تاریخ کا مطالعہ کیسے کریں

تاریخ ہر شعبہ زندگی کی ہوتی ہے لیکن ہم سیاسی تاریخ کو ہی تاریخ سمجھتے ہیں

jabbar01@gmail.com

تاریخ کا مطالعہ کیسے کریں؟ اس سوال کے جواب سے قبل یہ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اس سوال کا جواب معلوم کیا جائے کہ تاریخ کسے کہتے ہیں اس کے ماخذ (ذرایع) کیا ہیں اور اس کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟

تاریخ کے لغوی معنی وقت کے ہیں ،اصطلاح میں اعمال و افعال، حادثات و واقعات کا ذکر جنھیں زمانے کے قریب کے لحاظ سے منظم و مرتب کیا گیا ہے کب، کہاں، کیسے، کیوں وہ سوالات ہیں جو تاریخ سے تعلق رکھتے ہیں۔

تاریخ واقعات کا مجموعہ ہے لیکن ہر واقعہ تاریخ نہیں ہوتا۔ ہم صبح و شام تک بہت سے اعمال سرانجام دیتے ہیں اس میں کچھ واقعات رونما ہو جاتے ہیں ،ان واقعات کو تاریخ کا نام نہیں دیا جاسکتا۔ ان ہی واقعات کو تاریخی واقعات کہا جائے گا جس کا اثر ایک بڑی مجموعی آبادی پر رونما ہو۔

انسانی ذہن کو اس وقت تک مکمل طور پر نہیں سمجھا جاسکتا جب تک کہ انسانی تہذیب کے ارتقا کو مرحلہ بہ مرحلہ نہیں سمجھا جائے گا اور جب بکھری ہوئی کڑیوں کو ملایا نہیں جائے گا اس وقت تک انسانی ترقی کے سلسلے کو سمجھا نہیں جاسکے گا۔ اسی وجہ سے تسلسل و ترتیب کو تاریخ نویسی کی روح قرار دیا گیا ہے اور عدم ترتیب تاریخ نویسی کی موت اس لیے تاریخ لکھنے کے لیے تربیت یافتہ مورخوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

تربیت یافتہ مورخ کی نگاہ اس قابل ہوتی ہے وہ واقعات میں غیر اہم واقعات کو علیحدہ کرکے اہم واقعات کا ادراک کر سکے اور وہ ان واقعات کی نوعیت اور حقائق کے اثرات دیکھ سکے اور اس کا تجزیہ کرکے نتائج اخذ کرسکے۔ وہ ان واقعات بالخصوص کامیابیوں اور ناکامیوں کا تجزیہ اس طرح کرتا ہے کہ ان سے کوئی عمومی اصول وضع کیے جاسکیں اور ان کی روشنی میں حال کا صحیح فہم حاصل کرکے مستقبل کی منصوبہ بندی کی جاسکے۔

اب آئیے اس سوال کی جانب اس علم کے ماخذ (ذرایع) کیا ہیں۔ سب سے پہلے سیاست ہے ایک زمانے میں تاریخ کو صرف ماضی کی سیاست سمجھا جاتا تھا اور اس سیاست کے ذریعے نسلی، مذہبی اور قومی جذبات کو ابھارا جاتا تھا۔ بہت سے تاریخی واقعات نظریات کے ٹکراؤ کے نتیجے میں یا مختلف طبقات کے مفادات کے ٹکراؤ کے سبب پیدا ہوئے ہیں اس لیے تاریخ میں سیاست کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

سیاست علم تاریخ کا ایک اہم ماخذ ہے۔ انسانی زندگی کا اصل محرک معاشی مفادات اور ضروریات رہی ہیں ،اس لیے دنیا کے بہت سے واقعات میں معاشی اسباب کارفرما رہے ہیں۔ بڑی بڑی جنگیں اور واقعات معاشی مفادات کے گرد گھومتے دکھائی دیتے ہیں اس لیے معیشت کو علم تاریخ کا ایک اہم ماخذ قرار دیا جاسکتا ہے۔

عمرانیات بھی علم تاریخ کا ایک اہم ماخذ ہے۔ انسان معاشرے کا ایک فرد ہے۔ تاریخ کا موضوع انسان ہے، تاریخ میں جن واقعات کا مطالعہ کیا جاتا ہے اس کا تعلق انسان کے معاشرے میں انجام دی جانے والی سرگرمیوں سے ہے اس لیے علم عمرانیات علم تاریخ کا ایک اہم ماخذ رہا ہے جس کے ذریعے یہ معلوم کیا جاتا ہے کہ حال سے متعلق سیاسی، سماجی، اقتصادی، تہذیبی، تمدنی حقائق کس طرح ظہور میں آئے اور ان کی جڑیں کہاں تک پھیلی ہوئی ہیں۔


ادب بھی تاریخ کا ایک اہم ماخذ ہے بالخصوص ادب کی ایک صنف سفر نامے سیاح اور مسافر آزاد ہوتے ہیں نہ ان کے کوئی مفادات ہوتے ہیں اور نہ ہی کوئی دباؤ، اس لیے یہ مشاہدات قلم بند کرنے کے حوالے سے غیر جانبدار واقع ہوئے ہیں یہ عموماً وہی لکھتے ہیں جو دیکھتے ہیں سفر نامہ کیونکہ چشم دید واقعات پر لکھا جاتا ہے اس لیے اسے علم تاریخ میں ایک معاون کی حیثیت حاصل ہے بشرطیکہ سفرنامہ ادبی اسلوب کے ساتھ حقائق پر مبنی ہو۔ مشہور قول ہے کہ تاریخ جغرافیہ کے بطن سے پیدا ہوتی ہے۔

ہر بڑے دریا کی وادی نے ایک تہذیب و تمدن کو جنم دیا ہے۔ گنگا جمنا ہو یا دریائے سندھ، خلیج فارس ہو یا بحیرہ عرب، بحیرہ روم ہو یا دریائے نیل تہذیب و تمدن کا گہوارا رہے ہیں۔ ہر تہذیب و تمدن کا علیحدہ تشخص ہے۔ پونیوں نے جب اپنی نوآبادیاں قائم کرنے کا ارادہ کیا تو انھوں نے بحیرہ روم کے علاقے کو پسند کیا اس کی وجہ اس کا جغرافیائی محل وقوع تھا اس لیے تاریخ کے اہم ماخذ میں جغرافیہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

تاریخ فطری طور پر فزکس اور کیمسٹری کی طرح سائنس کا درجہ نہیں رکھتی لیکن یہ معاشرتی و تمدنی سائنس ہے اس کی تجربہ گاہ زمانہ ماضی، حال اور مستقبل ہوتے ہیں۔ تاریخ میں دلیل کا استعمال اس کے سائنسی ہونے کی غمازی کرتا ہے۔ اس لیے سائنس کو تاریخ سے علیحدہ نہیں کیا جاسکتا۔مذہب بھی علم تاریخ کا ایک اہم ماخذ ہے بڑے بڑے واقعات جنم لینے کا ایک سبب مذہب بھی رہا ہے۔ تاریخ میں مذہب کی حیثیت تاریخ کے معاون علم کی رہی ہے۔ اس لیے تاریخ کے مطالعے میں مذہب کا مطالعے کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔

تاریخ نویسی میں علم نفسیات کو خاص اہمیت حاصل ہے ان کے تحت انسانوں کے انفرادی اور اجتماعی ذہن کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ مثلاً جب ہندوستان کے مسلمان مورخوں نے محسوس کیا کہ انگریزوں کے قبضے کے بعد ہندوستان کے مسلمان احساس کمتری کا شکار ہیں تو ان کا علاج علم نفسیات سے کرتے ہوئے ان کا شاندار ماضی انھیں یاد دلایا اس کے نتیجے میں ان میں بیداری کی ایک تحریک پیدا ہوئی جس نے آخر انھیں کامیابی سے ہم کنار کیا۔

تاریخ کے ماخذ (ذرایع) کو جاننے کے بعد اب ہم اس سوال کی جانب آتے ہیں کہ ''تاریخ کا مطالعہ کیوں ضروری ہے؟'' تاریخ میں کسی واقعات کے رونما ہونے میں سیاسی، معاشی، فکری اور روحانی اسباب پوشیدہ ہوتے ہیں ان کو ظاہری آنکھ سے نہیں دیکھا جاسکتا۔ تاریخ کا مقصد ان واقعات کا پتا لگانا ہے۔ ایک مورخ انتہائی سچائی، انصاف اور خالص طرف داری سے واقعات کو ڈھونڈتا ہے اس کے اسباب اور نتائج کا پتا لگاتا ہے اس کی روشنی میں وہ اصول وضع کرتا ہے کہ اس قسم کے واقعات پیش آئیں گے تو اس قسم کے نتائج آئیں گے۔

اس تاریخی شعور کی بدولت ہم بحرانوں کا تجزیہ کرنے اور مسائل کی اصل وجوہات کی تہہ تک پہنچنے اور اس کے حل کی صلاحیت حاصل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ تاریخ کا مطالعہ کیسے کریں۔ تاریخ ہم سے تحقیق میں غیر جانبداری اور سائنسی انداز فکر کا مطالبہ کرتی ہے۔ ہم تاریخ کے مطالعے کے وقت اس کے بالکل برعکس عمل کرتے ہیں۔ ہم تاریخ کو اپنے جذبات کی عینک سے دیکھتے ہیں۔

ہم وہی پڑھنا چاہتا ہے جس سے ہمارے جذبات کی تسکین ہو۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ہم تاریخ کو اپنی خواہشات کے مطابق موڑ دیتے ہیں جس کے نتیجے میں ہم بحرانوں کا درست تجزیہ کرنے سے قاصر رہتے ہیں نتیجے میں ہم تاریخی شعور سے محروم ہو جاتے ہیں۔ تاریخ کے مطالعے کے لیے ضروری ہے کہ تاریخ کا مطالعہ آزاد ذہن کے ساتھ کیا جائے۔

تاریخ ہر شعبہ زندگی کی ہوتی ہے لیکن ہم سیاسی تاریخ کو ہی تاریخ سمجھتے ہیں اس کا نتیجہ یہ ہے کہ تاج محل فن تعمیر کا ایک عظیم شاہکار ہے ہم اس کے نام سے واقف نہیں ہیں ہم اسے ایک مغل بادشاہ کے نام سے منسوب کردیتے ہیں جس نے اس کی تعمیر کا حکم دیا تھا۔ ہمیں اس پر غور ضرور کرنا چاہیے۔
Load Next Story