موت نے ہی زندگی کو زندہ رکھا ہوا ہے
تمام علم وقت کی فصیل پر ایک حد کے آگے تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود نہیں بڑھ پاتا ہے
زندگی کا سارا فلسفہ موت کے گرد گھومتا ہے وہ اس سارے سفر میں نہ تو تھکتی ہے اور نہ ہی رکتی ہے۔
اس سارے سفر کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے ہم اسے صرف ایک حد تک دیکھ اور سمجھ پاتے ہیں اس کے آگے چو نکہ مکمل اندھیرا ہے تو ہمیں مجبوراً اندازوں اور مفروضوں کے سہارے ڈھوندنا پڑتے ہیں۔
تمام علم وقت کی فصیل پر ایک حد کے آگے تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود نہیں بڑھ پاتا ہے۔ ہم آتے ہیں، چلے جاتے ہیں اس آنے اور جانے کے سارے فسانے میں نجانے کتنے پنے پھٹے پڑے ہیں ،صدیاں کی صدیاں مرچکی ہیں لیکن ان پنوں کی گتھیاں اب تک سلجھ نہیں پائی ہیں۔
ہمارا عقل و شعور کوشش کے باوجود ایک حد تک آگے جانے سے انکار کر دیتا ہے ۔ فلسفہ بیچارا لا چار لگتا ہے ،سائنس ایک اجڑی بیوہ کی طرح دکھائی دیتی ہے ، فکر و شعور خوف سے کانپتے دکھائی دیتے ہیں ۔ زندگی اسی موت کی وجہ سے زندہ ہے اگر موت مر جائے تو زندگی خود بخود مرجائے گی ۔ موت نے ہی زندگی کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔
عظیم پر تگا لی ناول نگار Jose Saramago کا نوبیل انعام ناول Death at intervalsایک انوکھا اور ہولنا ک موضوع اختیار کر تا ہے کسی ملک میں نئے سال کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے پہلے دن پورے ملک میں کوئی موت واقع نہیں ہوتی۔
قریب المر گ مریض بھی بھلے چنگے ہوجاتے ہیں۔ موت رخصت ہوجاتی ہے اور لوگ حیات جاوداں کی خوشی میں جشن مناتے ہیں،قومی پر چم لہراتے ہیں اور خوب موج میلہ کرتے ہیں جب ایک عرصے تک کوئی بھی شخص موت سے ہمکنا ر نہیں ہوتا تو کچھ مسائل جنم لینے لگتے ہیں مردے دفن کر نے والی کمپنیاں احتجاج کرنے لگتی ہیں کہ ہماری تو لٹیا ہی ڈوب گئی ہم کس کو دفن کریں۔
حکومت اعلان کرے کہ آیندہ اگر کوئی جانور یا پرندہ مرجائے تو اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیاجائے، پالتو چڑیوںاور طوطوں کے تابوت تیار کیے جائیں یعنی طوطے کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے تاکہ ہمارا کچھ تو کاروبار چلے۔ انشورنس کمپنیاں بیکار ہوجاتی ہیں کہ اگر کسی نے مرنا نہیں تو وہ انشورنس کیوں کروائے گا، لیکن سب سے زیادہ فکر مندی مذہبی لوگوں کی جانب سے ہوتی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر موت نہیں ہوگی تو ہم لوگوں کو عذاب سے کیسے ڈرائیں گے یوں تو عبادت خانے بند ہوجائیں گے لوگ چندہ نہیں دیں گے۔
اسی لیے تو کہتے ہیں کہ موت زندگی آگے بڑھانے کا نام ہے اگر موت کو موت آجائے گی تو زندگی رک جائے گی اور انسان یکسانیت سے اکتا کر موت کو پکاریں گے یعنی انسان لا شعور میں موت سے محبت کرتا ہے اور اسی کی وجہ سے زندہ رہتا ہے ۔ زندگی کا ہر لطف ، ہر کیف ہر لذت موت سے جڑی ہوتی ہے۔
اٹھارویں صدی کے نامور امریکی شاعرہ ایملی ڈکنسن کہتی ہے '' اپنے ہاتھ کی مٹھی میں خاموش مٹی تھامیں اور اپنے آپ سے سوال کر یں کہ یہ گذرے کل اور پچھلے سال کیا تھی کیا وہ کسی ہاتھی کی سونڈ ہے ؟ جراسک کا کوئی جانور ؟ مائیکل اینجلو کا آئی بال ؟ '' ہر مادی ذرہ مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے ۔ زندگی کا گہرا مشاہدہ کر نے والے سائنس دان ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم تمام کل کی خوراک ہیں۔ طبعی کائنات کی تمام چیزوں کو بالاخر اس خاموش مٹی میں تبدیل ہوجانا ہے۔
آج سکندر اعظم ، نپو لین ، فرعون ، قارون ، ہٹلر ، چنگیز خان ، مسو لینی ، شاہ ،ایران سمیت دنیا کے گزرے تمام عظیم الشان بادشاہ ، جاگیردار ، نواب ، بڑے بڑے رئیس ، حکمران سب مٹی بن چکے ہیں ۔ ہوسکتا ہے وہ مٹی آپ کے چہرے یا جوتوں میں لگی ہوئی ہو ۔ آپ کے برتنوں اور کپڑوں سے چمٹی ہوئی ہے ۔ وہ ماضی کی عظمت ، شان و شو کت ، رعب و جلال اور عیش و عشرت سب مٹی میں تبدیل ہوچکے ہیں خاک ہوچکے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی کی خوراک بن چکے ہیں۔
دنیا بھر کے فلسفیوں اور مفکروں نے جو کچھ مشاہدہ سر انجام دیا وہ یہ تھا کہ دنیا کے عظیم طاقتور اور با اختیار انسان دن رات سازشوں میں مصروف رہے اور اپنی غیر اخلاقی و غیر قانونی خواہشات کی تکمیل کی خاطر ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے رہے ۔ تخت و تاج کی خاطر باپوں، بھائیوں اور بیٹیوں کو مروا دیا گیا۔
ہزاروں انسانوں کو اذیتیں دے دے کر قتل کروایا گیا عورتوں اوربچوں تک کو نہ بخشا گیا کوئی ظلم اور ستم ایسا نہ تھا جو روانہ رکھا گیا ، لیکن وہ چیز یں جن کی خاطر یہ سب کچھ کیا وہ کس قدر نا پائیدار نکلیں ۔ جن کو حاصل کرنے کی خاطر انھوں نے تمام ظلم و ستم ڈھائے۔ ایک شخص آج بادشاہ یا وزیر اعظم ہوسکتا ہے لیکن کل اسے آپ در در بھیک مانگتے دیکھ سکتے ہیں ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایک شخص جو کل تک ایک سلطنت کا بادشاہ تھا کل ایک بھکاری تھا جو مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا ۔ برمی سائیڈزواضح رہے جو ایران کی ایک عظیم شرفا فیملی تھی اور 50 بر س تک (752تا 804) ان کو عباسی خاندان کے پہلے پانچ خلفاء کی حمایت حاصل رہی تھی ۔ ہارون الرشید نے حسد کی بنا پر ان کا قتل عام کروا دیا تھا اس فیملی کی ایک وسیع تر آبادی پر حکومت تھی اور تھوڑی دیر بعد آپ تمام تر فیملی کو موت کے گھاٹ اترتا دیکھتے ہیں۔
ابو الفضل جو کل تک ایک چہیتا درباری تھا آج اس کا سر قلم کیا جا چکا ہے اور اس کا کٹا ہوا سر دربار میں پیش کیا گیا ہے ۔ سکندر اعظم کے مزار پر جو لوح نصب ہے اس پر یہ تحریر درج ہے '' جس شخص کے لیے کبھی تمام دنیا کی سلطنت بھی کافی نہ تھی اب اس کے لیے یہ ایک قبر کا فی ہے ''ہو سکتا ہے کہ فریدون کی مٹی سے برتن بنائے گئے ہوں یا جمشید کی لاش اینٹیں بنانے میںاستعمال کی گئی ہو۔
شان و شوکت ، رعب و جلال ، تخت و تاج کے دلدادہ ، کرپشن و لوٹ مار کے شوقین ، سونے ، ہیرے اور چاندی کے بھکاریوں کو زندگی کی حقیقت اور اصل معنی جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک کام ضرور کرنا چاہیے کہ گذرے تمام بادشاہوں، نوابوں ،جاگیرداروں اورحکمرانوں کی باقیات کو اپنی آنکھوں سے جاکر دیکھنا چاہیے اور ان باقیات پر کچھ وقت خاموشی سے اکیلے بیٹھ کر ان با قیات میں سے نکلنے والی چیختی خاموشی کو غور سے سننا چاہیے۔ ان کی التجا ئیں ، ان کی بے بسی و بے کسی کو دل سے سننا چاہیے ۔ یقین کیجیے ان کا اجڑا پن اور ان کی بربادی دیکھ کر ان کا دل پھٹ جائے گا اور وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہونگے ۔
اس سارے سفر کی سب سے دلچسپ بات یہ ہے ہم اسے صرف ایک حد تک دیکھ اور سمجھ پاتے ہیں اس کے آگے چو نکہ مکمل اندھیرا ہے تو ہمیں مجبوراً اندازوں اور مفروضوں کے سہارے ڈھوندنا پڑتے ہیں۔
تمام علم وقت کی فصیل پر ایک حد کے آگے تمام تر کوششوں اور کاوشوں کے باوجود نہیں بڑھ پاتا ہے۔ ہم آتے ہیں، چلے جاتے ہیں اس آنے اور جانے کے سارے فسانے میں نجانے کتنے پنے پھٹے پڑے ہیں ،صدیاں کی صدیاں مرچکی ہیں لیکن ان پنوں کی گتھیاں اب تک سلجھ نہیں پائی ہیں۔
ہمارا عقل و شعور کوشش کے باوجود ایک حد تک آگے جانے سے انکار کر دیتا ہے ۔ فلسفہ بیچارا لا چار لگتا ہے ،سائنس ایک اجڑی بیوہ کی طرح دکھائی دیتی ہے ، فکر و شعور خوف سے کانپتے دکھائی دیتے ہیں ۔ زندگی اسی موت کی وجہ سے زندہ ہے اگر موت مر جائے تو زندگی خود بخود مرجائے گی ۔ موت نے ہی زندگی کو زندہ رکھا ہوا ہے ۔
عظیم پر تگا لی ناول نگار Jose Saramago کا نوبیل انعام ناول Death at intervalsایک انوکھا اور ہولنا ک موضوع اختیار کر تا ہے کسی ملک میں نئے سال کا آغاز ہوتا ہے اور اس کے پہلے دن پورے ملک میں کوئی موت واقع نہیں ہوتی۔
قریب المر گ مریض بھی بھلے چنگے ہوجاتے ہیں۔ موت رخصت ہوجاتی ہے اور لوگ حیات جاوداں کی خوشی میں جشن مناتے ہیں،قومی پر چم لہراتے ہیں اور خوب موج میلہ کرتے ہیں جب ایک عرصے تک کوئی بھی شخص موت سے ہمکنا ر نہیں ہوتا تو کچھ مسائل جنم لینے لگتے ہیں مردے دفن کر نے والی کمپنیاں احتجاج کرنے لگتی ہیں کہ ہماری تو لٹیا ہی ڈوب گئی ہم کس کو دفن کریں۔
حکومت اعلان کرے کہ آیندہ اگر کوئی جانور یا پرندہ مرجائے تو اسے پورے اعزاز کے ساتھ دفن کیاجائے، پالتو چڑیوںاور طوطوں کے تابوت تیار کیے جائیں یعنی طوطے کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے تاکہ ہمارا کچھ تو کاروبار چلے۔ انشورنس کمپنیاں بیکار ہوجاتی ہیں کہ اگر کسی نے مرنا نہیں تو وہ انشورنس کیوں کروائے گا، لیکن سب سے زیادہ فکر مندی مذہبی لوگوں کی جانب سے ہوتی ہے ۔وہ کہتے ہیں کہ اگر موت نہیں ہوگی تو ہم لوگوں کو عذاب سے کیسے ڈرائیں گے یوں تو عبادت خانے بند ہوجائیں گے لوگ چندہ نہیں دیں گے۔
اسی لیے تو کہتے ہیں کہ موت زندگی آگے بڑھانے کا نام ہے اگر موت کو موت آجائے گی تو زندگی رک جائے گی اور انسان یکسانیت سے اکتا کر موت کو پکاریں گے یعنی انسان لا شعور میں موت سے محبت کرتا ہے اور اسی کی وجہ سے زندہ رہتا ہے ۔ زندگی کا ہر لطف ، ہر کیف ہر لذت موت سے جڑی ہوتی ہے۔
اٹھارویں صدی کے نامور امریکی شاعرہ ایملی ڈکنسن کہتی ہے '' اپنے ہاتھ کی مٹھی میں خاموش مٹی تھامیں اور اپنے آپ سے سوال کر یں کہ یہ گذرے کل اور پچھلے سال کیا تھی کیا وہ کسی ہاتھی کی سونڈ ہے ؟ جراسک کا کوئی جانور ؟ مائیکل اینجلو کا آئی بال ؟ '' ہر مادی ذرہ مسلسل تبدیلی کی حالت میں ہے ۔ زندگی کا گہرا مشاہدہ کر نے والے سائنس دان ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم تمام کل کی خوراک ہیں۔ طبعی کائنات کی تمام چیزوں کو بالاخر اس خاموش مٹی میں تبدیل ہوجانا ہے۔
آج سکندر اعظم ، نپو لین ، فرعون ، قارون ، ہٹلر ، چنگیز خان ، مسو لینی ، شاہ ،ایران سمیت دنیا کے گزرے تمام عظیم الشان بادشاہ ، جاگیردار ، نواب ، بڑے بڑے رئیس ، حکمران سب مٹی بن چکے ہیں ۔ ہوسکتا ہے وہ مٹی آپ کے چہرے یا جوتوں میں لگی ہوئی ہو ۔ آپ کے برتنوں اور کپڑوں سے چمٹی ہوئی ہے ۔ وہ ماضی کی عظمت ، شان و شو کت ، رعب و جلال اور عیش و عشرت سب مٹی میں تبدیل ہوچکے ہیں خاک ہوچکے ہیں وہ سب کے سب کسی نہ کسی کی خوراک بن چکے ہیں۔
دنیا بھر کے فلسفیوں اور مفکروں نے جو کچھ مشاہدہ سر انجام دیا وہ یہ تھا کہ دنیا کے عظیم طاقتور اور با اختیار انسان دن رات سازشوں میں مصروف رہے اور اپنی غیر اخلاقی و غیر قانونی خواہشات کی تکمیل کی خاطر ہر جائز و ناجائز حربے استعمال کرتے رہے ۔ تخت و تاج کی خاطر باپوں، بھائیوں اور بیٹیوں کو مروا دیا گیا۔
ہزاروں انسانوں کو اذیتیں دے دے کر قتل کروایا گیا عورتوں اوربچوں تک کو نہ بخشا گیا کوئی ظلم اور ستم ایسا نہ تھا جو روانہ رکھا گیا ، لیکن وہ چیز یں جن کی خاطر یہ سب کچھ کیا وہ کس قدر نا پائیدار نکلیں ۔ جن کو حاصل کرنے کی خاطر انھوں نے تمام ظلم و ستم ڈھائے۔ ایک شخص آج بادشاہ یا وزیر اعظم ہوسکتا ہے لیکن کل اسے آپ در در بھیک مانگتے دیکھ سکتے ہیں ۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ایک شخص جو کل تک ایک سلطنت کا بادشاہ تھا کل ایک بھکاری تھا جو مسجد کے دروازے پر کھڑا تھا ۔ برمی سائیڈزواضح رہے جو ایران کی ایک عظیم شرفا فیملی تھی اور 50 بر س تک (752تا 804) ان کو عباسی خاندان کے پہلے پانچ خلفاء کی حمایت حاصل رہی تھی ۔ ہارون الرشید نے حسد کی بنا پر ان کا قتل عام کروا دیا تھا اس فیملی کی ایک وسیع تر آبادی پر حکومت تھی اور تھوڑی دیر بعد آپ تمام تر فیملی کو موت کے گھاٹ اترتا دیکھتے ہیں۔
ابو الفضل جو کل تک ایک چہیتا درباری تھا آج اس کا سر قلم کیا جا چکا ہے اور اس کا کٹا ہوا سر دربار میں پیش کیا گیا ہے ۔ سکندر اعظم کے مزار پر جو لوح نصب ہے اس پر یہ تحریر درج ہے '' جس شخص کے لیے کبھی تمام دنیا کی سلطنت بھی کافی نہ تھی اب اس کے لیے یہ ایک قبر کا فی ہے ''ہو سکتا ہے کہ فریدون کی مٹی سے برتن بنائے گئے ہوں یا جمشید کی لاش اینٹیں بنانے میںاستعمال کی گئی ہو۔
شان و شوکت ، رعب و جلال ، تخت و تاج کے دلدادہ ، کرپشن و لوٹ مار کے شوقین ، سونے ، ہیرے اور چاندی کے بھکاریوں کو زندگی کی حقیقت اور اصل معنی جاننے اور سمجھنے کے لیے ایک کام ضرور کرنا چاہیے کہ گذرے تمام بادشاہوں، نوابوں ،جاگیرداروں اورحکمرانوں کی باقیات کو اپنی آنکھوں سے جاکر دیکھنا چاہیے اور ان باقیات پر کچھ وقت خاموشی سے اکیلے بیٹھ کر ان با قیات میں سے نکلنے والی چیختی خاموشی کو غور سے سننا چاہیے۔ ان کی التجا ئیں ، ان کی بے بسی و بے کسی کو دل سے سننا چاہیے ۔ یقین کیجیے ان کا اجڑا پن اور ان کی بربادی دیکھ کر ان کا دل پھٹ جائے گا اور وہ وہاں سے بھاگ کھڑے ہونگے ۔