے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے قرآن کا عربی سے فارسی اور اُردو میں ترجمہ کیا۔ ۱۸۹۴ء میں آپ نے ''فیروز سنزگروپ'' قائم کیا اور پہلے ''فیروز سنز پبلشنگ ہاؤس'' کی بنیاد رکھی۔
تعلیم وتربیت فیروز سنز کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس نے اس ادارے کے ساتھ لوگوں کی ایک جذباتی وابستگی پیدا کردی۔ تعلیم وتربیت کے کئی سلسلے کتابی صورت میں شائع ہوئے جب کہ فیروز سنز نے بہت سے ناول، کہانیوں کو براہ راست بھی کتابی صورت میں شائع کیا۔
بچوں کے لیے شائع کی گئی فیروز سنز کی مشہور کتابیں الہ دین کا چراغ، اُلو کے گھونسلے سے، شاہین کی واپسی، سرفروش مجاہد، شیر دل ٹیپو، عرب کی بیٹی، کیا وہ چور تھا؟ آج بھی فروخت ہورہی ہیں۔ فیروز سنز کی ان کتابوں کو مکتبۂ جدید، احمد عدنان طارق کے توسط سے نئے گیٹ اپ کے ساتھ شائع کررہا ہے، جس سے ان ناولوں کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یکم جنوری ۱۹۶۴ء کو ''ہمدرد فاؤنڈیشن'' کا قیام عمل میں آیا۔ ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی حکیم محمد سعید تھے اور یہ ادارہ اپنے ابتدائی دنوں سے لے کر اب تک مکمل طور پر فعال رہا ہے۔
بچوں کی تعلیم وتربیت اور تفریح کے لیے ہمدرد نو نہال کا آغاز کیا گیا جو گذشتہ ستر برسوں سے بلاناغہ شائع ہورہا ہے۔ کئی نسلوں نے اس رسالے سے استفادہ کیا۔ ملک کے کئی نام ور لکھنے والوں نے اپنے لکھنے کا آغاز ہمدرد نونہال سے کیا ہے۔
ہمدرد فاؤنڈیشن پریس نے بچوں کے لیے فیروزسنز کی طرح تقریباً ہر موضوع پر کتابیں شائع کی ہیں، ان میں نقوش سیرت اول تا پنجم، چاند کا مسافر، تین بے وقوف نمایاں ہیں۔ ان کتابوں کے نئے ایڈیشن شائع کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں، ان میں کئی کتابیں ہمدرد کے کتب خانے پر دست یاب ہیں۔
دعوۃ اکیڈمی نے بچوں کے لیے بہت سی کتابیں شائع کیں، جن میں اونچے درختوں کا باغ، تمھارا یہ آنسو، حرکت میں برکت، بددیانتی کا انجام، آٹوگراف اور آہ کا اثر شامل ہیں۔
دعوۃ اکیڈمی کے شعبے بچوں کا ادب کے تحت بچوں کے ادیبوں کے لیے ایسے تاریخ ساز کام ہوئے جن کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ادیبوں کی صلاحیتوں کو اُبھارنے کے لیے ورکشاپس کا انعقاد، قلم کاروں کے ایک دوسرے سے روابط نے بلاشبہہ بچوں کے ادیبوں کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا وہیں ان تربیتی پروگراموں سے نئے ادیبوں کی صلاحیتوں میں خوب اضافہ ہوا۔
سنگ میل پبلی کیشنز نے لاہور شہر سے بچوں کے لیے خوب صورت کتابیں شائع کیں۔ اس ادارے کے تحت بچوں کے لیے کہانیاں، ناول اور ڈرامے بھی شائع کیے گئے ہیں۔ یہ کتابیں ملک کے معروف قلم کاروں نے تحریر کیں۔
ان ادیبوں میں قمر علی عباسی، میرزا ادیب، ابصار عبدالعلی، رضا علی عابدی، امجد اسلام امجد، انتظار حسین، حفیظ سرور، کشور ناہید، امتیاز علی تاج، ڈپٹی نذیر احمد اور حسین سحر کے نام نمایاں ہیں۔
سنگ میل کی شائع کردہ کتابوں میں زندگی کے چند سنہری اصول، آنکھ مچولی، چچا چھکن، ہونہار بیٹی، نانوں کی عینک اور گنگناتا قاعدہ اور سورج کے دیس سے شامل ہیں۔
اسلامک پبلی کیشنز کے تحت بچوں کے لیے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق ۱۱۵ دل چسپ کتابیں شائع کی گئیں۔ پاکستان میں مائل خیرآبادی کی سب سے زیادہ کتابیں شائع کرنے کا اعزاز بھی اسلامک پبلی کیشنز کو حاصل ہے۔
مائل خیرآبادی کی کتابوں میں آج کا حاتم (ناول)، ابن بطوطہ کا بیٹا، اچھے افسانے، اچھی نظمیں، امرود بادشاہ، بنت اسلام، گڑیا کی نظمیں اور مہمان ریچھ شامل ہیں۔
اشتیاق احمد بچوں کے مشہور ادیب تھے، اُنھوں نے بچوں کے لیے ریکارڈ ساز ناول لکھے۔ اُن کے ناولوں کی ایک بڑی تعداد اٹلانٹس پبلی کیشنز نے شائع کی ہے۔ اٹلانٹس نے جہاں اشتیاق احمد کے ناول شائع کیے وہیں تعلیم وتربیت کے پرانے شماروں کو اسی ڈیزائن کے ساتھ دوبارہ شائع کرکے نئی نسل کے سامنے ماضی کے یادگار جھروکے روشن کیے۔
فہیم عالم بچوں کے ادیب اور ''بچوں کا کتاب گھر'' کے ناشر ہیں۔ اُنھوں نے بچوں کے تین یادگار شمارے جگنو، بچوں کی دنیا اور بچوں کا باغ خرید کر اِنھیں شائع کرنا شروع کردیا۔ اسی طرح حکومت پنجاب کے ایک پروجیکٹ کے تحت روشنی کے نام سے ایک رسالہ بھی شائع کیا جارہا ہے، یہ رسالہ پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں سرکار کی طرف سے تقسیم کیا جاتا ہے۔
''بچوں کا کتاب گھر'' کے تحت بچوں کے لیے بے شمار کتابیں بھی شائع کی گئی ہیں۔ ان میں بلیک فائٹرز، آخری سیڑھی، گیدڑ بھبکی، خاطر داریاں، مجرم کے بال، پڑیے گر بیمار، تصویر کے آنسو، گوریلا، اچھے قصے اور راجو کی کہانی شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان بھر میں بچوں کے لیے سب سے زیادہ کتابیں بچوں کا کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہورہی ہیں۔
القا پبلی کیشنز نے بچوں کے کلاسک ادب کو اُردو میں ڈھال کر سلیقے کے ساتھ شائع کیا ہے، ان کہانیوں کے ساتھ اسکیچز کا اضافہ کرکے کتابوں کو مزید دل چسپ بنایا گیا ہے۔
القا پبلی کیشنز کے تحت سنہرے دریا کا بادشاہ، سوداگر اور دیو، سلیمانی خزانہ، غیبی انسان، الہ دین کا چراغ، جودر اور اس کے بھائی، معروف موچی، سند باد جہازی، علی بابا چالیس چور، بی کھوکھو کی ناک شائع کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ معروف برطانوی مصنفہ 'اینیڈ بلیٹن' کی کہانیوں کو بھی القا پبلی کیشنز نے پاکستان میں شائع کیا۔
آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے جہاں بڑوں کے لیے بے شمار کتابیں تیار کیں وہیں بچوں کے لیے اُردو اور انگریزی میں معیاری ادب پیش کیا۔ بچوں کے لیے تیار کی گئی کتابوں میں کلاسک ادب ، کہانیاں اور ناول شائع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے جہاں کہانیوں کو کتابی شکل میں شائع کیا وہیں بچوں کے لیے مختلف مشہور اور تاریخی شخصیات کے خاکے باتصویر شائع کیے، جن میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، فیض احمد فیض، مرزا قلیچ بیگ، حسن علی آفندی، نورجہاں، جہانگیر خان، پروین رحمان اور صادقین جیسی شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔
ادارہ مطبوعات طلبہ لاہور اور کراچی نے بھی بچوں کے لیے سیکڑوں ناول اور کہانیوں کی کتابیں شائع کی ہیں۔ ادارہ مطبوعات طلبہ لاہور اور کراچی ، ماہ نامہ ساتھی، ماہ نامہ ساتھی (سندھی)، ماہ نامہ پیغام لاہور، ماہ نامہ پیغام راولپنڈی، ماہ نامہ شاہین پشاور، اسلامک چلڈرن ہابیز سوسائٹی کے پروجیکٹ ہیں۔
مکتبہ بیت العلم گذشتہ کئی برسوں سے ادب اطفال میں خاموشی سے اضافہ کررہا ہے۔ اس ادارے کے تحت نہ صرف بچوں کے لیے ماہ نامہ ذوق وشوق کا اجرا کیا گیا ہے وہیں بچوں کے لیے کئی کتابیں بھی اس ادارے کے تحت شائع ہوچکی ہیں، جن میں دروازے پر دستک، اُونچا پہاڑ، ماں اور ممتا، نئی کہانی اور نیا انداز، کہانیوں کے دیس میں، نظم بنی کہانی، حکایت بنی کہانی، کہانی نگرشامل ہیں۔
آشیانہ پبلی کیشنز کے تحت بچوں کا آشیانہ کا اجرا کیا گیا، وہیں بچوں کے لیے سفید گیند، روشنی کی کرن، میاں بلاقی کے کارنامے، کہانی ایک سفر کی، زمین کی انوکھی کہانی اور بچوں کے لیے سائنس کے دل چسپ تجربات پر مشتمل پانچ کتابیں شائع کی گئیں۔
معروف ناول نویس عمیرہ احمد نے الف کتاب کے نام سے ادارہ قائم کیا اور اس ادارے کے تحت بچوں کے لیے الف نگر رسالہ شائع کیا گیا۔
اس رسالے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موجود کہانیوں کو ڈیجیٹلائز کرکے اُنھیں یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا۔ بچوں کے ادب میں اگرچہ یہ نیا تجربہ نہیں ہے، اس سے قبل آنکھ مچولی کے تحت بھی اس قسم کے تجربے کیے جاچکے ہیں، لیکن الف نگر کی یہ پیشکش ذرا بہتر اور زیادہ اچھے معیار کے ساتھ پیش کی جارہی ہے۔
دوسری طرف عمیرہ احمد نے اشتیاق احمد کے ناولوں کے حقوق خرید کر چند ناول دوبارہ شائع کیے ہیں، وہیں ان ناولوں کو فلمایا بھی جارہا ہے۔ اس پروجیکٹ پر کام جاری ہے اور عنقریب قارئین اپنے پسندیدہ ناول نگار کے کرداروں کو اسکرین پر دیکھ سکیں گے۔
دارالسلام کتابوں کی معیاری چھپائی کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ دارالسلام نے بچوں کے لیے دینی لٹریچر میں اچھا اضافہ کیا ہے۔
ان کتابوں کی تزئین وآرائش پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ بچوں کے لیے شائع کی گئی دارالسلام کی کتابوں میں گم شدہ پیالا، سب سے سچی کہانی، سب سے پیارے، پتھر کی گواہی، عظیم قربانی، انوکھی خوش خبری، پتھروں کی بارش، ظالم ملکہ، زمین پر پہلا قدم، عجیب بشارت، پرانی لاش، ستاروں کا سجدہ سمیت سیکڑوں مزید اردو اور انگریزی کتابیں بچوں کے لیے شائع کی گئی ہیں۔
۲۰۱۰ء میں ماہ نامہ ساتھی کے سابق مدیر نجیب احمد حنفی نے انگریزی ماہ نامہ وی شائن کا اجرا کیا، اس کے کچھ عرصے بعد ہی جگمگ تارے کے نام سے اُردو میں پہلی سے پانچویں جماعت کے طالب علموں کے لیے ایک منفرد ماہ نامہ کا آغاز کیا۔ یہ دونوں رسائل نہ صرف تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں وہیں بچوں میں مقبول بھی ہیں۔
سید فصیح الدین احمد نے نئے دور کے نئے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ادیب آن لائن کے نام سے ایک ایسی موبائل ایپ بنائی جہاں کتابوں کا ذخیرہ یک جا کیا گیا ہے۔
اس ایپ میں کتابیں پی ڈی ایف کے بجائے یونی کوڈ میں کچھ اس انداز سے ڈالی گئی ہیں کہ پڑھنے والا اصلی کتاب کا تصور کرسکتا ہے۔ بچوں کے کلاسک ادب کا باقاعدہ الگ سے سیکشن بنایا گیا ہے۔ جہاں سیکڑوں ناول ایک مناسب قیمت دے کر آپ پڑھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی ایسے ادارے موجود ہیں جو بچوں کے لیے کتابوں کی اشاعت کا کمرشل اہتمام کررہے ہیں۔ مطالعے کے رجحان میں کمی کے باعث بیشتر ناشروں نے درسی کتابیں بھی تیار کرنی شروع کردی ہیں، اس وقت ملک عزیز میں بلامبالغہ سیکڑوں ایسے ادارے ہیں جو درسی کتابوں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ بچوں کی پڑھنے کی عام کتابیں بہ تدریج والدین ، اساتذہ کی عدم دل چسپی کی وجہ سے کم ہوتی جارہی ہیں۔
ہمارے پڑوسی ملک افغانستان کے متاثر ہونے کی وجہ سے جہاں پاکستان، سیاسی، معاشرتی، معاشی طور پر تبدیل ہوا وہیں ان تمام محرکات کے اثرات ادب پر بھی پڑے۔ اس طرح لامحالہ ہم بچوں کے اَدب میں بھی تبدیلیاں دیکھتے ہیں۔
۲۰۰۰ء سے قبل جب ہم ماضی میں بچوں کے ادب کا جائزہ لیتے ہیں تو وہاں ہمیں نظیر اکبرآبادی، سورج نرائن مہر، بے نظیر، تلوک چند محروم، علامہ اقبال، اسماعیل میرٹھی، مولانا محمد حسین آزاد، مولوی ممتاز علی، محمدی بیگم، سید امتیاز علی تاج، غلام عباس، رگھوناتھ سہائے، فراق گورکھ پوری، ابوالاثر حفیظ جالندھری، مولانا تاجور نجیب آبادی، عبدالمجید سالک، اختر شیرانی اور مولانا چراغ حسن حسرت سمیت بے شمار ادیبوں اور شعرا نظر آتے ہیں جنھوں نے بچوں کے لیے کہانیاں، مضامین اور نظمیں لکھیں۔
۲۰۰۰ء کے بعد بچوں کے ۷۹ رسائل شائع ہوئے، جن میں بیشتر رسائل زمانے کی نظر ہو کر بند ہوگئے۔ ان رسائل میں تعلیم وتربیت، ماہ نامہ نونہال، ماہ نامہ ساتھی کو ہم بچوں کے نمائندہ رسائل کے طور پر لے سکتے ہیں جنھوں نے اپنی مستقل اشاعت کے ذریعے بچوں کی تعلیم وتفریح کا خیال رکھا۔
ہم درد نونہال میں سرگرمیوں اور مضامین کی تعداد بہت زیادہ بڑھادی گئی ہے۔ اس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ بچوں کے لیے رسالہ خریدنے والے والدین بچوں کے رسائل میں کہانیوں کے مطالعے سے زیادہ تعلیمی قسم کی سرگرمیوں کو پسند کر تے ہیں۔ اس وجہ سے رسائل کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ سرگرمیوں کو بنیاد بنا کر رسالہ مرتب کیا جائے۔ لیکن اس کے منفی اثرات بھی ہیں، اس حوالے سے بچوں کی معروف ادیبہ سیما صدیقی بچوں کے ایک رسالے پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
ورک شیٹ اور ذہنی آزمائش کے سلسلے معیاری ہیں۔ آج کل کے بچوں کا ''وژ ن'' بہت وسیع ہے لہٰذا ن کو متوجہ کرنا اور متوجہ رکھنا خاصا مشکل کام ہے۔ ذہنی سرگرمیوں اور کہانیوں کا تناسب ساٹھ اور چالیس فی صد محسوس ہوا۔ کہانیاں چالیس فی صد کم تھیں۔
ان کا تناسب بڑھانا چاہیے، تاکہ بچوں کو یہ اسکول لائبریری کی کوئی ایکٹویٹی بک نہ لگے۔ بلکہ ''تفریحی رسالہ'' لگے۔ ذہنی اور معلوماتی رجحانات کو فروغ دینا رسالے کی کام یابی ہے مگر ساتھ ہی بچوں کی تخیلاتی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنا بے حد ضروری ہے اور یہ کہانیوںکے ذریعے ہی ممکن ہے۔
مثلاً اگر کہانی نگار لکھے کہ جن کی آنکھیں انگارہ جیسی، رنگت کوے جیسی اور جسامت ہاتھی جیسی تھی تو لفظوں سے بنی اس تصویر کو بچہ اپنے چشم تصور سے دیکھ سکے گا۔ جتنا لکھا ہے اس سے آگے بھی سوچ سکے گا۔
کتابوں کی اشاعت کے حوالے سے مختلف اداروں نے بچوں کے لیے دل چسپ کتابیں شائع کیں، ہر بڑے ادارے نے بچوں کے لیے الگ سے کتابوں کی اشاعت کا اہتمام کیا۔ ۲۰۰۰ء سے قبل شیخ غلام علی اینڈ سنز اور فیروز سنز جیسے بڑے ادارے بچوں کے ادب پر چھائے ہوئے تھے لیکن نئی صدی کے آغاز کے بعد ان اداروں کی چمک ماند پڑگئی اور یہاں پرانا اسٹاک بیچنے پر اکتفا کیا جانے لگا، نئی کتابوں کو شائع کرنے کے بجائے یہ کیا گیا کہ پرانے ٹائٹلز کو دوبارہ شائع کیا جانے لگا۔ نئی کتابوں کی اشاعت کم ہو کر رہ گئی۔
شیخ غلام علی اینڈ سنز کا قیام ۱۸۸۷ء میں عمل میں لایا گیا۔ بچوں کے لیے جگنو رسالہ کا اجرا اور بچوں کے لیے رنگین اور نئے تقاضوں کے مطابق دل کش کتابوں کی اشاعت بھی شیخ غلام علی اینڈ سنز کا طرہ امتیاز رہا ہے۔
اب تک مختلف موضوعات اور اصناف پر ہزاروں کتابیں اس ادارے کے تحت شائع ہوئی ہیں۔ ملک کے معروف مصنفوں نے اپنی تحریروں کے ذریعے اس ادارے کو اُٹھان دی۔
شیخ غلام علی اینڈ سنز نے بچوں کے لیے نئی کتابوں کی اشاعت میں کمی کردی ہے، لیکن بچوں کے لیے اس ادارے کے تحت معروف مصنّفین کی کتابوں کی مشہور زمانہ سیریز شروع کی گئی تھیں، اس پروجیکٹ کے تحت مائی لارڈ حقہ، پیٹو بلی، مقدس جھوٹ، گنڈک کا بھوت، شکاری اور بھوت، دو آنے، جلیبیاں، جلاوطن، ناگ راجا، لکڑہارے کا بیٹا اور اپریل فول جیسی کتابیں منظر عام پر آئیں۔ یہ کتابیں آج بھی کتب میلوں کے انعقاد کے موقعوں پر فروخت ہوتی نظر آتی ہیں۔
''مولوی فیروزالدین خان'' اپنے وقت کے جیّد علما میں سے تھے۔ ان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا ہے جنھوں نے قرآن کا عربی سے فارسی اور اُردو میں ترجمہ کیا۔ ۱۸۹۴ء میں آپ نے ''فیروز سنزگروپ'' قائم کیا اور پہلے ''فیروز سنز پبلشنگ ہاؤس'' کی بنیاد رکھی۔
تعلیم وتربیت فیروز سنز کا ایک ایسا کارنامہ ہے جس نے اس ادارے کے ساتھ لوگوں کی ایک جذباتی وابستگی پیدا کردی۔ تعلیم وتربیت کے کئی سلسلے کتابی صورت میں شائع ہوئے جب کہ فیروز سنز نے بہت سے ناول، کہانیوں کو براہ راست بھی کتابی صورت میں شائع کیا۔
بچوں کے لیے شائع کی گئی فیروز سنز کی مشہور کتابیں الہ دین کا چراغ، اُلو کے گھونسلے سے، شاہین کی واپسی، سرفروش مجاہد، شیر دل ٹیپو، عرب کی بیٹی، کیا وہ چور تھا؟ آج بھی فروخت ہورہی ہیں۔ فیروز سنز کی ان کتابوں کو مکتبۂ جدید، احمد عدنان طارق کے توسط سے نئے گیٹ اپ کے ساتھ شائع کررہا ہے، جس سے ان ناولوں کی مقبولیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
یکم جنوری ۱۹۶۴ء کو ''ہمدرد فاؤنڈیشن'' کا قیام عمل میں آیا۔ ہمدرد فاؤنڈیشن کے بانی حکیم محمد سعید تھے اور یہ ادارہ اپنے ابتدائی دنوں سے لے کر اب تک مکمل طور پر فعال رہا ہے۔
بچوں کی تعلیم وتربیت اور تفریح کے لیے ہمدرد نو نہال کا آغاز کیا گیا جو گذشتہ ستر برسوں سے بلاناغہ شائع ہورہا ہے۔ کئی نسلوں نے اس رسالے سے استفادہ کیا۔ ملک کے کئی نام ور لکھنے والوں نے اپنے لکھنے کا آغاز ہمدرد نونہال سے کیا ہے۔
ہمدرد فاؤنڈیشن پریس نے بچوں کے لیے فیروزسنز کی طرح تقریباً ہر موضوع پر کتابیں شائع کی ہیں، ان میں نقوش سیرت اول تا پنجم، چاند کا مسافر، تین بے وقوف نمایاں ہیں۔ ان کتابوں کے نئے ایڈیشن شائع کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں، ان میں کئی کتابیں ہمدرد کے کتب خانے پر دست یاب ہیں۔
دعوۃ اکیڈمی نے بچوں کے لیے بہت سی کتابیں شائع کیں، جن میں اونچے درختوں کا باغ، تمھارا یہ آنسو، حرکت میں برکت، بددیانتی کا انجام، آٹوگراف اور آہ کا اثر شامل ہیں۔
دعوۃ اکیڈمی کے شعبے بچوں کا ادب کے تحت بچوں کے ادیبوں کے لیے ایسے تاریخ ساز کام ہوئے جن کی نظیر پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ادیبوں کی صلاحیتوں کو اُبھارنے کے لیے ورکشاپس کا انعقاد، قلم کاروں کے ایک دوسرے سے روابط نے بلاشبہہ بچوں کے ادیبوں کو یکجا کرنے میں اہم کردار ادا کیا وہیں ان تربیتی پروگراموں سے نئے ادیبوں کی صلاحیتوں میں خوب اضافہ ہوا۔
سنگ میل پبلی کیشنز نے لاہور شہر سے بچوں کے لیے خوب صورت کتابیں شائع کیں۔ اس ادارے کے تحت بچوں کے لیے کہانیاں، ناول اور ڈرامے بھی شائع کیے گئے ہیں۔ یہ کتابیں ملک کے معروف قلم کاروں نے تحریر کیں۔
ان ادیبوں میں قمر علی عباسی، میرزا ادیب، ابصار عبدالعلی، رضا علی عابدی، امجد اسلام امجد، انتظار حسین، حفیظ سرور، کشور ناہید، امتیاز علی تاج، ڈپٹی نذیر احمد اور حسین سحر کے نام نمایاں ہیں۔
سنگ میل کی شائع کردہ کتابوں میں زندگی کے چند سنہری اصول، آنکھ مچولی، چچا چھکن، ہونہار بیٹی، نانوں کی عینک اور گنگناتا قاعدہ اور سورج کے دیس سے شامل ہیں۔
اسلامک پبلی کیشنز کے تحت بچوں کے لیے ان کی ذہنی استعداد کے مطابق ۱۱۵ دل چسپ کتابیں شائع کی گئیں۔ پاکستان میں مائل خیرآبادی کی سب سے زیادہ کتابیں شائع کرنے کا اعزاز بھی اسلامک پبلی کیشنز کو حاصل ہے۔
مائل خیرآبادی کی کتابوں میں آج کا حاتم (ناول)، ابن بطوطہ کا بیٹا، اچھے افسانے، اچھی نظمیں، امرود بادشاہ، بنت اسلام، گڑیا کی نظمیں اور مہمان ریچھ شامل ہیں۔
اشتیاق احمد بچوں کے مشہور ادیب تھے، اُنھوں نے بچوں کے لیے ریکارڈ ساز ناول لکھے۔ اُن کے ناولوں کی ایک بڑی تعداد اٹلانٹس پبلی کیشنز نے شائع کی ہے۔ اٹلانٹس نے جہاں اشتیاق احمد کے ناول شائع کیے وہیں تعلیم وتربیت کے پرانے شماروں کو اسی ڈیزائن کے ساتھ دوبارہ شائع کرکے نئی نسل کے سامنے ماضی کے یادگار جھروکے روشن کیے۔
فہیم عالم بچوں کے ادیب اور ''بچوں کا کتاب گھر'' کے ناشر ہیں۔ اُنھوں نے بچوں کے تین یادگار شمارے جگنو، بچوں کی دنیا اور بچوں کا باغ خرید کر اِنھیں شائع کرنا شروع کردیا۔ اسی طرح حکومت پنجاب کے ایک پروجیکٹ کے تحت روشنی کے نام سے ایک رسالہ بھی شائع کیا جارہا ہے، یہ رسالہ پنجاب بھر کے تعلیمی اداروں میں سرکار کی طرف سے تقسیم کیا جاتا ہے۔
''بچوں کا کتاب گھر'' کے تحت بچوں کے لیے بے شمار کتابیں بھی شائع کی گئی ہیں۔ ان میں بلیک فائٹرز، آخری سیڑھی، گیدڑ بھبکی، خاطر داریاں، مجرم کے بال، پڑیے گر بیمار، تصویر کے آنسو، گوریلا، اچھے قصے اور راجو کی کہانی شامل ہیں۔ اس وقت پاکستان بھر میں بچوں کے لیے سب سے زیادہ کتابیں بچوں کا کتاب گھر کے پلیٹ فارم سے شائع ہورہی ہیں۔
القا پبلی کیشنز نے بچوں کے کلاسک ادب کو اُردو میں ڈھال کر سلیقے کے ساتھ شائع کیا ہے، ان کہانیوں کے ساتھ اسکیچز کا اضافہ کرکے کتابوں کو مزید دل چسپ بنایا گیا ہے۔
القا پبلی کیشنز کے تحت سنہرے دریا کا بادشاہ، سوداگر اور دیو، سلیمانی خزانہ، غیبی انسان، الہ دین کا چراغ، جودر اور اس کے بھائی، معروف موچی، سند باد جہازی، علی بابا چالیس چور، بی کھوکھو کی ناک شائع کی گئی ہیں۔ اس کے علاوہ معروف برطانوی مصنفہ 'اینیڈ بلیٹن' کی کہانیوں کو بھی القا پبلی کیشنز نے پاکستان میں شائع کیا۔
آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے جہاں بڑوں کے لیے بے شمار کتابیں تیار کیں وہیں بچوں کے لیے اُردو اور انگریزی میں معیاری ادب پیش کیا۔ بچوں کے لیے تیار کی گئی کتابوں میں کلاسک ادب ، کہانیاں اور ناول شائع کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔
آکسفورڈ یونی ورسٹی پریس نے جہاں کہانیوں کو کتابی شکل میں شائع کیا وہیں بچوں کے لیے مختلف مشہور اور تاریخی شخصیات کے خاکے باتصویر شائع کیے، جن میں محترمہ فاطمہ جناح، بیگم رعنا لیاقت علی خان، فیض احمد فیض، مرزا قلیچ بیگ، حسن علی آفندی، نورجہاں، جہانگیر خان، پروین رحمان اور صادقین جیسی شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔
ادارہ مطبوعات طلبہ لاہور اور کراچی نے بھی بچوں کے لیے سیکڑوں ناول اور کہانیوں کی کتابیں شائع کی ہیں۔ ادارہ مطبوعات طلبہ لاہور اور کراچی ، ماہ نامہ ساتھی، ماہ نامہ ساتھی (سندھی)، ماہ نامہ پیغام لاہور، ماہ نامہ پیغام راولپنڈی، ماہ نامہ شاہین پشاور، اسلامک چلڈرن ہابیز سوسائٹی کے پروجیکٹ ہیں۔
مکتبہ بیت العلم گذشتہ کئی برسوں سے ادب اطفال میں خاموشی سے اضافہ کررہا ہے۔ اس ادارے کے تحت نہ صرف بچوں کے لیے ماہ نامہ ذوق وشوق کا اجرا کیا گیا ہے وہیں بچوں کے لیے کئی کتابیں بھی اس ادارے کے تحت شائع ہوچکی ہیں، جن میں دروازے پر دستک، اُونچا پہاڑ، ماں اور ممتا، نئی کہانی اور نیا انداز، کہانیوں کے دیس میں، نظم بنی کہانی، حکایت بنی کہانی، کہانی نگرشامل ہیں۔
آشیانہ پبلی کیشنز کے تحت بچوں کا آشیانہ کا اجرا کیا گیا، وہیں بچوں کے لیے سفید گیند، روشنی کی کرن، میاں بلاقی کے کارنامے، کہانی ایک سفر کی، زمین کی انوکھی کہانی اور بچوں کے لیے سائنس کے دل چسپ تجربات پر مشتمل پانچ کتابیں شائع کی گئیں۔
معروف ناول نویس عمیرہ احمد نے الف کتاب کے نام سے ادارہ قائم کیا اور اس ادارے کے تحت بچوں کے لیے الف نگر رسالہ شائع کیا گیا۔
اس رسالے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اس میں موجود کہانیوں کو ڈیجیٹلائز کرکے اُنھیں یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا گیا۔ بچوں کے ادب میں اگرچہ یہ نیا تجربہ نہیں ہے، اس سے قبل آنکھ مچولی کے تحت بھی اس قسم کے تجربے کیے جاچکے ہیں، لیکن الف نگر کی یہ پیشکش ذرا بہتر اور زیادہ اچھے معیار کے ساتھ پیش کی جارہی ہے۔
دوسری طرف عمیرہ احمد نے اشتیاق احمد کے ناولوں کے حقوق خرید کر چند ناول دوبارہ شائع کیے ہیں، وہیں ان ناولوں کو فلمایا بھی جارہا ہے۔ اس پروجیکٹ پر کام جاری ہے اور عنقریب قارئین اپنے پسندیدہ ناول نگار کے کرداروں کو اسکرین پر دیکھ سکیں گے۔
دارالسلام کتابوں کی معیاری چھپائی کے حوالے سے ایک اہم نام ہے۔ دارالسلام نے بچوں کے لیے دینی لٹریچر میں اچھا اضافہ کیا ہے۔
ان کتابوں کی تزئین وآرائش پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ بچوں کے لیے شائع کی گئی دارالسلام کی کتابوں میں گم شدہ پیالا، سب سے سچی کہانی، سب سے پیارے، پتھر کی گواہی، عظیم قربانی، انوکھی خوش خبری، پتھروں کی بارش، ظالم ملکہ، زمین پر پہلا قدم، عجیب بشارت، پرانی لاش، ستاروں کا سجدہ سمیت سیکڑوں مزید اردو اور انگریزی کتابیں بچوں کے لیے شائع کی گئی ہیں۔
۲۰۱۰ء میں ماہ نامہ ساتھی کے سابق مدیر نجیب احمد حنفی نے انگریزی ماہ نامہ وی شائن کا اجرا کیا، اس کے کچھ عرصے بعد ہی جگمگ تارے کے نام سے اُردو میں پہلی سے پانچویں جماعت کے طالب علموں کے لیے ایک منفرد ماہ نامہ کا آغاز کیا۔ یہ دونوں رسائل نہ صرف تسلسل کے ساتھ شائع ہورہے ہیں وہیں بچوں میں مقبول بھی ہیں۔
سید فصیح الدین احمد نے نئے دور کے نئے تقاضوں کو سمجھتے ہوئے ادیب آن لائن کے نام سے ایک ایسی موبائل ایپ بنائی جہاں کتابوں کا ذخیرہ یک جا کیا گیا ہے۔
اس ایپ میں کتابیں پی ڈی ایف کے بجائے یونی کوڈ میں کچھ اس انداز سے ڈالی گئی ہیں کہ پڑھنے والا اصلی کتاب کا تصور کرسکتا ہے۔ بچوں کے کلاسک ادب کا باقاعدہ الگ سے سیکشن بنایا گیا ہے۔ جہاں سیکڑوں ناول ایک مناسب قیمت دے کر آپ پڑھ سکتے ہیں۔
اس کے علاوہ کئی ایسے ادارے موجود ہیں جو بچوں کے لیے کتابوں کی اشاعت کا کمرشل اہتمام کررہے ہیں۔ مطالعے کے رجحان میں کمی کے باعث بیشتر ناشروں نے درسی کتابیں بھی تیار کرنی شروع کردی ہیں، اس وقت ملک عزیز میں بلامبالغہ سیکڑوں ایسے ادارے ہیں جو درسی کتابوں کے کاروبار سے منسلک ہیں۔ بچوں کی پڑھنے کی عام کتابیں بہ تدریج والدین ، اساتذہ کی عدم دل چسپی کی وجہ سے کم ہوتی جارہی ہیں۔