وقت کی اہم ضرورت
عمران خان انتخابی کامیابیوں کے بعد نواز شریف کو چیلنج کررہے ہیں کہ وہ ملک میں آکر مہم چلائیں
تحریک انصاف کے قومی اسمبلی کے آٹھ مستعفی اراکین کی خالی سیٹوںپر ہونے والے ضمنی انتخابات میں تحریک انصاف دو نشستوں سے محروم ہوئی۔
پنجاب اور خیبرپختون خوا میں مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو شکست ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے ملتان اور کراچی سے دو نشستیں حاصل کیں۔ عمران خان نے ضمنی انتخابات میں کامیابی کو عوامی ریفرنڈم قرار دیا مگر عمران خان کو قانون کے تحت ان نشستوں سے دستبردار ہونا ہوگا۔
کیا تحریک انصاف کے دیگر امیدوار ان نشستوں کو برقرار رکھ سکیں گے؟ مگر عمران خان نے اس کامیابی کے فوراً بعد اسلام آباد پر لشکرکشی کا اعلان تو کیا مگر لشکر کی روانگی کی تاریخ ظاہر نہیں کی مگر یہ ضرور کہا کہ اکتوبر میں ہی تحریک انصاف کے لشکر کے اسلام آباد پر دھاوے کی تاریخ کو ظاہر کریں گے۔
حکمراں اتحاد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ انتخابات ایک سال بعد ہونگے۔ کسی لشکر کے دباؤ پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوگا ۔
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے تناظر میں روس اور چین کی طرح غیر ذمے دار ملک ہے۔
حکومت پاکستان کے احتجاج پر امریکی وزارت خارجہ نے وضاحت تو کی کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں مگر صدر بائیڈن کا یہ بیان اتفاقی تھا، مگر صدر بائیڈن کے ان ریمارکس کو پاکستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
ایک سینئر صحافی نے اس خیال کا اظہار کیا کہ بائیڈن کے اس بیان کو امریکا میں سینیٹ کے متوقع انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے۔ امریکا کی مختلف ریاستوں میں سینیٹ کے لیے نمایندوں کے انتخابات میں اگر ڈیموکریٹک پارٹی نے دوبارہ کامیابی حاصل کی تو صدر بائیڈن کو قانون سازی میں آسانی ہوگی۔
خیبر پختون خوا کے سابق قبائلی علاقے اور سوات میں انتہاپسند طالبان کی سرگرمیاں پھر تیز ہوئی ہیں۔ سابقہ قبائلی علاقے میں نامعلوم افراد کے امن کمیٹی کے اراکین کو قتل کرنے کی وارداتیں متواتر سے اخبارات میں شایع ہورہی ہیں۔
خبروں کے مطابق سوات پر قبضہ کے لیے طالبان کے متحرک گروہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی تھیں۔ نامعلوم افراد نے اسکول جانے والی وین پر گولیاں برسائی ہیں۔
ان گولیوں کی بوچھاڑ سے وین ڈرائیور جاں بحق اور دو طالب علم زخمی ہوئے، وادی سوات کے شہریوں نے مذہبی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کا نیا سلسلہ شروع کیا، ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
اس احتجاج میں تمام جماعتوں کے نمایندے شامل تھے، عوامی احتجاج کی بناء پر حکومت کو ایک مختصر آپریشن کرنا پڑا ۔ تحریک انصاف کے ترجمان تو طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے جنگجوؤں کو واپس بلالیں مگر ان پاکستانی طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے یہ پتا چل رہا ہے کہ ریاست مذہبی انتہاپسندوں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہی ہے، جب سے یہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے عمران خان کی مقبولیت کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔
موجودہ حکومت نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ I.M.F کی سخت شرائط پر عملدرآمد شروع کیا، یوں ڈالر کی قیمت بڑھتی چلی گئی۔
تیل، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھنے شروع ہوئے اور حکومت کے بار بار اعلانات کے باوجود مہنگائی کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ موجودہ حکومت نے بنیادی اشیاء پر سبسڈی ختم کردی اور گیس اور تیل کی قیمتوں کو عالمی منڈی سے منسلک کردیا، یوں تیل اور گیس کے نرخ گزشتہ چھ ماہ میں کئی گنا بڑھ گئے۔
ایک کمزور طرز حکومت کی بناء پر عام اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ ایک طرف مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے تو دوسری طرف برآمدات متاثر ہوئیں۔ کراچی، لاہور اور فیصل آباد میں گارمنٹس اور لومز بنانے والے بہت سے کارخانے بند ہوئے یا ان کارخانوں کے مالکان نے مزدوروں کو روزگار سے محروم کیا۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے خود یہ اقرار کیا کہ فیصل آباد میں عابد شیر علی کی ناکامی کی ایک وجہ لومز کے کارخانوں کی بندش اور ہزاروں افراد کی بے روزگاری تھی۔ عمران خان نے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر کے خفیہ سائفر کی آڑ لے کر اپنی حکومت کی برطرفی کو امریکی سازش سے تعبیر کیا تھا۔
عمران خان نے صرف ضمنی انتخابات میں پنجاب اور خیبرپختون خوا کے مختلف شہروں میں 50 کے قریب جلسے کیے اور مذہبی انتہاپسند گروہوں کو ہم نوا بنانے کے لیے مذہبی کارڈ کو استعمال کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی گئی جس میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی کرپشن کے ایجنڈا کے طور پر وائرل کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے وزیر خارجہ کا عہدہ قبول کیا۔ ان کا زیادہ وقت غیر ممالک کے دوروں میں گزرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی مہم چلانے کے لیے کوئی بڑی شخصیت دستیاب نہیں ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے بعد ان شہروں کے دورے کم کردیے۔
مریم نواز نے گزشتہ ضمنی انتخابات میں انتخابی مہم چلائی تھی، اس دفعہ وہ لندن چلی گئیں۔ یوں عمران خان کے بیانیہ کا جواب دینے والا اور ان جیسی حیثیت رکھنے والا کوئی رہنما میدان میں موجود نہیں تھا۔
عمران خان انتخابی کامیابیوں کے بعد نواز شریف کو چیلنج کررہے ہیں کہ وہ ملک میں آکر مہم چلائیں۔ موجودہ حکومت نے سخت معاشی بحران میں سادگی اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ موجودہ وفاقی کابینہ 75 وزراء اور خصوصی معاونین پر مشتمل ہے۔امریکا کے صدر بائیڈن کامو قف کوئی نیا مو قف نہیں ہے۔
جب بائیڈن سینیٹر بنے تو پاکستان میں جمہوری نظام کے استحکام اور ڈیپ اسٹیٹ کے وسیع کردار پر تشویش کا اظہار کرتے تھے۔
امریکی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ایک انٹرویو کا کلپ سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے۔ ہیلری کلنٹن سے ڈیپ اسٹیٹ کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔ انھوں نے اس سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پولیٹیکل سائنٹسٹ ڈیپ اسٹیٹ کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ ایسے ممالک جہاں فوج اور خفیہ ایجنسیاں ملک کا نظام چلاتی ہیں۔
انھوں نے ان ممالک میں پاکستان کا نام بھی شامل کیا۔ سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں امریکی کانگریس نے کیری لوگر بل نافذ کیا تھا۔ اس امریکی قانون میں تحریر کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان کی غیر جمہوری قوتیں اقتدار پر قبضہ کریں گی تو امریکی امداد سے محروم ہوجائیں گی۔ اس قانون کو بنانے میں بائیڈن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
امریکا اور یورپ میں یہ تاثر تقویت پارہا ہے کہ اگر عمران خان اقتدار میں آگئے تو وہ سخت انتہاپسندانہ رویہ اختیار کرسکتے ہیں، یوں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ اب بائیڈن کو پاکستان پر چین کے بڑھتے ہوئے اثرات پر بھی تشویش ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اکابرین کو اس خطرناک صورتحال پر غور کرنا چاہیے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے جامع اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام حقائق کو سمجھ سکے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ انتہاپسندانہ رویہ ملک کو تنہا کردے گا۔
پنجاب اور خیبرپختون خوا میں مسلم لیگ ن، عوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علماء اسلام کو شکست ہوئی۔ پیپلز پارٹی نے ملتان اور کراچی سے دو نشستیں حاصل کیں۔ عمران خان نے ضمنی انتخابات میں کامیابی کو عوامی ریفرنڈم قرار دیا مگر عمران خان کو قانون کے تحت ان نشستوں سے دستبردار ہونا ہوگا۔
کیا تحریک انصاف کے دیگر امیدوار ان نشستوں کو برقرار رکھ سکیں گے؟ مگر عمران خان نے اس کامیابی کے فوراً بعد اسلام آباد پر لشکرکشی کا اعلان تو کیا مگر لشکر کی روانگی کی تاریخ ظاہر نہیں کی مگر یہ ضرور کہا کہ اکتوبر میں ہی تحریک انصاف کے لشکر کے اسلام آباد پر دھاوے کی تاریخ کو ظاہر کریں گے۔
حکمراں اتحاد نے اس عزم کا اظہار کیا کہ انتخابات ایک سال بعد ہونگے۔ کسی لشکر کے دباؤ پر انتخابات کی تاریخ کا اعلان نہیں ہوگا ۔
امریکا کے صدر جوبائیڈن نے پاکستان کے ایٹمی اثاثوں کے غیر محفوظ ہونے کے خدشہ کا اظہار کیا اور کہا کہ پاکستان ایٹمی اثاثوں کے تحفظ کے تناظر میں روس اور چین کی طرح غیر ذمے دار ملک ہے۔
حکومت پاکستان کے احتجاج پر امریکی وزارت خارجہ نے وضاحت تو کی کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے محفوظ ہیں مگر صدر بائیڈن کا یہ بیان اتفاقی تھا، مگر صدر بائیڈن کے ان ریمارکس کو پاکستان میں ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی کے تناظر میں دیکھنا ضروری ہے۔
ایک سینئر صحافی نے اس خیال کا اظہار کیا کہ بائیڈن کے اس بیان کو امریکا میں سینیٹ کے متوقع انتخابات کے تناظر میں دیکھا جائے۔ امریکا کی مختلف ریاستوں میں سینیٹ کے لیے نمایندوں کے انتخابات میں اگر ڈیموکریٹک پارٹی نے دوبارہ کامیابی حاصل کی تو صدر بائیڈن کو قانون سازی میں آسانی ہوگی۔
خیبر پختون خوا کے سابق قبائلی علاقے اور سوات میں انتہاپسند طالبان کی سرگرمیاں پھر تیز ہوئی ہیں۔ سابقہ قبائلی علاقے میں نامعلوم افراد کے امن کمیٹی کے اراکین کو قتل کرنے کی وارداتیں متواتر سے اخبارات میں شایع ہورہی ہیں۔
خبروں کے مطابق سوات پر قبضہ کے لیے طالبان کے متحرک گروہوں نے اپنی سرگرمیاں تیز کردی تھیں۔ نامعلوم افراد نے اسکول جانے والی وین پر گولیاں برسائی ہیں۔
ان گولیوں کی بوچھاڑ سے وین ڈرائیور جاں بحق اور دو طالب علم زخمی ہوئے، وادی سوات کے شہریوں نے مذہبی دہشت گردی کے خلاف احتجاج کا نیا سلسلہ شروع کیا، ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے۔
اس احتجاج میں تمام جماعتوں کے نمایندے شامل تھے، عوامی احتجاج کی بناء پر حکومت کو ایک مختصر آپریشن کرنا پڑا ۔ تحریک انصاف کے ترجمان تو طالبان سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنے جنگجوؤں کو واپس بلالیں مگر ان پاکستانی طالبان کی بڑھتی ہوئی سرگرمیوں سے یہ پتا چل رہا ہے کہ ریاست مذہبی انتہاپسندوں کو زیادہ سنجیدہ نہیں لے رہی ہے، جب سے یہ حکومت برسر اقتدار آئی ہے عمران خان کی مقبولیت کا گراف بڑھتا جارہا ہے۔
موجودہ حکومت نے پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ I.M.F کی سخت شرائط پر عملدرآمد شروع کیا، یوں ڈالر کی قیمت بڑھتی چلی گئی۔
تیل، گیس اور بجلی کے نرخ بڑھنے شروع ہوئے اور حکومت کے بار بار اعلانات کے باوجود مہنگائی کے ماضی کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ موجودہ حکومت نے بنیادی اشیاء پر سبسڈی ختم کردی اور گیس اور تیل کی قیمتوں کو عالمی منڈی سے منسلک کردیا، یوں تیل اور گیس کے نرخ گزشتہ چھ ماہ میں کئی گنا بڑھ گئے۔
ایک کمزور طرز حکومت کی بناء پر عام اشیاء کی قیمتیں بڑھ گئیں۔ ایک طرف مہنگائی نے تمام ریکارڈ توڑ دیے تو دوسری طرف برآمدات متاثر ہوئیں۔ کراچی، لاہور اور فیصل آباد میں گارمنٹس اور لومز بنانے والے بہت سے کارخانے بند ہوئے یا ان کارخانوں کے مالکان نے مزدوروں کو روزگار سے محروم کیا۔
وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے خود یہ اقرار کیا کہ فیصل آباد میں عابد شیر علی کی ناکامی کی ایک وجہ لومز کے کارخانوں کی بندش اور ہزاروں افراد کی بے روزگاری تھی۔ عمران خان نے امریکا میں تعینات سابق پاکستانی سفیر کے خفیہ سائفر کی آڑ لے کر اپنی حکومت کی برطرفی کو امریکی سازش سے تعبیر کیا تھا۔
عمران خان نے صرف ضمنی انتخابات میں پنجاب اور خیبرپختون خوا کے مختلف شہروں میں 50 کے قریب جلسے کیے اور مذہبی انتہاپسند گروہوں کو ہم نوا بنانے کے لیے مذہبی کارڈ کو استعمال کیا۔ سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی گئی جس میں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی کرپشن کے ایجنڈا کے طور پر وائرل کیا گیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرپرسن بلاول بھٹو زرداری نے وزیر خارجہ کا عہدہ قبول کیا۔ ان کا زیادہ وقت غیر ممالک کے دوروں میں گزرتا ہے۔ پیپلز پارٹی کی مہم چلانے کے لیے کوئی بڑی شخصیت دستیاب نہیں ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ کے صدر شہباز شریف نے وزیر اعظم بننے کے بعد ان شہروں کے دورے کم کردیے۔
مریم نواز نے گزشتہ ضمنی انتخابات میں انتخابی مہم چلائی تھی، اس دفعہ وہ لندن چلی گئیں۔ یوں عمران خان کے بیانیہ کا جواب دینے والا اور ان جیسی حیثیت رکھنے والا کوئی رہنما میدان میں موجود نہیں تھا۔
عمران خان انتخابی کامیابیوں کے بعد نواز شریف کو چیلنج کررہے ہیں کہ وہ ملک میں آکر مہم چلائیں۔ موجودہ حکومت نے سخت معاشی بحران میں سادگی اختیار کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ موجودہ وفاقی کابینہ 75 وزراء اور خصوصی معاونین پر مشتمل ہے۔امریکا کے صدر بائیڈن کامو قف کوئی نیا مو قف نہیں ہے۔
جب بائیڈن سینیٹر بنے تو پاکستان میں جمہوری نظام کے استحکام اور ڈیپ اسٹیٹ کے وسیع کردار پر تشویش کا اظہار کرتے تھے۔
امریکی سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے ایک انٹرویو کا کلپ سوشل میڈیا پر گردش کررہا ہے۔ ہیلری کلنٹن سے ڈیپ اسٹیٹ کے بارے میں سوال کیا گیا تھا۔ انھوں نے اس سوال کے جواب میں کہا تھا کہ پولیٹیکل سائنٹسٹ ڈیپ اسٹیٹ کی یہ تعریف کرتے ہیں کہ ایسے ممالک جہاں فوج اور خفیہ ایجنسیاں ملک کا نظام چلاتی ہیں۔
انھوں نے ان ممالک میں پاکستان کا نام بھی شامل کیا۔ سینئر صحافیوں کا کہنا ہے کہ پیپلز پارٹی کی حکومت کے دور میں امریکی کانگریس نے کیری لوگر بل نافذ کیا تھا۔ اس امریکی قانون میں تحریر کیا گیا تھا کہ اگر پاکستان کی غیر جمہوری قوتیں اقتدار پر قبضہ کریں گی تو امریکی امداد سے محروم ہوجائیں گی۔ اس قانون کو بنانے میں بائیڈن نے اہم کردار ادا کیا تھا۔
امریکا اور یورپ میں یہ تاثر تقویت پارہا ہے کہ اگر عمران خان اقتدار میں آگئے تو وہ سخت انتہاپسندانہ رویہ اختیار کرسکتے ہیں، یوں طاقت کا توازن بگڑ جائے گا۔ اب بائیڈن کو پاکستان پر چین کے بڑھتے ہوئے اثرات پر بھی تشویش ہے۔
پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ کے اکابرین کو اس خطرناک صورتحال پر غور کرنا چاہیے اور عوام کو ریلیف دینے کے لیے جامع اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ عوام حقائق کو سمجھ سکے۔ وقت کی ضرورت یہ ہے کہ عوام کو یہ باور کرایا جائے کہ انتہاپسندانہ رویہ ملک کو تنہا کردے گا۔