ایک اور نااہلی
کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے سب کا خیال تھا کہ خان صاحب نااہلی سے بچ نہیں پائیں گے
توشہ خانہ کیس میں الیکشن کمیشن نے سابق وزیراعظم عمران خان کو موجودہ پارلیمنٹ کے لیے نااہل قرار دے دیا ہے ، یہ فیصلہ کوئی انہونا اور غیر متوقع بھی نہیں تھا۔
کیس کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے سب کا خیال تھا کہ خان صاحب نااہلی سے بچ نہیں پائیں گے ، لیکن یہ نااہلی کتنے عرصہ کے لیے ہوگی یہ کسی کو پتا نہیں تھا۔ توقع یہی کی جا رہی تھی کہ اگر تاحیات نا ہوئی تو کم از کم پانچ سال کے لیے تو ضرور ہوگی۔ الیکشن کمیشن جس کے خلاف خان صاحب گزشتہ ایک سال سے بڑے مخالفانہ سیاسی بیانات دیتے رہے ہیں اس کے چیف کا انتخاب بھی جناب نے خود اپنی صوابدید کے مطابق کیا تھا۔
منتخب کرتے ہوئے اُن کے دانست میں وہ سب سے موزوں شخص تھے ، اس بڑے اور اہم عہدے کے لیے۔ انتخاب کرتے ہوئے اور اس کے بعد بھی ایک سال تک وہ اُن کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے بھی ملاتے رہے اور انھیں بہت اعلیٰ صفات کا حامل قرار دیتے رہے ، مگر جیسے جیسے حالات بدلتے رہے انھیں الیکشن کمیشن سے ڈر لگنے لگا۔ خاص کر 2014سے چلنے والے ممنوعہ فنڈنگ کیس کی تحقیقات کے معاملے میں انھیں پہلے والے الیکشن کمشنر سے بھی شکایت اور ناراضی تھی اور پھر اس نئے کمشنر سے بھی دشمنی شروع ہوگئی۔
ممنوعہ فنڈنگ کا کیس ، وہ کیس تھا جس میں وہ ٹال مٹول کرکے اپنے آپ کو آٹھ سال تک بچاتے رہے۔ شروع شروع میں سارا سیاسی منظر نامہ اُن کے حق میں تشکیل دیا گیا تھا اس لیے وہ بے فکر تھے اور یہ کیس بڑی سست رفتاری سے آگے بڑھتا گیا۔ اس پورے عرصے میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ اس کیس کو پاناما کیس کی مانند زبردستی صرف ایک شخصیت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی ہو یا پھر یہ کیس کسی لمحہ پر جھوٹا کیس محسوس ہونے لگا ہو۔ خان صاحب 2011 سے 2022 بڑے آرام سے اپنی حق میں بنائی گئی پچ پر چوکے اور چھکے لگاتے رہے۔
مخالف ٹیم کے سربراہ یا کپتان کو میدان سے باہر نکال کر وہ ہر میچ بڑی آسانی سے جیتتے رہے۔ انھیں معلوم نہ تھا کہ حالات کبھی اس طرح بھی بدل جائیں گے کہ وہ ووٹ آف نو کانفیڈنس کے ذریعے منٹوں میں فارغ بھی کر دیے جاسکیں گے ، وہ تو اپنے ذہن میں اگلے دس سالوں کا پروگرام بنا رہے تھے، آئین و دستور میں من مانی تبدیلیاں کر کے صدارتی نظام نافذ کرنے کا سوچ رہے تھے، مگر اسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ انسان چاہے کتنی ہی پلاننگ کر لے لیکن اوپر والے کی پلاننگ کیا ہوتی ہے ،کسی کو پتا نہیں ہوتا ہے۔
11اپریل 2022 سے محروم اقتدار ہونے کے بعد وہ گزشتہ چھ ماہ سے سڑکوں پر ہیں۔ ہر ماہ وہ انتہائی اضطراب اور بے چینی سے گذار رہے ہیں ، وہ عوام کی زبردست حمایت کے باوجود ابھی تک نئے الیکشن کی تاریخ بھی دلوا نہیں سکے ہیں۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آرہا کہ کس طرح حالات پہلے کی طرح اُن کے حق میں موافق ہوجائیں جہاں عدالتیں، الیکشن کمیشن اور اسٹیبلشمنٹ سمیت سارے ادارے اُن کے لیے آسانیاں پیدا کرتے رہیں اور وہ مزے سے اپنی اپوزیشن کو پچھاڑتے رہیں۔
25 مئی 2022 کو ایک لانگ مارچ کرکے انھوں نے دیکھ لیا کہ جب تک پس پردہ قوتوں کا ساتھ نہ ہو تو کوئی بھی لانگ مارچ یا دھرنا کامیاب نہیں ہوسکتا۔ یہ بات وہ اچھی طرح جان چکے ہیں یہی وجہ ہے کہ لانگ مارچ کی دوسری کال دیتے ہوئے وہ بہت ہچکچا رہے ہیں کہ کہیں یہ مارچ بھی نا کام ہوگیا تو جو بھرم ابھی تک عوام میں قائم ہے وہ ٹوٹ جائے گا۔ ساتھ ہی ساتھ انھیں اپنے خلاف مختلف کیسوں سے بھی ڈر لگ رہا ہے جن کے فیصلے کسی وقت بھی آسکتے ہیں۔
جو حالات کل میاں صاحب کے لیے بنائے گئے تھے آج وہی حالات خود بخود خان صاحب کے لیے بھی قدرت نے ترتیب دے دیے ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے نااہلی کا فیصلہ اگر دیکھا جائے تو وہ کوئی اتنا نقصان دہ بھی نہیں ہے۔ صرف ایک دور کے لیے پارلیمنٹ سے نااہل ہوجانا کوئی اتنا سخت فیصلہ نہیں ہے جیسے میاں صاحب کی تاحیات نااہلی کا تھا۔ میاں صاحب کو تو اپیل کے حق سے بھی محروم کر دیا گیا تھا اور اُن پر لگائے گئے الزام کی نوعیت بھی غیر مناسب اور غیر منطقی تھی۔
عدالتیں اگر میاں صاحب کی نااہلی ختم کرنا چاہتی ہیں تو اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے۔ ویسے بھی یہ تاحیات نااہلی ماورائے آئین ہی تصور کی جاتی ہے۔ ملکی دستور میں کہیں بھی تاحیات نااہلی کی سزا تجویز نہیں کی گئی ہے ، یہ ہمارے ملک میں پہلی بار ہوا ہے۔ ایک چھوٹے سے الزام میں اتنی بڑی سزا عدل و انصاف کے کسی پیرائے یا پیمانے پر نہیں اترتی ہے۔
ہوسکتا ہے خان صاحب کی نااہلی بھی جہانگیر ترین کی نا اہلی کی طرح اسی مقصد سے لگائی گئی ہو جسے میاں صاحب کی نااہلی کے جواب میں توازن کے طور پر سمجھا گیا تھا۔ آج اگر اِن تینوں افراد کی نااہلی کو ختم کرنے کا سوچا جا رہا ہے تو اسے ایک اچھا فیصلہ سمجھ کر ویلکم کرنا چاہیے۔ سیاست میں اس طرح کسی کو ناک آؤٹ کرنا کبھی درست فیصلہ نہیںہوتا۔ بھٹوکو آج زندہ نہ ہونے کے باوجود بھی عوام کے دلوں سے نکالا نہیں جاسکا تو پھر یہ زندہ شخصیات کس طرح اپنے چاہنے والوں کے دلوں سے نکالی جاسکتی ہیں۔
میاں صاحب کے چاہنے والے آج بھی انھیں اپنا لیڈر اور رہبر مانتے ہیں ، وہ آج اگر واپس آجائیں تو اُن کے استقبال کو آنے والے عوامی سیلاب کو دیکھ کر وہ ساری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گے جو یہ سمجھتی رہی ہیں کہ میاں صاحب کا دور ختم ہوچکا ہے۔ میاں صاحب کارکردگی کے مقابلے میں خان صاحب کو ہر میدان میں مات دے سکتے ہیں ، وہ اگر لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں تو صرف اور صرف اپنی اعلیٰ کارکردگی کی وجہ سے۔
ہمیں 1991 کاوہ دور بھی اچھی طرح یاد ہے جب ہمارا روپیہ بھارتی روپیہ سے بھی زیادہ مستحکم تھا۔ موٹر وے بنانے اور بے روزگار افراد کو پیلی ٹیکسیاں دینے کا منصوبہ بھی میاں صاحب کے اسی مختصر دور حکومت کا کارنامہ تھا۔
دوسرے دور حکومت میں انھوں نے ملک کو ایٹمی طاقت کا درجہ دلوایا، جب کہ اپنے تیسرے دور حکومت میں انھوں نے ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ بالخیر کیا، کراچی کا امن بحال کیا ، بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نجات دلوائی اور سی پیک جیسا عظیم منصوبہ بھی شروع کیا۔ یہ وہ فرق ہے جو خان صاحب سے انھیں ہمیشہ ممتاز و متفرق کرتا رہے گا۔