سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات نئے موڑ پر
چین اور روس کے پاس دنیا کے سب سے اہم خطے مشرقی وسطی میں قدم جمانے اور امریکا کو خطے سے آؤٹ کرنے کا بہترین موقع ہے
سعودی عرب اور امریکا کے تعلقات 8 دہائیوں پر مشتمل ہیں۔ان دوطرفہ تعلقات میں اتار چڑھاؤ تو آتا رہا،لیکن سرد جنگ کا دور ہو یا سرد جنگ کے بعد سعودی عرب نے امریکا کے سوا کبھی روس یا چین کے ساتھ امریکا کی مانند دفاعی تعلقات قائم کرنے کی ضرورت محسوس نہیں۔
امریکا اور سعودی عرب کے مابین 8 دہائیوں پر مشتمل سفارتی،سیاسی،معاشی اور دفاعی تعلقات کی ایک طویل تاریخ رہی ہے۔دوطرفہ تعلقات میں معمولی اتار چڑھاؤ کے علاوہ کبھی ایسا موقع نہیں آیا ۔امریکا اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں کوئی ڈیڈ لاک پیدا ہوا ہو۔روس کا یوکرین پر حملہ موجودہ عالمی سیاست میں وہ ٹرننگ پوائنٹ تھا جس نے پورے عالمی منظر نامے کو تبدیل کردیا۔
بین الاقوامی تعلقات میں ریاستوں کے باہمی تعلقات مفادات پر مبنی ہوتے ہیں۔ماضی کے حریف کسی بھی وقت بہترین دوست بن سکتے ہیں اور بہترین دوست کسی بھی وقت خطرناک حریف بن کر سامنے آسکتے ہیں۔
آج سے ایک سال پہلے کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات اس نہج پر پہنچ سکتے ہیں کہ معاملہ براہ راست دھمکیوں تک آجائے گا۔روس اور یوکرین کی لڑائی کے بعد اس وقت پوری دنیا خصوصاً یورپ اور امریکا کو توانائی کے شدید بحران کا سامنا ہے۔
روس سے گیس کی بندش کے بعد دنیا بھر میں چند مہینوں کے دوران انرجی کی قیمتوں میں تقریباً دو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔توانائی کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اس وقت پوری دنیا کو مہنگائی اور معاشی بحران کا سامنا ہے۔توانائی بحران کے بعد امریکا کی خواہش رہی ہے کہ سعودی عرب اور تیل پیدا کرنے والے دیگر ممالک اس کی پیداوار بڑھا دیں تاکہ تیل کی قیمتوں میں کمی آسکے۔
اس وقت امریکا کو معاشی اور توانائی کے بحران کی وجہ سے نہ صرف یورپی اتحادیوں کے دباؤ کا سامنا ہے بلکہ نومبر میں وسط مدتی انتخابات کی وجہ سے بائیڈن انتظامیہ کو اندرونی دباؤ کا بھی سامنا ہے۔یہی وجہ ہے امریکی صدر جو بائیڈن نے سعودی عرب کو تیل کی پیداوار میں اضافے پر رضا مند کرنے کے لیے جولائی میں خود سعودی عرب کا دورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
دورہ سعودی عرب میں امریکی صدر نے سعودی قیادت سے تیل کی پیداوار میں اضافے کی درخواست کی تاکہ قیمتوں میں کمی سے توانائی بحران اور مہنگائی پر قابو پایا جاسکے۔سعودی قیادت کا خیال ہے کہ تیل کی پیداوار بڑھائی گئی تو تیل کی قیمتیں عالمی مارکیٹ میں کم ہوجائیں گی چنانچہ تیل کی قیمتیں قابو میں رکھنے اور اپنا منافع جاری رکھنے کے لیے اس نے امریکا کی خواہش پر تیل کی پیداوار بڑھانے سے انکار کردیا۔
امریکا کی خواہش کے برخلاف اوپیک پلس ممالک کی طرف سے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے نے امریکی قیادت کو شدید برہم کردیا۔اس فیصلے کے بعد امریکی صدر جو بائیڈن نے بیان دیا کہ ''سعودی عرب کو تیل کی پیداوار میں کمی کے نتائج بھگتنا ہوں گے،اب وقت آگیا ہے کہ امریکا اور سعودی عرب کے تعلقات پر نظر ثانی کی جائے۔''
سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ'' یہ فیصلہ مکمل طور پر اقتصادی تھا اور اوپیک پلس کے تمام ارکان نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ لیا۔سوال یہ ہے آخر سعودی عرب نے امریکی ناراضگی کیوں مول لی؟کیا سعودی عرب امریکا کی ناراضگی کا متحمل ہوسکتا ہے؟
سعودی عرب نے یہ فیصلہ خالصتاً ریاستی مفادات اور مارکیٹ کے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا جب کہ امریکا تیل کی پیداوار بڑھانا چاہتا ہے تاکہ نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے پہلے تیل کی قیمتوں میں کمی لائی جا سکے۔امریکی صدر کا خیال ہے کہ اگر تیل کی قیمتیں مزید بڑھیں تو ان کے لیے وسط مدتی انتخابات میں مشکلات بڑھ سکتی ہیں۔
امریکا کا الزام ہے کہ سعودی عرب نے تیل کی پیداوار میں کمی کا فیصلہ روس کے خلاف لگی معاشی پابندیوں کے اثر کو زائل کرنے کے لیے کیا۔امریکا کی طرف سے مسلسل یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ سعودی عرب کا واضح جھکاؤ اب روس کی طرف ہے۔
حالیہ کچھ عرصے سے سعودی عرب نے اپنے سفارتی پتے بڑی ہوشیاری اور عقلمندی سے کھیلے ہیں۔سعودی قیادت کے فیصلوں سے واضح ہوتا ہے کہ سعودی عرب اب عالمی سیاست اور سفارتکاری کی نزاکتوں کو سمجھ چکا ہے اور عالمی سیاست کے منظر نامے پر سعودی عرب ایک میچور کھلاڑی کے طور پر سامنے آیا ہے۔روس اور یوکرین کی جنگ میں سعودی عرب نے کھل کر کسی ملک کا ساتھ نہیں دیا،دوسری طرف سعودی قیادت نے خطے کے روایتی حریف ترکی اور ایران کے ساتھ بات چیت شروع کردی ہے۔
امریکا تیل کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اس وقت میکسیکو سے تیل کی درآمد بڑھا رہا ہے۔قیمتوں میں کمی اور تیل کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے امریکا پڑوسی ملک وینزویلا سے بھی پابندیاں ہٹا سکتا ہے لیکن قیمتوں میں شاید اتنی کمی نہ ہو جتنی امریکا چاہتا ہے۔اوپیک پلس ممالک کے تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے نے امریکا کے پاس توانائی بحران سے نمٹنے کے لیے موجود آپشنز کو بیحد محدود کردیا ہے۔
امریکا کے پاس اب مشرقی وسطیٰ میں ایران سے جوہری مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے علاوہ کوئی دوسرا آپشن نہیں بچا اور وائٹ ہاؤس نے اس حوالے سے کوششیں شروع کردی ہیں۔مشرقی وسطی میں امریکا کے کم ہوتے اثر و رسوخ اور روس ایران تعلقات میں بڑھتی گرمجوشی کے بعد چین اور روس کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے بیچ ثالثی کروا کر خطے سے امریکی اثر و رسوخ کو ختم کرسکتے ہیں۔
شام میں جس طرح روس نے کھل کر بشار الاسد کی حکومت کو بچایا۔اس کے بعد سے مشرقی وسطی میں دفاعی تعلقات کے نکتہ نظر سے روس کی ساکھ اور اہمیت میں اضافہ ہوا۔سعودی عرب اس وقت دنیا بھر میں امریکی اسلحے کا سب سے بڑا خریدار ہے،جب کہ امریکی اسلحے کی قریباً 47 فیصد مارکیٹ مشرقی وسطی کے ممالک ہیں۔
امریکی سینیٹ سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت اور دفاعی ساز وسامان کی فراہمی پر کسی بھی ممکنہ پابندی کی صورت روس کے پاس بہترین موقع ہوگا کہ وہ مشرقی وسطی میں اسلحے اور دفاعی ٹیکنالوجی کی فراہمی سے طاقت کا خلا پورا کرسکتا ہے۔روس کے اس اقدام سے امریکا کے ہاتھ سے سالانہ اربوں ڈالر کا دفاعی ساز و سامان خریدنے والی بڑی مارکیٹ ہاتھ سے نکل جائے گی، الٹا امریکی دفاعی ساز و سامان پر انحصار کرنے والے عرب ممالک بھی امریکی اثر و رسوخ سے آزاد ہو جائیں گے۔
چین اور روس کے پاس دنیا کے سب سے اہم خطے مشرقی وسطی میں قدم جمانے اور امریکا کو خطے سے آؤٹ کرنے کا بہترین موقع ہے۔عالمی سیاست کی بساط پر مشرقی وسطی اس وقت اہم ترین کردار بن چکا ہے جس کے ہاتھ میں دنیا کے معاشی مقدر کے فیصلوں کا اختیار ہے۔اسوقت دنیا بھر کی نظریں سعودی عرب کے نوجوان وزیراعظم محمد بن سلمان پر لگی ہیں۔سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن اور سوچ کے مطابق سعودی عرب روایتی علاقائی حریفوں کے ساتھ تنازعات ختم کرکے خطے کی سیاست سے عالمی سیاست اور معیشت کا مرکز بن چکا ہے۔