کھانسی کا شربت

ایک ذمے دار فارمسسٹ خوب جانتا ہے کہ یہ غلطی کس نوعیت کی ہے اور اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے

سردیوں کے موسم کی آمد ہے، ہواؤں کے بدلتے رخ سے نزلہ، کھانسی، زکام اور بخار جیسی بیماریاں پھیلنا عام ہے، چھوٹی عمر کے بچے اور بزرگ افراد حساسیت کے باعث ان بیماریوں میں جلد ہی مبتلا ہو جاتے ہیں ایسے میں ادویات اور خاص کر کھانسی کے شربتوں کی مانگ بڑھ جاتی ہے۔

حالات اس وقت مزید گمبھیر ہو جاتے ہیں جب دوائیں بیماریوں کے اثر کو زائل کرنے کے بجائے مزید بیماریوں کا باعث بنیں اور اس قدر شدید کہ انسان اپنی جان سے ہی ہاتھ دھو بیٹھے۔

اس طرح کی اذیت ناک صورت حال گیمبیا میں اس وقت پیدا ہوئی جب کھانسی کے شربت پلانے سے چھوٹے بچے اذیت میں مبتلا ہوگئے۔ ان کے منہ اور ناک سے خون آنا شروع ہوگیا، گردے فیل ہوگئے اور اسی تکلیف میں ساٹھ سے زائد بچوں کی اموات ہوگئیں۔ افریقی ملک گیمبیا میں درآمد کیا جانے والا کھانسی کا یہ شربت بھارت کی ایک دوائیاں بنانے والی فیکٹری جو دہلی میں قائم ہے میں تیار کیا گیا تھا۔

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے پہلے ہی چار کھانسی کے شربت کے بارے میں انتباہ دیا تھا کہ یہ کھانسی سے متعلق شربت انسانی جان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں ان سے بچوں کے گردوں کی شدید خرابی اور اموات بھی ہو سکتی ہیں لیکن اس کے باوجود یہ شربت ضایع نہیں کیے گئے اور گیمبیا کو سپلائی کیے گئے۔

افریقی ممالک کے صحت اور معاشی مسائل میں یقینا اپنے منافع کا شرح جس حساب سے رکھا گیا ہوگا اس میں صفر پرسنٹ سے کہیں اوپر لاگت تو وصول ہو ہی گئی ہوگی جس کے بدلے 70 کے قریب بچے اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔یہ ادویات تو وہ ہیں کہ جو استعمال کی گئیں اور جان لیوا ثابت ہوئیں اس کے علاوہ بھی یہ زہریلے کھانسی کے شربت نہ جانے کتنی دکانوں پر اپنے مجبور گاہکوں کے انتظار میں ہوں گے۔

ریڈ کراس کے مطابق انھوں نے اس کی چھان بین کے لیے بہت سی دکانوں کو دیکھا اور اندازاً 16 ہزار کے قریب یہ ادویات گھروں، فارمیسیز اور دکانوں سے تلاش کی گئی ہیں۔ گیمبیا کے صدر بیرو معصوم بچوں کی اس المناک اموات پر بہت رنجیدہ تھے اس سلسلے میں انھوں نے سخت بیان بھی دیے ہیں اور مذکورہ کمپنی کے لائسنس بھی منسوخ کرنے کا کہا ہے۔

ادھر بھارت میں بھی تحقیقات جاری ہیں اور کمپنی کو سیل کر دیا گیا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ڈبلیو ایچ او جوکہ ایک مستند عالمی ادارہ ہے کیا اس کے الرٹ پر مذکورہ کمپنی اور بھارتی برآمدی ادارے کسی طرح کے قوانین کو فالو کرتے ہیں؟ کیا انسانی جانیں تجرباتی چوہوں کی مانند اس قدر سستی تھیں کہ انھیں اپنی لاگت گل نہ ہو جانے کے خوف سے ایکسپورٹ کر دیا گیا یہ سوچے سمجھے بغیر کہ اس کے نتائج کیا ہو سکتے ہیں۔


انڈین کمپنی میڈن فارماسیوٹیکلز اپنی کھانسی کی ان ادویات کے استعمال کے خطرناک نتائج کا دفاع کیسے کرے گی؟ کیا ان معصوم بچوں کو واپس ان کی ہنستی مسکراتی زندگیوں میں لایا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب ہے، ہرگز نہیں۔کمپنی والوں کا ایک اور بیان خاصا توجہ طلب ہے جس میں پہلے تو انھوں نے اپنی حیرت اور دکھی جذبات ظاہر کیے اس کے بعد یہ کہنا کہ وہ انڈیا کی صحت کی پروٹوکولز کی پیروی کرتے ہیں اور تحقیقات میں تعاون کر رہے ہیں۔

آخر وہ کون سے صحت کے پروٹوکولز ہیں جن کے تحت زہریلی کھانسی کی ادویات پر ''اوکے'' کا لیبل لگا کر لوڈ کر دیا گیا تھا؟ کیا اس حوالے سے کوئی کارروائی کی جا رہی ہے جس میں کرپشن کا عنصر صاف نظر آ رہا ہے۔واضح رہے کہ گیمبیا میں پہلے بھی ادویات کے مضر اثرات سے اموات ہوتی رہی ہیں یہ کیس نیا نہیں ہے گویا افریقی غریب، معاشی مسائل سے دوچار ممالک میں سب کچھ غلط بھی ''اوکے'' ہے اور چل سکتا ہے کیا وہاں انسان سانس نہیں لیتے یا انھیں بھی زندگی گزارنے کا حق نہیں ہے اور کیا وہ زہریلی ادویات مفت سپلائی کی گئی تھیں؟

2012 دسمبر میں پاکستان کے گجرانوالہ میں بھی کچھ اسی قسم کا معاملہ ابھرا تھا جب لوگوں نے کھانسی کا شربت استعمال کیا اور ان کو مختلف بیماریوں نے اس طرح گھیرا کہ جس نے ان کی جان لے لی۔ ان بیماریوں میں خاص کر دل اور گردے کے متاثرین زیادہ تھے۔ اس طرح کے اور بھی کیسز پاکستان میں وقتاً فوقتاً پیش آتے رہے ہیں اور دوائیاں بین ہوتی رہی ہیں۔

کھانسی ایک انتہائی تکلیف دہ بیماری اس وقت بن جاتی ہے جب اس کا دورہ سا پڑنے لگتا ہے، یہ انتہائی قسم کا دورہ جو اندرون جسم میں ایک شدید جھٹکے کی صورت پیدا کر دیتا ہے اور انسان کو اپنا سانس بے ترتیب محسوس ہونے لگتا ہے، دل کی دھڑکن بھی بڑھ جاتی ہے، چہرے کی رنگت بھی بدل جاتی ہے ایسے میں نہ صرف مریض بلکہ ارد گرد کے لوگوں کو بھی شدید پریشانی لاحق ہو جاتی ہے۔

اس طرح کی شدید کھانسی میں کھانسی کے وہ اونچے درجے کے شربت تجویز کیے جاتے ہیں جو کیمیائی طور پر اس حد تک طاقت ور ہوتے ہیں جس سے مریض کو فوری طور پر فائدہ محسوس ہوتا ہے اور اسے غنودگی کی سی کیفیت چھانے لگتی ہے۔ اس کیفیت کی خاطر یا کھانسی سے نجات کی وجہ سے مریض اس کھانسی کے شربت کو بار بار استعمال کرتا ہے۔ دراصل اس کی وجہ ان اجزا کا شامل ہونا ہے جو مریض کو پرسکون رکھتے ہیں۔

دراصل کھانسی کے بہت سے شربت ایسے ہیں جن کی تیاری میں وہ اجزا بھی شامل کیے جاتے ہیں جنھیں ان کی خالص شکل میں منشیات کہا جاتا ہے اب اس کی تشریح میں اگر جائیں تو اسے مختلف ناموں سے پکارا جا سکتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ الکحل کا بھی استعمال ایک خاص تناسب سے کیا جاتا ہے اسی لیے بہت سے وہ مریض جو دل کے عارضے میں مبتلا ہوں انھیں بہت سے کھانسی کے شربتوں کے استعمال سے احتیاط برتنے کو کہا جاتا ہے کیونکہ سادہ زبان میں دل کے مریضوں کے لیے شراب جیسے الکحل سے بنایا جاتا ہے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

کھانسی کے شربت بنانے کا مقصد انسان کو پرسکون اور بلغم کے اخراج کو کنٹرول کرنے سے متعلق ہوتا ہے اس کے لیے جن اجزا کا استعمال کیا جاتا ہے اس کو اگر غلط تناسب سے غلط درجہ حرارت یا تاریخ استعمال سے خارج ہوئی ادویات کو شامل کیا جائے تو وہ انسانی جسم کو پرسکون نہیں بلکہ ایک زہریلا بگاڑ پیدا کر دیتی ہیں۔ دوائیوں کی کمپنیاں، فیکٹریاں اور کارخانے انسان ہی چلاتے ہیں انسان کی معمولی سی غلطی کسی بھی بڑے نقصان کا سبب بنتی ہے۔

ایک ذمے دار فارمسسٹ خوب جانتا ہے کہ یہ غلطی کس نوعیت کی ہے اور اس سے کیا نقصان پہنچ سکتا ہے لیکن اپنے مالکان کو ناراض نہ کر دینے اور بڑی لاگت کو کھو دینے یا اپنے تجربے کی ناکامی کو چھپانے کے لیے ایسی ادویات بھی سپلائی کر دیتے ہیں جو انسانی جان کے لیے ہلاکت کا باعث بنتی ہیں۔ اب چاہے وہ گیمبیا ہو یا پاکستان یا کوئی اور ملک، انسانی لغزش ہی انسانی جان لینے کا باعث بنتی ہے، لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ عالمی ادارے ڈبلیو ایچ او کے الرٹ کے باوجود انڈین فارماسیوٹیکل کمپنی کی یہ غلطی عظیم ہے۔
Load Next Story